Express News:
2025-09-17@22:44:50 GMT

(ن) لیگ سے پیپلز پارٹی کی شکایات

اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT

صدر آصف زرداری نے گورنر ہاؤس لاہور میں منعقدہ اجلاس میں پی پی ارکان کی شکایات پرکہا کہ ’’ ہمیں مجبوریاں ہیں ملک کے لیے ساتھ چلنا ہے امید ہے کہ معاملات بہتر ہو جائیں گے میں خود اور بلاول پنجاب میں بیٹھیں گے اور معاملات کا خود جائزہ لیں گے پی پی ارکان حالات کی بہتری کی امید رکھیں ان کی شکایات پر توجہ دے کر ازالہ کرایا جائے گا۔‘‘

پی پی کے ارکان اسمبلی نے پنجاب حکومت کے خلاف اپنے صدر کے سامنے شکایات کے انبار لگا دیے جس پر صدر مملکت کو پی پی کے ارکان کو دلاسا دے کر مطمئن کرنا پڑا ۔ سوا سال میں یہ پہلا موقعہ نہیں ہے صدر مملکت جب بھی پنجاب میں کہیں جاتے ہیں تو انھیں ہر جگہ مسلم لیگ (ن) سے متعلق ایسی ہی شکایات سننے کو ملتی ہیں کہ پی پی کے ساتھ پنجاب حکومت کا رویہ بہتر نہیں۔ ترلوں منتوں کے بعد 2 فی صد کام کیے جاتے ہیں۔

پیپلز پارٹی پنجاب کے سیکریٹری اطلاعات ندیم افضل چن نے سمبڑیال میں پی پی امیدوار کی شکست پر پریس کانفرنس میں کہا کہ پی پی کو مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دینے کے باعث ووٹ نہیں ملے اور یہ ضمنی الیکشن شفاف تھا نہ منصفانہ ، یہ الیکشن فراڈ تھا۔ واضح رہے کہ گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران پیپلز پارٹی نے فروری میں اپنے چیئرمین بلاول کا الیکشن ہارا تھا اور لاہور کے بعد سمبڑیال کے الیکشن میں پی پی کے امیدوار نے شکست کھائی ۔

اس الیکشن میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے 8 فروری کے الیکشن کے مقابلے میں زیادہ ووٹ حاصل کیے اور پی ٹی آئی کا دس ہزار سے زائد ووٹ کم ہوا جب کہ (ن) لیگ کے امیدوار کا 20 ہزار ووٹ بڑھا اور پی پی امیدوار صرف 6 ہزار ناقابل ذکر ووٹ حاصل کرسکے جب کہ ٹی ایل پی کا امیدوار پانچ ہزار ووٹ بھی حاصل نہ کر سکا جب کہ پہلے اس کا ووٹ دس ہزار سے زائد تھا۔

یہ بات تو عام ہے کہ ہر ضمنی الیکشن میں کم ووٹ پڑتا ہے اور برسراقتدار پارٹی کے امیدوار ہمیشہ جیت جاتے ہیں مگر 2022 میں یہ بات غلط بھی ثابت ہوئی تھی اور پنجاب اسمبلی کے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ (ن) پی ٹی آئی سے ہاری تھی جب کہ وہاں (ن) لیگ کے وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کی حکومت تھی۔ پی ٹی آئی کی وفاق اور پنجاب حکومتوں میں ڈسکہ سے قومی اسمبلی کا الیکشن (ن) لیگ نے جیتا تھا اور ڈسکہ اور سمبڑیال میں مسلم لیگ (ن) کی امیدوار دو خواتین تھیں جنھیں ان کے شوہر اور باپ کی وفات کے باعث (ن) لیگ نے ٹکٹ دیے تھے اور دونوں خواتین نے پہلے اور اب پی ٹی آئی امیدواروں سے زیادہ ووٹ لیے ۔

ڈسکہ الیکشن میں پی ٹی آئی حکومتوں میں جو دھاندلی کرکے زبردستی پہلے الیکشن جیتا تھا وہ مکمل فراڈ تھا جسے الیکشن کمیشن نے مسترد کرکے پی ٹی آئی کی حکومتوں میں دوبارہ ضمنی الیکشن کرایا تھا جس میں کرائی جانے والی دھاندلی پی ٹی آئی تسلیم ہی نہیں کرتی اور پی ڈی ایم اور (ن) لیگ کی حکومتوں میں پنجاب اسمبلی الیکشن میں اپنی بڑی کامیابی پر فخر کرتی ہے مگر پی پی کے ایک عہدیدار کو پی ٹی آئی دور کی نہیں بلکہ (ن) لیگ حکومت میں ہونے والی مبینہ دھاندلی نظر آتی ہے ۔

 فروری 2024کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی نے جنوبی پاکستان سے بڑی کامیابی حاصل کی تھی اور بلاول زرداری سمیت دیگر اہم رہنماؤں جن میں ندیم افضل چن بھی ہارے تھے جب کہ پی پی کے دو سابق وزرائے اعظم یوسف رضاگیلانی اپنے خاندان سمیت ملتان سے اور راجہ پرویز اشرف گوجر خان سے کامیاب ہوئے تھے۔

فروری 2024 میں مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کو سندھ میں شکست ہوئی تھی اور سندھ اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کا کوئی رکن منتخب نہیں ہوا تھا جب کہ پنجاب سے قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں پیپلزپارٹی نے قابل ذکر انتخابی کامیابی حاصل کی تھی جس کی وجہ سے چوہدری شجاعت کے گھر اجلاس میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے بڑوں نے باہمی طور پر وفاق میں (ن) لیگ کی حکومت بنوانے کا فیصلہ کیا تھا جب کہ پنجاب میں (ن) لیگ، سندھ اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی تھی اور پنجاب میں دونوں پارٹیوں میں پاور شیئرنگ کا معاملہ طے ہوا تھا جس پر عمل نہ ہونے کی پیپلز پارٹی کو موجودہ پنجاب حکومت سے شکایات ہیں ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب سے یہ شکایات بھی ہیں کہ وہ صدر مملکت سے ملتی ہیں اور نہ لاہور آنے پر صدر کے استقبال کے لیے جاتی ہیں اور نہ پاور شیئرنگ کے مطابق پنجاب میں پی پی ارکان کو اہمیت دی جاتی ہے۔

سندھ کے ہر ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ (ن) پی پی امیدواروں کی حمایت کرتی آ رہی ہے۔ نواب یوسف تالپور کی وفات پر ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کے خلاف (ن) لیگ نے پی پی کی حمایت کی جو پی پی کی نشست تھی مگر سمبڑیال کے حالیہ ضمنی الیکشن میں پی پی نے (ن) لیگ کے خلاف الیکشن لڑا جو (ن) لیگ کی نشست تھی مگر فروری کی طرح پھر وہاں دوبارہ ہاری اور اب (ن) لیگ پر پی پی دھاندلی کے الزام لگا رہی ہے۔

 سندھ میں پی پی کو واضح اکثریت حاصل ہے جب کہ دوسری جانب (ن) لیگ وفاق کی طرح پی پی کی پنجاب میں محتاج نہیں مگر دونوں کے درمیان پنجاب سے متعلق پاور شیئرنگ پر عمل ہونا چاہیے مگر پنجاب حکومت پی پی ارکان کو شکایات کا موقعہ دے رہی ہے۔ پنجاب میں گورنر اور پی پی رہنماؤں کا جو رویہ ہے۔

اس سے نہیں لگتا کہ پی پی (ن) لیگ کی حمایتی ہے وہ اپنی شکست دیکھ کر بھی (ن) لیگ کے مقابلے میں الیکشن لڑ کر پھر ہارتی ہے اور پنجاب میں (ن) لیگ کے ساتھ پی پی کا رویہ پی ٹی آئی سے مختلف نہیں جس کی وجہ سے (ن) لیگ کو بھی پی پی سے شکایات تو ہیں مگر وہ پی پی کی طرح اظہار نہیں کرتی اور اسی وجہ سے پنجاب حکومت سے پی پی کو شکایات ہیں جنھیں پنجاب حکومت کو دور کرنا چاہیے کیونکہ دونوں اتحادی ہیں مگر پی پی بھی اپنی غلطی نہیں مانتی جو اسے بھی ماننی چاہیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ضمنی الیکشن میں پیپلز پارٹی نے الیکشن میں پی میں مسلم لیگ حکومتوں میں پنجاب حکومت پی پی ارکان کے امیدوار اور پنجاب میں پی پی پی ٹی آئی کی حکومت پی پی کی پی پی کے کہ پی پی تھی اور ہیں مگر اور پی لیگ کے لیگ کی

پڑھیں:

انیق ناجی نے ولاگنگ سے دوری کی وجہ خود ہی بتا دی ، پنجاب حکومت پر تنقید

لاہور (ویب ڈیسک) تجزیہ نگار انیق ناجی نے ولاگنگ سے دوری کی وجہ بتادی اور ساتھ ہی حکومت پنجاب کو شدید تنقید کا نشانہ بنادیا۔

اپنے ولاگ میں انیق ناجی کاکہناتھاکہ  طویل غیر حاضری کی ایک وجہ بیزاری تھی، ہرروز ایک نئی حماقت،" ن لیگ کیساتھ 34سال رفاقت رہی اور عمران خان کے دور میں بھی اپنی حیثیت کے مطابق مریم نواز اورنوازشریف کوسپورٹ کرتارہا،سمجھتا تھا کہ یہ لوگ نشیب وفراز سے گزرے ہوئے ہیں ، ملک سنبھال سکتے ہیں لیکن جس طرح کی حماقتیں ہوئی ہیں، اس میں آدمی چپ ہی کرسکتاہے،

نوازشریف کے بارے میں تو اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ غلام اسحاق خان  ،فاروق لغاری ہو یا پھر پرویز مشرف ہو،  سیاسی طور پر انہیں کوئی ختم نہیں کرسکالیکن جو حال ان کیساتھ ان کے خاندان نے کیا ہے ، وہ دیکھ کر ہی دکھ ہوتا ہے کہ وہ آدمی نہ ہنس سکتا ہے اور نہ رو سکتا ہے، آج کسی کا سامنا نہیں کرسکتا، انہیں لندن میں پی ٹی آئی کے لوگ برا بھلا کہتے رہے لیکن اس نے کبھی جواب نہیں دیا، اب کسی سے ملنے کے قابل بھی نہیں رہا۔

سی ایم پنجاب گرین کریڈٹ پروگرام کے تحت ای بائیکس کی رجسٹریشن میں نمایاں اضافہ

ان کا مزید کہناتھاکہ  مریم نواز نے  جو پنجاب میں مظاہرہ کیا، ہر روز ایک نئی حماقت، ذاتی اور گھریلوملازمین کو اپنے اردگرد رکھا ہواہے جن کا نہ کوئی آگے ہے اور نہ کوئی پیچھے،صرف مسلم لیگ ن سے تعلق کے علاوہ ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں،  ان کے کہنے پر سب کچھ ہو رہا، بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا، ن لیگ کے اپنے لوگ بھی حیران پریشان ہیں ، وہ قیادت سے ملنے کی درخواستیں کیا کرتے تھے،اب  منہ چھپا رہے ہیں کہ کہیں تصویر بنوانے کے لیے بلوا نہ لیں، اراکین اسمبلی اپنے حلقوں میں نکلنے کے قابل نہیں رہے، آپ کو وہ سرکاری ہسپتال بھی یا دہوگاجہاں میڈم منہ چھپا کر گئی تھیں اور پھر تقریر کی تھی کہ امیرآدمی تو بیرون ملک چلاجاتاہے لیکن عام آدمی کیا کرے، میں تو ایک عام شہری کی طرح یہاں آئی ہوں، کونسا عام آدمی ہوتا ہے جو 20گاڑیوں کیساتھ سرکاری ہسپتال جاتاہے؟

اداکارہ عائشہ عمر کے شو لازوال عشق پر عوامی اعتراضات، پیمرا کا ردعمل

لیکن بس خیال ہے کہ لوگ اس طرح ساتھ آجائیں گے، مریم اورنگزیب صاحبہ بھی بھیس بدل کر چھاپے مار رہی ہیں ، کیمرہ مین اور پولیس اہلکار بھی ساتھ ہیں، لب و لہجہ ہی ایسا ہے ، نہ اردو آتی ہے اور نہ صحیح سے انگریزی، اداکاری ہورہی ہے ، چھوٹے چھوٹے کھانے کے پیکٹس پر بھی اپنی تصویر، بیزاری اور ولاگنگ سے دوری کی وجہ بھی یہی ہے ۔ 

مزید :

متعلقہ مضامین

  • حکمران سیلاب کی تباہ کاریوں سے سبق سیکھیں!
  • پیپلز پارٹی کی 17سالہ حکمرانی، اہل کراچی بدترین اذیت کا شکار ہیں،حافظ نعیم الرحمن
  • سیاسی مجبوریوں کے باعث اتحادیوں کو برداشت کر رہے ہیں، عظمیٰ بخاری
  • انیق ناجی نے ولاگنگ سے دوری کی وجہ خود ہی بتا دی ، پنجاب حکومت پر تنقید
  • الیکشن کمیشن نے عوامی راج پارٹی کے انٹرا پارٹی انتخاب کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا
  • سیاسی بیروزگاری کے رونے کیلئے پی ٹی آئی کافی‘ پی پی اس بیانیے میں شامل نہ ہو: عظمیٰ بخاری
  • سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کیلئے پی ٹی آئی کافی، پیپلز پارٹی کو کیا ضرورت پڑگئی، عظمیٰ بخاری
  • دولت مشترکہ نے پاکستانی الیکشن میں دھاندلی چھپائی،برطانوی اخبار
  • سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کیلئے پی ٹی آئی ہی کافی تھی، پیپلزپارٹی کو شامل ہونے کی ضرورت نہیں تھی
  • سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کیلئے پی ٹی آئی کافی، پیپلز پارٹی کو کیا ضرورت پڑگئی؟ عظمی بخاری