وہ قافلہ تیونس سے چلا ہے مگر اُس کے قدموں کی دھمک نیویارک سے لے کر تل ابیب تک سنائی دے رہی ہے۔ یہ قافلہ نہ صرف غزہ کی طرف بڑھ رہا ہے بلکہ ہمارے زمانے کی مردہ ضمیری منافقت اور عالمی طاقتوں کے چہرے سے نقاب بھی نوچ رہا ہے۔ اس میں شامل نوجوان لڑکے، لڑکیاں، بزرگ، خواتین طالب علم، ماہی گیر، کسان، مزدور اور وہ سب جو اپنی آوازوں کو زنجیروں میں جکڑا سمجھتے تھے اب ایک نعرہ بن چکے ہیں۔
’’ فلسطین کو آزاد کرو۔‘‘یہ قافلہ محض لوگوں کی ایک صف نہیں یہ قافلہ ایک تاریخ ہے۔ یہ ان خوابوں کا قافلہ ہے جو صدیوں سے قتل کیے جا رہے ہیں۔ یہ قافلہ اُن بچوں کے لیے نکلا ہے جن کی آنکھوں میں نیند کی جگہ خوف ہے، تھکی ہوئی جاگی ہوئی آنکھیں، خواب سے محروم آنکھیں۔ یہ قافلہ ان بیٹیوں کے لیے ہے جنھیں رخصت ہونے سے پہلے باپ کی لاش دفنانا پڑی اور یہ قافلہ اُن ماؤں کے لیے ہے جنھوں نے دودھ کے بجائے اپنے بچوں کو صبر پلایا۔
میں نے اپنے پچھلے کالم میں گریٹا تھنبرگ کے بارے میں لکھا تھا، اس کو اور اس کے ساتھ موجود دیگر activists کو 8 جون کو اسرائیل نے روک لیا تھا۔ یہ کشتی امداد لے کر نکلی تھی۔ یہ بچی جو موسمیاتی تبدیلی کے خلاف کھڑی ہوئی تھی، وہ آج فلسطین کے لیے کھڑی ہے اور اپنا حصہ ڈال رہی ہے۔ اس وقت پوری دنیا کے لوگ فلسطین کے لیے سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں اور اس ظلم کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔
آج ہم اُس لمحے میں زندہ ہیں جہاں مظلوموں کی صف میں صرف مسلمان نہیں، صرف عرب نہیں بلکہ یہودی بھی شامل ہیں۔ وہ یہودی جو اسرائیل میں رہتے ہیں مگر جنھوں نے صیہونیت کے نام پر ہونے والی بربریت سے اپنا دامن الگ کیا ہے۔ تل ابیب میں مظاہرے ہو رہے ہیں ’’ ناٹ ان مائی نیم‘‘ Not In My Name کے پلے کارڈز تھامے نوجوان یہودی کھڑے ہیں اور وہ اعلان کر رہے ہیں کہ ظلم خواہ کسی بھی عقیدے یا قوم کے نام پر ہو ظلم ہی رہتا ہے۔
یہ کوئی نئی بات نہیں، ہولو کاسٹ سے بچ جانے والے بعض بزرگ یہودی برسوں سے یہ کہہ رہے ہیں کہ ’’ ہمیں جس دکھ سے گزرنا پڑا ہم یہ نہیں چاہتے کہ وہی دکھ کسی اور پر مسلط کیا جائے۔‘‘ اب یہ آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ اب وہ وقت نہیں جب ان آوازوں کو آسانی سے دبا دیا جاتا تھا۔ اب سوشل میڈیا کی طاقت، عوامی شعور اور عالمی ضمیر نے چاہے دیر سے سہی مگر انگڑائی ضرور لی ہے۔
قافلے کی یہ روانی یہ جذبہ ہمیں بتاتا ہے کہ جب عوام کھڑے ہوجائیں تو دنیا کی سب سے بڑی فوجیں سب سے مضبوط میڈیا ادارے اور سب سے مالدار کارپوریشنز بھی ان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ کیا آپ کو یاد ہے کہ ویتنام میں کیا ہوا تھا؟ کیا آپ کو جنوبی افریقہ کی نسل پرستی یاد ہے؟ ہر جگہ جب عوام نے مزاحمت کی جب دیوار پر پہلا پتھر مارا گیا تو وہی دیوار آخرکار گری۔
آج اسرائیل کی دیوارِ ظلم لرز رہی ہے۔ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ انسانیت کا ماتم ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اُس ماتم سے آوازیں اُٹھ رہی ہیں اور وہ آوازیں رُکنے والی نہیں۔ وہ عرب دنیا جو برسوں تک خاموش تماشائی بنی رہی اب وہاں کی گلیوں میں نعرے گونج رہے ہیں۔ تیونس الجزائر، لبنان، اردن ہر طرف عوام سڑکوں پر ہیں اور یہ عوام وہی ہیں جنھیں ان کے آمروں بادشاہوں اور استعماری تابعداری کے عادی حکمرانوں نے خاموش رکھا تھا۔
یہ تحریک صرف مشرق تک محدود نہیں۔ امریکا میں برطانیہ میں فرانس میں جرمنی میں اور دوسرے یورپی ممالک میں لاکھوں لوگ فلسطین کے ساتھ یکجہتی کے لیے نکل رہے ہیں۔ یونیورسٹیوں کے طلبا اپنے تعلیمی کیمپس کو احتجاجی میدان بنا چکے ہیں۔ امریکی طلبا نے ہمیں یاد دلایا ہے کہ جب دل میں سچائی ہو اور آنکھوں میں خواب ہوں تو ہاتھوں میں ہتھیار نہیں صرف پوسٹرز اور نعرے بھی دنیا ہلا سکتے ہیں۔
یہ وقت ہمیں یاد دلاتا ہے کہ تاریخ صرف بادشاہوں اور جنگوں سے نہیں بنتی تاریخ عوام سے بنتی ہے۔ جب عوام اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں جب وہ اپنے دکھوں اور محرومی سے حوصلہ پائیں جب وہ اپنی محرومیوں کو طاقت میں بدل دیں تو وہ سامراج کی بنیادیں ہلا دیتے ہیں۔ اور آج یہی ہو رہا ہے وہ ظلم جسے میڈیا نے دفاعی کارروائی کہہ کر چھپایا اب اُس کی حقیقت بچے بچے پر عیاں ہو چکی ہے۔
صیہونیت اب ایک نظریے سے زیادہ ایک جرم بن چکی ہے۔ وہ جرم جو مذہب نسل، زمین اور طاقت کے نام پر کیا جا رہا ہے، مگر اُس کے مقابل ایک اور طاقت اُبھر رہی ہے عوام کی طاقت۔ اور عوام کی طاقت میں نہ نسل دیکھی جاتی ہے نہ مذہب، نہ قوم عوام کی طاقت کا صرف ایک اصول ہوتا ہے انصاف اور یہی انصاف اب صیہونیت کے محلات کو لرزا رہا ہے۔ یہ وقت ان حکمرانوں کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے جو اب بھی سامراجی اتحاد میں اپنے مفاد تلاش کر رہے ہیں۔ جو اب بھی اسرائیل کے ساتھ تجارت اور دفاعی معاہدوں کو قومی مفاد کا نام دیتے ہیں۔ وہ سمجھ لیں کہ عوام اب جاگ چکے ہیں۔ وہ جان چکے ہیں کہ کون ظالم ہے؟ کون مظلوم وہ جان چکے ہیں کہ آزادی صرف ایک نعرہ نہیں ایک حق ہے۔
اور یہ بھی حقیقت ہے کہ فلسطین کی آزادی کی جدوجہد صرف فلسطینیوں کی نہیں رہی، یہ اب ہماری جدوجہد ہے، دنیا کے ہر باشعور انسان کی جدوجہد ہے۔ ہم اُس لمحے میں زندہ ہیں جہاں ہم چاہیں تو اس ظلم کو روک سکتے ہیں اور اگر خاموش رہیں تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ وہ قافلہ جو تیونس سے چلا ہے اُسے آپ روک نہیں سکتے، کیونکہ اُس کے قدموں کے نیچے صدیوں کی محرومیاں ہیں، اُس کے نعروں میں وہ درد ہے جسے دنیا نے نظر انداز کیا اور اُن کے دلوں میں وہ عزم ہے جو پہاڑوں کو بھی ہلا دے۔
ہم جانتے ہیں کہ ظلم کے دن گنے جا چکے ہیں اور جب عوام اُٹھ کھڑے ہوں تو کوئی طاقت انھیں روک نہیں سکتی، یہی وقت ہے جب ہمیں اپنے قلم اپنی زبان اور اپنی موجودگی کو اس جدوجہد کے ساتھ جوڑنا ہے کیونکہ یہ جنگ صرف فلسطین کی نہیں، انسانیت کی جنگ ہے۔
یہ قافلہ جو بسوں اور گاڑیوں کی صورت میں تیونس سے نکلا ہے، اس میں مصر اور لیبیا سے بھی لوگ شامل ہو رہے ہیں اور ان کی مانگ یہ ہے کہ غزہ تک امداد کو پہنچنے دیا جائے۔ جس طرح سے بھی ممکن ہو اپنا احتجاج اور اپنا ساتھ ہمیں فلسطین کے ساتھ بنائے رکھنے کی ضرورت ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: یہ قافلہ ا فلسطین کے تیونس سے ہیں اور کی طاقت چکے ہیں جب عوام کے ساتھ رہے ہیں ہیں کہ اور یہ رہا ہے رہی ہے
پڑھیں:
اسرائیل ناسور ہے،جنگ میں ایران کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں،فضل الرحمن
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
حیدرآباد (نمائندہ جسارت) جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ اسرائیل ایک ناسور کی حیثیت رکھتا ہے، اسرائیل کی روز اول سے ہی خطے میں پالیسی جارحانہ ہے، ہم ایران اور اسرائیل کی جنگ میں ایران کی حمایت ہی نہیں بلکہ ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ ہمیں دوبارہ اسلام آباد جانے پر مجبور نہ کیاجائے، اگر عوام کے فیصلے تبدیل کیے تو پھر عوام خود فیصلے کریں گے۔وہ گذشتہ شب حیدرآباد میں جامشورو روڈ قاسم چوک پر ”دفاع وطن و اسرائیل مردہ باد ” مارچ سے خطاب کررہے تھے۔ اس موقع پر جمعیت کے مرکزی جنرل سیکریٹری عبدالغفور حیدری، اسد محمود، راشد محمود سومرو، عبدالقیوم ہالیجوی، حافظ محمد سعید، تاج محمد ناہیوں، انجینئر ضیاء الرحمن، عثمان علی اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔ مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ اسرائیل ایک ناسور کی حیثیت رکھتا ہے، اسرائیل کی روز اول سے ہی خطے میں پالیسی جارحانہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ اقوام متحدہ میں آج تک اسرائیل کیخلاف جو بھی قرارداد پاس کی اس میں سے ایک پر بھی عمل نہیں ہوا، یہ ادارہ بے معنی ہے اور امریکا کی لونڈی بنا ہوا ہے۔ انہوں نے کہاکہ فلسطین کے بعد لبنان اور اس کے بعد ایران کی باری آئی ہے پھر اب اسرائیل سعودی عرب اور پاکستان پر بھی حملہ آور ہوگا، اگر اس نے حرمین و شریفین کیخلاف کارروائی کی تو مسلمان عرب کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔ موجودہ حکمرانوں کی حالت گھر کے نوکر سے بھی بدتر ہے، امن وامان، ملک کی معیشت کو بہتر بنانا اور کرپشن کا خاتمہ کرنا ہے تو پھر جے یو آئی کو اقتدار میں لانا ہوگا۔ وفاقی بجٹ کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ کسی کو کچھ نہیں پتہ کہ یہ بجٹ کس نے بنایا اور کس نے پیش کیا ہے، آئی ایم ایف کے کہنے پر بجٹ بنائے جارہے ہیں۔ ملک کی 50فیصد سے زائد آبادی خطہ غربت سے نیچے چلی گئی ہے، اس بجٹ میں عوام کیلیے کچھ نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ جس طرح فوج کو مارشل لاء لگاکر اقتدار پر قبضہ کرنے کا حق ہے تو پھر عوام کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ اسلام آباد پر قبضہ کرلیں۔انہوں نے کہاکہ جے یو آئی کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ میں ملین مارچ کرچکی ہے ہم دنیا کو پیغام دے رہے ہیں کہ پوری دنیا میں بے امنی ہے، جنگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں، آسمانوں سے بارود برس رہا ہے، انہوںنے کہاکہ ہم وطن عزیز کو فلاحی ریاست بنانے کیلیے اپنا کردار ادا کررہے ہیں، ہم جنگ کے حامی نہیں ہیں امن کے داعی ہیں، سندھ کے عوام کوبے امنی کی شکایت ہے بے امنی سے ملک کی معیشت، کاروبار اور تعلیم تباہ ہوتی ہے، انہوںنے کہاکہ یہ حکمران نہیں ہے دھاندلی سے کوئی حکمران نہیں بنتا، اگر یہ عوامی تائید سے حکمران بنے ہیں تو میں چیلنج کرتا ہوں کہ پورے ملک میں اس طرح کا ایک بھی جلسہ کرکے دکھائیں۔ انہوں نے کہاکہ اسٹیبلشمنٹ قوت ہے لیکن یہ بالادست قوت نہیں بلکہ وہ ماتحت قوت ہے۔ جب وطن کی بقاء اور دفاع کا سوال پیدا ہوا تو ہم نے فوج کا ساتھ دیا، انہیں حوصلہ فراہم کیا، ہم انہیں کہتے ہیں کہ تم دفاع میں کارنامے دکھاؤ سیاست میں کارنامے نہ دکھاؤ، دفاع میں کردار ادا کرو گے تو ہم سر پررکھیں گے اور اگر زبردستی مسلط ہوئے تو پھر تمہیں بیٹھنے نہیں دیں گے۔