بیجنگ :چینی وزارت خارجہ کے ترجمان گو جیاکھون نے یومیہ پریس کانفرنس میں چین کی جانب سے وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ “بیلٹ اینڈ روڈ” کی مشترکہ تعمیر کی صورتحال کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ وسطی ایشیا نہ صرف بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا آغاز کرنے والا مقام ہے بلکہ اعلیٰ معیار کے بیلٹ اینڈ روڈ کی مشترکہ تعمیر کا مثالی علاقہ بھی ہے۔ چین اور پانچ وسطی ایشیائی ممالک نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو پر تعاون کی دستاویزات پر دستخط کیے ہیں ، اور ترقی کو فروغ دینے اور لوگوں کے ذریعہ معاش کو فائدہ پہنچانے کے لئے اہم منصوبوں کی ایک سیریز پر عمل درآمد کیا ہے۔ 2024 میں چین اور وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان درآمدات اور برآمدات کا حجم 674.

15 ارب یوآن تک پہنچ گیا ، جو 2013 کے مقابلے میں 116 فیصد زیادہ ہے۔ چین۔قازقستان خام تیل پائپ لائن اور چین۔وسطی ایشیا قدرتی گیس پائپ لائن نے باہمی فائدے اور جیت جیت نتائج کے حصول کا ایک نیا ماڈل تیار کیا ہے۔ چین۔تاجکستان ریلوے، چین۔کرغزستان۔ازبکستان ہائی وے اور ریلوے نے علاقائی رابطے کو ایک نئی سطح پر فروغ دیا ہے۔ چین، قازقستان اور ازبکستان نے باہمی ویزا استثنیٰ پر عمل درآمد کیا ہے، لوبان ورکشاپ کے قیام میں تیزی آئی ہے، اور لوگوں کے درمیان تبادلے تیزی سے شروع ہوئے ہیں۔ اعلیٰ معیار کے بیلٹ اینڈ روڈ کی مشترکہ تعمیر دن بدن چین وسطی ایشیا تعاون کی ایک اہم سمت بن چکی ہے۔دوسری چین وسطی ایشیا سربراہ کانفرنس میں سربراہان مملکت مشترکہ طور پر مستقبل کے تعاون کے لیے ایک نیا خاکہ تشکیل دیں گے، “بیلٹ اینڈ روڈ” کی مشترکہ تعمیر کے لئے وسیع ترگنجائش کو فروغ دیں گے، اور چین-وسطی ایشیا کے مزید قریبی ہم نصیب معاشرے کی تکمیل کو فروغ دیں گے۔

Post Views: 4

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: وسطی ایشیائی ممالک کی مشترکہ تعمیر چین وسطی ایشیا بیلٹ اینڈ روڈ

پڑھیں:

علاقائی عدم استحکام کی وجہ اسرائیل ہے ایران نہیں, عمان

سالانہ "منامہ ڈائیلاگ" کانفرنس کیساتھ خطاب میں عمانی وزیر خارجہ نے علاقائی عدم استحکام کا ذمہ دار اسرائیل کو ٹھہراتے ہوئے مشترکہ چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کیلئے خطے کے تمام ممالک کے ہمراہ ایک جامع سکیورٹی فریم ورک کی تشکیل پر زور دیا ہے اسلام ٹائمز۔ عمانی وزیر خارجہ بدر البوسعیدی نے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز (IISS) کے تعاون سے منعقدہ سالانہ "منامہ ڈائیلاگ" کانفرنس میں تاکید کی ہے کہ کشیدگی کو طول دینے کے لئے اسرائیل کے عمدی اقدامات سینکڑوں بے گناہ ایرانی شہریوں کی موت کا باعث بنے ہیں درحالیکہ اسرائیل ہی خطے میں عدم تحفظ کا اصلی منبع ہے، ایران نہیں! عمانی وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ حقیقی سلامتی کی بنیاد تنہاء کر دینے، قابو کر لینے، مسترد کر دینے یا دیوار کے ساتھ لگا دینے کی پالیسیوں پر نہیں بلکہ ان جامع پالیسیوں پر ہے کہ جن میں تمام ممالک شامل ہوں اور خطے کے ممالک کے درمیان مثبت تعامل حاصل کیا جائے۔

بدر البوسعیدی نے کہا کہ ایران نے تمام اسرائیلی جارحیت کے باوجود غیر معمولی تحمل سے کام لیا جیسا کہ تل ابیب نے شام میں ایرانی قونصل خانے پر بمباری کی، لبنان میں اس کے سفیر کو زخمی کیا اور تہران میں ایک سینئر فلسطینی مذاکرات کار کو قتل کیا۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی تخریبی کارروائیاں بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی ہیں اور یہ امر واضح طور پر ثابت کرتا ہے کہ اسرائیل ہی خطے میں عدم تحفظ کا بنیادی سرچشمہ ہے، ایران نہیں!

اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ مسترد کر دینے کی پالیسیاں انتہاء پسندی اور عدم استحکام کو ہوا دیتی ہیں جبکہ جامع مشغولیت سے اعتماد، باہمی احترام اور مشترکہ خوشحالی کی فضا پیدا کرنے میں مدد ملتی ہے، عمانی وزیر خارجہ نے مشترکہ چیلنجوں سے مؤثر طریقے سے نپٹنے کے لئے ایک علاقائی سکیورٹی فریم ورک کے قیام پر بھی زور دیا کہ جس میں ایران، عراق اور یمن سمیت تمام ممالک شامل ہوں۔ عمانی وزیر خارجہ نے جوہری مذاکرات کے دوران ایرانی سرزمین پر اسرائیلی حملے کا بھی حوالہ دیا اور تاکید کرتے ہوئے مزید کہا کہ مسقط، امریکہ اور ایران کو مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ کیلیے امریکی منصوبے کی حمایت میں مسلم ممالک کا اجلاس کل ہوگا
  • ایشیاء میں بڑھتا معاشی بحران
  • علاقائی عدم استحکام کی وجہ اسرائیل ہے ایران نہیں, عمان
  • ’ماشا اینڈ دی بیئر‘ اور روسی قدامت پسندوں کی بے چینی کا سبب کیوں بنا گیا؟
  • برطانیہ اور قطر کے درمیان نئے دفاعی معاہدے پر دستخط
  • امریکا فلپائن مابین مشترکہ فوجی ٹاسک فورس تشکیل دے دی: پینٹاگون
  • قطر اور برطانیہ کے درمیان نئے دفاعی معاہدے پر دستخط
  • پاکستان اور چین کا صنعتی تعاون مزید بڑھانے پر اتفاق
  • چین اور امریکا کو بدلہ لینے کےخطرناک چکر میں نہیں پڑنا چاہیے: چینی صدر کا ٹرمپ سے ملاقات کے بعد بیان
  • پاکستان اور چین کا نیا سنگِ میل، خلائی تعاون میں اہم پیش رفت