‘جب بھارت میں عامر خان بے بس ہیں تو عام مسلمان کا حال کیا ہوگا’، اداکار تنقید کی زد میں کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT
بالی ووڈ سپر اسٹار عامر خان نے انڈیا میں اپنے خلاف چلنے والی مہم کے بعد وضاحتیں دینے پر مجبور ہو گئے اور ترکیہ کے بائیکاٹ کی بھی حمایت کر دی۔
عامر خان نے حال ہی میں انڈیا ٹی وی کے مشہور شو ’آپ کی عدالت‘ میں رجت شرما کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ وہ پہلے انڈین اداکار تھے جن کی فلم میں باقاعدہ ’پاکستان‘ کا نام لیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ حب الوطنی کی مثال میری فلموں رنگ دے بسنتی، لگان اور سرفروش میں نظر آئے گی اور سرفروش میں ہم نے کھل کر پاکستان اور آئی ایس آئی کا نام لیا۔
یہ بھی پڑھیں: عامر خان نے سلمان خان کو خود سے بہتر اداکار کیوں قرار دیا؟
عامر خان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے پہلگام حملے کے بعد خاموشی کیوں اختیار کی تو ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے پہلگام حملے کی مذمت کی تھی۔عامر خان نے کہا کہ میں سوشل میڈیا پر نہیں ہوں لیکن پہلگام حملے کے بعد فلم کے ٹریلر کی ریلیز موخر کر دی تھی اور صدمے کی وجہ سے کئی دن گھر سے بھی نہیں نکلا تھا۔
ترکیہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بالی ووڈ اسٹار نے کہا کہ ہمیں بالکل ترکیہ کی حمایت نہیں کرنی چاہیے، جب وہ پاکستان کی مدد کر رہے ہیں، تو ہم کیوں ان کا ساتھ دیں۔ ہم نے ترکیہ میں زلزلہ آنے کے بعد سب سے پہلے ان کی مدد کی اور انہوں نے ہمارے ساتھ یہ کیا؟ یہ سراسر غلط ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عامر خان کی فلم ’تارے زمین پر‘ واہیات فلم تھی، والد یوراج سنگھ
عامر خان سے رجب طیب اردوغان کے ساتھ ان کی ایک تصویر پر سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ تصویر میری اس وقت کی تھی جب سرکار بھی ان کی مدد کر رہی تھی اور اگر کوئی چائے پر بلائے تو میرا ناں کرنا ٹھیک نہیں لگتا۔
عامر خان کے انٹرویو کے کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے تو صارفین کی جانب سے اس پر مختلف تبصرے کیے گئے کئی صارفین نے کہا کہ عامر خان کو خود کو انڈین ثابت کرنے کے لیے ایسے جواب دینے پڑ رہے ہیں۔
محمجد فہیم نے لکھا کہ اتنا بڑا اسٹار ہونے کے بعد بھی اگر عامر خان کو اپنے وفادار ہونے کی صفائیاں دینی پڑرہی ہیں تو اندازہ لگائیں ایک عام مسلمان کو کہاں کہاں کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہوگا۔
اتنا بڑا سٹار ہونے کے بعد بھی اگر عامر خان کو اپنے وفادار ہونے کی صفائیاں دینی پڑرہی ہیں
تو اندازہ لگائیں
ایک عام مسلمان کو کہاں کہاں کٹہرے میں کھڑا کیاجاتا ہوگا https://t.
— Muhammad Faheem (@MeFaheem) June 15, 2025
ڈاکٹر رومی لکھتے ہیں کہ جناح نے سچ فرمایا تھا کہ ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کو ساری زندگی انڈیا کو اپنی وفاداری ثابت کرنا پڑے گی۔ عامر خان کا اس میں کوئی قصور نہیں۔
جناح صاحب نے سچ فرمایا تھا ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کو ساری زندگی انڈیا کو اپنی وفاداری ثابت کرنا پڑے گی۔
عامر خان بے چارے کا کوئی قصور نہیں۔۔۔۔ pic.twitter.com/BJmpK1CVvw
— Dr. Rumi (@DrRumi95) June 15, 2025
فخر درانی نے لکھا کہ بھارتی اداکار عامر خان کوایک بڑا اداکار اور اچھاانسان سمجھتا تھا لیکن ان کے حالیہ انٹرویو کے کچھ کلپس دیکھےوہ ایک اچھے ہندوستانی توہوں گے لیکن ایک اچھے انسان بالکل بھی نہیں۔ پاکستان کے لیے نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ ایک اچھاآرٹسٹ کبھی کسی سے نفرت نہیں کرسکتا۔ یہ اچھے آرٹس بھی نہیں۔
بھارتی اداکار عامر خان کوایک بڑا اداکار اور اچھاانسان سمجھتا تھا لیکن انکے حالیہ انٹرویو کے کچھ کلپس دیکھےوہ ایک اچھے ہندوستانی توہونگے لیکن ایک اچھے انسان بالکل بھی نہیں۔پاکستان کے لیے نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ ایک اچھاآرٹسٹ کبھی کسی سے نفرت نہیں کرسکتا۔ یہ اچھے آرٹس بھی نہیں۔
— Fakhar Durrani (@FrehmanD) June 15, 2025
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بالی ووڈ بالی ووڈ فلمیں پاکستان انڈیا کشیدگی پہلگام حملہ ترکیہ عامر خانذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بالی ووڈ بالی ووڈ فلمیں پاکستان انڈیا کشیدگی پہلگام حملہ ترکیہ عامر خان کو نے کہا کہ بھی نہیں انہوں نے ایک اچھے بالی ووڈ کے لیے کے بعد
پڑھیں:
غزہ میں امن فوج یا اسرائیلی تحفظ
غزہ جنگ بندی معاہدے کے بعد جہاں ایک طرف غاصب صیہونی ریاست اسرائیل مسلسل معاہدے کی خلاف ورزیاں کر رہی ہے، وہاں ساتھ ساتھ دنیا بھر میں امریکی اور اسرائیلی دلال، فلسطینی عوام اور فلسطین کی مزاحمت یعنی حماس کے خلاف منفی پراپیگنڈا کرنے میں مصروف عمل ہیں۔
اسی طرح امریکی صدر ٹرمپ مسلسل حماس کو دھمکیاں دے رہے ہیں لیکن اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے کو ہتھیانے سمیت متعدد خلاف ورزیوں پرکسی قسم کا کوئی رد عمل نہیں دیا جا رہا ہے۔
دنیا کے بعض صحافیوں اور دانشوروں کو اس کام پر لگا دیا گیا ہے کہ وہ یہ تاثر پیدا کریں کہ معاہدے کی خلاف ورزی حماس کی طرف سے ہوئی تو پھر حالات کی ذمے داری حماس اور فلسطینیوں پر آن پڑے گی لیکن یہ سارے لوگ اسرائیل کی خلاف ورزیوں کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔
یہ رویہ خود اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ ان کو کسی خاص مقصد کے لیے اس کام پر لگایا گیا ہے تاکہ مسئلہ فلسطین کو کمزورکیا جائے اور اسے فراموش کرنے کے لیے جو ممکن ہتھکنڈے استعمال ہو سکتے ہیں، وہ کیے جائیں۔
حال ہی میں ٹائمز آف اسرائیل نامی اخبار نے یہ خبر شایع کی ہے کہ غزہ میں امن فوج کے نام پر انڈونیشیا، آذربائیجان اور ترکیہ کی افواج کو بھیجا جا رہا ہے۔ تشویش، اس لیے بھی پائی جا رہی ہے کیونکہ ایک تو امن معاہدے کی سرپرستی امریکی صدر ٹرمپ کر رہے ہیں۔
جن پر دنیا کے عوام بالکل بھی اعتماد نہیں کرتے اور انھوں نے آج تک غزہ میں نسل کشی کے ذریعے قتل ہونے والے ستر ہزار فلسطینیوں کے قتل پر اسرائیل کی مذمت تک نہیں کی ہے، لٰہذا اب ٹرمپ کی خواہشات کے مطابق مسلم ممالک کی افواج کو غزہ میں تعینات کرنے کے اعلان پر دنیا بھر کے عوام کو اس لیے تشویش ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ مسلمان افواج کو حماس اور فلسطینی مزاحمتی گروہوں کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں اور فلسطینی مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کے لیے مسلمان افواج کی خدمت لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اگر یہ خدشات درست ہیں تو یقینا اس سے بڑی پریشانی مسلمانوں کے لیے اور کچھ نہیں ہو سکتی ہے۔اگر تاریخی اعتبار سے بھی اس معاملے پر غورکیا جائے تو ہم جانتے ہیں کہ امریکا اور اسرائیل کی پالیسی ہمیشہ سے فلسطین کے مکمل کنٹرول اور مزاحمتی قوتوں کی سرکوبی پر مرکوز رہی ہے۔
ٹرمپ کے سابقہ دورِحکومت صدی کی ڈیل یعنی Deal of the Century کے نام پر فلسطین کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی، تاہم ٹرمپ ناکام رہے۔ اسی طرح سابقہ دور میں ہی ٹرمپ نے یروشلم (القدس) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر کے امتِ مسلمہ کے دل پر وارکیا تھا، لیکن پوری دنیا میں اس عمل کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اسی تسلسل میں اگر ٹرمپ یا اس کے حمایتی حلقے مسلمان ممالک کی افواج کو امن یا نگرانی کے نام پر غزہ بھیجنے کا حکم دیں، تو اس کا مقصد مزاحمتی قوتوں کو غیر مسلح اور فلسطینی عزم کو توڑنا ہوگا۔ ماضی میں بھی عراق، افغانستان، شام اور لیبیا میں اتحادی افواج کے نام پر مسلمان ممالک کے فوجی استعمال کیے گئے جس کے نتیجے میں استعماری ایجنڈے کو تقویت ملی۔
لہٰذا امریکی صدرکے عزائم کو سمجھتے ہوئے مسلم دنیا کے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ کوئی بھی ایسا فیصلہ نہ کریں جس کے سبب نہ صرف فلسطین کاز کو نقصان پہنچتا ہو بلکہ مسلمانوں کی باہمی وحدت اور یکجہتی بھی متاثر ہوتی ہو۔
امریکی حکومت کا یہی ایجنڈا ہے کہ وہ مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا چاہتی ہے۔کسی غیر مسلم یا استعماری قوت کے سیاسی ایجنڈے کے مطابق مسلمان افواج کا استعمال اسلامی وقار کے بھی منافی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ علماء اور مفتیان کرام اس عنوان سے کیا ارشاد فرمائیں گے؟
کیونکہ ترکیہ سمیت آذربائیجان اور انڈونیشیا تو پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں ہیں، لٰہذا ان سے امید کم ہی نظر آتی ہے لیکن دیگر مسلم ممالک کو کیوں اس دلدل میں گھسیٹا جا رہا ہے؟ اگر مقصد فلسطینی عوام کی تحفظ و حمایت کے بجائے امریکی پالیسیوں کی تکمیل ہے، تو یہ عمل غلامی کے مترادف ہے، اگر مسلمان افواج کو غزہ اس نیت سے بھیجا جائے کہ وہ حماس یا فلسطینی مزاحمت کو کمزورکریں، تو یہ امتِ مسلمہ کی اخلاقی شکست ہوگی۔
ایسے فیصلے اسلام کے سیاسی استقلال، جہادی فلسفے اور امتِ واحدہ کے اصول کی نفی ہیں۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلمان افواج کا مقصد طاغوت کے حکم پر مظلوموں کو دبانا ہے یا ظالموں کو روکنا؟خلاصہ یہ ہے کہ دو سال تک غزہ میں مسلسل نسل کشی کی جاتی رہی لیکن مسلم و عرب دنیا کی افواج خاموش تماشائی بنی رہیں اور اب امریکی صدر ٹرمپ کے احکامات کو بجا لانے کے لیے غزہ میں پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک کی افواج کی تعیناتی کی بات کی جا رہی ہے اور جس کا مقصد بھی اسرائیلی غاصب افواج سے لڑنا نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس اسرائیلی اور امریکی مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔
انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اگر مسلمان حکمران اپنے عوام کے احساسات اور فلسطین کی حمایت کے بجائے امریکی دباؤ پر فیصلے کریں، تو یہ سیاسی غلامی کی علامت ہے، اگرکسی بھی فوجی اقدام میں سیاسی وفاداری کا مرکز واشنگٹن ہے، تو یہ امت کے لیے ذلت کا باعث ہے۔
امت کے علما، دانشوروں اور عوام کو ایسے’’ فریبِ امن‘‘ منصوبوں کو علمی و عوامی سطح پر بے نقاب کرنا چاہیے۔اگر واقعی مسلمان ممالک غزہ کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو پھر حقیقی مدد تب ہے جب مسلمان ممالک فلسطین کو اسلحہ، سفارتی حمایت، انسانی امداد اور سیاسی پشت پناہی فراہم کریں نہ کہ ان کے خلاف امن فوج کے نام پر جائیں۔
سعادت اُس میں ہے کہ مسلمان طاغوت کے سامنے جھکنے کے بجائے ظلم کے نظام کو بدلنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں، یہی قرآن کا پیغام، یہی محمد ﷺ کی سنت اور یہی فلسطین کی مزاحمت کا سبق ہے۔