بلوچستان حکومت آئندہ مالی سال کا بجٹ منگل کو پیش کرنے جا رہی ہے جس کا ممکنہ حجم ایک کھرب روپے سے زائد ہوگا۔ بجٹ میں تعلیم، صحت ور امن و امان حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہوں گی۔

آئیے جانتے ہیں کہ بلوچستان حکومت نے رواں مالی سال کے دوران اپنے بجٹ کا کتنا فیصد حصہ خرچ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: بجٹ بلوچستان کی ترقی کا جامع روڈ میپ ہوگا، سرفراز بگٹی

بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند کے مطابق بلوچستان حکومت نے مالی سال 2024-25 کے لیے مختص پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (PSDP) کے بجٹ کا 90 فیصد استعمال کر لیا ہے جو کہ صوبے کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ باقی 10 فیصد ترقیاتی بجٹ بھی رواں مالی سال کے اختتام سے قبل جاری کر دیا جائے گا تاکہ جاری ترقیاتی منصوبے مکمل کیے جا سکیں۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ حکومت کا مقصد یہ ہے کہ تعلیم، صحت، پبلک ہیلتھ انجینیئرنگ، ماہی گیری، زراعت اور توانائی جیسے اہم شعبوں کے لیے مختص فنڈز کو مؤثر طریقے سے استعمال کیا جائے تاکہ منصوبے وقت پر مکمل ہوں۔

شاہد رند نے کہا کہ ماضی کی حکومتیں ترقیاتی بجٹ کا صرف 50 سے 60 فیصد حصہ ہی خرچ کر پاتی تھیں جبکہ تاریخی طور پر 62 فیصد سے زائد فنڈز غیر استعمال شدہ رہ جاتے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی کی قیادت میں حکومت نے PSDP کے لیے مختص 200 ارب روپے میں سے 90 فیصد بجٹ استعمال کر لیا ہے۔

مزید پڑھیے: حکومت بلوچستان کا کوئٹہ شہر کے اندر پیپلز ٹرین چلانے کا فیصلہ

وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بلوچستان کے سینیئر صحافی و تجزیہ کار سید علی شاہ نے کہا کہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ ہم نے بجٹ کا 90 فیصد پی ایس ڈی پی خرچ کر لیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں آج بھی اس بات پر بحث ہو رہی ہے کہ کتنا فیصد بجٹ خرچ ہوا اور کتنا لیپس کر گیا۔
بجٹ سے عوام کو کیا فائدہ پہنچا؟

سید علی شاہ نے کہا کہ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کی جانب سے دعویٰ کردہ 90 فیصد بجٹ کیا عوام کو فائدہ پہنچا سکا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کیا عوامی نوعیت کے بڑے منصوبے شروع کیے گئے جس سے عام آدمی کو اسانی ہو۔

انہوں نے کہا کہ حکومت عوام کے لیے 90 فیصد بجٹ خرچ کرے یا 20 فیصد سوال یہ ہے کہ گراؤنڈ ریئیلٹی کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں بسنے والے لوگ آج بھی پتھر کے دور کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔

سید علی شاہ نے کہا کہ حکومت 90 فیصد بجٹ خرچ کرنے پر کامیابی کے اعلانات تو کر رہی ہے لیکن اس 90 فیصد کو خرچ کرنے میں شفافیت کتنی رہی اور کیا پوری ایمانداری سے یہ پیسہ عوام پر خرچ ہوا اور کیا اس 90 فیصد بجٹ کو خرچ کر کے صوبے کا سوشیو اکمانک سسٹم تبدیل ہوا؟

مزید پڑھیں: بلوچستان کا عوام دوست بجٹ تیار کرنے پر مشاورت، اتحادی جماعتوں کی تجاویز شامل کرنے کا فیصلہ

معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ بلوچستان حکومت بجٹ کو مکمل طور پر خرچ کرنے کے بلند وبانگ دعوے کر رہی ہے لیکن گزشتہ مالی سال کے دوران ایک بھی میگا پروجیکٹ شروع نہیں کیا جا سکا۔

کسی بھی قومی شاہراہ کی صورتحال بہتر نہیں ہوا۔ کوئٹہ اور دور دراز علاقوں کے اسپتالوں کی صورتحال مزید بدتر ہوئی، حکومت کے آنے کے بعد سے دہشت گردی میں اصافہ ہوا جس سے کاروباری سرگرمیاں ٹھپ ہو کر رہ گئیں لہٰذا ایسے میں حکومت کا یہ دعویٰ زبانی جمع خرچ کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بلوچستان بلوچستان کا رواں مالی سال کا بجٹ بلوچستان میں ترقیاتی منصوبے.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بلوچستان بلوچستان کا رواں مالی سال کا بجٹ بلوچستان میں ترقیاتی منصوبے بلوچستان حکومت مالی سال کے نے کہا کہ فیصد بجٹ کہ حکومت حکومت نے انہوں نے رہی ہے بجٹ کا کے لیے

پڑھیں:

پنجاب حکومت اسلام آباد جانے دے یا گرفتار کے، بلوچ لانگ مارچ مظاہرین

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 29 جولائی 2025ء) حق دو تحریک کے رہنما اور بلوچستان اسمبلی کے رکن ہدایت اللہ بلوچ نے پنجاب حکومت کےساتھ دن بھر جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حکومت کے پاس اب صرف دو آپشنز ہیں یا وہ ہمیں اسلام آباد جانے کا راستہ دے یا پھر ہمیں گرفتار کر لے۔ '' ہم ہر صورت کل صبح اسلام آباد کے لیے نکلیں گے‘‘

حقوق بلوچستان لانگ مارچ پانچ روز پہلے کوئٹہ سے شروع ہوا تھا۔

اس میں پانچ سو سے زائد بلوچ افراد شریک ہیں۔ اس لانگ مارچ کا اہتمام جماعت اسلامی بلوچستان کی طرف سے کیا گیا تھا۔ یاد رہے حق دو تحریک کے رہنما مولانا ہدایت الرحمن بلوچ جماعت اسلامی کے بلوچستان کے امیر بھی ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس قافلے میں عام بلوچ بڑی بھی تعداد میں شامل ہیں اور وہ اپنے خرچ اور اپنی ٹرانسپورٹ پر اپنے حقوق کے لیے مارچ کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

ان کے مطابق اس لانگ مارچ کا مقصد بلوچستان کے عوام کے بنیادی حقوق کو حاصل کرنا اور وفاق کی توجہ مظالم کی جانب مبذول کروانا ہے۔

منگل کی صبح جب حقوق بلوچستان کے شرکا اسلام آباد جانے کے لیے ملتان روڈ کی طرف جانے لگے توپولیس کے مسلح اہلکاروں کی بڑی تعداد نے انہیں منصورہ کے گیٹ سے باہر آنے کی اجازت نہیں۔ لانگ مارچ کے شرکا نے پچھلی رات لاہور پہنچ کر منصورہ میں قیام کیا تھا۔

منگل کی صبح لانگ مارچ کے دوبارہ آغاز پر منصورہ کو پولیس نے گھیرے میں لیے رکھا اور منصورہ آنے اور جانے والے تمام راستے بند کر دیے گئے۔

اس موقع پر لیڈیز پولیس سمیت متعدد علاقوں سے پولیس کی بھاری نفری منصورہ کے علاقے میں پہنچائی گئی تھی جبکہ واٹر کینن اور قیدیوں کی بسوں کے علاوہ وہاں پولیس کی درجنوں گاڑیاں بھی موجود تھیں۔

اس موقعے پر منصورہ کے باہر ملتان روڈ کو ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا۔

پنجاب حکومت کے مذاکراتی وفد کی سر براہ سینئر منسٹر مریم اورنگ زیب نے لانگ مارچ کے شرکا کو مطالبات منظور کروانے کی یقین دہانی کروائی لیکن ان کی اس پیشکش کو بلوچ رہنماوں نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ ان کے پاس یہ مطالبات منظور کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ بلوچ رہنماؤں نے پنجاب حکومت کی اس پیشکش کو بھی مسترد کر دیا جس میں انہیں پروٹوکول کے ساتھ لگژری گاڑیوں میں اسلام آباد پہنچانے کی پیش کش کی گئی تھی۔

پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے خود فون کرکے جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ سے بات کی اور انہیں اس معاملے کو حل کرانے کے لیے کردار ادا کرنے کی درخواست کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت کسی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے اس معاملے کو افہام و تفہیم سے حل کرنا چاہتی ہے۔ پنجاب حکومت نے بلوچوں کے مسائل کے حل کے لیے ایک کمیٹی بنانے کی بھی پیشکش کی۔

ڈی ڈبلیو کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں اس لانگ مارچ کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمن بلوچ نے بتایا کہ بلوچستان حکومت بے اختیار ہے اور بلوچوں کے بارےمیں سارے فیصلے اسلام آباد میں ہوتے ہیں اور وہ اسلام آباد جاکر اپنے مطالبات وہاں کے اصل حکمرانوں کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں۔

ہدایت الرحمان بلوچ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا، ''میں ایک پرامن اور جمہوری سیاسی کارکن ہوں پاکستان اور آئین پاکستان کو مانتا ہوں لیکن میری بات بھی نہیں سنی جا رہی ہے۔

‘‘

اپنے مطالبات کے حوالے سے پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ لاپتا افراد کو رہا کیا جائے، افغانستان اور ایران کے ساتھ بلوچستان کے بارڈرز کھولے جائیں۔ چیک پوسٹوں پر بلوچ عوام کی تذلیل بند کی جائے ، بلوچستان کی زمین اونے پونے داموں دوسرے صوبوں کے با اثر لوگوں کو نہ بیچی جائے، سی پیک میں بلوچوں کی مشاورت شامل کی جائے اور معدنیات پر ان کا حق تسلیم کیا جائے۔

ہدایت الرحمن بلوچ نے بتایا کہ انہیں لانگ مارچ سے پیچھے ہٹ جانے کے لیے دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ مظفر گڑھ کے ایک سینیئر پولیس اہلکار نے ان تک یہ پیغام پہنچایا تھا کہ اگر انہوں نے لانگ مارچ جاری رکھا تو ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ '' پنجاب کے لوگوں کی طرف سے ہمیں اچھا ریسپانس مل رہا ہے عام لوگوں نے اس مارچ میں ہمیں عزت دی ہے۔

لیکن میڈیا پر ہمارا بلیک آوٹ کیا جا رہا ہے‘‘

سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی امیر العظیم نے پنجاب حکومت کی کارروائی کو اوچھے ہتھکنڈے قرار دیتے ہوئے شدید مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ پرامن مظاہرین کو روکے بغیر آگے بڑھنے دے۔

صوبائی دارالحکومت لاہور کے منصورہ مرکز میں لیاقت بلوچ کا پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہمیں اسلام آباد جانےدیا جائے،حکومت گرفتارکرتی ہے توکرلے۔ نائب امیر جماعت اسلامی کا مزید کہنا تھا کہ لانگ مارچ طےشدہ پلان کےمطابق آگے بڑھے گا۔

متعلقہ مضامین

  • حکومت پشاور یونیورسٹی کی درپیش مالی مشکلات ترجیحی بنیادوں پر حل کرے. عبدالواسع
  • ڈالر کتنا گرنے والا ہے، کیا اب یہ آپ کو بیچ دینے چاہییں؟
  • حکومتی ہدف  4.2، آئی ایم ایف نے پاکستان کی شرح نمو 3.6 فیصد رہنے کی پیشگوئی کر دی
  • مانیٹری پالیسی کمیٹی نے شرح سود 11 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے،گورنر سٹیٹ بینک جمیل احمد کی پریس کانفرنس
  • لاہور، جماعت اسلامی اور پنجاب حکومت کے حق دو بلوچستان مارچ پر مذاکرات کامیاب
  • اسٹیٹ بنیک کا شرح سود 11 فیصد پر برقرار رکھنے کا اعلان
  • پاکستان کی معاشی شرحِ نمو ہدف سے کم رہے گی، آئی ایم ایف کی پیشگوئی
  • رواں مالی سال پاکستان کی جی ڈی پی شرح 3.6 فیصد رہے گی: آئی ایم ایف  
  • پنجاب حکومت اسلام آباد جانے دے یا گرفتار کے، بلوچ لانگ مارچ مظاہرین
  • وزیراعظم نے پاک بزنس ایکسپریس کا افتتاح کردیا، ٹرین کا کرایہ کتنا ہوگا؟