Islam Times:
2025-11-03@01:44:48 GMT

ایرانی مزاحمت میں شیعہ سیاسی تاریخ اور کربلا کے اثرات

اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT

ایرانی مزاحمت میں شیعہ سیاسی تاریخ اور کربلا کے اثرات

اسلام ٹائمز: ایران عراق جنگ کے دوران ایک خاتون اپنے چار فرزند شہید کروانے کے بعد کہتی ہے کہ کاش میرے مزید بیٹے ہوتے تو میں انھیں بھی اسلام پر قربان کر دیتی۔ 13 جون 2025ء کو جو ایرانی جرنیل اور سائنسدان اسرائیل نے شہید کیے، تقریباً سبھی ایران عراق کی جنگ کے دوران شہادت کا شوق لیے میدان میں اترے تھے، تاہم خدا نے انکو بعد کیلئے محفوظ رکھا۔ یہ جرنیل ایک ہی خواہش رکھتے تھے کہ خداوند کریم ہمیں ہمارے ساتھیوں سے ملا دے۔ خدا نے انکی آرزو پوری کر دی۔ اب بھی ایران میں ایسے لاکھوں افراد موجود ہیں، جو اسی جذبے کے ساتھ زندہ ہیں، حتی کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای بھی انہی افراد میں سے ایک ہیں، جو ایران عراق جنگ کی باقیات ہیں۔ تحریر: سید اسد عباس

کسی بھی دستیاب ذریعے سے اپنے اہداف کو حاصل کرنا، اس کے لیے ظلم کرنا، کسی کو قتل کرنا، غصب کرنا، لوٹ مار کرنا اور اس کے برعکس اہداف کے حصول کے ذریعے ظلم سے اجتناب، یہ انسان کی فکری بنیادوں سے متعلق چیزیں ہیں۔ اگر کوئی شخص ظلم کر رہا ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ وہ جس بھی نظری یا فکری سسٹم سے متعلق ہے، اس میں یا تو ظلم بری چیز نہیں یا وہ درحقیقت اس سسٹم پر عمل پیرا ہی نہیں ہے۔ ظلم دنیا کے کسی بھی مذہب میں روا نہیں ہے۔ یہودیت، مسیحیت، اسلام، بدھ مت، ہندو مت کسی بھی مذہب کی تعلیمات کو اٹھا لیجیے، ظلم ہر مذہب میں مذموم ہے۔ اس کے باوجود ان کے مذاہب کے ظاہراً نام لیوا ظلم کرتے دکھائی دیتے ہیں، جو اس بات کی بین دلیل ہے کہ یا تو مذہب کی تشریح میں کوئی مسئلہ ہے یا پھر ظالم درحقیقت کسی اور فکری و عقیدتی نظام کی پیروی کر رہا ہے۔

ظلم نہ کرنا اور ظلم کے خلاف قیام کرنا بھی ایسا ہی ہے، اس کا تعلق بھی انسان کے فکری نظام سے ہے۔ آج دنیا میں ظلم کے خلاف قیام کرنے والے افراد کسی نہ کسی فکری سلسلے سے وابستہ ہیں۔ اسلام مسلمانوں کو ظلم کے خلاف قیام اور مظلومین کی مدد کے لیے جہاد کی دعوت دیتا ہے اور اس کی سب سے برتر یا کامل ترین مثال واقعہ عاشورہ ہے۔ "مثلی لا یبایع مثله" (میرے جیسا کبھی اس (یزید) جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا)۔ "ھیھات من الذلۃ" (ذلت ہم سے دور ہے)۔ کربلا ظلم کے خلاف قیام، عدل کی طلب اور طاغوتی قوتوں سے نفرت جیسے نظریات کی عملی تفسیر ہے۔ یہ وہ درسگاہ ہے، جو انسان کو سکھاتی ہے کہ دینی اقدار کے لیے کیا بچایا اور کیا قربان کیا جانا چاہیئے۔

ہم جانتے ہیں کہ ایران ایک شیعہ اکثریتی ملک ہے، جہاں کے مرد و زن دنیا میں آمد سے لے کر لحد میں اترنے تک کربلا سے جڑے رہتے ہیں۔ مجالس، عزاداری، تعزیہ داری، نیاز و سبیل، تاریخ تشیع اور سب سے بڑھ کر کربلا ایرانی معاشرے کی ذہنی ساخت، افکار اور اعمال کی تشکیل میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ شیعہ آئمہ کی تاریخ ان کی مختلف مظالم کے مقابل مزاحمت شیعی فکر اور سوچ کا حصہ ہے۔ شیعہ بچہ یہ سنتے ہوئے جوان ہو جاتا ہے کہ ہمارے آئمہ نے ہر ظالم و جابر کے خلاف قیام کیا اور جان کی پروا نہ کرتے ہوئے ہمیشہ کلمہ حق کو بلند رکھا۔ شیعہ جن شخصیات کی پیروی کرتے ہیں، وہ سب کے سب یا زندانوں میں زہر سے قتل ہوئے یا میدان جنگ میں اپنے خون سے نہائے۔

یہاں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ مجالس و عزاداری تو دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ہے، مگر وہاں کے اجتماعی رویوں پر اس کے اثرات کیوں نہیں۔ یہ درست نہیں ہے کہ مجلس و عزاداری انسانی فکر کو ضرور متاثر کرتی ہے، مجلس و عزاداری سے جڑا ہوا شخص کبھی بھی ظلم کو پسند نہیں کرے گا، ظلم کرنے سے اجتناب کرے گا، اگر وہ کوئی غلطی انجام دیتا بھی ہے تو احساس ندامت اسے جینے نہیں دیتا۔ یہ ذکر حسین ؑ کے معجزات میں سے ایک ہے، جو صدیوں سے ہر لمحہ ظہور کرتا ہے۔ اہل فارس کا ایک تاریخی پس منظر ہے، یہ ایک بڑی تہذیب تھی، قومی افتخار پر مرمٹنے والے، تشیع اور عزاداری نے اس قوم کے فکری نظام کو جلا بخشی، امام خمینی نے اس قوم کے سامنے کربلا کی تشریح کچھ اس انداز سے کی کہ یہ قوم ایک ناقابل تسلیم قوت کے روپ میں سامنے آئی۔

ایران کے روحانی پیشوا، رہبر انقلاب امام خمینی نے اپنے انقلاب کو متعدد مقامات پر کربلا کا فیض قرار دیا۔ امام خمینی نے فرمایا "ما ملت حسینیم" (ہم امام حسین ؑ کی قوم ہیں)، "کل یوم عاشورا، کل ارض کربلا" (ہر دن عاشورا ہے اور ہر زمین کربلا کی سرزمین ہے)، "نہضت ما، پرتوی از نہضت امام حسین است" (ہماری یہ تحریک امام حسین ؑ کی تحریک کا ایک کرن ہے)،" امام حسین به ما آموخت که در برابر ظلم و ستم باید ایستادگی کرد، ولو آنکه جمعیت ما کم باشد" (امام حسین ؑ نے ہمیں سکھایا کہ ہم ظلم کے مقابل کھڑے رہیں، خواہ ہماری تعداد کم ہو)، "ہمارا رہبر وہ 13 سالہ بچہ ہے، جو اپنے چھوٹے سے دل کے ساتھ، جس کی قدر ہماری سینکڑوں زبانوں اور قلموں سے زیادہ ہے، اپنے جسم سے بم باندھ کر ٹینک کے نیچے چلا جاتا ہے"، "محرم وہ مہینہ ہے، جس میں عدل نے ظلم کے مقابل قیام کیا اور حق باطل کے سامنے ڈٹ گیا۔"

انقلاب اسلامی ایران کی تاریخ سے آگاہ لوگ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ شاہ ایران کی مخالفت کی بنیادی وجہ ایران میں معاشی اور معاشرتی مسائل کے ساتھ ساتھ شاہ ایران کا ایرانی ثقافت اور مذہبی رسوم کے ساتھ کھلواڑ تھا۔ ایسے میں ایران کی روحانی قیادت نے قیام کیا اور شاہ ایران کا تختہ پلٹ دیا۔ ایرانی قوم نے انقلاب ایران کے فوراً بعد عراق کی جانب سے مسلط کردہ جنگ کو آٹھ برس لڑا اور لاکھوں قربانیاں پیش کیں، جن کے پیچھے بھی کربلا ہی نظر آتی ہے۔ ایران عراق جنگ کے دوران ایک خاتون اپنے چار فرزند شہید کروانے کے بعد کہتی ہے کہ کاش میرے مزید بیٹے ہوتے تو میں انھیں بھی اسلام پر قربان کر دیتی۔ 13 جون 2025ء کو جو ایرانی جرنیل اور سائنسدان اسرائیل نے شہید کیے، تقریباً سبھی ایران عراق کی جنگ کے دوران شہادت کا شوق لیے میدان میں اترے تھے، تاہم خدا نے ان کو بعد کے لیے محفوظ رکھا۔

یہ جرنیل ایک ہی خواہش رکھتے تھے کہ خداوند کریم ہمیں ہمارے ساتھیوں سے ملا دے۔ خدا نے ان کی آرزو پوری کردی۔ اب بھی ایران میں ایسے لاکھوں افراد موجود ہیں، جو اسی جذبے کے ساتھ زندہ ہیں، حتی کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای بھی انہی افراد میں سے ایک ہیں، جو ایران عراق جنگ کی باقیات ہیں۔ یہاں ایک بات قابل ذکر ہے، ہم ایک قوم کے فکری سسٹم کی بات کر رہے ہیں، یہاں ہمارا مقصد کسی قوم، شخصیت کے ہر اقدام کو حق کی سند عطا کرنا نہیں ہے۔ اقوام اور شخصیات غیر معصوم ہیں، ان سے غلطی ہوسکتی ہے اور ایرانی قوم اس اصول سے مبرا نہیں۔ آج پوری مسلم دنیا میں ایران کی مزاحمت کی تعریفیں ہو رہی ہیں، عالم اسلام میں ہر شخص خوش ہے کہ ایران نے اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کا غرور خاک میں ملا دیا۔

اسرائیل کے شہر جن کو وہ ناقابل تسخیر اور ناقابل رسائی سمجھتا تھا، وہاں ایرانی میزائلوں کی گھن گرج آج پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے۔ آئرن ڈوم، تھاڈ، سب سے بہترین فضائی آلات، جدید ترین طیارے سب ناکام ہوگئے۔ ایرانی میزائل جو ہائپر سانک ٹیکنالوجی کے حامل ہیں، اسرائیلی ائیر ڈیفنس سسٹم کو پچھاڑ کر اپنے اہداف کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ آج پاکستانی کالم نگاروں کی ایک بڑی تعداد نے ایران اسرائیل جنگ کو حق و باطل کا معرکہ قرار دیا، کچھ نے اسے مظلومین کی چنگھاڑ قرار دیا۔ بعض لکھتے ہیں کہ ایران پر حملہ عالم اسلام پر حملہ ہے۔ ایرانی ناکامی عالم اسلام کی ناکامی ہوگی اور اس کے بعد عالم اسلام کا کوئی ملک محفوظ نہیں ہوگا۔

خورشید ندیم نے درست لکھا کہ آج فقط مذمتی بیانات سے کام نہیں چلے گا۔ عالم اسلام کو عملی طور پر ایران کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا، تاکہ اسرائیل اور اس کے پشت پناہ امریکہ کی پیشرفت کو روکا جا سکے۔ انھوں نے درست لکھا کہ ایران اس وقت تنہا ظالموں اور جابروں کے خلاف کھڑا ہے۔ عالم اسلام اگرچہ زبانی طور پر اس کی حمایت کر رہا ہے، تاہم عملاً کسی جانب سے کوئی مدد موصول نہیں ہو رہی۔ شنید ہے کہ قطر، اردن اور عرب امارات ایرانی میزائلوں کو روکنے میں اسرائیل کی مدد کر رہے ہیں۔ کچھ کالم نویس پریشان ہیں کہ نہیں معلوم ایران کب تک اپنا دفاع کرسکے گا۔ ایران جب تک اپنا دفاع کرے، اس نے عالم اسلام پر حجت تمام کر دی ہے کہ عزت کا راستہ جرات و بہادری کا راستہ ہے۔

اگر اکیلا ایران کم وسائل کے باوجود اسرائیل پر قیامت بن کر نازل ہوسکتا ہے تو عالم اسلام کے دیگر ممالک جو اسلام کے رو سے رشتہ اخوت میں بندھے ہوئے ہیں، مل کر اسرائیل اور اس سرپرستوں کو کس مشکل سے درپیش کرسکتے ہیں، تاہم اس کے لیے اسلام کی آفاقی تعلیمات پر ایمان درکار ہے۔ اس کے لیے آپ کا فکری نظام درست ہونا چاہیئے، آپ کے رول ماڈلز ایسے ہونے چاہییں، جو اسلام کی تعلیمات کا عملی نمونہ ہوں۔ اسماعیل ہنیہ، یحییٰ سنوار، اہل غزہ بھی تو اسی عالم اسلام کا حصہ ہیں، ہماری تاریخ ایسے جری اور باعمل مسلمانوں سے پر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان حکمران اپنی فکری بنیادوں کو اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ کریں اور اپنی مسئولیت کو نتائج جانے بغیر انجام دیں۔ اگر آج ایران کی مزاحمت کمزور ہوئی تو پھر ترکی، سعودیہ، امارات، ملائشیا، پاکستان بلکہ کوئی بھی اسلامی ملک آزاد اور خود مختار نہیں رہے گا۔ کل غزہ ہماری فرنٹ لائن تھا، آج ایران اسلام کی فرنٹ لائن ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ظلم کے خلاف قیام ایران عراق جنگ جنگ کے دوران عالم اسلام بھی ایران دنیا میں جو ایران اسلام کی ایران کے ایران کی اسلام پر کہ ایران کے ساتھ نہیں ہے ہیں کہ ایک ہی کے لیے اور اس

پڑھیں:

تاریخ کی نئی سمت

ایک امیدکی کرن تھی، غزہ کا امن معاہدہ کہ اس کے بعد جنگ کے بادل چھٹ جائیں گے، مگر ایسا لگ نہیں رہا ہے۔ غزہ امن معاہدے کے فوراً بعد امریکا نے روسی تیل کمپنیوں پر پابندی عائد کردی، یوں ٹرمپ اور پیوتن کے مابین ہنگری میں ہونے والی ملاقات ملتوی ہوگئی۔

پیوتن صاحب اس خوش فہمی کا شکار تھے کہ پچھلے دورکا صدر ٹرمپ واپس آئے گا لیکن ایسا نہ ہوسکا کیونکہ صدر ٹرمپ جو پہلے روس کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں تھا، تھک گیا اور اب وہ یوکرین کے ساتھ اسی طرح کھڑے ہیں جیسے جوبائیڈن کھڑا تھا۔

نیٹو آج بھی یوکرین کے ساتھ ہے۔ روس کی تیل کمپنیوں پر امریکی پابندی کے بعد، ہندوستان نے اندرونی طور پر امریکا کو یہ یقین دلایا ہے کہ وہ روس سے تیل نہیں خریدیں گے اور ایسا ہی وعدہ چین نے بھی کیا ہے، توکیا ایسا کہنا درست ہوگا کہ جو اتحاد چین نے امریکا کے خلاف بنایا تھا۔ 

لگ بھگ دو مہینے قبل تقریباً تیس ممالک کے سربراہان کی بیجنگ میں میزبانی کی وہ اس امیج کو برقرار نہ رکھ سکا۔ البتہ چین کی تیز رفتار ٹیکنالوجی نے امریکا کو پریشان ضرورکردیا ہے۔ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی میں امریکا کے بعد چین ہی سب سے بڑا نام ہے۔ اس سال کی سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ صدر ٹرمپ اور چین کے صدرکی ملاقات ہے۔

اس منظر نامے میں روس اب نیوکلیئر جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ روس کا یہ اسٹیٹمنٹ دنیا کو ایک خطرناک موڑ پر لاسکتا ہے اور ایسا ہو بھی رہا ہے۔ روس کبھی یہ بیان جاری کرتا ہے کہ انھوں نے اپنے ایٹمی میزائلوں کا رخ برطانیہ کے مخصوص شہروں کی طرف کردیا ہے، پھر وہ جرمنی کو اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دیتے ہیں۔

نیٹو اور یورپین یونین کی تیاری مکمل ہے اگر روس نے کوئی پہل کی۔ کچھ ہی دن قبل روس کے ڈرون نے پولینڈ کی سرحدیں پارکیں اور ایک دو دن پہلے ہی نیٹو نے یورپین یونین کی حدود میں داخل ہوتا روس کا ڈرون مارگرا یا۔

ہندوستان اور پاکستان کشیدگی میں اب افغانستان بھی حصہ دار بن گیا ہے ۔ ہم نے جو ماضی میں غلطیاں کی تھیں، ان سے ہم سبق تو ضرور سیکھ رہے ہیں لیکن وقت بہت گزر چکا ہے۔ پاکستان کے بارے میں یہ خیال آرائی کی جاتی ہے کہ اندرونی مسائل کے باعث جنگ جھیل نہیں سکے گا اور (خاکم بدہن) پاکستان ٹکڑوں میں بٹ جائے گا۔

یہ تمام خیالات افغان پالیسی سے جڑے تھے۔ جس طرح سے انگریز یہاں اپنے وفاداروں کو جاگیریں بطور انعام بانٹتے تھے، اسی طرح سے ہم نے بھی افغانوں اور ان کے پاکستانی ہم نشینوں اور حامی شرفاء کی ایک نسل تیارکی جنھیں پڑھایا اور یقین دلایا گیا کہ افغانستان کبھی غلام نہیں رہا اور افغان جنگجو قوم ہے۔

ہم نے یہاں مدرسوں میں افغانوں اور پاکستانیوں کی ایک ایسی نسل تیارکی جوکل تک سائیکل چلاتے تھے اور آج درجنوں مسلح محافظوں کے ہجوم میں لگژری گاڑیوں اورڈالوں پر سواری کرتے ہیں ۔

افغان پالیسی کا دیمک ہمیں اندرونی طور پر لگا،اب ہمارے ہر شہر، قصبوں اور گاؤں میں ان کے مفادات کا تحفظ کرنے والے لوگ موجود ہیں، افغان تو حکومت افغانستان میں کرتے تھے، ان کے کاروبار پاکستان میں تھے اور وہ رہتے بھی پاکستان میں تھے۔

پاکستان کے خلاف قوتیں جہاں بھی موجود تھیں، وہاں ہندوستان نے اپنے مراسم بڑھائے۔ ہندوستان نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بڑھائے ، جب ٹرمپ صاحب نے اپنے کارڈزکھیلے تو پتا چلا کہ دوست کو ن اور دشمن کون! جو دوست بن کرکام کررہے تھے، وہ ڈبل گیم کھیل رہے تھے ۔

فرض کریں کہ اگر امریکا کی پالیسی ہندوستان کے حوالے سے اب بھی ویسی ہی ہوتی جیسی کہ جوبائیڈن کے دورِ میں تھی تو یقیناً پاکستان آج بہت مشکل میں ہوتا ، آج پاکستان کے ساتھ امریکا بھی ہے اور چین بھی۔ سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ہمیشہ ہی اچھے رہے لیکن اب ان میں مزید مضبوطی پیدا ہوئی ہے۔

اپنی صف میں ہم نے دراصل ایک دشمن کی پہچان کی ہے۔ وہ دشمن جو بھائی بنا رہا لیکن اب ہندوستان کی گود میں بیٹھا ہے ۔ اور طالبان کو یہ سمجھ آگیا ہے کہ اگر وہ حدیں پارکرتا ہے تو پاکستان ان کی حکومت کو ختم کرسکتا ہے۔ اب ہندوستان میں آنے والے انتخابات میں مودی کی شکست واضح نظر آرہی ہے ۔

ہندوستان کے اندر متبادل قیادت ابھرنے والی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں برِصغیر ہیں، دونوں کی تاریخ ایک ہے، دونوں نے حملہ آوروں کا مقابلہ کیا ہے، لہٰذا دونوں ممالک کے درمیان امن ہونا چاہیے۔ دونوں ممالک کے درمیان جنگ میں دنیا خوش ہوگی لیکن دونوں ممالک کی عوام نہیں۔ افغانستان بھی امن کے ساتھ رہنا چا ہتا ہے، ’ہاں‘ اگر طالبان اور انتہاپسند افغانستان کا ماضی بن جائیں۔

مودی صاحب جو ہندوستان کو دنیا کی چوتھی طاقت بنانا چاہتا تھا وہ اب ہندوستان کی معیشت کے لیے خود مسئلہ بن چکے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ نریندر مودی کے دور میں ہندوستان کی معیشت مضبوط ہوئی مگر اب ہندوستان کی تجارت کو مشکلات کا سامنا ہے اور وجہ ہے امریکا کی ناراضگی۔

گزشتہ تین چار برسوں میں پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ بہتری کے حوالے سے ہماری معیشت نے وہ ٹارگٹ تو حاصل نہیں کیا لیکن مستحکم ضرور ہوئی ہے اور ترقی کی رفتار بھی بہتر ہے۔

افغانستان والے گوریلا وار کے ماہر ہیں۔ وہ پاکستان کے ساتھ روایتی جنگ نہیں لڑ سکتے۔ ہندوستان کا افغانستان کے ساتھ مل کر جنگ لڑنا آسان نہیں۔ جنگ کے لیے جذبہ ہونا لازمی ہے اور اس حوالے سے ہندوستان کی فوج بہت کمزور ہے۔

اسی جذبے کی تحت پاکستان کے افواج آج دنیا میں سرخرو ہیں۔ مودی صاحب کی ہٹ دھرمی کو ٹرمپ صاحب ایک ہی وار میں توڑ دیا۔ یہ چرچا پوری دنیا میں عام ہے۔ہندوستان نے اپنے اتحادیوں کو بری طرح سے نالاں کیا ہے، جن پتوں پر ان کو ناز تھا آج وہ ہی پتے ہوا دینے لگے۔

نادرن افغانستان، محمد شاہ مسعود اب ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔ ایک لبرل اور اعتدال پسند افغانستان کی نگاہیں ہم پر مرکوز ہیں۔ ہمیں ان ماڈرن افغانستان کی بات کرنے والی قوتوں کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔

پاکستان کی سیاست میں ایک نئی فالٹ لائن پیدا ہوئی ہے۔ موجودہ حکومت یقینا ایک ہائبرڈ گورنمنٹ ہے اور بری حکمرانی ہے سکہ رائج الوقت لیکن اس وقت کوئی نعم البدل نہیں اور اگر ہے بھی تو تباہی ہے،کیونکہ ان کے تانے بانے بھی طالبان سے ملتے ہیں۔

نو مئی کا واقعہ یا اسلام آباد پر حملے ان تمام کاروائیوں میں افغان بھی ملوث تھا۔نئے بین الاقوامی اتحاد بن بھی رہے ہیں اور ٹوٹ بھی رہے ہیں۔ یوکرین کی جنگ کے تناظر میں یہاں بہت کچھ بدل گیا ہے۔

ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے اس دور میں ہمیں اپنی بقاء کے لیے اتنی ہی تیزی سے تبدیلیاں لانی ہونگی۔ یقینا پاکستان آگے بڑھے گا، بہ شرط کہ ہم اپنی تاریخ کی سمت درست کریں۔

متعلقہ مضامین

  • جماعت ِ اسلامی: تاریخ، تسلسل اور ’’بدل دو نظام‘‘ کا پیغام
  • جوہری تنصیبات دوبارہ پہلے سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ تعمیر کریں گے، ایرانی صدر کا اعلان
  • غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
  • مشہد مقدس، شیعہ علماء کونسل کے مرکزی ایڈیشنل سیکرٹری جنرل علامہ ناظر تقوی کا ایم ڈبلیو ایم کے دفتر کا دورہ 
  • ایران نیوکلیئر مذاکرات کے لیے تیار، میزائل پروگرام پر ’کوئی بات نہیں کرے گا‘
  • وزیر تجارت سے ایرانی سفیر کی ملاقات: اقتصادی تعاون بڑھانے پر اتفاق
  • تاریخ کی نئی سمت
  • دشمن کو رعایت دینے سے اسکی جارحیت کو روکا نہیں جا سکتا، حزب اللہ لبنان
  • ایران میں امریکی سفارتخانے پر قبضے کے گہرے اثرات
  • آزادکشمیر کی 78سالہ سیاسی تاریخ میں ایسے حالات کبھی بھی نہیں تھے ،جو پچھلے  ڈیڑھ سال میں خراب ہوئے ،سردارتنویر الیاس