برق گرتی ہے بجٹ کی بیچارے غریبوں پر
اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان میں کے الیکٹرک سمیت صارفین تک بجلی سپلائی کرنے والے جتنے ادارے ہیں وہ سب عوام کے اوپر آئے دن بجلی گراتے رہتے ہیں لوڈشیڈنگ کے علاوہ بجلی کی فی یونٹ شرح بڑھتی رہتی ہے، بجلی کی اصل قیمت کے علاوہ دسیوں قسم کے ٹیکس اس میں پہلے ہی شامل ہیں اب سننے میں آرہا ہے کہ اس بجٹ میں تیرہ سو ارب روپے کے گردشی قرضے ان سرمایہ داروں اور اشرافیہ کو ادا کیے جائیں گے جن کے گھروں میں فاقے پڑرہے ہیں جبکہ یہ وہ رقم ہے جو یہ ظالم ساہوکار ایک یونٹ بجلی پیدا کیے بغیر حکومت سے وصول کریں گے اور یہ کون لوگ ہیں یہ برسر اقتدار سیاسی جماعتوں سے وابستہ لوگ ہی ہیں جن کو حکومت نجی بینکوں سے قرض لے کر ان فاقہ زدہ سرمایہ داروں کو ادا کرے گی اور بینک کی یہ رقم سود سمیت پاکستان کے عوام سے ان کے بجلی کے بلوں میں (3.
تنخواہ دار طبقہ تو اور ظلم کی چکی میں پس کر رہ گیا دس فی صد اضافہ کیا گیا جبکہ بیس فی صد مہنگائی پہلے ہی بڑھ چکی ہے اور اب سے دو ماہ بعد اگست کے مہینے میں جب یہ اضافی رقم سرکاری ملازمین کے ہاتھ میں آئے گی تو مہنگائی اور بڑھ چکی ہوگی۔ انکم ٹیکس میں جو ریلیف دیا گیا ہے وہ ریلیف کے نام پر دھوکا ہے آج کی دنیا میں سفارتی زبان کچھ اور ہوتی ہے، سیاسی زبان یا بیانیہ کچھ اور ہوتا ہے اور حکومت کے وزیر خزانہ کی معاشی زبان کچھ اور ہوتی ہے۔ بجٹ کے حوالے سے ہم اور بات کریں گے لیکن بجلی کے سلسلے کی ایک بات اور مسلم لیگ کے رہنما خواجہ سعد رفیق کا بجلی کے حوالے سے ایک بیان نظر سے گزرا وہ کہہ رہے تھے 201 یونٹ استعمال کرنے والوں کا بل محض ایک یونٹ کے اضافے سے چار گنا زیادہ بڑھ جاتا ہے یہ صارفین پر بہت بڑا ظلم ہے۔ چلیے دیر آئد درست آید کے مصداق پندرہ بیس برس سے وقفے وقفے سے اقتدار میں رہنے والی ن لیگ کے اہم رہنما کو اب پتا چلا ہے کہ بجلی کمپنیاں عوام پر یہ ظلم کررہی ہے یہ آپ کے دور سے ہورہا ہے۔ فرض کیجیے کسی کا دوسو یونٹ کا بل ہے تو وہ پروٹیکٹڈ صارف ہے اس کا بل 13 روپے فی یونٹ کے حساب سے 2600 روپے کا ہوگا (جس میں دیگر ٹیکس شامل نہیں ہیں) اسی صارف کا بل دوسرے مہینے 201 یونٹ کا بل آتا ہے تو تو وہ پروٹیکٹڈ سے نان پروٹیکٹڈ میں آجائے گا اس کا بل 40 روپے فی یونٹ کے حساب سے 8040 روپے کا آئے گا۔ جبکہ اس میں دیگر ٹیکس شامل نہیں ہیں پھر یہی ظلم نہیں کہ صرف ایک مہینے زیادہ رقم کا بل آگیا مزید ظلم یہ کہ اب اس کو چھے ماہ تک سزا کے طور پر اسی بڑھی ہوئی شرح سے یعنی 40 روپے فی یونٹ کے حساب سے بل ادا کرنا ہوگا چاہے وہ کسی مہینے سو یونٹ استعمال کرے یا دوسو سے زیادہ وہ صرف تشویش کا اظہار کرکے رہ گئے اس سلسلے میں اپنا آئندہ کا پروگرام نہیں بتایا۔
بجٹ کے حوالے کچھ چیزیں ہم شروع سے دیکھتے چلے آرہے ہیں کہ جو برسر اقتدار گروپ یا اتحاد اسمبلی میں بجٹ پیش کرتا ہے تو اس کی اپوزیشن ایوان میں شور شرابا اور ہنگامہ کرتی ہے بجٹ کی کاپیاں پھاڑ دی جاتی ہیں۔ جیسے کہ اس دفعہ تحریک انصاف اپوزیشن میں ہے تو اس نے ایوان میں یہ کام کیا ہے کل جب تحریک انصاف اقتدار میں تھی تو اور اس کے وزیر خزانہ بجٹ پیش کرتے تو یہی فریضہ ن لیگ اور پی پی پی والے انجام دیتے تھے۔ سرکاری ایوانوں سے وابستہ ارکان اسمبلی ٹاک شوز میںایڑی چوٹی کا زور یہ ثابت کرنے میں لگا دیتے کہ اس سے اچھا بجٹ پہلے کبھی آیا ہے نہ آئندہ کبھی آئے گا، اور اپوزیشن سے وابستہ ارکان اس کے بالکل الٹ بات کرتے کہ اس سے زیادہ خراب اور عوام دشمن بجٹ پہلے کبھی نہیں آیا اور آئندہ بھی اگر یہی رہے اس سے خراب ہی بجٹ کے آنے کی امید ہے۔ جب ملک میں پری بجٹ اور پوسٹ بجٹ بحث چلتی ہے تو مجھے پتا نہیں کیوں معروف دانشور اور مزاح نگار مشتاق یوسفی کا وہ جملہ یاد آجاتا ہے کہ ’’جھوٹ تین قسم کے ہوتے ہیں پہلا جھوٹ، دوسرا سفید جھوٹ اور تیسرا سرکاری اعداد شمار‘‘ بجٹ تو اعداد وشمار کے گورکھ دھندوں کا ہی نام ہے۔ اس میں زیادہ تر فی صد میں بات کی جاتی ہے پھر ملین بلین اور ٹریلین کی بات ہوتی جو عام آدمی تو سمجھ ہی نہیں پاتا۔
اس دفعہ مجھے پتا نہیں کیوں ایسا لگا کہ بجٹ کے حوالے سے ہمارے وزیر خزانہ اور دیگر ارکان اسمبلی کے بیانات، تقاریر، پریس کانفرنس اور اخباری مضامین بھارت کے اس گودی میڈیا جیسا ہے کہ بس اب جو جنگ ہوگی وہ پاکستان مٹائو جنگ ہوگی ایک ہی ہلے میں POK بھارت کی گود میں ہوگا اسی طرح ہمارے یہاں قبل از بجٹ ایسی شاندار تصویر کشی کی جارہی تھی جیسے آنے والا بجٹ غربت مٹائو بجٹ ہے اس میں ہم نے سرمایہ داروں کے حلق سے پیسے نکال کر غریبوں کی غربت دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ جب پاک بھارت جنگ بھارت کی امریکا سے التجا پر رک گئی اور سیز فائر ہوا تو گودی میڈیا کو سکتہ ہوگیا انہیں ایسا لگا کہ جیسے وہ کوئی سہانا خواب دیکھ رہے تھے اور اچانک ان کی آنکھ کھل گئی اب پھٹی پھٹی آنکھوں سے چھتوں کو تک رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح بجٹ آنے کے بعد ایسا لگا کہ حکومت بجٹ کے حوالے سے جو سہانے خواب دیکھ رہی تھی یا عوام کو دکھا رہی تھی آنکھ کھلی تو سارے خواب چکنا چور ہوگئے۔
بچپن میں مجھے کچھ کچھ یاد ہے بجٹ آنے والا تھا ہمارے بڑے آپس میں بات کرتے ہیں دیکھو بجٹ آنے والا ہے شاید آٹے کی قیمت میں دو یا ایک پیسہ فی سیر کم ہوجائے یہ اس وقت کی بات ہے جب آٹا پونے سات آنے سیر تھا پھر بجٹ کے بعد سوا چھے آنے اور کچھ دن بعد ساڑھ چھے آنے پھر واپس پونے سات آنے فی سیر پر آگیا کہنے کا مطلب یہ کہ پہلے بجٹ میں عوام کچھ چیزیں سستی ہونے کی آس لگائے بیٹھے ہوتے اور اب حال یہ کہ عام آدمی بجٹ آنے سے پہلے خوف کا شکار ہوجاتا کہ کہتا ہے کہ دیکھو مہنگائی کا طوفان آنے والاہے موجودہ بجٹ بھی ایسا ہی کچھ آیا ہے۔ دس سال ہم بھی سرکاری ملازم رہے ہیں ہر سال بجٹ کے موقع پر آپس میں یہی گفتگو ہوتی تھی کہ اس دفعہ تنخواہوں میں 35 فی صد اضافہ ہونے والا ہے لیکن بجٹ آنے پر پتا چلتا کہ صرف دس فی صد اضافہ ہوا دل بجھ کر رہ جاتا۔ ایک اور زاویے سے دیکھیں تو یہ بجٹ موجودہ ن لیگی حکمران اپنے اتحادیوں کو خوش رکھنے اور اپنی حکومت کا تسلسل قائم رکھنے کے لیے ایک ٹول کے طور استعمال ہوگا۔ اس میں پیپلز پارٹی کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ احسن اقبال رنجیدہ ہیں کہ صحت اور تعلیم کی مدات میں بہت زیادہ کٹوتی کی گئی لیکن ایم این ایز کے ترقیاتی فنڈزکی رقم برقرار رکھی گئی ہے کہ ان ہی سے تو بجٹ منظور کروانا ہے اس کے بعد یہ گٹر کے ڈھکن لگانے اور سڑکوں کی تعمیر کا کام کریں گے۔
حکومت نے آئی ایم ایف کی خوشدلانہ اطاعت میں ایسا بجٹ جس میں عوام کے لیے دکھوں اور تکالیف کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اس لیے بھی پیش کیا ہے کہ اسے عوام کے ردعمل کا کوئی خوف نہیں ہے کہ آئندہ انتخابات میں عوام اسے ووٹ دیں یا نہ دیں ان کا اقتدار کہیں نہیں جاتا اس لیے کہ ملک میں جو قوتیں اقتدار پر اپنی پسند کے لوگوں کی لاتی ہیں موجودہ وزیر اعظم اپنے آپ کو ان کی گڈ بک میں سمجھتے ہیں، دوسرے لوگ اس بک میں آ نے کی انتھک کوششوں میں لگے ہوئے ہیں لیکن انہیں کامیابی نہیں مل پارہی۔ ملکی کے سیاسی مستقبل کے لیے یہ بہت خوفناک صورتحال ہوگی کہ لوگ انتخابات سے مایوس ہو جائیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سرمایہ داروں بجٹ کے حوالے کے حوالے سے ا نے والا بجلی کے رہے ہیں یونٹ کے فی یونٹ ا ہے کہ ہے کہ ا
پڑھیں:
سندھ کی اپوزیشن جماعتوں نے صو بائی بجٹ مسترد کردیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (رپورٹ: واجد حسین انصاری) سندھ اسمبلی کی پارلیمانی اپوزیشن جماعتوں اور دیگر سیاسی پارٹیوں نے سندھ بجٹ برائے سال 2025-26 کو مسترد کرتے ہوئے اسے عوام دشمن بجٹ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ بجٹ اعداد و شمار کا گورکھ دھندا ہے۔ یہ بجٹ اپوزیشن کی تجاویز کو بلڈوز کرکے پیش کیا گیا ہے، بجٹ میں کراچی کے عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا۔ سندھ حکومت نے ایک بار پھر کراچی کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی کی ہے۔ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فی صد اضافہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ سندھ اسمبلی میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر محمد فاروق فرحان نے سندھ بجٹ برائے سال 2025-26 کو مسترد کرتے ہوئے اسے عوام دشمن بجٹ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ غربت مٹاؤ نہیں غریبوں کے خاتمے کا بجٹ ہے۔ اس بجٹ میں کراچی کے عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا۔ کراچی پر صرف ٹیکس اور سہولت کوئی نہیں۔ وفاق کی طرح سندھ بجٹ بھی عوامی امنگوں کا ترجمان نہیں ہے۔ محمد فاروق فرحان نے کہا کہ سندھ میں احتجاج کرنے والی ایم کیو ایم وفاق میں اقتدار کا حصہ ہے۔ وہ وفاقی بجٹ میں کراچی کے لیے کچھ نہ لے سکی۔ کراچی کے ساتھ زیادتی میں پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ن تینوں جماعتیں برابر کی شریک ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ 20 سال سے کراچی میں پانی کا مسئلہ حل نہیں ہوا۔ اس بجٹ سے مہنگائی کا مزید طوفان آئے گا۔ بجٹ میں تعلیم، صحت اور انفرا اسٹرکچر کو مکمل نظر انداز کیا گیا ہے۔ سندھ حکومت نے ایک بار پھر کراچی کے ساتھ ناانصافی کی ہے۔ یہ بجٹ مزدور طبقہ پر کاری ضرب ہے۔ سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر علی خورشیدی نے سندھ کے بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ عوامی بجٹ نہیں بلکہ عوام دشمن بجٹ ہے۔ اس میں عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا۔ سندھ حکومت نے کراچی کے عوام کو مایوس کیا ہے۔ علی خورشیدی نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ جعلی اکثریت کی بنیاد پر بجٹ منظور نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم نے اس ایوان میں شہری سندھ کا مقدمہ لڑا ہے۔ اگر شہری سندھ کی بات نہیں سنی گئی تو سندھ اسمبلی کا ایوان نہیں چلنے دیں گے۔ یہ پیپلز پارٹی کی اوطاق نہیں، حکومت نے آمرانہ رویہ اختیار کیا ہے۔ اس بجٹ کا شہری سندھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بجٹ میں اپوزیشن کی تجاویز کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ سندھ اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر شبیر قریشی نے سندھ بجٹ پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ عوامی بجٹ نہیں اس میں عوام کو کوئی ریلیف نہیںدیا گیا۔ یہ مراعات یافتہ طبقہ کا بجٹ ہے۔ سندھ حکومت نے اس بجٹ میں غریب سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے۔ اس بجٹ میں کراچی کے عوام کے ساتھ سراسر ناانصافی کی گئی ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ سرکاری ملازمین کے ساتھ مذاق ہے۔ پاکستان مسلم لیگ فنکشنل اور جی ڈی اے کے مرکزی رہنما سردار رحیم نے سندھ بجٹ پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ عوام دشمن بجٹ ہے‘ اس میں غریب عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا‘ اس بجٹ میں سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے شہر کراچی کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ سندھ حکومت نے اس بجٹ میں غریب کو غریب تر کر دیا ہے۔ سندھ میں امن و امان کی صورت حال انتہائی خراب ہے اور بنیادی سہولتوں کا جنازہ نکل چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں مجموعی طور پر 16 ترقیاتی منصوبے رکھ کر صرف ٹوکن رقم مختص کی گئی ہے جو عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔