عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد
اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT
اسباب ومحرّکات جو بھی ہوں، زہریلے شیش ناگ کی طرح پھَن پھیلا کر پھنکارنے والی تلخ حقیقت یہ ہے کہ علوم وفنون کی ترقی، ایجادات میں حیرت انگیز پیش رفت، عالی شان درس گاہوں کی چشم کُشا تحقیقات، مصنوعی ذہانت کی کرشمہ سامانیوں، پُرامن بقائے باہمی، کے دلکُشا نعروں، بنیادی انسانی حقوق کے قصیدوں اور سلطانیِٔ جمہُور کی کارفرمائی کے باوجود دنیا بڑی تیزی سے جنگل کے قانون کی طرف پلٹ رہی ہے۔ فریب کاریوں کا رنگ وروغن اُتر رہا ہے اور دَرو دیوار پہ کندہ، حقیقتِ اَزلی وابدی کے الفاظ روشن ہو رہے ہیں کہ ’’بھینس اُسی کی ہے جس کے ہاتھ میں لاٹھی ہے۔‘‘ انگریزی میں اسے ’’مائٹ اِز رائٹ‘‘ (Might is Right) کہا جاتا ہے۔ کوئی دو سوسال قبل چارلس ڈارون کے نظریے کو ’’سب سے طاقت ور کی بقا‘‘ (Survival of the Fittest) کے اصول میں ڈھالا گیا تھا۔ مفہوم یہ ہے کہ غلبہ صرف طاقت وَر اور زبردست کو حاصل ہوتا ہے۔ زندہ وہی رہے گا جو اپنے ماحول اور گردوپیش کا مقابلہ کرنے کی سب سے زیادہ سکت اور طاقت رکھتا ہے۔ یعنی زندگی کا حق صرف طاقت ور کو ہے۔ یہ تصوّر شرفِ انسانیت اور ارفع اخلاقی اقدار کے کتنا ہی منافی سہی، ہر عہد میں زندہ رہا ہے۔ اگر تھوڑا وقفہ آیا بھی تو یہ تازہ توانائی کے ساتھ زندہ تر ہوکے اُبھرا۔ محشر بدایونی نے کہا تھا
اَب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا
کوئی ایک صدی قبل، پہلی جنگِ عظیم کے بعد سوچا گیا کہ آئندہ ایسے انسانی المیّوں کے سدِّباب کے لئے کچھ کرنا ہوگا۔ سوچ بچار کے بعد ’’جمعیّتِ اقوام‘‘ (League of Nations) کی بنیاد رکھی گئی۔ اپنی آزادی وخود مختاری کے منافی خیال کرتے ہوئے امریکہ نے اس میں شامل ہونے سے انکار کردیا۔ وقفے وقفے سے، مختلف وجوہات کی بنا پر روس، جرمنی اور جاپان بھی خارج ہوگئے۔ لیگ کی نمائندہ حیثیت کمزور ہوتی چلی گئی۔ اُس نے بعض معاملات میں جُزوی کامیابیاں ضرور حاصل کیں لیکن کوئی رُبع صدی بعد، 1939ء میں دوسری جنگِ عظیم کا آتش فشاں پھٹ پڑا جو لگ بھگ 9 کروڑ انسانوں کو نگل گیا۔ ہیروشیما اور ناگا ساکی ایٹم بموں کا نشانہ بنے۔ تین لاکھ انسان بھسم ہوگئے۔ دنیا نوع بہ نوع آفات اور مسائل کے دلدل میں دھنستی چلی گئی۔ ایک پوری نسلِ انسانی زندہ دَرگور ہوگئی۔
1945ء میں جنگ ختم ہوئی تو دنیا ایک بار پھر، ملبے اور راکھ کے ڈھیر پر بیٹھی ۔ سیانوں نے کہاکہ جنگوں جیسے سفاک المیّوں کی روک تھام کے لئے موثر تدابیر کرنا ہوں گی۔ سو اقوام متحدہ (UNO) وجود میں آئی۔ سلامتی کونسل، عالمی عدالتِ انصاف، عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق جیسے ذیلی یا خودمختار ادارے قائم ہوئے۔ ترقی پزیر ممالک کی مدد اور باہمی تعاون کے لئے ورلڈ بنک، آئی۔ایم۔ایف اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن جیسے ادارے بنے۔ بنیادی مقصد ایک ہی تھا کہ دنیا امن آشنا ہو۔ جنگوں کو روکا جائے۔ طاقت وروں کو عالمی قوانین اور ضابطوں کے تحت لایاجائے لیکن طاقت کے ’ اتھرے گھوڑے‘ کو لگام نہ ڈالی جاسکی۔ اقوام متحدہ کے قیام کے دو سال بعد ہی اسرائیل عرب جنگ کا شعلہ بھڑکا۔ پھر کوریا کی جنگ شروع ہوگئی جو تین سال جاری رہی۔ گیارہ برس تک ویت نام جنگ کی لپیٹ میں رہا۔ افغانستان پر روس اور امریکہ کی یلغار تیس برس تک آگ اور خون کا کھیل کھیلتی رہی۔ آٹھ برس تک عراق جنگ کی تباہ کاریوں کی زد میں رہا۔1980ء میں شروع ہونے والی ایران عراق جنگ آٹھ سال جاری رہی۔ 1990ء میں عراق کویت پر چڑھ دوڑا۔ پچھلے دو برس سے روس یوکرین جنگ جاری ہے۔ بیس ماہ سے اسرائیل نے غزہ کو درندگی کی شکار گاہ بنا رکھا ہے جہاں اٹھارہ ہزار بچوں اور تیرہ ہزار خواتین سمیت، پچپن ہزار افراد شہید ہوچکے ہیں۔ سنگ دلی کی انتہا یہ ہے کہ بے سروساماں لوگوں تک خوراک اور ادویات پہچانے کے راستے بھی بند ہیں۔
جنگِ عظیم دوم کو ختم ہوئے اَسّی برس ہوچکے ہیں۔ اس کے بعد سے مختلف جنگوں کے مجموعی ماہ وسال کا حساب لگایاجائے تو یہ بھی اَسّی سال ہی بنتے ہیں۔ انسانیت نے سُکون کا سانس نہیں لیا۔ گذشہ ماہ اسرائیل جیسا رعونت شعار بھارت، طاقت کے نشے میں پاکستان پر چڑھ دوڑا۔ اللہ کے فضل سے پاکستان بے بال وپر نہیں۔ سو اُس نے جوابی وار کرکے صرف ساڑھے تین گھنٹوں میں بھارت کو ا پنی اوقات یاد دِلادی۔ چند دنوں بعد اسرائیل نے ایران پر حملہ کر دیا۔ لمحوں میں اُس کی عسکری قیادت اور صفِّ اوّل کے ایٹمی سائنس دانوں کو، چُن چُن کر قتل کر دیاگیا۔ اسرائیل کے سینکڑوں طیارے آزادی سے ایرانی تنصیبات کو نشانہ بناتے رہے۔ ایران نے مقدور بھر ردّعمل دیا۔ کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ جنگ کتنا طول پکڑتی اور کیا اثرات چھوڑ جاتی ہے۔ اسرائیل کی دلیل وہی لاکھوں برس پرانی ہے جو اندھی، گونگی، بہری طاقت کے بطن سے جنم لیتی ہے کہ میرا اسلحہ خانہ بھلے ہلاکت آفریں ایٹمی ہتھیاروں سے بھرا پڑا ہے، تم یورینیم کیوں افزودہ کر رہے ہو؟ ہمیں یقین ہے کہ تم نے بم بنا لیا تو ہمیں مارو گے۔‘‘
یہ سب کچھ اُن عالمی ’’نگہداروں‘‘ (Watch Dogs) کی موجودگی میں، اُن کی آنکھوں کے عین سامنے ہو رہا ہے جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد بلند بانگ دعووں کے ساتھ وجود میں آئے تھے۔ اس کے اہلکار آج بھی عالی شان بلند وبالا دفاتر کے آسودگی بخش کمروں میں بیٹھے ہیں۔ کوئی جھُرجھری لے کے اعلامیہ جاری کرتا ہے تو کسی ناتواں پرندے کے پَر کی طرح رِزق ہوا ہوجاتا ہے۔ کوئی نِیم جاں سی قرارداد منظور ہوتی ہے تو اُس کے سینے میں ویٹو کا خنجر گھونپ دیا جاتا ہے۔ کسی ادارے میں سکت نہیں کہ وہ اپنے مقاصد اور مینڈیٹ کو بروئے کار لاسکے۔ طاقت کا عفریت دندنا رہا ہے۔ تمام قانون، قاعدے اور ضابطے، کسی چارٹر نہیں، بندوق کی نالی سے پھوٹ رہے ہیں۔
اسرائیل کھولتے ہوئے آتش فشاں کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ اپنے چاروں مسلم ہمسایہ ممالک کو مفلوج ومطیع کرنے کے بعد اَب وہ نئے اہداف کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ایران اس کے دِل میں کیکر کے لمبے کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے۔ پاکستان کو بھی وہ بڑا دشمن خیال کرتا ہے۔ جن مسلم ممالک کو اسرائیل سے کچھ خوش فہمی ہے وہ سرابِ فکر ونظر کا شکار ہیں۔ سو اُن کے لئے پہلا سبق تو یہی ہے کہ وقار کے ساتھ زندہ رہنا ہے تو اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرنا ہوگی۔ علّامہ اقبال نے کہا تھا کہ ’’عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد۔‘‘ عصا ہوگا تو ہماری بات میں کوئی وزن بھی ہوگا اور ہم اپنی چار دیواری کو آوارگانِ دشت سے بچا بھی سکیں گے۔ عصا کو ایٹمی صلاحیت کے محدود معنوں میں نہیں لینا چاہیے۔ اس کی اَن گنت شکلیں ہیں۔ دوسرا اہم سبق یہ ہے کہ عالمِ اسلام کو، کم ازکم، اسرائیل کے حوالے سے ایک واضح مشترکہ حکمتِ عملی اپنانا ہوگی۔ ایسی خود دار اور توانا حکمت عملی جو اُس کے وجود کا احساس دلا سکے۔ عرب لیگ اور اسلامی کانفرنس تنظیم، قبروں پر لگے کتبوں کے سوا کچھ نہیں۔ اہم اسلامی ممالک کو ایک نئے عزم کے ساتھ انگڑائی لینا ہوگی۔ پیشتر اس کے کہ تل ابیب کے زہرناک آتشیں دہانے سے پھوٹتا لاوہ، ایک ایک کرکے ہر دروازے پہ دستک دے، اسلامی دنیا کو عالمِ غنودگی سے نکلنا ہوگا۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: یہ ہے کہ کے ساتھ کے بعد رہا ہے
پڑھیں:
ٹیکنالوجی جنگیں جیتتی ہے، انسانیت جانیں ہارتی ہے
ٹیکنالوجی جنگیں جیتتی ہے، انسانیت جانیں ہارتی ہے WhatsAppFacebookTwitter 0 15 June, 2025 سب نیوز
تحریر: محمد محسن اقبال
جب سے انسانی تہذیب کا آغاز ہوا ہے، انسان جنگ و جدل کی تلخ راہوں میں الجھا رہا ہے — کبھی زمین کی توسیع کے لیے، کبھی دشمنوں کو زیر کرنے کے لیے، اور کبھی مظلوموں کو آزادی دلانے کے لیے۔ ابتدائی ادوار میں فتح کا انحصار سپاہیوں کی جسمانی طاقت اور ہتھیاروں کی تیزی پر ہوتا تھا۔ تلواریں، نیزے اور تیر کمان میدانِ جنگ کی پہچان تھے۔ گھوڑوں اور ہاتھیوں پر سوار لشکر ایک دوسرے سے ٹکرا کر فیصلہ کرتے تھے کہ کون فاتح ہے، اور اس کا دار و مدار انفرادی دلیری اور طاقت پر ہوتا تھا۔
لیکن جب نویں صدی میں چین میں بارود ایجاد ہوا اور چودھویں صدی میں یورپ میں اسے عسکری مقاصد کے لیے استعمال کیا جانے لگا، تو جنگ کی نوعیت بدلنے لگی۔
بارود کے ذریعے توپ خانے اور بندوقوں نے جنگ کا نقشہ ہی بدل دیا۔ تیر و کمان کی جگہ اب توپ اور بندوق نے لے لی اور فوجی ترتیب و حکمت عملی ہمیشہ کے لیے تبدیل ہو گئی۔ نپولین کی جنگوں میں توپخانے، پیادہ فوج اور گھڑ سوار دستوں کا غیر معمولی اشتراک دیکھا گیا۔
بیسویں صدی، بالخصوص عالمی جنگوں کے دوران، جنگی ٹیکنالوجی میں حیرت انگیز ترقی ہوئی۔ ٹینک، آبدوزیں، لڑاکا طیارے اور بالآخر ایٹم بم جیسی ہلاکت خیز ایجادات منظرِ عام پر آئیں۔
1945 میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے گئے، جنہوں نے سائنسی ترقی کے تباہ کن پہلو کو دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا۔ دو لاکھ کے قریب جانیں تلف ہوئیں، اور آئندہ نسلیں بھی ان اثرات سے محفوظ نہ رہ سکیں۔ جنگ اب صرف جسمانی قوت سے نہیں جیتی جا سکتی تھی، بلکہ ٹیکنالوجی کی برتری پورے شہر لمحوں میں مٹا سکتی تھی۔
اس کے بعد شروع ہونے والی سرد جنگ نے کھلی لڑائی کے بجائے ٹیکنالوجیکل مقابلہ بازی کو فروغ دیا۔ سیٹلائٹس، نیوکلیئر آبدوزیں، طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل، اور جاسوسی ڈرونز نہ صرف دفاع بلکہ خفیہ کارروائیوں کا حصہ بن گئے۔
1991 کی خلیجی جنگ پہلی بار ٹی وی پر براہِ راست نشر کی جانے والی جنگ بنی، جہاں امریکہ کی قیادت میں اتحاد نے سیٹلائٹ گائیڈڈ میزائلوں اور اسٹیلتھ طیاروں کے ذریعے جنگی کارروائیاں کیں۔
اکیسویں صدی میں جنگی میدان نے نیا موڑ لیا ہے۔ اب فتح کا انحصار صرف زمینی، فضائی یا بحری قوت پر نہیں بلکہ سائبر اسپیس اور خلا میں برتری پر بھی ہے۔ ڈرونز، مصنوعی ذہانت، ہائپر سونک میزائل، اور برقی مقناطیسی ہتھیار جنگی اصولوں کو ازسرنو ترتیب دے رہے ہیں۔ اب ایک انسان سے ہلکا ڈرون ہزاروں میل دور بیٹھے آپریٹر کے ذریعے ایک اہم ہدف کو مکمل درستگی سے ختم کر سکتا ہے — بغیر کسی انسانی خطرے کے۔
اس تیز رفتار تکنیکی تبدیلی کی عملی مثال پاکستان نے 7 مئی 2025 کو بھارتی جارحیت کے جواب میں دی، جب چند منٹوں میں پاکستان نے جدید فضائی دفاعی نظام استعمال کیا اور بغیر پائلٹ ڈرونز اور ہدفی میزائلوں سے بھارتی اہداف کو نشانہ بنایا، جس نے بھارت کی روایتی فوجی تیاریوں کو غیر مؤثر کر دیا۔ یہ مختصر مگر فیصلہ کن کارروائی اس بات کا ثبوت تھی کہ آج کی جنگیں بڑی فوجی نقل و حرکت کے بجائے رفتار، درستگی اور الیکٹرانک حکمت عملی پر منحصر ہو چکی ہیں۔
دو روز قبل اسرائیل نے ایران پر ایسی ہی ایک منصوبہ بند اور تیز کارروائی کی۔ اطلاعات کے مطابق اسرائیلی لڑاکا طیارے اسٹیلتھ ٹیکنالوجی کے ذریعے ایرانی فضائی حدود میں داخل ہوئے جبکہ سائبر یونٹس نے ایرانی کمیونیکیشن اور ریڈار نظام کو بیک وقت ناکارہ بنا دیا۔ یہ کارروائی مختصر ضرور تھی، مگر جدید جنگ کے ارتقاء کا ایک نیا باب ثابت ہوئی، جہاں اطلاعاتی جنگ، نگرانی کی صلاحیت، اور درستگی سے نشانہ بنانے کی قوت فوجی طاقت پر غالب آ چکی ہے۔
ان حالیہ واقعات سے ایک بات واضح ہو گئی ہےکہ بہادری، جسمانی طاقت اور براہِ راست تصادم کا زمانہ گزر چکا ہے۔ اب ریموٹ کنٹرول سے کی جانے والی کارروائیاں، الگورِدھم پر مبنی جنگ، اور سینسرز پر انحصار نئی حقیقت ہیں۔ میدان میں لڑنے والا سپاہی آج بھی اہم ہے، مگر اب وہ جنگی نظام کے ایک پیچیدہ اور وسیع تر پہیے کا محض ایک پرزہ ہے، جسے انجینئرز، ڈیٹا سائنسدانوں اور خفیہ اداروں کے ماہرین چلاتے ہیں۔
تاہم اس تمام ترقی کے باوجود، ایک ناقابلِ تردید حقیقت اب بھی باقی ہے — جنگ تباہی ہے۔ چاہے وہ تلواروں سے لڑی جائے یا سیٹلائٹس سے، نتیجہ ہمیشہ موت، نقل مکانی اور بربادی کی صورت میں نکلتا ہے۔ مہذب معاشرے جو امن، ترقی اور خوشحالی کے خواہاں ہوتے ہیں، وہ جنگ کے بوجھ کو برداشت نہیں کر سکتے۔ معیشتیں تباہ ہو جاتی ہیں، نسلیں متاثر ہوتی ہیں، اور سماجی ڈھانچے بکھر جاتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کی برتری فوجی کامیابی تو دے سکتی ہے، مگر جنگ کے زخموں کا مداوا نہیں کر سکتی۔
ہمارے وقت کا سب سے بڑا تضاد یہی ہےکہ وہی سائنس جو خلا میں سیٹلائٹ بھیج سکتی ہے، وہی ایک میزائل کو شہر برباد کرنے کے لیے رہنمائی دے سکتی ہے۔ انسانیت کا اصل امتحان یہ نہیں کہ جنگ کیسے جیتی جائے، بلکہ یہ ہے کہ اسے کیسے روکا جائے۔
تاریخ نے ہمیں بارہا سکھایا ہے کہ کوئی قوم، چاہے جتنی بھی طاقتور ہو، جنگ کے اثرات سے محفوظ نہیں رہتی۔
ڈرون حملوں اور سائبر حملوں کے اس دور میں عالمی قوتوں کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ پائیدار امن صرف طاقت سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ سائنسی ترقی کے ساتھ ساتھ سفارتی سنجیدگی، باہمی احترام، اور بین الاقوامی تعاون بھی لازم ہے۔ بصورت دیگر، ہم اپنی عظیم ایجادات کو اپنے عظیم ترین افسوس کا سبب بنا لیں گے۔
ماضی ہمیں خون سے لکھے اسباق دے چکا ہے، اور حال ہمارے سامنے ایک آئینہ ہے، جس میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہم کیا بن سکتے ہیں۔ اگر ہم نے تاریخ کی تنبیہات کو نہ سنا، تو چاہے مستقبل کتنا ہی روشن کیوں نہ ہو، وہ اسی تاریکی میں ڈوبا رہے گا جو انسانیت پر تلواروں کے دور سے مسلط ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرایران: دنیا کی سب سے بڑی گیس فیلڈ پر اسرائیلی حملے کے بعد پیدوار جزوی معطل مسلم دنیا پر مربوط جارحیت عبدالرحمان پیشاوری__ ’عجب چیز ہے لذتِ آشنائی‘ غزہ اور فلسطین: مسلم دنیا کا امتحان بیلٹ اور بندوق: بھارت کے انتخابات پاکستان کے ساتھ کشیدگی پر کیوں انحصار کرتے ہیں؟ مُودی کا ”نیو نارمل” اور راکھ ہوتا سیندور! اٹھائیس مئی قوم کی خودمختاری کا دنCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم