Jasarat News:
2025-06-18@00:29:11 GMT

مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال!

اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ایران پر اسرائیلی حملے کے بعد صورتحال کا رُخ تیزی سے بدل رہا ہے، حملے کے بعد ایران نے جس عزم کا اظہار کیا تھا، اس کے تحت بڑے پیمانے پر اسرائیل پر میزائل حملے جاری ہیں، جس کے جواب میں اسرائیل کی جانب سے بھی ایران کی اہم عمارتوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے، پیر کے روز اسرائیل نے ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن اور ریڈیو نیٹ ورک IRIB کے ہیڈکوارٹرز پر تہران میں فضائی حملہ کیا، اسرائیل کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس نے خاتم الانبیاء سینٹرل ہیڈ کوارٹر کے ایران کے نئے مقرر کردہ سربراہ علی شادمانی کو شہید کر دیا ہے جبکہ ایران نے اسرائیل کا ایف 35 لڑاکا جہاز مارگرایا۔ ادھر ایرانی پاسداران انقلاب نے اسرائیلی شہریوں کو تل ابیب فوری طور پر خالی کرنے کا انتباہ جاری کیا ہے، یہ اعلان اسرائیل کے ایرانی سرکاری ٹیلی ویژن پر حملے کے بعد آیا، پاسداران انقلاب نے کہا کہ وہ تل ابیب میں عسکری تنصیبات اور حکومتی مراکز کو نشانہ بنانے کے لیے بڑا حملہ کریں گے اور شہریوں کو خبردار کیا کہ وہ فوری طور پر شہر چھوڑ دیں۔ دوسری جانب اسرائیل نے تہران کے رہائشیوں کو فوری انخلا کا انتباہ جاری کیا، جہاں سرکاری ٹیلی ویژن، پولیس ہیڈکوارٹرز اور تین بڑے اسپتال واقع ہیں۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ اس علاقے میں ’’فوجی تنصیبات‘‘ کو نشانہ بنائے گا۔ حالات و واقعات اس امر کی صاف نشاندہی کر رہے ہیں کہ ایران کے خلاف گھیرا تنک کرنے کی پلاننگ مکمل کر لی گئی ہے۔ ایران پر اسرائیل کے فوجی حملوں اور معاشی دباؤ کے باعث تہران مشکل صورتحال سے گزر رہا ہے۔ عالمی برادری بھی ایران سے مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ جوہری مذاکرات دوبارہ شروع کرے۔ ایران نے جنگ روکنے اور مذاکرات بحال کرنے کے لیے پیغامات بھیجے ہیں، لیکن وہ کمزور پوزیشن سے مذاکرات کرنے پر تیار نہیں، ایرانی وزیر ِ خارجہ عباس عراقچی کا کہنا ہے ہم نے مذاکرات کی میز کبھی نہیں چھوڑی مگر اس وقت تہران کا فوکس اسرائیل جارحیت سے نمٹنے پر ہے۔ ماہرین کے مطابق ایران کے پاس دو راستے ہیں یا تو مذاکرات کی میز پر واپس آئے، یا اسرائیلی حملے جاری رہیں گے، جنہیں امریکا کی حمایت حاصل ہے۔ اسرائیل ایران کے جوہری پروگرام کو ختم کرنا چاہتا ہے، جیسے اس نے 1981 میں عراق اور 2007 میں شام کے جوہری پلانٹس تباہ کیے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اسرائیل کو حملوں کی اجازت دی ہے تاکہ ایران مذاکرات کے لیے مجبور ہو، لیکن ایران کا یہ کہنا بجا ہے کہ اسے یورینیم افزودہ کرنے کا حق ہے، جو مذاکرات میں تنازع کا بڑا سبب ہے۔ سعودی عرب اور خلیجی ممالک بھی جنگ روکنے کے لیے سفارتی کوششیں کر رہے ہیں۔ پیر کے روز سعودی عرب سمیت 20 عرب اور اسلامی ممالک نے اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے یکسر مسترد کیا ہے اور اس کشیدہ صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے، جو خطے کے امن و استحکام کے لیے سنگین خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ مصر کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے مشترکہ اعلامیے میں ان ممالک کے وزرائے خارجہ نے مطالبہ کیا ہے کہ کشیدگی کو فی الفور کم کیا جائے تاکہ جنگ بندی اور مکمل امن کی فضا قائم کی جا سکے۔ بیان پر دستخط کرنے والے ممالک میں سعودی عرب، مصر، اردن، متحدہ عرب امارات، پاکستان، بحرین، برونائی دارالسلام، ترکیہ، چاڈ، الجزائر، جمہوریہ کومور، جبوتی، سوڈان، صومالیہ، عراق، سلطنت عمان، قطر، کویت، لیبیا اور موریتانیہ شامل ہیں۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے پیر کے روز ایرانی صدر مسعود پیزشکیان اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے ٹیلی فون پر بات چیت کرتے ہوئے اسرائیل اور ایران کے درمیان بڑھتے ہوئے تنازع کو کم کرنے کے لیے مدد کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ تاہم محسوس یہ ہوتا ہے کہ امریکا، اسرائیل اور مغربی قوتیں تنازع کے پر امن تصفیے کے لیے تیار نہیں۔ پیر کے روز کینیڈا میں جی سیون ممالک کے اجلاس میں کھل کر ایران دشمنی کا اظہار کرتے ہوئے صاف کہا گیا کہ ایران کبھی بھی جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرسکتا، کیونکہ مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، برطانیہ اور امریکا کے رہنماؤں نے مشترکہ طور پر کہا کہ ایران علاقائی عدم استحکام اور دہشت گردی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ہم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اسرائیل کو اپنا دفاع کرنے کا حق حاصل ہے۔ ہم اسرائیل کی سلامتی کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کرتے ہیں۔ امریکی صدر کینیڈا میں جاری جی سیون کا اجلاس ادھورا چھوڑ کر واشنگٹن روانہ ہو گئے، جہاں انہوں نے سچویشن روم میں ایران اسرائیل جنگ کے حوالے سے ہنگامی اجلاس طلب کر لیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ایران کو وہ معاہدہ قبول کرنا چاہیے تھا جو میں نے کہا تھا، ہر کسی کو فوری طور پر تہران خالی کردینا چاہیے۔ نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ اسرائیل مشرقِ وسطیٰ کا چہرہ بدلنے جارہا ہے۔’سی این این‘ سے بات کرتے ہوئے ایک امریکی عہدیدار کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کو ایران کی صورت حال پر مسلسل بریفنگ دی جا رہی ہے۔ نیویارک ٹائمز نے بعض ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ ٹرمپ نے واضح کر دیا ہے کہ جیسے ہی وہ گروپ آف جی سیون اجلاس سے نکلیں گے، ’’کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا‘‘۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ امریکا نے مشرق وسطیٰ میں اضافی دفاعی صلاحیتیں تعینات کرنے کا حکم دے دیا۔ امریکا نے ملٹری ری فیولنگ جہازوں کی بڑی تعداد بھی مشرق وسطیٰ بھیجی ہے۔ امریکا اسرائیل کو بنکر بسٹر بم فراہم کرنے پر بھی غور کر رہا ہے، امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے کہنا ہے کہ ایران کے پاس دو آپشن ہیں، وہ ڈیل کرے یا بنکر تباہ کرنے والے بموں کا سامنا کرے۔ اخبار کے مطابق اگر ایران ڈیل نہیں کرتا تو صدر ٹرمپ ایران کے خلاف بنکر تباہ کرنے والے بم استعمال کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں جو فردو میں موجود زیرزمین نیوکلیئر افزودگی کے پلانٹ کو تباہ کردے گا۔ مذکورہ کشیدہ صورتحال کا فوری حل یہ ہے کہ دنیا اس امر کو تسلیم کرے کہ اسرائیل کھلی جارحیت کا مرتب ہوا ہے، یہ حق کسی کو بھی حاصل نہیں کہ وہ کسی بھی آزاد و خودمختار ملک کی آزادی، خودمختاری اور سالمیت پر حملہ آور ہو۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ امریکا، اسرائیل اور مغربی ممالک آج ایران پر جس نوع کے الزامات عاید کر رہے ہیں اس نوع کے الزامات اس سے قبل عراق پر عاید کرچکے ہیں امریکا اور برطانیہ نے مل کر پوری دنیا کو یہ باور کرایا کہ عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں جو عالمی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں، اس الزام کے ساتھ وہ چالیس ممالک کی فوجوں سمیت عراق میں کھل آئے اس کی سالمیت اور خودمختاری کو تاراج کیا گیا تھا، لاکھوں افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا بعد ازاں غلط انٹیلی جنس رپورٹ پر ٹونی بلیئر کو معذرت کرنا پڑی، اس تناظر میں ایران اسرائیل تنازع میں مغرب سے کسی خیر کی امید رکھنا کارِ عبث ہے۔ صورتحال اب اس رُخ پر مڑ چکی ہے جہاں قومی، نسلی اور علاقائی مفادات کا بالائے طاق رکھنا ناگزیر ہوچکا ہے۔ غیر جانب دار رہنا ملی جرم ہوگا۔ پوری ملت کو ایران کی پشت پر کھڑا ہونا ہوگا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کا کہنا ہے کہ نے اسرائیل پیر کے روز کرتے ہوئے ایران کے کہ ایران ایران پر کرنے کا ہیں کہ کیا ہے کے لیے

پڑھیں:

مشرق وسطیٰ میں کشیدگی: پاکستان نے امریکا کے 2 اہم دورے ملتوی کردیئے

ویب ڈیسک: پاکستان نے مشرقِ وسطیٰ میں جاری تنازع کے باعث امریکا کے دو اہم دورے ملتوی کردیئے ، نائب وزیرِاعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار اور  تجارتی وفد  نے امریکا کا دورہ کرنا تھا ۔

   سرکاری ذرائع    کے مطابق  اسحاق ڈار آئندہ ہفتے نیویارک میں فلسطینی ریاست کے قیام سے متعلق اقوامِ متحدہ کے ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے روانہ ہونے والے تھے، لیکن جمعہ کو فرانس اور سعودی عرب، جو اس کانفرنس کے مشترکہ میزبان تھے، نے اقوامِ متحدہ سے درخواست کی کہ یہ اجلاس ملتوی کر دیا جائے۔

تہران: رہائشی کمپلیکس پر اسرائیلی حملے میں شہداء کی تعداد 60 ہوگئی,20 بچے بھی شامل   

 یہ درخواست اسرائیل کے ایران پر فضائی حملوں کے بعد کی گئی، پیرس میں گفتگو کرتے ہوئے فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے کہا کہ اسرائیل اور فلسطین کے لیے دو ریاستی حل کو آگے بڑھانے والی اس کانفرنس کو مؤخر کیا گیا ہے، لیکن یہ جلد منعقد کی جائے گی۔

  صدر میکرون نے کہا کہ ’ہمیں سیکیورٹی اور لاجسٹک وجوہات کی بنا پر اس کانفرنس کو مؤخر کرنا پڑ رہا ہے، لیکن یہ جتنی جلد ممکن ہو، منعقد کی جائے گی‘۔

پنجاب حکومت کا آرٹیفیشل انٹیلی جنس سنٹرل میڈیا مانیٹرنگ یونٹ قائم کرنے کا فیصلہ

 مشرقِ وسطیٰ کی بدلتی ہوئی صورتحال کی وجہ سے ایک اور مجوزہ دورہ بھی موخر ہو گیا ہے، اسلام آباد سے واشنگٹن جانے والے تجارتی وفد کو ٹیرف سے متعلق مذاکرات کرنا تھے۔

 گزشتہ ہفتے ایک پریس بریفنگ میں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ یہ تجارتی وفد اگلے ہفتے مذاکرات کے لیے پہنچے گا، تاہم اب یہ منصوبہ موخر کر دیا گیا ہے۔
 
 

متعلقہ مضامین

  • برطانوی وزیر خارجہ کا اسحاق ڈار کو فون، مشرق وسطی کی صورتحال پر گفتگو
  • ایران کے خلاف اسرائیل کی فوجی کارروائی سے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے، چینی صدر
  • مشرق وسطی کی صورتحال کے پیش نظرامریکی صدر ٹرمپ جی7 کا اجلاس ادھورا چھوڑ کر واشنگٹن روانہ
  • برطانیہ کا اسرائیل کی مدد کیلئے مشرقِ وسطی میں جنگی بیڑے تعینات کرنے کا فیصلہ
  • ایران کے اسرائیل پر پے در پے حملے، امریکا نے یوکرین سے میزائل دفاعی نظام مشرق وسطی منتقل کردیے
  • مشرق وسطیٰ: کشیدگی کم کرنے میں کردار ادا کریں گے، جرمن وزیر خارجہ
  • امریکا نے یوکرین سے ڈیفنس سسٹم مشرق وسطیٰ منتقل کردیے، وزیردفاع کا انکشاف
  • مشرق وسطیٰ میں کشیدگی: پاکستان نے امریکا کے 2 اہم دورے ملتوی کردیئے
  • برطانیہ کا مشرقِ وسطیٰ میں فوجی طیارے تعینات کرنے کا فیصلہ