UrduPoint:
2025-09-18@23:33:02 GMT

سینیٹ اجلاس ،اسرائیل کے ایران پر حملے کی شدید مذمت

اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT

سینیٹ اجلاس ،اسرائیل کے ایران پر حملے کی شدید مذمت

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 جون2025ء)سینیٹ میں اسرائیل کے ایران پر حملے کی شدید مذمت کی گئی ہے ۔ بدھ کو چیئرمین یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت ہونیوالے سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے قائد ایوان اسحاق ڈار نے بتایا کہ 21مسلم ممالک نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف مشترکہ مقف اپنا لیا ہے، ایران کی سلامتی، خطے اور عالم اسلام کے امن سے جڑی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ مسلم ممالک نے مشترکہ اعلامیہ جاری کرتے ہوئے ایران کی سلامتی، خودمختاری اور آزادی کی حمایت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی جارحیت سے پورے خطے میں کشیدگی بڑھ رہی ہے، اور اس کے سنگین عالمی نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔نہوں نے کہا کہ مسلم دنیا نے ایٹمی ہتھیاروں سے پاک مشرق وسطی اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔

(جاری ہے)

سینیٹر پلوشہ خان نے کہا کہ اگر ایران کے بعد پاکستان کی باری آئی تو ہم خاموش نہیں رہیں گے۔

علامہ راجہ ناصر عباس نے کہا کہ ایران صرف اپنی نہیں بلکہ عالمِ اسلام کی جنگ لڑ رہا ہے،اب صرف بیانات نہیں بلکہ عملی مدد کرنی ہو گی۔سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ اگر نواز شریف ایٹمی دھماکوں کا فیصلہ نہ کرتے تو آج پاکستان مشکلات میں ہوتا۔سینیٹر افنان اللہ نے پاکستان کی ایٹمی طاقت کو مسلم دنیا کا دفاعی ہتھیار قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل مسلم ممالک کو تباہ کرنا چاہتا ہے جو کبھی ہونے نہیں دیں گے۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے نے کہا کہ

پڑھیں:

دوحہ کانفرنس اور فیصلے

حمیداللہ بھٹی

دوحہ پرہونے والا 9 ستمبر کا بہیمانہ اور بلا اشتعال حملہ ہر حوالے سے قابلِ مذمت ہے اِس کا واحد مقصدمشرقِ وسطیٰ میں جاری امن کوششوں کوسبوتاژکرناہے تاکہ اسرائیل کو جارحیت کے جوازحاصل رہیں۔ حملے کے اثرات ومضمرات کا جائزہ لینے اور آئندہ ایسے واقعات کے تدارک کے لیے قطر کی میزبانی میں پندرہ ستمبر کو اسلامی دنیاکی سربراہی کانفرنس ہوئی جو شرکت کے حوالے سے تو بھرپور اور جامع رہی جس میں حملے کے اثرات و مضمرات کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا مگر کانفرنس سے وابستہ توقعات پوری نہیں ہو سکیں۔ وجہ فیصلوں کافقدان رہا۔حالانکہ اچھا موقع تھا کہ قطر سب کو اعتماد میں لے کر اسرائیل کے معاشی و اقتصادی بائیکاٹ پر راضی کرلیتا مگرایسا کچھ نہیں ہو سکا ۔خود قطر ابھی تک اسرائیل کو گیس کی فراہمی کا سلسلہ معطل نہیں کر پارہا۔ علاوہ ازیں یو اے ای کا اسرائیل کے خلاف کسی فوجی کارروائی میں ساتھ دینے اور تعلقات پر نظرثانی کرنے سے انکار مزیدتباہ کُن ہے ۔فی کس آمدن کے لحاظ سے دنیا میں چھٹے نمبر پر شمار ہونے والا قطر جیسا امیر ملک فیصلوں میں اِتناکمزور اور بے بس ہو گا حیرت ہے۔ اسی لیے واقفانِ حال کاکہناہے قطر جوابی کارروائی کی بجائے دوحہ حملے جیسے واقعات آئندہ نہ دُہرائے جانے کی گارنٹی چاہتاہے ۔امریکہ نے ایسی یقین دہانی کرائی تو ہے مگر قطری قیادت کے شکوک وشبہات برقرار ہیں ۔وجہ یہ ہے کہ خطے میں امریکہ کے سب سے بڑے فوجی اڈے کی میزبانی اور جدیدترین ہتھیاروں کے باوجودقطری آزادی وخود مختاری کی پامالی ہو گئی مگرامریکی گارنٹر کی طرف سے کچھ نہ کرنا ملی بھگت ظاہرہوتی ہے ۔اسی بنا پر قطر مزید اعتمادکرتے ہوئے ہچکچا تو رہا ہے لیکن غیر معمولی فیصلہ کرنے کی ہمت بھی نہیں کرپارہا۔
عین ایسے وقت جب قطر پراسرائیلی حملے کے حوالے سے اسلامی ممالک غوروخوض میں مصروف تھے، امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو اپنی غیر متزلزل حمایت کا یقین دلانے کے لیے اسرائیلی قیادت سے ملاقاتیں کررہے تھے ۔یہ اشارہ ہے کہ عربوں کے غم و غصے کو امریکی وقتی اُبال سمجھتے ہیں کیونکہ عرب بادشاہتوں کا سرپرست امریکہ ہے اور وہ جانتاہے کہ سرپرستی سے دستکش ہونے کی صورت میں یہ بادشاہتیں اپناوجود کھو بیٹھیں گی ۔اسی لیے عرب بادشاہ ایسا خطرہ مول لینے کو تیار نہیں جو اقتدار سے محرومی کا باعث بنے ۔ایسی سوچ نے ہی عرب شاہوںکو غیر معمولی فیصلوں سے روک رکھا ہے اور وہ اقتدار کے لیے آزادی وخود مختاری کی خلاف ورزیاں تک برداشت کرنے پر مجبور ہیں ۔
اگر آزادی وخود مختاری کاتحفظ کرناہے تو عرب ممالک کو غیر معمولی دلیرانہ فیصلے کرنا ہوں گے جس طرح رواں برس پاکستان نے حملے کے جواب میں چند گھنٹوں میں بھارت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔جون میں اسرائیلی حملے کے وقت ایسے حالات میں جب فضائیہ نہ ہونے کے برابر تھی اِس کے باوجود ایران نے بھرپورجوابی کارروائی کی ۔پاکستان اور ایران کے بروقت اور منہ توڑ فیصلوں کاہی اثر تھا کہ جارح ممالک جنگ بندی پر مجبورہوئے۔ قطر نے بھی جوابی کارروائی کا عندیہ ظاہر کر رکھا ہے مگر حملے کو آٹھ روزگزرچکے ہیں لیکن ابھی تک اسرائیل کوبدستور گیس کی فراہمی جاری ہے ۔یہ کمزوری اور بزدلی کی انتہا ہے جب تک عرب ممالک عوامی پسند وناپسند کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھیں گے عالمی طاقتیں کٹھ پتلیوں کی طرح نچاتی رہیں گی ۔دنیا کے ذرائع ابلاغ پر اسرائیل نواز طاقتوں کاکنٹرول ضرور ہے۔ قطر کے پاس تو الجزیرہ جیسا اہم ذریعہ موجودہے جس کی ایک ساکھ ہے۔ دنیا اُسے سنتی اور اعتماد کرتی ہے ۔اِس کے باوجود وہ کیوں اپناموقف درست طریقے سے پیش نہیں کرپارہا کہ دنیا کی ہمدردیاں حاصل کر سکے ؟
قطر پر حملہ ریاستی دہشت گردی ہے جس پر اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرانا ہو گا۔اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی مسلسل خلاف ورزی پر اُس کی رُکنیت معطل کرانے کی کوششیں وقت کی ضرورت ہیں ۔غزہ میں انسانیت سسک رہی ہے ۔بدترین نسل کشی کے خلاف اب بھی اگرمسلم ممالک اجتماعی اقدامات نہیں کرتے تو تاریخ اُنھیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ دوحہ سربراہی اجلاس میں اسرائیل سے فوری اورغیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ توکیا گیا ہے مگر اسرائیل جیسا غاصب ملک ایسا کیوں کرے گا؟جب عدم تعمیل کی صورت میں کسی قسم کی تادیبی کارروائی کا کوئی خدشہ نہیں پاکستان نے قطر سے یکجہتی کرتے ہوئے اسرائیل کوکٹہرے میں لانے نیز اُسے توسیع پسندانہ عزائم سے روکنے کے لیے اسلامی ٹاسک فورس بنانے کی تجویز دی ہے مگر یہ تبھی ممکن ہے جب عرب ممالک میں اتحاد و اتفاق ہو ۔
عربوں کی دُرگت بننے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے ساراوزن امریکی پلڑے میں ڈال رکھا ہے۔ اُن کی دولت امریکہ اور مغربی ممالک کے پاس ہے۔ اسلحہ ہویا فضائیہ ،سب امریکی ومغربی ساختہ ہے ۔اسی لیے جب اسرائیل کی بات آتی ہے تو دولت ،اسلحہ اور فضائیہ سے کوئی مدد نہیں ملتی۔ محض 11571مربع کلومیٹر رقبے پر محیط قطر کا دفاعی بجٹ پاکستان سے زیادہ ہے لیکن اپنے دفاع کے پھر بھی قابل نہیں۔ اگر عرب ممالک امریکہ یامغربی ممالک پر انحصار کرنے کے بجائے متبادل کاآپشن بھی رکھیں تو حالات یکسرمختلف ہوں ترکیہ نیٹو کا رُکن ہونے کے باوجودروسی ہتھیاربھی خریدتا ہے ۔خوش قسمتی سے چین و روس کونئے اتحادیوں کی تلاش ہے۔ اِس دستیاب موقع سے فائدہ اُٹھانا ہی دانشمندی ہے۔ اِس کے لیے پاکستان کی صورت میں ذریعہ موجود ہے جس کے تجربات اور فضائیہ سے بھی عرب فائدہ اُٹھا سکتے ہیں جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ ضرورت کے وقت اسلحہ اور فضائیہ کوخود استعمال کرسکیںگے ۔پاکستان اورترکیہ کے پاس اپنے عرب بھائیوں کی تربیت کرنے کی بھی صلاحیت ہے ۔یہ تبھی ممکن ہے جب امریکہ اور مغربی ممالک پر انحصار کم اور متبادل ہو۔ اسلامی سربراہی کانفرس کے فیصلوں سے توبظاہر ایساتاثر ملتا ہے جیسے امریکہ سے پوچھ کر کیے گئے ہوں ۔
قطر حملے پر پاکستان ،ترکیہ ،ملائشیااور ایران جیسے ممالک نے تو جاندار موقف اختیار کیا مگر عربوں کا موقف غیر واضح اور مُبہم ہے صرف مذمت سے حملے یا میزائل رُکتے توساری دنیا کی طرف سے مذمت کے باوجود غزہ میں بدترین نسل کشی نہ ہورہی ہوتی۔ عزت اور انصاف کے لیے بھی طاقت ضروری ہے۔ آذربائیجان ،پاکستان اور ایران یہ ثابت کرچکے پھربھی عرب ممالک سمجھ نہیں پارہے۔ ٹھیک ہے مشترکہ اعلامیے میں مسلم ممالک نے قطر کے ثالثی عمل پر حملے کو عالمی امن کوششوں پر حملہ قرار دیا ہے مگر اسرائیل کویواین اومیں بے نقاب کیوں نہیں کیا جاتا۔ سلامتی کونسل تو اسرائیل کا نام لیے بغیر قطرپر حملے کی مذمت کرتی ہے ۔امیرترین عرب ممالک کے باوجود اسرائیل غزہ میں بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کررہا ہے۔ اِس کے باوجود نتیجہ خیز فیصلے نہیں ہورہے۔ پاکستان و ترکیہ کی دفاعی خودکفالت سے فائدہ اُٹھا کر عرب دفاعی
حوالے سے خود مختار ہو ں وگرنہ یادرکھیں باری باری سبھی عرب ممالک اسرائیل کی جارحیت کا نشانہ بنیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • جی سی سی کا مشترکہ دفاعی اجلاس، اسرائیلی حملے کی مذمت، اجتماعی دفاعی اقدامات کا اعلان
  • دوحہ کانفرنس اور فیصلے
  •  اسرائیل کی مذمت کافی نہیں، دنیا کو اب اسرائیل کا راستہ روکنا ہوگا: نائب وزیراعظم
  • اسرائیل کے حملوں کی صرف مذمت کافی نہیں اب واضح لائحہ عمل دینا ہوگا، اسحاق ڈار
  • اسرائیلی حملوں کی محض مذمت کافی نہیں، اسحاق ڈار
  • اسرائیلی حملوں کی محض مذمت کافی نہیں، اب ہمیں واضح لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا: اسحاق ڈار
  • بطور ایٹمی طاقت پاکستان مسلم امہ کے ساتھ کھڑا ہے، اسحاق ڈار کا الجزیرہ کو انٹرویو
  • بطور ایٹمی طاقت پاکستا ن مسلم امہ کے ساتھ کھڑا ہے ،کسی کو بھی پاکستان کی خود مختاری چیلنج نہیں کرنے دیں گے،اسحاق ڈار
  • دوحہ اجلاس میں وزیراعظم پاکستان کی گونج
  • دوحا پر اسرائیلی حملہ: پاکستان اور کویت کی  درخواست پر سلامتی کونسل کا غیر معمولی اجلاس آج