ٹیکنالوجی جنگیں جیتتی ہے، انسانیت جانیں ہارتی ہے
اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT
جب سے انسانی تہذیب کا آغاز ہوا ہے، انسان جنگ و جدل کی تلخ راہوں میں الجھا رہا ہے ۔کبھی زمین کی توسیع کے لیے، کبھی دشمنوں کو زیر کرنے کے لیے، اور کبھی مظلوموں کو آزادی دلانے کے لئے۔ ابتدائی ادوار میں فتح کا انحصار سپاہیوں کی جسمانی طاقت اور ہتھیاروں کی تیزی پر ہوتا تھا۔ تلواریں، نیزے اور تیر کمان میدانِ جنگ کی پہچان تھے۔ گھوڑوں اور ہاتھیوں پر سوار لشکر ایک دوسرے سے ٹکرا کر فیصلہ کرتے تھے کہ کون فاتح ہے، اور اس کا دار و مدار انفرادی دلیری اور طاقت پر ہوتا تھا۔
لیکن جب نویں صدی میں چین میں بارود ایجاد ہوا اور چودھویں صدی میں یورپ میں اسے عسکری مقاصد کے لئے استعمال کیا جانے لگا، تو جنگ کی نوعیت بدلنے لگی۔
بارود کے ذریعے توپ خانے اور بندوقوں نے جنگ کا نقشہ ہی بدل دیا۔ تیر و کمان کی جگہ اب توپ اور بندوق نے لے لی اور فوجی ترتیب و حکمت عملی ہمیشہ کے لئے تبدیل ہو گئی۔ نپولین کی جنگوں میں توپخانے، پیادہ فوج اور گھڑ سوار دستوں کا غیر معمولی اشتراک دیکھا گیا۔
بیسویں صدی، بالخصوص عالمی جنگوں کے دوران، جنگی ٹیکنالوجی میں حیرت انگیز ترقی ہوئی۔ ٹینک، آبدوزیں، لڑاکا طیارے اور بالآخر ایٹم بم جیسی ہلاکت خیز ایجادات منظر عام پر آئیں۔
1945ء میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے گئے، جنہوں نے سائنسی ترقی کے تباہ کن پہلو کو دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا۔ دو لاکھ کے قریب جانیں تلف ہوئیں، اور آئندہ نسلیں بھی ان اثرات سے محفوظ نہ رہ سکیں۔ جنگ اب صرف جسمانی قوت سے نہیں جیتی جا سکتی تھی، بلکہ ٹیکنالوجی کی برتری پورے شہر لمحوں میں مٹا سکتی تھی۔
اس کے بعد شروع ہونے والی سرد جنگ نے کھلی لڑائی کے بجائے ٹیکنالوجیکل مقابلہ بازی کو فروغ دیا۔ سیٹلائٹس، نیوکلیئر آبدوزیں، طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل، اور جاسوسی ڈرونز نہ صرف دفاع بلکہ خفیہ کارروائیوں کا حصہ بن گئے۔
1991ء کی خلیجی جنگ پہلی بار ٹی وی پر براہِ راست نشر کی جانے والی جنگ بنی، جہاں امریکہ کی قیادت میں اتحاد نے سیٹلائٹ گائیڈڈ میزائلوں اور اسٹیلتھ طیاروں کے ذریعے جنگی کارروائیاں کیں۔
اکیسویں صدی میں جنگی میدان نے نیا موڑ لیا ہے۔ اب فتح کا انحصار صرف زمینی، فضائی یا بحری قوت پر نہیں بلکہ سائبر اسپیس اور خلا میں برتری پر بھی ہے۔ ڈرونز، مصنوعی ذہانت، ہائپر سونک میزائل، اور برقی مقناطیسی ہتھیار جنگی اصولوں کو ازسرنو ترتیب دے رہے ہیں۔ اب ایک انسان سے ہلکا ڈرون ہزاروں میل دور بیٹھے آپریٹر کے ذریعے ایک اہم ہدف کو مکمل درستگی سے ختم کر سکتا ہے — بغیر کسی انسانی خطرے کے۔
اس تیز رفتار تکنیکی تبدیلی کی عملی مثال پاکستان نے 7 مئی 2025 ء کو بھارتی جارحیت کے جواب میں دی، جب چند منٹوں میں پاکستان نے جدید فضائی دفاعی نظام استعمال کیا اور بغیر پائلٹ ڈرونز اور ہدفی میزائلوں سے بھارتی اہداف کو نشانہ بنایا، جس نے بھارت کی روایتی فوجی تیاریوں کو غیر مؤثر کر دیا۔ یہ مختصر مگر فیصلہ کن کارروائی اس بات کا ثبوت تھی کہ آج کی جنگیں بڑی فوجی نقل و حرکت کے بجائے رفتار، درستگی اور الیکٹرانک حکمت عملی پر منحصر ہو چکی ہیں۔
دو روز قبل اسرائیل نے ایران پر ایسی ہی ایک منصوبہ بند اور تیز کارروائی کی۔ اطلاعات کے مطابق اسرائیلی لڑاکا طیارے اسٹیلتھ ٹیکنالوجی کے ذریعے ایرانی فضائی حدود میں داخل ہوئے جبکہ سائبر یونٹس نے ایرانی کمیونیکیشن اور ریڈار نظام کو بیک وقت ناکارہ بنا دیا۔ یہ کارروائی مختصر ضرور تھی، مگر جدید جنگ کے ارتقاء کا ایک نیا باب ثابت ہوئی، جہاں اطلاعاتی جنگ، نگرانی کی صلاحیت، اور درستگی سے نشانہ بنانے کی قوت فوجی طاقت پر غالب آ چکی ہے۔
ان حالیہ واقعات سے ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ بہادری، جسمانی طاقت اور براہِ راست تصادم کا زمانہ گزر چکا ہے۔ اب ریموٹ کنٹرول سے کی جانے والی کارروائیاں، الگورِدہم پر مبنی جنگ، اور سینسرز پر انحصار نئی حقیقت ہیں۔ میدان میں لڑنے والا سپاہی آج بھی اہم ہے، مگر اب وہ جنگی نظام کے ایک پیچیدہ اور وسیع تر پہیے کا محض ایک پرزہ ہے، جسے انجینئرز، ڈیٹا سائنسدانوں اور خفیہ اداروں کے ماہرین چلاتے ہیں۔
تاہم اس تمام ترقی کے باوجود، ایک ناقابلِ تردید حقیقت اب بھی باقی ہے — جنگ تباہی ہے۔ چاہے وہ تلواروں سے لڑی جائے یا سیٹلائٹس سے، نتیجہ ہمیشہ موت، نقل مکانی اور بربادی کی صورت میں نکلتا ہے۔ مہذب معاشرے جو امن، ترقی اور خوشحالی کے خواہاں ہوتے ہیں، وہ جنگ کے بوجھ کو برداشت نہیں کر سکتے۔ معیشتیں تباہ ہو جاتی ہیں، نسلیں متاثر ہوتی ہیں، اور سماجی ڈھانچے بکھر جاتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کی برتری فوجی کامیابی تو دے سکتی ہے، مگر جنگ کے زخموں کا مداوا نہیں کر سکتی۔
ہمارے وقت کا سب سے بڑا تضاد یہی ہے کہ وہی سائنس جو خلا میں سیٹلائٹ بھیج سکتی ہے، وہی ایک میزائل کو شہر برباد کرنے کے لئے رہنمائی دے سکتی ہے۔ انسانیت کا اصل امتحان یہ نہیں کہ جنگ کیسے جیتی جائے، بلکہ یہ ہے کہ اسے کیسے روکا جائے۔
تاریخ نے ہمیں بارہا سکھایا ہے کہ کوئی قوم، چاہے جتنی بھی طاقتور ہو، جنگ کے اثرات سے محفوظ نہیں رہتی۔
ڈرون حملوں اور سائبر حملوں کے اس دور میں عالمی قوتوں کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ پائیدار امن صرف طاقت سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ سائنسی ترقی کے ساتھ ساتھ سفارتی سنجیدگی، باہمی احترام، اور بین الاقوامی تعاون بھی لازم ہے۔ بصورت دیگر، ہم اپنی عظیم ایجادات کو اپنے عظیم ترین افسوس کا سبب بنا لیں گے۔
ماضی ہمیں خون سے لکھے اسباق دے چکا ہے، اور حال ہمارے سامنے ایک آئینہ ہے، جس میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہم کیا بن سکتے ہیں۔ اگر ہم نے تاریخ کی تنبیہات کو نہ سنا، تو چاہے مستقبل کتنا ہی روشن کیوں نہ ہو، وہ اسی تاریکی میں ڈوبا رہے گا جو انسانیت پر تلواروں کے دور سے مسلط ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کے ذریعے کے لئے جنگ کے
پڑھیں:
طاقت پر مبنی سیاسی اور انتظامی حکمت عملی
ہماری سیاسی اور غیر سیاسی اشرافیہ یہ ہی سمجھتی ہے کہ ہمیں مسائل کے حل کے لیے سیاسی حکمت عملی کی بجائے طاقت کے انداز میں ہی مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے۔جب ان کے سامنے یہ بیانیہ پیش کیا جاتا ہے کہ ہمیں لوگوں کو ساتھ ملا کر ،بات چیت اور انھیں ساتھ جوڑ کر ان کو مسائل کے حل میں شریک کرنا ہوگا۔لیکن وہ طاقت کو ہی اپنی بڑی سیاسی طاقت سمجھتے ہیں ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ قومی مسائل زیادہ بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں ۔اس حکمت عملی کی وجہ سے لوگوں کا نظام پر اعتماد کمزور ہورہا ہے، حکومت کی ساکھ بھی متاثر ہورہی ہے مگر اس کے باوجو ہم نظام کی غلطیاں درست کرنے کے لیے تیار نہیں ۔
اصولی طورپر کسی مسلے کو حل کرنے کے لیے طاقت آخری آپشن کے طورپر استعمال کی جاتی ہے ، اس سے پہلے وہ تمام آپشن اختیار کیے جاتے ہیں جن کی نوعیت سیاسی ہوتی ہے۔لیکن ہم سیاسی حکمت عملی کو ابتدائی حکمت عملی کے طور پر استعمال کرنے کی بجائے فوری طورپر طاقت کے استعمال کی جانب جاتے ہیں ، اس کاایک نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی سیاسی قیادت میں جہاں قبولیت کم ہوتی ہے وہیں یہ لوگوں میں منفی ردعمل کو پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔
کیا وجہ ہے کہ ہم قومی سیاست سے جڑے مسائل کوسیاسی حکمت عملی کی بنیاد پر حل کرنے میں ناکام ہورہے ہیں۔اول یا تو موثر سیاسی حکمت عملی کا فقدان ہے یا اس کی ملکیت کو کوئی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔دوئم ہم سمجھتے ہیں لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانیں گے اور ہمیں ان کا علاج ہی طاقت کے استعمال سے کرنا ہوگا۔
عمومی طورپرہمیں اپنے قومی مسائل کے حل کے لیے سیاسی فورمز اختیار کرنے چاہیے تھے اور مکالمہ کی مدد سے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے تھا جس میں داخلی سفارت کاری کو ہر سطح پر ترجیح ملنی چاہیے تھی۔
اس وقت پاکستان کے دو صوبے بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں جو حالات ہیں، ان صوبوں کے بعض علاقوں میں ریاست کی رٹ بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔دوسری طرف دہشت گردی کا ماحول بھی ان دونوں صوبوں میں دیکھنے کو مل رہا ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے ریاستی سطح پر سنگین نوعیت کے چیلنجز درپیش ہیں ۔دوسری جانب جو سیاسی عدم استحکام ہے اس نے بھی ہمارے مسائل میں اضافہ کیا ہے۔بہت سے لوگوں خیبر پختون خواہ یا بلوچستان میں دہشت گردی اور قومی سطح پر سیاسی تقسیم کے خاتمہ میں سیاسی فریقین سے بات چیت کے حامی ہیں کیونکہ سیاسی لوگ نظام پر یقین رکھتے ہیں۔
ان سے بات چیت کے دروازوں کو کھولا جائے اور ان لوگوں کی آوازوں کو سنا جائے ۔کیونکہ جب ہم بات چیت کے تمام دروازے بند کردیں گے تو پھر انتہا پسندی رجحانات کا پیدا ہونا فطری امر ہوجاتا ہے ۔ یہ سب کچھ جو ہورہا ہے، پاکستان تک محدود نہیں ہے بلکہ عالمی سیاست میں بھی سیاسی اور جمہوری روش کمزور اور مسائل کے حل کے لیے سب ہی طاقت کے استعمال کو بنیاد بنا کر آگے بڑھ رہے ہیں۔یہ جو جنگی ہتھیاروں پر مبنی ڈپلومیسی ہے اس نے دنیا کی سیاست کا نقشہ ہی تبدیل کردیا ہے ۔یہ ہی کچھ ہمیں پاکستان کی داخلی سیاست میں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔
اس کا نتیجہ جہاں سیاسی اور معاشی عدم استحکام کو پیدا کررہا ہے وہیں ریاستی سطح پر ہمیں عدم سیکیورٹی اور دہشت گردی کا سامنا ہے۔ ہماری ان داخلی سطح کی کمزوریوں کا فائدہ دشمن اٹھارہا ہے اور ہم ایک مضبوط ریاست کے طور پر ناکامی سے دوچار ہیں۔ ریاست میں موجود لوگ یا مختلف سیاسی یا غیر سیاسی گروہ سمجھتے ہیں کہ ریاست کسی بھی سطح پر ہماری بات یا ہمارے مسائل کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔اس کا نتیجہ ریاست پر عدم اعتماد کی صورت میں سامنے آرہا ہے جو خود ریاست کے لیے کوئی اچھا عمل نہیں ہے۔
لوگوں کو لگتا ہے کہ اگر ہم نے ریاست کی بات تسلیم نہ کی یا حکومت کی پالیسیوں کو نظر انداز کرکے اپنی بات کرنے کی کوشش کی تو ہمیں ریاست کی طرف سے سخت مزاحمت سمیت طاقت کے استعمال کا سامنا کرنا پڑے گا جو کسی بھی طور پر اچھے رجحان کی عکاسی نہیں کرتا۔ایسے لگتا ہے ہماری ریاست سیاست اور جمہوریت سمیت سیاسی حکمت عملیوں کی اہمیت سے دور ہوتی جا رہی اور سیاسی و جمہوری سپیس بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔
جب حکومت طاقت کا استعمال کرتی ہے تو اس کے نتیجے میں ریاست کے اندر سیاسی اور غیر سیاسی دھڑے بن جاتے ہیں جو اپنے مخالفین کے لیے بھی ریاست کے نظام کے اندر اندھی طاقت کے استعمال سے گریز نہیں کرتے۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارا مجموعی کلچر پرتشدد اور انتہا پسند رجحانات کی طرف بڑھ رہا ہے اور سب کو لگتا ہے ہمیں بھی ہر سطح پر طاقت کے استعمال کی حکمت عملی ہی کی مدد سے اپنے مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا۔کیونکہ آج بھی دنیا میں بیانیہ کی جنگ ہے اور اس میں ہم کو سفارت کاری کی سیاست مضبوط بنیادوںپر نظر آتی ہے توا س کا مطلب ہے کہ پرامن سیاسی اور جمہوری حکمت عملی کے ساتھ مسائل کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہم سیاسی حکمت عملیوں کو ہی اپنی سیاسی ترجیحات کا حصہ بنائیں ۔
حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ پچھلے چند برسوں کی طاقت کے استعمال کی حکمت عملی نے ہمارے مسائل حل کیے ہیں یا پہلے سے موجود مسائل کو اور زیادہ بگاڑ دیا ہے۔اگر ہم نے سیاسی، جمہوری، آئینی اور قانونی ریاست کی بنیاد پر آگے بڑھنا ہے تو موجودہ طاقت کے استعمال کی حکمت عملی ہمارے لیے کارگر ثابت نہیں ہو سکے گی۔
ممکن ہے کہ طاقت کے استعمال کی حکمت عملی ہمیں وقتی طور پر بہتر نتائج دے سکے مگر یہ حکمت عملی مستقل بنیادوں پر اختیار نہیں کی جاسکتی اور آپ کو جنگ کے بعد بھی مذاکرات ہی کی میز پر بیٹھنا ہوتا ہے۔اسی طرح طاقت کے استعمال کو بنیاد بنانا خودکو جمہوری ریاست سے دور رکھنا اور آمرانہ ریاست کی طرف لے جاتا ہے۔یہ جو منطق دی جاتی ہے کہ طاقت کو ہی استعمال کرکے سب کچھ جیتا جاسکتا ہے،اول تو ایسا نہیںہوتا اور اگر کہیں کچھ ہوتاہے تو اس کھیل میں ہمیں سوائے ناکامی کے اور کچھ نہیں ملتا ۔کیونکہ لوگوں کے دلوں میں جو نفرت کے رویے پیدا ہوتے ہیں تو اس کی ایک وجہ کسی بھی سطح پر کمزور طبقات کے خلاف طاقت ہی کا استعمال ہوتا ہے۔
اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ ہم حکومت کی سطح پر طاقت کے استعمال پرمبنی حکمت عملی کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ اس حکمت عملی کے نتیجے میں بطور ریاست داخلی اور خارجی محاذ پر ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہمیں سیاسی مسائل کا حل سیاسی،آئینی اور قانونی فریم ورک میںہی تلاش کرنا ہوگا اور لوگوں کو ساتھ جوڑ کر اپنی حکمت عملیوں کو نئے سرے سے ترتیب دینا ہوگا ۔ یہ ہی حکمت عملی ہمیں ایک مضبوط ریاست کے بننے میں مدد دے سکتی ہے۔