کیا امریکہ اور اسرائیل ایران میں کامیاب ہو جائیں گے؟
اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ایران کی گذشتہ پینتالیس سالہ تاریخ کے مطالعہ کے بعد یہ کہنا بے جا نہیں ہے کہ امریکہ اور اسرائیل نے ایک بہت بڑی غلطی کا ارتکاب ایران پر حملہ کی صورت میں کیا ہے اور یہی غلطی انکو ہلاک کر رہی ہے۔ ایران جو گذشتہ پینتالیس سالوں سے امریکی اور غاصب صیہونی گینگ اسرائیل سمیت مغربی اور یورپی ممالک سمیت خطے کی خیانت کار عرب حکومتوں کی غداریوں سے چوٹ کھاتا آرہا ہے، وہ ایسے درجنوں تجربات سے گزر چکا ہے، جو کچھ 13 جون کی صبح سے شروع ہوا ہے، تاہم دنیا بھر کے ماہرین سیاسیات کے نزدیک یہ بات بہت واضح ہوچکی ہے کہ امریکہ سمیت غاصب صیہونی گینگ اسرائیل کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا اور ایران اس جنگ کے بعد ایک نیا، مضبوط اور طاقتور ایران بن کر ابھرے گا۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
غزہ، لبنان، یمن اور عراق میں امریکی و اسرائیلی پالیسیوں کو بری طرح شکست کا سامنا ہے۔ یہ منظرنامہ خاص طور پر سات اکتوبر یعنی فلسطین کے طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد کا ہے۔ امریکی حکومت نے تمام تر کوشش کرکے دیکھ لی ہے، لیکن نہ تو فلسطین میں حماس اور جہاد اسلامی کا خاتمہ ممکن ہوا اور نہ ہی لبنان میں حزب اللہ کو کمزور کرنے کی منصوبہ بندی کام آئی۔ اس سارے عرصہ میں اگر کچھ حاصل ہوا تو فی الوقت شام کا کچھ علاقہ اسرائیلی فوج کے لئے مزید قبضہ کیا گیا اور جولانی جیسے دہشتگرد کے ساتھ ٹرمپ کی تصویر آئی، جس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ امریکی پالیسیاں کامیاب ہو رہی ہیں، لیکن امریکہ سمیت خود یورپی اور غرب ایشیائی ممالک کے سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تو انتہائی بھونڈا پن تھا۔ البتہ شام میں حکومت کی تبدیلی کو امریکہ اور اسرائیل کے حق میں قرار دیا جا سکتا ہے، کیونکہ شام کی نئی حکومت نے اسرائیل کے ساتھ تعاون کی بنیاد پر حکومت حاصل کی ہے اور اس میں ہمیشہ کی طرح مسلم امہ کے اندر کے غداروں کا کردار بھی نمایاں رہا ہے، جیسا کہ ترکی۔
دوسری طرف یمن کی صورتحال ہے کہ جہاں امریکہ اور برطانیہ نے ایک طرف جنوبی یمن میں سعودی عرب اور امارات کے ساتھ مل کر یمن کی انصاراللہ حکومت کے خلاف سازشوں کا بازار گرم کیا اور ساتھ ساتھ امریکی اور اسرائیلی دہشتگردی کا نشانہ بنا کر صنعا اور دیگر شہروں پر بمباری بھی کی گئی۔ نتیجہ میں یمن کی مزاحمت نے امریکی صدر ٹرمپ کو مجبور کر دیا کہ وہ اپنے بحری جہازوں کی حفاظت کی ضمانت لینے یمن کے دوست ملک مسقط کے پاس چلے گئے اور پھر وہاں سے ہی اعلان کر دیا کہ امریکہ نے یمن کے ساتھ جنگ بندی کر دی ہے اور یمن کی مسلح افواج امریکی جہازوں کو نشانہ بنانے سے گریز کریں۔ حالانکہ اس سے قبل امریکی صدر نے چند دن میں دو ارب ڈالر کا گولہ بارود یمن پر برسایا تھا، لیکن ناکامی کا عالم یہ تھا کہ یمن کی مسلح افواج سے درخواست کی گئی کہ امریکی جہازوں کو امان دی جائے اور اس طرح بحیرہ احمر میں امریکہ نے غاصب صیہونی گینگ اسرائیل کے بحری جہازوں کو یمن کی مسلح افواج کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔
تمام سیاسی ماہرین نے اس عمل کو امریکی حکومت کی بہت بڑی شکست قرار دیتے ہوئے امریکی بالادستی کی ناکامی قرار دیا۔ دوسری طرف شام پر قبضہ کے بعد امریکی حکومت نے عراق کی حکومت کو دبائو کا نشانہ بنانا شروع کیا اور عراق سے مطالبہ کیا جانے لگا کہ وہ ایران کے ساتھ تعلقات محدود کرے اور ساتھ ساتھ عراقی فوج میں کمی کی جائے۔ حیرت کی بات ہے کہ امریکی حکومت دنیا کے دوسرے ممالک سے ایسے بے ہودہ مطالبات کرتی ہے کہ جس سے ان ممالک کی اپنی سکیورٹی بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ عراق کی حکومت اگرچہ بہت زیادہ مضبوط نہیں ہے، لیکن عراقی حکومت نے پھر بھی امریکی حکومت کے دبائو کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کیا۔ عراق کی حکومت نے واضح موقف اختیار کیا کہ عراق اپنی سرکاری فوجوں کہ جس میں حشد الشعبی بنیادی حصہ ہے، اس کو کسی صورت فوج سے الگ نہیں کیا جائے گا۔ اس معاملہ میں بھی امریکی حکومت کو شکست اور ہزیمت کا تاحال سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اب ذرا ملاحظہ کیجئے کہ فلسطین، غزہ اور لبنان و یمن سے لے کر عراق تک امریکی حکومت کی بالا دستی کو ناکامی کا سامنا ہے۔ اس تمام تر شکست کا بدلہ لینے کے لئے امریکی حکومت نے ایران کو از سر نو گھسیٹنے کی کوشش کی۔ پہلے ایران کو اس کے جوہری پروگرام کے بہانہ سے روکنے کی کوشش کی، اس سے قبل امریکی حکومت نے ہمیشہ یہی واویلا کیا کہ خطے میں اسرائیل کے خلاف ہونے والی فلسطینی مزاحمت کے پیچھے ایران ہے اور ایران ان کی حمایت کرتا ہے۔ لہذا جب جوہری مذاکرات کا آغاز دوبارہ ہوا تو یہاں بھی امریکی حکومت نے ہر دور میں اسرائیل کی سکیورٹی مانگی، جس پر ایران نے ہمیشہ اس بات کو مذاکرات کا حصہ بنانے پر امریکی مذاکرات کاروں کی مذمت کی۔ جوہری مذاکرات میں امریکی عہدیداروں کا مطالبہ رہا کہ فلسطین سمیت خطے میں موجود تمام مزاحمتی گروہوں کو ختم کیا جائے۔
اس معاملہ میں ایران نے واضح اور دوٹوک موقف اپنایا اور امریکی حکام کو بلا واسطہ مذاکرات میں واضح کیا کہ ایران فلسطین کاز اور ان کی مزاحمت کی حمایت کرتا ہے، جبکہ فلسطین کے اندر اور فلسطین سے باہر مزاحمتی تحریکیں خود مختار اور آزاد ہیں، جو کہ ایران کی سرپرستی میں یا ڈکٹیٹر شپ میں نہیں ہیں، تاہم ایران ایسے مطالبات کو رد کرتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ امریکی حکومت پہلے کی طرح اس مرتبہ بھی اس بات کو باور کرچکی تھی کہ مذاکرات میں ایران کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ ان مذاکرات سے قبل ہی ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای یہ بات واضح کرچکے تھے کہ امریکہ ایک کے بعد ایک مطالبہ کرے گا اور چاہے مذاکرات ہوں یا نہ ہوں، امریکہ کبھی بھی ایران کے حق کو تسلیم نہیں کرے گا، کیونکہ امریکہ یہ چاہتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں صرف طاقت کا مرکز غاصب صیہونی گینگ اسرائیل ہونی چاہیئے۔
اسی لئے انہوں نے امریکہ کو للکار کر کہا تھا کہ تم ہوتے کون ہو، ایرانی عوام کو یہ بتانے والے کہ ایران کے پاس کیا ہوگا اور کیا نہیں ہوگا۔ یعنی انہوں نے ایک جملہ میں امریکی بالا دستی کو خاک میں ملا کر رکھ دیا تھا۔ امریکہ اور غاصب صیہونی گینگ اسرائیل دونوں ہی مایوس ہو کر اس نتیجہ پر پہنچے کہ ایران کے خلاف فوجی کارروائی کی جائے اور اس حوالے سے بین الاقوامی ادارے آئی اے ای اے کا مشکوک اور تعصبانہ کردار بھی قابل مذمت رہا ہے کہ جس نے حقائق کے بر خلاف ایران کے خلاف قرارداد منظور کی اور اس کے بعد غاصب صیہونی گینگ اسرائیل نے غنڈہ گردی کا مظاہرہ کیا اور ایران پر حملہ کر دیا۔
اب یہ جنگ جاری ہے، آج جنگ کا چوتھا روز ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ اور اسرائیل کامیاب ہو جائیں گے۔؟ یقینی طور پر حالات اور واقعات کو دیکھتے ہوئے اور ایران کی گذشتہ پینتالیس سالہ تاریخ کے مطالعہ کے بعد یہ کہنا بے جا نہیں ہے کہ امریکہ اور اسرائیل نے ایک بہت بڑی غلطی کا ارتکاب ایران پر حملہ کی صورت میں کیا ہے اور یہی غلطی ان کو ہلاک کر رہی ہے۔ ایران جو گذشتہ پینتالیس سالوں سے امریکی اور غاصب صیہونی گینگ اسرائیل سمیت مغربی اور یورپی ممالک سمیت خطے کی خیانت کار عرب حکومتوں کی غداریوں سے چوٹ کھاتا آرہا ہے، وہ ایسے درجنوں تجربات سے گزر چکا ہے جو کچھ 13 جون کی صبح سے شروع ہوا ہے، تاہم دنیا بھر کے ماہرین سیاسیات کے نزدیک یہ بات بہت واضح ہوچکی ہے کہ امریکہ سمیت غاصب صیہونی گینگ اسرائیل کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا اور ایران اس جنگ کے بعد ایک نیا، مضبوط اور طاقتور ایران بن کر ابھرے گا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: غاصب صیہونی گینگ اسرائیل امریکہ اور اسرائیل امریکی حکومت ہے کہ امریکہ اسرائیل کے اور ایران کہ امریکی حکومت نے کہ ایران ایران کے کی حکومت کے ساتھ رہا ہے کے بعد کی اور گا اور کیا جا یمن کی نے ایک ہے اور
پڑھیں:
امریکہ نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ کشیدگی کے دوران ممکنہ تباہی کو ٹالنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا .ٹیمی بروس
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔13 اگست ۔2025 )امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے کہا ہے کہ امریکہ نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ کشیدگی کے دوران ممکنہ تباہی کو ٹالنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا واشنگٹن میں پریس بریفنگ کے دوران ٹیمی بروس نے بتایا کہ اس وقت امریکی قیادت نے فوری طور پر دونوں ممالک سے رابطہ کر کے کشیدگی کو ختم کرنے کی کوشش کی. امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق ترجمان محکمہ خارجہ نے کہا کہ یقیناً ہم نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایسا تنازع دیکھا جو کسی بھیانک صورت حال میں بدل سکتا تھا اس وقت میں محکمہ خارجہ میں موجود تھی اور فوری طور پر نائب صدر، صدر اور وزیر خارجہ کی سطح پر اقدامات شروع ہوگئے تھے انہوں نے کہاکہ امریکی نائب صدر، صدر اور سیکرٹری آف سٹیٹ نے فوری طور پر معاملے کو سنجیدگی سے لیا اور صورت حال سنبھالنے کے لیے اقدامات کیے. انہوں نے کہا کہ امریکی صدر سب کو جانتے اور سب سے بات کرتے ہیں جس سے اختلافات کم کرنے میں مدد ملتی ہے امریکی ترجمان نے کہاکہ ہمارے دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات اچھے ہیں اور یہاں کے سفارتکار ان تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے پ±رعزم ہیں. ٹیمی بروس نے پاکستان کے ساتھ جاری سکیورٹی تعاون کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد میں حال ہی میں ہونے والے امریکہ-پاکستان کاﺅنٹر ٹیررازم ڈائیلاگ میں دونوں ممالک نے دہشت گردی کی تمام صورتوں کے خلاف مشترکہ عزم کا اعادہ کیا. انہوں نے کہاکہ اس ڈائیلاگ میں دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے تعاون بڑھانے کے طریقوں پر بات کی گئی۔(جاری ہے)
خطے اور دنیا کے لیے یہ خوشخبری ہے کہ امریکہ دونوں ممالک کے ساتھ کام کر رہا ہے واضح رہے کہ اسلام آباد میں ہونے والے اس ڈائیلاگ کی مشترکہ صدارت پاکستان کے سپیشل سیکرٹری برائے اقوام متحدہ نبیل منیر اور امریکی محکمہ خارجہ کے قائم مقام کوآرڈینیٹر برائے انسداد دہشت گردی گریگوری ڈی لوگرفو نے کی یہ اجلاس امریکہ کی جانب سے بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور مجید بریگیڈ کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیے جانے کے ایک روز بعد ہوا.
دونوں ممالک نے اس بات پر زور دیا کہ بی ایل اے، داعش خراسان اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سمیت تمام دہشت گرد گروہوں سے نمٹنے کے لیے موثر حکمت عملی اپنانا ضروری ہے امریکی وفد نے دہشت گرد عناصر کو قابو میں رکھنے میں پاکستان کی کامیابیوں کو سراہا اور جعفر ایکسپریس ٹرین حملے اور خضدار سکول بس بم دھماکے میں جانی نقصان پر افسوس کا اظہار کیا مذاکرات میں ادارہ جاتی ڈھانچے کو مضبوط بنانے اور نئی ٹیکنالوجی کے دہشت گرد مقاصد کے لیے غلط استعمال کو روکنے پر بھی غور کیا گیا.