Jasarat News:
2025-08-02@10:22:21 GMT

مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال!

اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ایران پر اسرائیلی حملے کے بعد صورتحال کا رُخ تیزی سے بدل رہا ہے، حملے کے بعد ایران نے جس عزم کا اظہار کیا تھا، اس کے تحت بڑے پیمانے پر اسرائیل پر میزائل حملے جاری ہیں، جس کے جواب میں اسرائیل کی جانب سے بھی ایران کی اہم عمارتوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے، پیر کے روز اسرائیل نے ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن اور ریڈیو نیٹ ورک IRIB کے ہیڈکوارٹرز پر تہران میں فضائی حملہ کیا، اسرائیل کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس نے خاتم الانبیاء سینٹرل ہیڈ کوارٹر کے ایران کے نئے مقرر کردہ سربراہ علی شادمانی کو شہید کر دیا ہے جبکہ ایران نے اسرائیل کا ایف 35 لڑاکا جہاز مارگرایا۔ ادھر ایرانی پاسداران انقلاب نے اسرائیلی شہریوں کو تل ابیب فوری طور پر خالی کرنے کا انتباہ جاری کیا ہے، یہ اعلان اسرائیل کے ایرانی سرکاری ٹیلی ویژن پر حملے کے بعد آیا، پاسداران انقلاب نے کہا کہ وہ تل ابیب میں عسکری تنصیبات اور حکومتی مراکز کو نشانہ بنانے کے لیے بڑا حملہ کریں گے اور شہریوں کو خبردار کیا کہ وہ فوری طور پر شہر چھوڑ دیں۔ دوسری جانب اسرائیل نے تہران کے رہائشیوں کو فوری انخلا کا انتباہ جاری کیا، جہاں سرکاری ٹیلی ویژن، پولیس ہیڈکوارٹرز اور تین بڑے اسپتال واقع ہیں۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ اس علاقے میں ’’فوجی تنصیبات‘‘ کو نشانہ بنائے گا۔ حالات و واقعات اس امر کی صاف نشاندہی کر رہے ہیں کہ ایران کے خلاف گھیرا تنک کرنے کی پلاننگ مکمل کر لی گئی ہے۔ ایران پر اسرائیل کے فوجی حملوں اور معاشی دباؤ کے باعث تہران مشکل صورتحال سے گزر رہا ہے۔ عالمی برادری بھی ایران سے مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ جوہری مذاکرات دوبارہ شروع کرے۔ ایران نے جنگ روکنے اور مذاکرات بحال کرنے کے لیے پیغامات بھیجے ہیں، لیکن وہ کمزور پوزیشن سے مذاکرات کرنے پر تیار نہیں، ایرانی وزیر ِ خارجہ عباس عراقچی کا کہنا ہے ہم نے مذاکرات کی میز کبھی نہیں چھوڑی مگر اس وقت تہران کا فوکس اسرائیل جارحیت سے نمٹنے پر ہے۔ ماہرین کے مطابق ایران کے پاس دو راستے ہیں یا تو مذاکرات کی میز پر واپس آئے، یا اسرائیلی حملے جاری رہیں گے، جنہیں امریکا کی حمایت حاصل ہے۔ اسرائیل ایران کے جوہری پروگرام کو ختم کرنا چاہتا ہے، جیسے اس نے 1981 میں عراق اور 2007 میں شام کے جوہری پلانٹس تباہ کیے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اسرائیل کو حملوں کی اجازت دی ہے تاکہ ایران مذاکرات کے لیے مجبور ہو، لیکن ایران کا یہ کہنا بجا ہے کہ اسے یورینیم افزودہ کرنے کا حق ہے، جو مذاکرات میں تنازع کا بڑا سبب ہے۔ سعودی عرب اور خلیجی ممالک بھی جنگ روکنے کے لیے سفارتی کوششیں کر رہے ہیں۔ پیر کے روز سعودی عرب سمیت 20 عرب اور اسلامی ممالک نے اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے یکسر مسترد کیا ہے اور اس کشیدہ صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے، جو خطے کے امن و استحکام کے لیے سنگین خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ مصر کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے مشترکہ اعلامیے میں ان ممالک کے وزرائے خارجہ نے مطالبہ کیا ہے کہ کشیدگی کو فی الفور کم کیا جائے تاکہ جنگ بندی اور مکمل امن کی فضا قائم کی جا سکے۔ بیان پر دستخط کرنے والے ممالک میں سعودی عرب، مصر، اردن، متحدہ عرب امارات، پاکستان، بحرین، برونائی دارالسلام، ترکیہ، چاڈ، الجزائر، جمہوریہ کومور، جبوتی، سوڈان، صومالیہ، عراق، سلطنت عمان، قطر، کویت، لیبیا اور موریتانیہ شامل ہیں۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے پیر کے روز ایرانی صدر مسعود پیزشکیان اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے ٹیلی فون پر بات چیت کرتے ہوئے اسرائیل اور ایران کے درمیان بڑھتے ہوئے تنازع کو کم کرنے کے لیے مدد کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ تاہم محسوس یہ ہوتا ہے کہ امریکا، اسرائیل اور مغربی قوتیں تنازع کے پر امن تصفیے کے لیے تیار نہیں۔ پیر کے روز کینیڈا میں جی سیون ممالک کے اجلاس میں کھل کر ایران دشمنی کا اظہار کرتے ہوئے صاف کہا گیا کہ ایران کبھی بھی جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرسکتا، کیونکہ مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، برطانیہ اور امریکا کے رہنماؤں نے مشترکہ طور پر کہا کہ ایران علاقائی عدم استحکام اور دہشت گردی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ہم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اسرائیل کو اپنا دفاع کرنے کا حق حاصل ہے۔ ہم اسرائیل کی سلامتی کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کرتے ہیں۔ امریکی صدر کینیڈا میں جاری جی سیون کا اجلاس ادھورا چھوڑ کر واشنگٹن روانہ ہو گئے، جہاں انہوں نے سچویشن روم میں ایران اسرائیل جنگ کے حوالے سے ہنگامی اجلاس طلب کر لیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ایران کو وہ معاہدہ قبول کرنا چاہیے تھا جو میں نے کہا تھا، ہر کسی کو فوری طور پر تہران خالی کردینا چاہیے۔ نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ اسرائیل مشرقِ وسطیٰ کا چہرہ بدلنے جارہا ہے۔’سی این این‘ سے بات کرتے ہوئے ایک امریکی عہدیدار کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کو ایران کی صورت حال پر مسلسل بریفنگ دی جا رہی ہے۔ نیویارک ٹائمز نے بعض ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ ٹرمپ نے واضح کر دیا ہے کہ جیسے ہی وہ گروپ آف جی سیون اجلاس سے نکلیں گے، ’’کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا‘‘۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ امریکا نے مشرق وسطیٰ میں اضافی دفاعی صلاحیتیں تعینات کرنے کا حکم دے دیا۔ امریکا نے ملٹری ری فیولنگ جہازوں کی بڑی تعداد بھی مشرق وسطیٰ بھیجی ہے۔ امریکا اسرائیل کو بنکر بسٹر بم فراہم کرنے پر بھی غور کر رہا ہے، امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے کہنا ہے کہ ایران کے پاس دو آپشن ہیں، وہ ڈیل کرے یا بنکر تباہ کرنے والے بموں کا سامنا کرے۔ اخبار کے مطابق اگر ایران ڈیل نہیں کرتا تو صدر ٹرمپ ایران کے خلاف بنکر تباہ کرنے والے بم استعمال کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں جو فردو میں موجود زیرزمین نیوکلیئر افزودگی کے پلانٹ کو تباہ کردے گا۔ مذکورہ کشیدہ صورتحال کا فوری حل یہ ہے کہ دنیا اس امر کو تسلیم کرے کہ اسرائیل کھلی جارحیت کا مرتب ہوا ہے، یہ حق کسی کو بھی حاصل نہیں کہ وہ کسی بھی آزاد و خودمختار ملک کی آزادی، خودمختاری اور سالمیت پر حملہ آور ہو۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ امریکا، اسرائیل اور مغربی ممالک آج ایران پر جس نوع کے الزامات عاید کر رہے ہیں اس نوع کے الزامات اس سے قبل عراق پر عاید کرچکے ہیں امریکا اور برطانیہ نے مل کر پوری دنیا کو یہ باور کرایا کہ عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں جو عالمی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں، اس الزام کے ساتھ وہ چالیس ممالک کی فوجوں سمیت عراق میں کھل آئے اس کی سالمیت اور خودمختاری کو تاراج کیا گیا تھا، لاکھوں افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا بعد ازاں غلط انٹیلی جنس رپورٹ پر ٹونی بلیئر کو معذرت کرنا پڑی، اس تناظر میں ایران اسرائیل تنازع میں مغرب سے کسی خیر کی امید رکھنا کارِ عبث ہے۔ صورتحال اب اس رُخ پر مڑ چکی ہے جہاں قومی، نسلی اور علاقائی مفادات کا بالائے طاق رکھنا ناگزیر ہوچکا ہے۔ غیر جانب دار رہنا ملی جرم ہوگا۔ پوری ملت کو ایران کی پشت پر کھڑا ہونا ہوگا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کا کہنا ہے کہ نے اسرائیل پیر کے روز کرتے ہوئے ایران کے کہ ایران ایران پر کرنے کا ہیں کہ کیا ہے کے لیے

پڑھیں:

ایک بڑے مغربی ملک کا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان

کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی نے اعلان کیا ہے کہ ان کی حکومت اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ستمبر 2025 میں ہونے والے 80ویں اجلاس کے دوران فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرے گی۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق، وزیر اعظم مارک کارنی کا کہنا تھا کہ یہ اقدام اسرائیل-فلسطین تنازع کے 2 ریاستی حل کی امید کو زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے، کیونکہ یہ حل ایک طویل عرصے سے کینیڈا کی پالیسی کا حصہ رہا ہے، اور اب ’ہماری آنکھوں کے سامنے یہ امید دم توڑتی نظر آ رہی ہے‘۔

مارک کارنی نے کہا کہ غزہ میں شہریوں کی بگڑتی ہوئی صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ عالمی برادری فوری اور مؤثر اقدامات کرے، کیونکہ اب تاخیر کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔

یہ بھی پڑھیے فلسطینی عوام کی آزاد ریاست کے قیام کی بھرپور حمایت کرتے ہیں، چین کا واضح مؤقف

جب صحافیوں نے ان سے سوال کیا کہ کیا اقوامِ متحدہ کے اجلاس سے قبل کینیڈا اپنا فیصلہ واپس لے سکتا ہے، تو وزیر اعظم نے جواب دیا کہ نظریاتی طور پر ایسا ایک منظرنامہ ممکن ہے، لیکن ’شاید ایسا جو میں تصور بھی نہیں کر سکتا‘۔

ٹرمپ کی دھمکی: تجارتی معاہدہ خطرے میں

دوسری جانب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کینیڈا کے اس فیصلے پر شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے امریکا اور کینیڈا کے درمیان جاری تجارتی معاہدے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر جاری ایک پیغام میں ٹرمپ نے لکھا:

یہ بھی پڑھیں: برطانوی وزیراعظم نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا مشروط اعلان کردیا

’واہ! کینیڈا نے ابھی اعلان کیا ہے کہ وہ فلسطین کی ریاستی حیثیت کو تسلیم کر رہا ہے۔ اس سے ہمارے لیے ان کے ساتھ تجارتی معاہدہ کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ اوہ، کینیڈا!!!‘

اسرائیل کا سخت ردعمل

اسرائیل نے کینیڈا کے فیصلے کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ اوٹاوا میں اسرائیلی سفارت خانے کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ:

قابلِ احتساب حکومت، مؤثر اداروں اور ہمدرد قیادت کی غیر موجودگی میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا، درحقیقت 7 اکتوبر 2023 کو حماس کی بربریت کو انعام دینے کے مترادف ہے۔

فلسطینی اور فرانسیسی ردعمل

دوسری طرف فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے اس اقدام کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے ایک ’تاریخی فیصلہ‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ کینیڈا کا یہ قدم فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کی حمایت میں ایک مضبوط پیغام ہے۔

یہ بھی پڑھیے فرانس کا فلسطین کو باضابطہ ریاست تسلیم کرنے کا عندیہ، اسرائیل کو تشویش لاحق

فرانسیسی حکومت نے بھی کینیڈا کے اعلان کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن کے قیام کے لیے کینیڈا کے ساتھ مل کر کام کرے گی۔

یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب غزہ میں جاری جنگ اور انسانی بحران کے باعث عالمی سطح پر اسرائیل پر دباؤ بڑھ رہا ہے، اور کئی ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر غور کر رہے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

فلسطینی ریاست کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی

متعلقہ مضامین

  • بلوچستان پر اسرائیلی توجہ پر توجہ کی ضرورت
  • ٹرمپ کی آذربائیجان سمیت وسطی ایشیائی ممالک کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے قائل کرنے کی کوششیں
  • امریکا اور اتحادیوں کا ایران پر بیرون ملک قتل و اغوا کی سازشوں کا الزام
  • مشرق وسطیٰ کے امریکی ئمائندہ خصوصی اسٹیو وٹکوف اسرائیل پہنچ گئے
  • امریکا نے فلسطین اتھارٹی اور پی ایل او پر پابندیاں عائد کردیں
  • امریکا نے فلسطینی اتھارٹی اور پی ایل او پر پابندیاں عائد کردیں
  • ایران کیخلاف امریکی و اسرائیلی اقدامات کی روس کیجانب سے شدید مذمت
  • امریکا کا ایران سے تجارتی تعلقات اور تیل خریدنے پرچھ بھارتی کمپنیوں پر پابندیاں عائدکرنے کا اعلان
  • ایک بڑے مغربی ملک کا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان
  • اقوام متحدہ کانفرنس؛ فلسطینی ریاست کے قیام کیلیے 15 ماہ کا وقت طے، اسرائیل امریکا برہم