Jasarat News:
2025-11-03@01:59:28 GMT

برق گرتی ہے بجٹ کی بیچارے غریبوں پر

اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پاکستان میں کے الیکٹرک سمیت صارفین تک بجلی سپلائی کرنے والے جتنے ادارے ہیں وہ سب عوام کے اوپر آئے دن بجلی گراتے رہتے ہیں لوڈشیڈنگ کے علاوہ بجلی کی فی یونٹ شرح بڑھتی رہتی ہے، بجلی کی اصل قیمت کے علاوہ دسیوں قسم کے ٹیکس اس میں پہلے ہی شامل ہیں اب سننے میں آرہا ہے کہ اس بجٹ میں تیرہ سو ارب روپے کے گردشی قرضے ان سرمایہ داروں اور اشرافیہ کو ادا کیے جائیں گے جن کے گھروں میں فاقے پڑرہے ہیں جبکہ یہ وہ رقم ہے جو یہ ظالم ساہوکار ایک یونٹ بجلی پیدا کیے بغیر حکومت سے وصول کریں گے اور یہ کون لوگ ہیں یہ برسر اقتدار سیاسی جماعتوں سے وابستہ لوگ ہی ہیں جن کو حکومت نجی بینکوں سے قرض لے کر ان فاقہ زدہ سرمایہ داروں کو ادا کرے گی اور بینک کی یہ رقم سود سمیت پاکستان کے عوام سے ان کے بجلی کے بلوں میں (3.

23) تین روپے تیئس پیسے فی یونٹ بڑھا کر وصول کرے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ نجی بینک بھی زیادہ تر ان ہی سرمایہ داروں کے ہیں جن کی آئی پی پیز ہیں بس ایک انٹری پاس کرنا ہوگی جس سے بینک سے رقم ان کے آئی پی پی اکائونٹ میں چلی جائے گی پھر بینک یہ رقم حکومت سے سود سمیت وصول کرے گا اور حکومت یہ رقم بجلی کے بل کے ذریعے ہم سے وصول کرے گی اسی کو کہتے ہیں چت بھی میری پٹ بھی میری ٹئیاں میرے باپ کی۔ یہ غریبوں کا بجٹ کہاں سے ہوگیا یہ تو امیروں کو فائدہ پہنچانے والا بجٹ ہے۔
تنخواہ دار طبقہ تو اور ظلم کی چکی میں پس کر رہ گیا دس فی صد اضافہ کیا گیا جبکہ بیس فی صد مہنگائی پہلے ہی بڑھ چکی ہے اور اب سے دو ماہ بعد اگست کے مہینے میں جب یہ اضافی رقم سرکاری ملازمین کے ہاتھ میں آئے گی تو مہنگائی اور بڑھ چکی ہوگی۔ انکم ٹیکس میں جو ریلیف دیا گیا ہے وہ ریلیف کے نام پر دھوکا ہے آج کی دنیا میں سفارتی زبان کچھ اور ہوتی ہے، سیاسی زبان یا بیانیہ کچھ اور ہوتا ہے اور حکومت کے وزیر خزانہ کی معاشی زبان کچھ اور ہوتی ہے۔ بجٹ کے حوالے سے ہم اور بات کریں گے لیکن بجلی کے سلسلے کی ایک بات اور مسلم لیگ کے رہنما خواجہ سعد رفیق کا بجلی کے حوالے سے ایک بیان نظر سے گزرا وہ کہہ رہے تھے 201 یونٹ استعمال کرنے والوں کا بل محض ایک یونٹ کے اضافے سے چار گنا زیادہ بڑھ جاتا ہے یہ صارفین پر بہت بڑا ظلم ہے۔ چلیے دیر آئد درست آید کے مصداق پندرہ بیس برس سے وقفے وقفے سے اقتدار میں رہنے والی ن لیگ کے اہم رہنما کو اب پتا چلا ہے کہ بجلی کمپنیاں عوام پر یہ ظلم کررہی ہے یہ آپ کے دور سے ہورہا ہے۔ فرض کیجیے کسی کا دوسو یونٹ کا بل ہے تو وہ پروٹیکٹڈ صارف ہے اس کا بل 13 روپے فی یونٹ کے حساب سے 2600 روپے کا ہوگا (جس میں دیگر ٹیکس شامل نہیں ہیں) اسی صارف کا بل دوسرے مہینے 201 یونٹ کا بل آتا ہے تو تو وہ پروٹیکٹڈ سے نان پروٹیکٹڈ میں آجائے گا اس کا بل 40 روپے فی یونٹ کے حساب سے 8040 روپے کا آئے گا۔ جبکہ اس میں دیگر ٹیکس شامل نہیں ہیں پھر یہی ظلم نہیں کہ صرف ایک مہینے زیادہ رقم کا بل آگیا مزید ظلم یہ کہ اب اس کو چھے ماہ تک سزا کے طور پر اسی بڑھی ہوئی شرح سے یعنی 40 روپے فی یونٹ کے حساب سے بل ادا کرنا ہوگا چاہے وہ کسی مہینے سو یونٹ استعمال کرے یا دوسو سے زیادہ وہ صرف تشویش کا اظہار کرکے رہ گئے اس سلسلے میں اپنا آئندہ کا پروگرام نہیں بتایا۔
بجٹ کے حوالے کچھ چیزیں ہم شروع سے دیکھتے چلے آرہے ہیں کہ جو برسر اقتدار گروپ یا اتحاد اسمبلی میں بجٹ پیش کرتا ہے تو اس کی اپوزیشن ایوان میں شور شرابا اور ہنگامہ کرتی ہے بجٹ کی کاپیاں پھاڑ دی جاتی ہیں۔ جیسے کہ اس دفعہ تحریک انصاف اپوزیشن میں ہے تو اس نے ایوان میں یہ کام کیا ہے کل جب تحریک انصاف اقتدار میں تھی تو اور اس کے وزیر خزانہ بجٹ پیش کرتے تو یہی فریضہ ن لیگ اور پی پی پی والے انجام دیتے تھے۔ سرکاری ایوانوں سے وابستہ ارکان اسمبلی ٹاک شوز میںایڑی چوٹی کا زور یہ ثابت کرنے میں لگا دیتے کہ اس سے اچھا بجٹ پہلے کبھی آیا ہے نہ آئندہ کبھی آئے گا، اور اپوزیشن سے وابستہ ارکان اس کے بالکل الٹ بات کرتے کہ اس سے زیادہ خراب اور عوام دشمن بجٹ پہلے کبھی نہیں آیا اور آئندہ بھی اگر یہی رہے اس سے خراب ہی بجٹ کے آنے کی امید ہے۔ جب ملک میں پری بجٹ اور پوسٹ بجٹ بحث چلتی ہے تو مجھے پتا نہیں کیوں معروف دانشور اور مزاح نگار مشتاق یوسفی کا وہ جملہ یاد آجاتا ہے کہ ’’جھوٹ تین قسم کے ہوتے ہیں پہلا جھوٹ، دوسرا سفید جھوٹ اور تیسرا سرکاری اعداد شمار‘‘ بجٹ تو اعداد وشمار کے گورکھ دھندوں کا ہی نام ہے۔ اس میں زیادہ تر فی صد میں بات کی جاتی ہے پھر ملین بلین اور ٹریلین کی بات ہوتی جو عام آدمی تو سمجھ ہی نہیں پاتا۔
اس دفعہ مجھے پتا نہیں کیوں ایسا لگا کہ بجٹ کے حوالے سے ہمارے وزیر خزانہ اور دیگر ارکان اسمبلی کے بیانات، تقاریر، پریس کانفرنس اور اخباری مضامین بھارت کے اس گودی میڈیا جیسا ہے کہ بس اب جو جنگ ہوگی وہ پاکستان مٹائو جنگ ہوگی ایک ہی ہلے میں POK بھارت کی گود میں ہوگا اسی طرح ہمارے یہاں قبل از بجٹ ایسی شاندار تصویر کشی کی جارہی تھی جیسے آنے والا بجٹ غربت مٹائو بجٹ ہے اس میں ہم نے سرمایہ داروں کے حلق سے پیسے نکال کر غریبوں کی غربت دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ جب پاک بھارت جنگ بھارت کی امریکا سے التجا پر رک گئی اور سیز فائر ہوا تو گودی میڈیا کو سکتہ ہوگیا انہیں ایسا لگا کہ جیسے وہ کوئی سہانا خواب دیکھ رہے تھے اور اچانک ان کی آنکھ کھل گئی اب پھٹی پھٹی آنکھوں سے چھتوں کو تک رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح بجٹ آنے کے بعد ایسا لگا کہ حکومت بجٹ کے حوالے سے جو سہانے خواب دیکھ رہی تھی یا عوام کو دکھا رہی تھی آنکھ کھلی تو سارے خواب چکنا چور ہوگئے۔
بچپن میں مجھے کچھ کچھ یاد ہے بجٹ آنے والا تھا ہمارے بڑے آپس میں بات کرتے ہیں دیکھو بجٹ آنے والا ہے شاید آٹے کی قیمت میں دو یا ایک پیسہ فی سیر کم ہوجائے یہ اس وقت کی بات ہے جب آٹا پونے سات آنے سیر تھا پھر بجٹ کے بعد سوا چھے آنے اور کچھ دن بعد ساڑھ چھے آنے پھر واپس پونے سات آنے فی سیر پر آگیا کہنے کا مطلب یہ کہ پہلے بجٹ میں عوام کچھ چیزیں سستی ہونے کی آس لگائے بیٹھے ہوتے اور اب حال یہ کہ عام آدمی بجٹ آنے سے پہلے خوف کا شکار ہوجاتا کہ کہتا ہے کہ دیکھو مہنگائی کا طوفان آنے والاہے موجودہ بجٹ بھی ایسا ہی کچھ آیا ہے۔ دس سال ہم بھی سرکاری ملازم رہے ہیں ہر سال بجٹ کے موقع پر آپس میں یہی گفتگو ہوتی تھی کہ اس دفعہ تنخواہوں میں 35 فی صد اضافہ ہونے والا ہے لیکن بجٹ آنے پر پتا چلتا کہ صرف دس فی صد اضافہ ہوا دل بجھ کر رہ جاتا۔ ایک اور زاویے سے دیکھیں تو یہ بجٹ موجودہ ن لیگی حکمران اپنے اتحادیوں کو خوش رکھنے اور اپنی حکومت کا تسلسل قائم رکھنے کے لیے ایک ٹول کے طور استعمال ہوگا۔ اس میں پیپلز پارٹی کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ احسن اقبال رنجیدہ ہیں کہ صحت اور تعلیم کی مدات میں بہت زیادہ کٹوتی کی گئی لیکن ایم این ایز کے ترقیاتی فنڈزکی رقم برقرار رکھی گئی ہے کہ ان ہی سے تو بجٹ منظور کروانا ہے اس کے بعد یہ گٹر کے ڈھکن لگانے اور سڑکوں کی تعمیر کا کام کریں گے۔
حکومت نے آئی ایم ایف کی خوشدلانہ اطاعت میں ایسا بجٹ جس میں عوام کے لیے دکھوں اور تکالیف کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اس لیے بھی پیش کیا ہے کہ اسے عوام کے ردعمل کا کوئی خوف نہیں ہے کہ آئندہ انتخابات میں عوام اسے ووٹ دیں یا نہ دیں ان کا اقتدار کہیں نہیں جاتا اس لیے کہ ملک میں جو قوتیں اقتدار پر اپنی پسند کے لوگوں کی لاتی ہیں موجودہ وزیر اعظم اپنے آپ کو ان کی گڈ بک میں سمجھتے ہیں، دوسرے لوگ اس بک میں آ نے کی انتھک کوششوں میں لگے ہوئے ہیں لیکن انہیں کامیابی نہیں مل پارہی۔ ملکی کے سیاسی مستقبل کے لیے یہ بہت خوفناک صورتحال ہوگی کہ لوگ انتخابات سے مایوس ہو جائیں۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: سرمایہ داروں بجٹ کے حوالے کے حوالے سے ا نے والا بجلی کے رہے ہیں یونٹ کے فی یونٹ ا ہے کہ ہے کہ ا

پڑھیں:

سڑکیں کچے سے بدتر، جرمانے عالمی معیار کے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251101-03-5

 

میر بابر مشتاق

ہیڈ لائن کی ضرورت ہی کیا ہے جب شہر خود اپنی کہانی سنارہا ہو؟ یہ کہانی سڑکوں پر بہتے گٹر کے پانی کی ہے، پانی کے ٹینکر کے پیچھے بھاگتے عوام کی ہے، اور بارش کے بعد طوفانی نالے بن کر بہنے والی سڑکوں کی ہے۔ یہ کہانی اس انفرا اسٹرکچر کی ہے جو کاغذوں پر تو شاندار نظر آتا ہے، مگر زمین پر ’’زیرو‘‘ ہے۔ اور ان تمام مسائل پر ایک طاقتور حقیقت مسلط ہے: مافیا۔ ٹینکر مافیا، ڈمپر مافیا، اور اب اس کے ساتھ ایک نیا اضافہ ’ای چالان مافیا‘۔ کراچی، جو کبھی پاکستان کا معاشی دل سمجھا جاتا تھا، آج ایک ایسے شہر کی حیثیت سے جی رہا ہے جہاں بنیادی سہولتوں کا فقدان ہی روزمرہ کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ سڑکیں نہ صرف کچی ہیں، بلکہ ان کی حالت اتنی خراب ہے کہ کچی سڑکیں بھی شرم سے منہ چھپا لیتی ہیں۔ ہر موڑ پر گڑھے، ہر سڑک پر کھدائی، اور ہر بارش کے بعد یہ شہر ڈوبتا نہیں بلکہ شرم سے مر جاتا ہے۔ اسی خراب انفرا اسٹرکچر کے نتیجے میں رواں سال 700 سے زائد شہری ٹریفک حادثات کا نشانہ بن کر جاں بحق ہو چکے ہیں، جبکہ 10 ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان اموات میں 205 کا تعلق بھاری گاڑیوں؛ ٹینکر، ٹرالر اور ڈمپر سے ہے، جو عوام کے لیے موت کا پروانہ بن کر دوڑ رہے ہیں۔ یہ وہ ’’اسٹرکچر‘‘ ہیں جو کبھی نہیں ڈوبتے، ان کا کام جاری ہے، اور ان کے مالکان کو کوئی جوابدہی نہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب شہریوں کو بنیادی سہولتیں مہیا کرنا حکومت کی ذمے داری ہے، تو پھر اس کی ناکامی کی سزا عوام کو کیوں دی جا رہی ہے؟ یہی وہ مقام ہے جہاں ’ای- چالان‘ کا المیہ شروع ہوتا ہے۔ سندھ حکومت نے ایک طرف تو سڑکوں کی مرمت، پانی کی فراہمی اور سیکورٹی جیسی بنیادی ذمے داریوں کو یکسر نظر انداز کر رکھا ہے، دوسری طرف وہ ’’عالمی معیار‘ کے ای-چالان سسٹم کے ذریعے عوام کو ڈھادے جانے والے بھاری جرمانوں سے اپنے خزانے بھرنے میں مصروف ہے۔ یہ نظام درحقیقت لوٹ مار کا ایک منظم دھندا بن چکا ہے۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ پنجاب میں اسی ای-چالان سسٹم کے تحت موٹر سائیکل سوار سے 200 روپے کا جرمانہ وصول کیا جاتا ہے، جبکہ کراچی میں ایک ہی قصور پر موٹر سائیکل سوار کو 5000 روپے کی خطیر رقم ادا کرنا پڑتی ہے۔ یہ کوئی معمولی فرق نہیں، یہ دس گنا سے بھی زیادہ کا فرق ہے۔ کیا کراچی کے شہری پنجاب کے شہریوں کے مقابلے میں دس گنا زیادہ امیر ہیں؟ یا پھر یہ سندھ حکومت کی طرف سے عوام پر معاشی تشدد ہے؟

حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہی حکومت جو سڑکوں پر گڑھے چھوڑ کر، ٹریفک کے بہاؤ کو درست کرنے میں ناکام رہ کر اور عوامی ٹرانسپورٹ کا کوئی بندوبست نہ کر کے روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں شہریوں کو غیر محفوظ ٹریفک اسٹرٹیجی کا شکار بنا رہی ہے، اسے یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنی نااہلی کی پاداش میں عوام پر بھاری جرمانے عائد کرے؟ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے ڈاکو خود تو گھر لوٹے، اور مالک کو ہی قصوروار ٹھیرایا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ سندھ حکومت عوام کو شعور دینے اور انفرا اسٹرکچر بہتر بنانے کے بجائے، صرف جرمانوں کے ذریعے خزانہ بھرنے میں لگی ہوئی ہے۔ یہ ایک آسان راستہ ہے۔ سڑکیں بنانے، ٹریفک انجینئرنگ درست کرنے، عوامی امن و امان قائم رکھنے اور پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر بنانے میں تو محنت اور خلوص نیت کی ضرورت ہے، جبکہ کیمرے لگا کر جرمانے کاٹ لینا بہت آسان کام ہے۔

ای-چالان سسٹم کا مقصد اصل میں عوام کو سزائیں دینا نہیں، بلکہ ٹریفک کے بہاؤ کو بہتر بنانا اور حادثات کو کم کرنا ہونا چاہیے۔ لیکن جب یہ نظام انصاف کے بجائے مالی فائدہ کمانے کا ذریعہ بن جائے، تو پھر یہ نہ صرف غیر اخلاقی ہوتا ہے بلکہ عوام کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچاتا ہے۔ اس پورے معاملے پر ازسرنو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ای-چالان سسٹم کو ایک انصاف پر مبنی، شفاف اور عوام دوست نظام میں تبدیل کیا جانا چاہیے۔ اس کے لیے درج ذیل اقدامات فوری طور پر اٹھائے جانے چاہئیں:

1۔ جرمانوں کی شرح کا پنجاب کے برابر ہونا: سندھ میں جرمانوں کی شرح کا پنجاب کے ساتھ ہم آہنگ ہونا انتہائی ضروری ہے۔ یہ امتیازی سلوک ختم ہونا چاہیے۔ ایک عام موٹر سائیکل سوار کے لیے 5000 روپے کا جرمانہ نہ صرف غیر منصفانہ بلکہ غیر معاشی بھی ہے۔

2۔ سڑکوں کی فوری مرمت: سڑکوں کو حادثات کے لیے محفوظ بنایا جائے۔ گڑھوں کو پر کیا جائے، سڑکوں کی واضح مارکنگ کی جائے، اور خاص طور پر اسکولز، اسپتالوں اور مصروف چوراہوں کے اردگرد سیفٹی اقدامات کو یقینی بنایا جائے۔

3۔ بھاری گاڑیوں پر کنٹرول: ٹینکر اور ڈمپرز کے لیے مخصوص اوقات مقرر کیے جائیں اور ان کی رفتار پر سختی سے عملدرآمد کرایا جائے۔ ان گاڑیوں کے ڈرائیورز کو خصوصی تربیت دی جائے اور ان کی گاڑیوں کی فٹنس کا سالانہ معائنہ لازمی ہونا چاہیے۔

4۔ عوامی آگاہی مہم: محض جرمانے جاری کرنے کے بجائے، ٹریفک قوانین کے بارے میں عوامی آگاہی مہم چلائی جائے۔ اسکولوں، کالجز اور میڈیا کے ذریعے شہریوں کو ٹریفک اصولوں کی تربیت دی جائے تاکہ وہ خود بخود قوانین کی پابندی کریں۔

5۔ شفافیت اور جوابدہی: ای-چالان کے ذریعے وصول کی گئی رقم کا شفاف حساب کتاب عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔ یہ رقم صرف سڑکوں کی مرمت اور ٹریفک انفرا اسٹرکچر کی بہتری پر خرچ کی جائے، نہ کہ عام بجٹ میں شامل کر کے ضائع کی جائے۔

بنیادی بات یہ ہے کہ شہریوں کو سہولت نہ دی جائے اور ان پر بھاری بھرکم جرمانے مسلط کیے جائیں، یہ کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہے۔ حکومت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ عوام کو ’’مجرم‘‘ بنا کر نہیں، بلکہ ان کی خدمت کر کے ہی ترقی ممکن ہے۔ جب تک سڑکیں کچے سے بدتر رہیں گی، تب تک چاہے جرمانے عالمی معیار کے ہی کیوں نہ ہو جائیں، شہر کی کہانی اندھیرے اور مایوسی ہی سناتی رہے گی۔ حکومت کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ریاست کی مشروعیت عوام کی خدمت سے آتی ہے، نہ کہ ان پر جرمانے عائد کر کے۔ اگر سڑکیں ٹھیک نہیں، پانی نہیں، بجلی نہیں، اور امن نہیں، تو پھر ’’عالمی معیار کے جرمانے‘‘ صرف ایک مذاق ہیں۔

 

میر بابر مشتاق

متعلقہ مضامین

  • پیپلزپارٹی عوامی مسائل پر توجہ دے رہی ہے،شرجیل میمن
  • پنجاب میں عوام عدم تحفظ کا شکار ہیں،جماعت اسلامی
  • روشن معیشت رعایتی بجلی پیکج کا اعلان قابل تحسین ہے،حیدرآباد چیمبر
  • حکومت بجلی، گیس و توانائی بحران پر قابوپانے کیلئے کوشاں ہے،احسن اقبال
  • اسمارٹ میٹرز کی تنصیب کے کام کا آغاز کردیا گیا
  • ای چالان نے مشکلات میں مبتلا کردیا ہے‘سنی تحریک
  • ڈیم ڈیم ڈیماکریسی (پہلا حصہ)
  • سڑکیں کچے سے بدتر، جرمانے عالمی معیار کے
  • اسلام آباد ،جماعت اسلامی کا ترامڑی چوک پر اسپتال کی عدم تعمیر پر احتجاج
  • حکومت کا نیٹ میٹرنگ کی قیمت میں بڑی کمی پرغور