اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی  نے  بارہویں جماعت کے کامرس پرائیویٹ گروپ کے سالانہ امتحانات برائے 2025 کے نتائج کا اعلان کردیا۔

چیئرمین انٹربورڈ کراچی فقیر محمد لاکھو نے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ کامرس پرائیویٹ گروپ کے امتحانات میں پہلی پوزیشن آمنہ جنید موتی بنت محمد جنید رول نمبر 51041 نے ٹوٹل 1100 میں سے  950  نمبرز لے کر اے ون گریڈ  حاصل کیا۔

کوکب بنت محمد امین رول نمبر 51035 نے 946 نمبرز اے ون گریڈ کے ساتھ دوسری پوزیشن جب کہ بلقیس بنت مجاہد رول نمبر 51132 نے 913 نمبرز اے ون گریڈ کے ساتھ تیسری پوزیشن حاصل کی۔

ناظم امتحانات زرینہ راشد نے نتائج کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ کامرس پرائیویٹ گروپ کے امتحانات میں 1964 امیدواروں نے رجسٹریشن حاصل کی، 1871 امیدوار امتحانات میں شریک ہوئے جس میں سے 856 امیدوار کامیاب قرار پائے۔

اسی طرح کامیابی کا تناسب 45.

75 فیصد رہا، ان امتحانات میں 5 امیدوار اے ون گریڈ، 36 اے گریڈ، 118بی گریڈ، 289 سی گریڈ، 370 ڈی گریڈ اور 34امیدوار ای گریڈ میں کامیاب قرار پائے جب کہ 4امیدوار پاس ہوئے۔

نتائج بورڈ کی ویب سائٹ  www.biek.edu.pk  پر اپ لوڈ کردیئے گئے ہیں، امیدوا ر اپنے نتائج اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی کی آفیشل اینڈرائڈ ایپ پر بھی دیکھ سکتے ہیں۔

اینڈرائڈ ایپ کو گوگل پلے اسٹور پر   BIEK  کے نام سے سرچ کر کے موبائل میں انسٹال کیا جاسکتا ہے۔

چیئرمین فقیر محمد لاکھو نے کامیاب ہونے والے طلبہ کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ انٹربورڈ کراچی نے انٹرمیڈیٹ کے سالانہ امتحانات برائے 2025ء میں مختلف گروپس کے پوزیشن ہولڈرز طلبہ کے اعزاز میں تقریب منعقد کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے گزشتہ ہفتے سائنس پری انجینئرنگ گروپ کے پوزیشن ہولڈرز طلبہ کو تقریب میں میرٹ سرٹیفکیٹ دیئے گئے ہیں جب کہ جلد دیگر گروپس کے پوزیشن ہولڈرز طلبہ کے اعزاز میں تقریب منعقد کر کے انہیں بھی میرٹ سرٹیفکیٹس دیے جائیں گے، تقریب میں طلبہ کے ساتھ والدین اور میڈیا کو بھی مدعو کیا جائے گا۔

نتائج دیکھنے کے لیے یہاں www.biek.edu.pk  کلک کریں۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: امتحانات میں اے ون گریڈ

پڑھیں:

اساتذہ کو روشنی کے نگہبان بنا کر مؤثر تدریس کی حیات نو

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250917-03-5

 

غلام حسین سوہو

یہ مضمون اس بات کا جائزہ لیتا ہے کہ تعلیمی کارکنوں کی اندرونی تحریک کو کس طرح دوبارہ زندہ کیا جائے تاکہ اس جمی ہوئی بے حسی کا مقابلہ کیا جا سکے جو ایک خطرناک اور ہر طرف پھیلی ہوئی بلا کی طرح پروان چڑھ چکی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم اس آفت سے ناآشنا ہیں جس نے ہماری قومی اساس کو خود انحصاری اور خوشحالی کے لیے کھوکھلا کر دیا ہے۔

“I hope when the going gets tough, the tough get going” کے مطابق اگر ہم کامیاب ہو گئے تو ہم تدریسی شعبے کو قربانی، ہمدردی اور مسلسل نشوونما کی بنیاد پر ایک باوقار پیشے میں بدل سکیں گے۔ لوگ استاد کے کردار کو محض تدریسی ذمے داری نہیں بلکہ طلبہ کو علم کی بھول بھلیوں میں رہنمائی کرنے، تجسس کی آگ جلانے، مہارتیں، قابلیتیں اور باوقار کردار حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اسی پیمانے پر جب ہم یہ سوال کرنے کی ہمت کرتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور تعلیمی رجحانات کس طرف بڑھ رہے ہیں، تو ہمیں نظر آتا ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں ٹیکسٹ بْک، رٹے بازی اور مبہم تعلیمی منتقلی کا کلچر حاوی ہے۔ جدید بورڈز، اسمارٹ کلاس رومز اور ہائی ٹیک لیب کے باوجود تعلیمی ترقی جمود کا شکار ہے۔ مسئلہ ٹیکنالوجی کی موجودگی یا غیر موجودگی کا نہیں بلکہ جذبے، لگن اور جدت کی کمی کا ہے۔

یہ موجودہ کلچر گھوڑے کی لاش کو پیٹنے کے مترادف ہے، جہاں تعلیم حوصلہ افزا نہیں بلکہ مایوس کن ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اگر اساتذہ کو زیادہ پیشہ ورانہ خودمختاری دی جائے تو وہ اپنے کام کو ذاتی ذمے داری سمجھیں گے۔ مثال کے طور پر اگر اساتذہ کو نصابی کتب اور باندھے ہوئے وسائل سے ہٹ کر اپنی تدریسی حکمت ِ عملیاں بنانے اور نافذ کرنے کی آزادی دی جائے تو وہ طلبہ کو ذمے دار شہری اور روزگار کے قابل بنانے میں زیادہ دلچسپی لیں گے۔ اسی طرح معاونتی نظام بھی فراہم کرنا ضروری ہے تاکہ اساتذہ اپنی فلاح و بہبود کو ترجیح دے سکیں، مثلاً وسائل میں سہولت، رعایتیں اور انتظامی بوجھ میں کمی۔ لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے معزز اساتذہ اپنی علمی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کے لیے تیار ہیں؟ بعض کا ماننا ہے کہ ہاں، مگر عملی رکاوٹیں جیسے نصاب کی تکمیل کے لیے وقت کی کمی، وسائل کی قلت اور ناکافی تحریک انہیں مزید ترقی سے روکتی ہے۔ دوسری طرف کچھ یہ رائے رکھتے ہیں کہ اساتذہ میں پائی جانے والی بے حسی پورے نظام تعلیم کو کمزور کر سکتی ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ ہم ایسا احتسابی کلچر پیدا کریں جو ہمدردی پر مبنی ہو۔ میں یہ واضح کرنا چاہوں گا کہ احتساب کا مطلب صرف سزا نہیں بلکہ نشوونما اور بہتری ہے۔ اساتذہ کو بااختیار بنانا ضروری ہے تاکہ وہ اپنے ساتھیوں کی رہنمائی کریں اور اجتماعی ذمے داری کا ماحول پیدا ہو۔

حقیقت یہ ہے کہ آج ہمارے تعلیمی کلچر میں جذبے، جدت اور لگن کی کمی ہے۔ ہمیں ایسے کلچر کی ضرورت ہے جہاں استاد خود کو تبدیلی کے ایجنٹ سمجھیں اور نئے تجربات کرنے سے نہ گھبرائیں۔ اسی طرح طلبہ پر مرکوز تدریسی طریقے مثلاً تحقیق پر مبنی اور منصوبہ جاتی تدریس اساتذہ میں تدریس کی خوشی دوبارہ زندہ کر سکتے ہیں۔

’’سماج اکثر یہ خواب دیکھتا ہے کہ اساتذہ کو اپنے آپ کو روشنی کے نگہبان سمجھنا چاہیے — ایسے افراد جو دوسروں کی راہوں کو روشن کرنے کے لیے اپنی قربانی پیش کرتے ہیں‘‘۔ لیکن اس کے لیے ہمدردی اور نرمی پر زور دینا لازمی ہے۔ جذباتی ذہانت کی تربیت اساتذہ کو یہ سکھا سکتی ہے کہ طلبہ کے ساتھ بامعنی تعلقات کیسے قائم کیے جائیں، اعتماد اور تعاون کا ماحول کیسے پیدا کیا جائے۔

’’میٹا کوگنیٹو مہارتوں کی پرورش اساتذہ کو یہ قابل بناتی ہے کہ وہ اپنی تدریسی حکمت ِ عملیوں کا تنقیدی جائزہ لیں اور طلبہ کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ضروری تبدیلیاں کریں‘‘۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے ٹیکنالوجی، واضح تدریسی طریقے اور عملی تربیت کو ملانا ضروری ہے تاکہ طلبہ کو صاف اور منظم رہنمائی ملے۔ اسی طرح مضمون پر مبنی تربیت اساتذہ کے علمی اثاثے کو گہرا کرتی ہے جس سے وہ زیادہ مؤثر اور دلچسپ اسباق فراہم کر سکیں۔

کامیاب تعلیمی نظام کا انحصار مسلسل سیکھنے، ہمدردی اور جدت پر ہے۔ اس طرح ہم اپنے اساتذہ کو حقیقی روشنی کے نگہبان میں بدل سکتے ہیں جو قربانی، نرمی اور غیر متزلزل لگن کے ساتھ اپنے کردار کو نبھائیں۔ جب ہم ان کی ترقی میں سرمایہ کاری کریں گے اور ان کو ضروری سہولتیں فراہم کریں گے تو ہم ایسا ماحول تشکیل دیں گے جہاں استاد اور طلبہ دونوں ترقی کریں اور آئندہ نسلوں کی زندگیوں کو روشن، بااختیار اور بہتر بنائیں۔

(مصنف ایک ماہر ِ تعلیم ہیں جنہوں نے مختلف اعلیٰ عہدوں پر خدمات انجام دی ہیں، جن میں: سینئر ڈائریکٹر، ڈپٹی ڈی جی ایجوکیشن، ایف ڈی ای اسلام آباد۔ ڈائریکٹر (سرٹیفکیشن) NAVTTC۔ ڈائریکٹر (آپریشنز اینڈ لیگل) STEVTA۔ ریجنل ڈائریکٹر وفاقی محتسب حیدرآباد۔ چیئرمین، بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کراچی)

متعلقہ مضامین

  • اسلامی جمعیت طلبہ کاملک گیر فریشر ز ویلکم مہم کا اعلان
  • مسلم حکمران زبانی بیانات کے بجائے اسرائیل کے خلاف عملی اقدامات اور فوجی کارروائی کریں ، منعم ظفر خان
  • 200 روپے والے پرائز بانڈ کی قرعہ اندازی کے نتائج کا اعلان
  • اساتذہ کو روشنی کے نگہبان بنا کر مؤثر تدریس کی حیات نو
  • اسرائیلی یرغمالیوں کو انسانی ڈھال بنایا تو نتائج سنگین ہوں گے، ٹرمپ کی حماس کو وارننگ
  • حیدر آباد: جماعت اسلامی ضلع حیدرآباد کی ناظمہ غزالہ زاہد لیبر کالونی سائٹ زون میں سیرت النبی ﷺکانفرنس سے خطاب کر رہی ہیں
  • کراچی بورڈ کا شفاف نتیجہ میرٹ کی فتح، دباؤ کی شکست
  • مولانا ثناء اللہ جماعت اسلامی ضلع سائٹ غربی حاجی بشیر احمد کے بھائی ڈاکٹر عبدالرشید کے انتقال پرتعزیت کررہے ہیں
  • کراچی: انٹرمیڈیٹ کامرس ریگولر کے نتائج کا اعلان، تینوں پوزیشنز طالبات نے حاصل کیں
  • کراچی میں آج ہلکی بارش کا امکان