’’رحمن کے مہمان‘‘ رودادِ حج
اشاعت کی تاریخ: 15th, June 2025 GMT
ہجرت کے نویں سال حج فرض ہوا، حضرت محمد ﷺ نے سنہ 10 ہجری میں واحد حج کیا جسے حجۃالوداع کہا جاتا ہے۔ مسلمان ہر سال ذوالحجہ کے مہینے میں 8 سے 12 تاریخ کو مکہ مکرمہ کی زیارت کے لیے حاضری دیتے ہیں، اس عبادت کو مناسک حج کہتے ہیں۔
ماشا اللہ ان دنوں بھی مکہ مکرمہ میں حجاج کرام کی صدائیں گونج رہی ہیں۔ الھم لبیک لا شریک لک لبیک ’’حاضر ہوں، اے اللہ! میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، تیرے ہی لیے تعریفیں، نعمتیں اور بادشاہت تیری ہے، تیرا کوئی شریک نہیں، حاضر ہوں میرے اللہ! میں حاضر ہوں۔‘‘
یہ اعتراف بندگی اللہ کی دی ہوئی نعمتوں اور اس کی وحدانیت کا اعتراف ہر سال نہایت ذوق و شوق کے ساتھ، فرض کی ادائیگی اور اللہ کی خوشنودی کے لیے کیا جاتا ہے۔یہ ذوالحجہ کی 7 تاریخ تھی اور ایسے موقع پر ’’رحمن کے مہمان‘‘ میری ان نگاہوں کے حصار میں ہے جو اب مقدس و معطر ہو چکی ہیں۔ ’’رحمن کے مہمان‘‘ سفرِ حج کی روداد پر مبنی کتاب ہے۔
پہلا باب ’’عرضِ حاجی‘‘ کے عنوان سے ہے ، مصنف کی یہ تحریر ان کی اپنے رب اور اس کے نبی ﷺ سے عقیدت و محبت سے آراستہ ہے۔ انھوں نے بے حد موثر انداز میں مبارک سفر کی روداد اور مختلف ادوار کا تذکرہ کیا ہے۔مصنف نے اپنے تجربات اور احساسات کو ایمان کی تازگی اور لذتِ ایمان و قلب و جگر کے ساتھ قلم بند کیا ہے، انھوں نے آگہی کی روشنی میں ہر لفظ ندرت کے ساتھ لکھا ہے۔
مصنف کو وہ متبرک گلی کوچے یاد آتے ہیں جہاں سرور کونین، خاتم النبین گزرتے تھے، خلفائے راشدین کا دور بھی نگاہوں کا مرکز بن جاتا ہے، وہ اس پرکیف اور ایمان افروز ساعتوں میں اپنے قارئین اور دوست احباب کو یاد رکھتے ہیں۔ اس قدر دل گداز انداز تحریر کو پڑھ کر میری آنکھیں بھی کئی بار نم ہوئیں، جب ان مبارک راستوں کا ذکر ہوتا ہے جہاں آقا کریم ﷺ کے قدم مبارک پڑتے تھے، وہیں مکہ کے کفار آپ ﷺ کے مبارک جسم پر ظلم ڈھاتے تھے لیکن آپ ﷺ صبر و شکر کرتے۔
352 صفحات پر مشتمل کتاب15 ابواب کا احاطہ کرتی ہے۔ مع تصاویر کے بڑی اہم اور مقدس تصاویر سے مزین ہے۔ کتاب کے قاری کو بہت سی معلومات حاصل ہوتی ہیں اور وہ ہر سطر سے استفادہ کرتا ہے۔’’حجاج کی سرزمین‘‘ اس باب میں اہم اور تاریخی شخصیات کے سفرِ حج کی داستان بے حد نفاست اور محبت کے رنگوں سے رنگی ہوئی ہے کہ یہ ان ماہ وسال کا حسن ہے جب تاریخ رقم ہورہی تھی۔
ہشام بن عبدالملک کا سفرِ حج 725ء۔۱، نواب مصطفی علی شیفتہ کا سفرِ حج۔۱۔ ابتدا اس طرح کرتے ہیں ’’نواب مصطفی خان شیفتہ یاد آ رہے ہیں وہی حضرت غالب والے، یہ 1839ء ہے 1255 ھ ان کے سفر کی مدت دو سال اور چھ دن رہی ہے، پچھلے وقتوں میں سفر حج کے لیے کس قدر صعوبتیں برداشت کرنی پڑتی تھیں، طویل سفر وہ بھی پیدل اونٹوں اور دوسرے جانوروں پر سوار ہو کر، ریل کی ایجاد اور پھر بحری جہازوں پر سفر اور اب دنوں اور مہینوں کا سفر گھنٹوں میں تبدیل ہو گیا ہے، ایمان کی حرارت ہو اللہ کے دربار میں حاضری اور عشق رسول ﷺ تو پھر ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے اور کٹھن مرحلے چٹکیوں میں کامیابی سے ہم کنار ہو جاتے ہیں۔
بے شک حرم کی حدود میں داخل ہوتے ہی یہ مبارک جگہ دلوں کے نفاق کو پاک کر دیتی ہے۔ مصنف نے اس بات کا اظہار اس طرح کیا ہے۔ ’’ٹھنڈی ہوائیں ہمیں اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں، ہر رنگ، ہر نسل کے بہن بھائی نظر آ رہے ہیں، کوئی قرآن پاک کی تلاوت میں مصروف تو کچھ نفل پڑھ رہے ہیں، کچھ سستا رہے ہیں۔ اسی دوران مصنف کے اندر کا شاعر جاگ جاتا ہے۔ یہ کلام حدود حرم میں پہلی بار داخل ہونے پر اللہ کی مہربانی سے ذہن کے نہاں خانے میں روشن ہوا۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
بلوچستان میں شہریوں کو مارنے والوں کا حل آپریشن کے سوا کچھ نہیں: رانا ثناء اللہ
مسلم لیگ ( ن ) کے رہنما اور وزیر اعظم شہباز شریف کے مشیر رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ جو لوگ بلوچستان میں شہریوں کو مارتے ہیں ان کا حل آپریشن کے سوا کچھ نہیں ہے۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے ن لیگی رہنما رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ ہم بانی پی ٹی آئی کے ساتھ بیٹھنے کیلئے تیار ہیں اور انکے بیٹے اپنے والد سے ملنے کیلئے پاکستان آئیں گے تو یہ ان کا حق ہے۔
چینی کی قلت سے متعلق بات کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ چینی کی مصنوعی قلت پیدا کر کے دیہاڑی لگائی گئی ہے اور اس میں مڈل مین کا مرکزی کردار ہے۔
رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ میرا نہیں خیال کہ چینی کے معاملے میں کوئی انفرادی طور پر ملوث ہے۔
انہوں نے کہا کہ چینی کی 200 روپے قیمت مڈل مین کی وجہ سے ہے اور انہوں نے مصنوعی قلت پیدا کی ہے جبکہ وزیر اعظم شہباز شریف نے اس معاملے پر کسی کو رعایت نہیں دی۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان مالک بلوچ سینئر سیاستدان ہیں اور ہمارے ان سے اچھے تعلقات ہیں، وہ پہلے چاہتے تھے جو لوگ پہاڑوں پر گئے ہیں ان کو معافی دی جائے لیکن انہیں معافی دے کر دیکھ لی ہے اور کچھ نہیں ہوا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جو لوگوں کو بسوں سے اُتار کر گولیاں مارتے ہیں وہ نہیں چاہتے کہ بلوچستان میں ترقی ہو اور جو لوگ بلوچستان میں شہریوں کو مارتے ہیں ان کا حل آپریشن کے سوا کچھ نہیں ۔