مقامی سولر پینلز کا معیار انتہائی ناقص ہے، سولر پر ٹیکس نہیں ہونا چاہیے، اختیار بیگ
اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT
پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی مرزا اختیار بیگ نے کہا ہے کہ مقامی سولر پینلز کا معیار انتہائی ناقص ہے، سولر پر ٹیکس نہیں ہونا چاہیے۔
سید نوید قمر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس ہوا، اراکین کمیٹی نے سولر پینل پر سیلز ٹیکس کی مخالفت کی۔
مرزا اختیار بیگ نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) سمیت تمام جماعتوں کے اراکین کمیٹی اس ٹیکس کی مخالفت کررہے ہیں، میں تو کہتا ہوں سولر پر ٹیکس ہونا ہی نہیں چاہئیے۔
ان کا کہنا تھا کہ مقامی سولر پینلز کی کوالٹی انتہائی ناقص ہے۔
اجلاس میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کمیٹی کو بریفنگ دی اور کہا کہ وزیر اعظم نے خصوصی ہدایات کی ہیں کہ ایف بی آر افسران کو گرفتاری کے اختیارات کو کم کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے ہدایت کی ہے کہ گرفتاری کے قانون کو غلط استعمال نہ کیا جائے، ایف بی آر کے تین ممبرز کی کمیٹی ٹیکس فراڈ میں ملوث افراد کی گرفتاری کی منظوری دے گی۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ تین ممبرز کمیٹی گرفتاری کے لیے کمشنر کو ہدایات جاری کرے گی
ٹیمپرنگ اور جعلی انوائسز پر گرفتاری کی جا سکے گی، 5 کروڑ روپے کے ٹیکس فراڈ پر گرفتاری کا اختیار ہوگا۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ 5 کروڑ روپے سے کم ٹیکس فراڈ پر گرفتاری نہیں ہوگی، ٹیکس فراڈ میں ملوث افراد کو تین شوکاز نوٹسز جاری کیے جائیں گے، ٹیکس فراڈ میں ملوث افراد اگر شوکاز نوٹسز کا جواب نہیں دے رہا تو گرفتاری ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر خطرہ ہو کہ ملزم بھاگ جائے گا تو گرفتاری ممکن ہو سکے گی، گرفتاری سے قبل چار شرائط لاگو ہوں گی، اگر عدالت میں یہ ثابت ہو کہ افسر نے بد دیانتی پر گرفتاری کی تو افسر کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ سبسڈی رجیم ختم کی جارہی ہے، چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ سولر پر ٹیکس سے بیس ارب روپے ریونیو آنا ہے، بیس ارب روپے ریونیو اور بیس ارب روپے سبسڈی ملا کر چالیس ارب روپے بن جاتا ہے یہ چالیس ارب روپے کہیں سے دیدیں ہم سولر پر ٹیکس نہیں لگائیں گے۔
اراکین کمیٹی نے کہا کہ حکومت ٹیکنالوجی ٹرانسفر پر فوکس کرے، کوئی تخلیقی آئیدیا تلاش کریں، متبادل کے طور پر مشروبات ہر ٹیکس لگا کر یا بڑھا کر ریونیو حاصل کیا جائے، ایک طرف کاربن لیوی لگائی جارہی ہے اور کہا جارہا ہے کہ اسکا مقصد گرین انرجی کو فروغ دینا ہے۔
اراکین کمیٹی نے کہا کہ دوسری طرف سولر پر ٹیکس لگا کر حوصلہ شکنی کی جارہی ہے ہمیں تو حکومت کی اس پالیسی کی سمجھ نہیں آرہی۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ مارکیٹ میں صرف چھ سات کمپنیاں ہیں جو سولر پینل بنارہی ہیں،
چیئرمین کمیٹی نوید قمر نے کہا کہ ابھی مارکیٹ شیئر اتنا ہوا نہیں ہے اور مراعات پہلے ہی دے رہے ہیں۔
رکن کمیٹی شاہرام خان نے کہا کہ پاکستان میں سولر کی ڈیمانڈ ہے تو ضروری ہے کہ حکومت ٹیکنالوجی ٹرانسفر کی پانچ دس سال کی پالیسی ڈائریکشن دے۔
جاوید حنیف نے کہا کہ مقامی انڈسٹری کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیئے، اس سال 27ہزار میگاواٹ کے سولر پینل درآمد ہوچکے ہیں، سولر پینلز کی پاکستان میں ڈمپنگ ہورہی ہے۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ سولر پینلز کی درآمد پر ٹیکس لاگو ہونا چاہیے، سولر پینلز کی امپورٹ کی آڑ میں منی لانڈرنگ بھی ہورہی ہے، سولر پینلز کی امپورٹ میں اوور انوائسنگ ہورہی ہے۔
دریں اثنا سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے سولر پر 18 فیصد ٹیکس ختم کرنے کی سفارش کردی۔
چیئرمین سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت اجلاس کے دوران کمیٹی اراکین نے کہا بجٹ سے پہلے مخصوص لوگوں نے سولر امپورٹ کرکے ذخیرہ کرلیے، بجٹ میں سولر کی درآمد پر اچانک 18 فیصد ٹیکس عائد کر دیا گیا۔
چیئرمین سلیم مانڈوی والا نے سولر پر ٹیکس واپس لینے کا مطالبہ کردیا، انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کو نئے طیاروں کی لیز پر سیلز ٹیکس سے استثنا دیا گیا، یہ امتیازی قانون ہے ورنہ یہ تمام ایئر لائنز کیلئے ہونا چاہئے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ تجویز جیسے ہی پاس ہوگی ،عدالت میں چیلنج ہو جائے گی، ہوائی جہاز کو کیپٹل گڈز کے طور پر لینے سے ایئرلائن متاثر ہوتی ہے۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ اس تجویز پر اٹارنی جنرل سے بات کر کے دوبارہ کمیٹی میں لائیں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: چیئرمین ایف بی آر ان کا کہنا تھا کہ سولر پینلز کی اراکین کمیٹی سولر پر ٹیکس پر گرفتاری ٹیکس فراڈ نے کہا کہ ارب روپے نے سولر
پڑھیں:
ایف بی آر کو گرفتاری کا اختیار دینا کالا قانون ہے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی(کامرس رپورٹر)پاکستان بزنس گروپ (PBGO) کے بانی اور سابق چیئرمین کاٹی، فراز الرحمٰن نے فنانس بل 2025 میں شامل اس متنازع شق کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے جس کے تحت ایف بی آر کو کمپنیوں کے سی ای اوز، سی ایف اوز اور ڈائریکٹرز کو ٹیکس فراڈ کے الزام میں گرفتار کرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے۔فراز الرحمٰن کا کہنا ہے کہ یہ قانون نہ صرف سرمایہ کاروں کو ڈرانے کی ایک کوشش ہے بلکہ ملکی معیشت پر بھی سنگین اثرات مرتب کرے گا۔ ان کے مطابق، ایسے قوانین ٹیکس نظام کو بہتر نہیں بناتے، بلکہ رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان کے لیے ایک سزا بن جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ:> “تاریخ گواہ ہے کہ جب جب ٹیکس نظام کو آسان بنایا گیا، لوگ خود بخود ٹیکس نیٹ میں شامل ہوتے گئے۔ مگر آج کی حکومت الٹا راستہ اختیار کر رہی ہے — وہ نان فائلرز کی تعداد بڑھانا چاہتی ہے جبکہ رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان کو عزت دینے کے بجائے اب ان پر ہتھکڑیاں ڈالنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ یہ قانون تاریخ میں کالا قانون کہلائے گا۔”فراز الرحمٰن نے واضح کیا کہ اگر کوئی شخص نان فائلر ہونے کے باوجود جائیداد یا گاڑی خریدتا ہے اور پھر بھی فائلر نہیں بنتا، تو اس کی اصل ذمہ داری حکومت اور اس کے اداروں کی نااہلی پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکمران طبقے نے بار بار غریب اور متوسط طبقے کو نشانہ بنایا ہے اور اب کاروباری طبقے کو بھی ہراساں کیا جا رہا ہے۔