یروشلم میں امریکی سفارتخانہ بند، شہریوں کو ایران، عراق اور اسرائیل کے سفر سے روک دیا
اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT
خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور ایران اسرائیل تنازعے کے پیش نظر، امریکا نے مشرقِ وسطیٰ کے لیے سکیورٹی الرٹ جاری کر دیا ہے۔
امریکی حکومت نے یروشلم میں موجود اپنے سفارتخانے کو آج سے جمعہ تک بند رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ایران کا اسرائیل پر میزائل اور ڈرون حملہ، پاسداران انقلاب کا فضائی برتری کا دعویٰ
اعلان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل میں تعینات تمام امریکی اہلکاروں اور ان کے خاندانوں کو اگلے نوٹس تک شیلٹرز میں رہنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
اس اقدام کا مقصد ممکنہ خطرات کے پیش نظر ان کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنانا ہے۔
اس کے علاوہ امریکی محکمہ خارجہ نے ایک سخت ٹریول ایڈوائزری جاری کرتے ہوئے امریکی شہریوں کو ایران، عراق اور اسرائیل جیسے خطوں کا سفر کرنے سے سختی سے منع کیا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کے مطابق، موجودہ صورتحال کو سنبھالنے اور امریکی شہریوں کو ممکنہ خطرات سے بچانے کے لیے ’مڈل ایسٹ ٹاسک فورس‘ قائم کر دی گئی ہے، جو خطے میں موجود شہریوں کو ہنگامی مدد فراہم کرے گی۔
ٹرمپ کا عندیہادہر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بیان میں عندیہ دیا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو امریکا اسرائیل کی ایران کے خلاف کارروائیوں میں عملی طور پر شامل ہو سکتا ہے۔
اس بیان نے خطے کی کشیدگی میں مزید اضافہ کر دیا ہے اور عالمی سطح پر خدشات کو جنم دیا ہے کہ کشیدگی کسی بڑے تصادم میں بدل سکتی ہے۔
تیسری جنگ عظیم اشارہتجزیہ کاروں کے مطابق اگر عالمی طاقتوں نے تحمل کا مظاہرہ نہ کیا مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال تیسری جنگ عظیم جیسے خطرے کی طرف اشارہ کر سکتی ہے۔
امریکا کی حالیہ پالیسی اقدامات اس خدشے کی تصدیق کرتے ہیں کہ واشنگٹن اب صرف سفارتی سطح پر نہیں بلکہ عملی طور پر بھی خطے میں مداخلت کا ارادہ رکھتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل امریکا امریکی محکمہ خارجہ ایڈوائزری ایران عراق یروشلم.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل امریکا امریکی محکمہ خارجہ ایڈوائزری ایران شہریوں کو دیا ہے
پڑھیں:
اقوام متحدہ کانفرنس؛ فلسطینی ریاست کے قیام کیلیے 15 ماہ کا وقت طے، اسرائیل امریکا برہم
نیویارک میں سعودی عرب اور فرانس کی میزبانی میں ہونے والی اقوام متحدہ کی دو ریاستی حل کانفرنس میں فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے 15 ماہ کا وقت طے کرلیا گیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اقوام متحدہ کے تحت دو ریاستی حل کانفرنس کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ جاری کردیا گیا۔
دنیا بھر کے 125 سے زائد ممالک نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے اور دو ریاستی حل کی طرف پیش قدمی کرے۔
سات صفحات پر مشتمل اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ شرکاء نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازع کو دو ریاستی حل کی بنیاد پر ختم کرنے کی ضرورت پر اتفاق کیا۔
مسودے میں دو ریاستی حل کے قیام پر زور دیتے ہوئے مزید کہا گیا ہے کہ خطے میں جنگ، قبضے اور نقلِ مکانی سے امن قائم نہیں ہو سکتا۔
اعلامیہ میں کے مطابق کانفرنس کے شرکاء نے دو ریاستی حل کو عملی جامہ پہنانے کے لیے 15 ماہ کا وقت مقرر کیا ہے۔
مسودے کے مطابق شرکا نے اسرائیل سے دو ریاستی حل کے لیے اعلانیہ عہد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے اجتماعی اقدامات پر اتفاق کیا۔
علاوہ ازیں شرکا نے غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے ایک وقف فنڈ کے قیام کی حمایت بھی کی۔
اعلامیہ کے اہم نکات:
غزہ جنگ کا خاتمہ: حملوں میں معصوم شہریوں کے جانی نقصان پر اسرائیل اور حماس دونوں کی مذمت کی گئی۔
آزاد فلسطینی ریاست کا قیام: ایک غیر مسلح، خودمختار فلسطین جو اسرائیل کے ساتھ امن سے رہے۔
فلسطینی اتھارٹی کا کنٹرول: غزہ سمیت تمام فلسطینی علاقوں پر فلسطین اتھارٹی کا اختیار تسلیم کیا گیا۔
حماس کا خاتمہ: حماس سے غزہ میں حکومت ختم کرنے اور ہتھیار فلسطینی اتھارٹی کو سونپنے کا مطالبہ کیا گیا۔
بین الاقوامی سیکیورٹی مشن: اقوام متحدہ کے تحت ایک عبوری مشن فلسطینی شہریوں کی حفاظت اور سیکیورٹی منتقلی کو یقینی بنائے گا۔
ریاستِ فلسطین کو تسلیم کرنے کی اپیل: تمام اقوام سے ریاستِ فلسطین کو تسلیم کرنے کا مطالبہ — بالخصوص ان ممالک سے جنہوں نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
اسرائیل اور امریکا کا ردِ عمل؛اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے دو ریاستی حل کانفرنس کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ مشترکہ اعلامیہ کے نکات ہماری سیکیورٹی اور قومی مفاد کے منافی ہیں۔
امریکا نے بھی دو ریاستی حل کانفرنس کو غیر موزوں اور غیر مفید قرار دے کر بائیکاٹ کیا تھا۔
اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر نے دو ریاستی حل کانفرنس کو دہشت گردی کے لیے "آنکھیں بند کرنا" قرار دیا۔