ایران کو اسرائیلی جارحیت کے خلاف دفاع کا حق حاصل ہے، ترک صدر
اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT
ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے اسرائیل کے بڑھتے ہوئے حملوں کے تناظر میں ایران کے دفاع کے حق کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے عالمی برادری کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
بدھ کے روز حکمران ’جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی‘ کے پارلیمانی گروپ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ بالکل فطری، جائز اور قانونی ہے کہ ایران اسرائیل کی غنڈہ گردی اور ریاستی دہشتگردی کے خلاف اپنا دفاع کرے۔
یہ بھی پڑھیں اسرائیل اور ایران کے ایک دوسرے پر حملے جاری، سرینڈر نہیں کریں گے، آیت اللہ خامنہ ای
صدر اردوان کا یہ جرات مندانہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب اسرائیل ایران اور اس کے علاقائی اتحادیوں کے خلاف جارحانہ کارروائیوں میں شدت لا چکا ہے۔
اسرائیل پر شدید تنقیدصدر اردوان نے اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ نیتن یاہو نے نسل کشی کے ارتکاب میں ہٹلر جیسے ظالم کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ امید ہے کہ اس کا انجام بھی ویسا ہی نہ ہو۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ترکیہ خطے میں جاری اس غیر انسانی جارحیت کے خلاف ہر ممکن کوشش کر رہا ہے، خواہ وہ غزہ ہو، شام، لبنان، یمن یا پھر ایران ہو۔
’عالمی خاموشی پر افسوس کا اظہار‘صدر اردوان نے عالمی طاقتوں اور اداروں کی بے حسی پر سخت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ قتل کیے گئے فلسطینی بچوں اور معصوم شہریوں کا خون صرف اسرائیل اور اس کے حمایتیوں کے ہاتھوں پر نہیں، بلکہ وہ چہرے بھی خون آلود ہو چکے ہیں جو اس قتل عام پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
انہوں نے اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی خاموشی کو انسانیت کے لیے شرمناک قرار دیا۔
’ترکیہ کی تیاری اور عزم‘ترک صدر نے یقین دلایا کہ ان کی حکومت خطے میں کسی بھی منفی پیش رفت کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔ ’ہم ایران پر اسرائیلی دہشتگردانہ حملوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ہمارے تمام ادارے چوکس ہیں اور ہم نے ہر ممکنہ منظرنامے کے لیے پیشگی تیاری کر رکھی ہے۔‘
انہوں نے کہاکہ ترکیہ کی حکومت اپنے قومی مفادات، امن، اتحاد اور سلامتی کے تحفظ کے لیے مکمل پرعزم ہے۔
’خطے کے ممالک کے لیے تنبیہ‘صدر اردوان نے خطے کے تمام ممالک، خصوصاً ایران کو مشورہ دیا کہ وہ ان واقعات سے سبق سیکھیں، اور خطے کے امن و استحکام کے لیے مشترکہ لائحہ عمل اپنائیں۔
سفارت کاری جاری رکھنے کا اعلاناپنے خطاب کے اختتام پر ترک صدر نے زور دیا کہ ترکیہ مشرق وسطیٰ میں قیامِ امن کے لیے اپنی سفارتی کوششیں جاری رکھے گا۔
’ہم اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے، سفارتی رابطے اور فون ڈپلومیسی کو بروئے کار لائیں گے تاکہ اس تباہی کو روکا جا سکے جو ہر ایک کو متاثر کر سکتی ہے۔‘
یہ بھی پڑھیں ایران میں حکومت کی ممکنہ تبدیلی کے بعد کا نقشہ کیا ہوگا؟ رضا پہلوی کا اہم بیان سامنے آگیا
ترک صدر اردوان کا بیان ایک بھرپور سفارتی پیغام کے طور پر ابھرا ہے، جو نہ صرف اسرائیلی جارحیت کے خلاف عالمی رائے عامہ کو جھنجھوڑنے کی کوشش ہے بلکہ ایران کے دفاعی مؤقف کے لیے ایک غیر متوقع مگر مضبوط علاقائی حمایت کا اعلان بھی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اسرائیل ایران کشیدگی ترکیہ صدر حق دفاع رجب طیب اردوان وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل ایران کشیدگی ترکیہ صدر حق دفاع رجب طیب اردوان وی نیوز صدر اردوان اردوان نے انہوں نے کے خلاف کے لیے
پڑھیں:
اسرائیل نے متحدہ عرب امارات سے اپنا سفارتی عملہ واپس کیوں بلا لیا؟
تل ابیب(نیوز ڈیسک) اسرائیل نے متحدہ عرب امارات (یو اے ای) سے اپنا سفارتی عملہ واپس بلاتے ہوئے خلیجی ممالک میں موجود اپنے شہریوں کو دہشت گردی کے خطرے سے خبردار کیا ہے۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق جمعرات کی شب اسرائیل کی قومی سلامتی کونسل نے اپنے شہریوں کے لیے ایک سفری انتباہ جاری کیا ہے جس کے بعد متحدہ عرب امارات میں بیشتر سفارتی عملے نے واپسی کی تیاری شروع کردی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیلی نیشنل سیکیورٹی کونسل نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہم سفری انتباہ پر زور دے رہے ہیں کیوں کہ ہمیں لگتا ہے کہ دہشت گرد تنظیمیں اسرائیل کو نقصان پہنچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
اسرائیلی نیشنل سیکیورٹی نے خبردار کیا ہے کہ یو اے ای میں اسرائیلی اور یہودی افراد کو خاص طور پر یہودی تعطیلات کے دوران نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
اسرائیل کے وزارت خارجہ کے ترجمان کے دفتر نے فوری طور پر تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔ یو اے ای کی وزارت خارجہ نے بھی فوری طور پر کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔
واضح رہے کہ 2 سے 3 اگست کے دوران یہودی تیشا بی ایو (Tisha B’Av) تہوار منائیں گے جس کے دوران بیشتر یہودی روزہ رکھتے ہیں۔
متحدہ عرب امارات میں اسرائیلی اور یہودی کمیونٹی کی موجودگی 2020 کے بعد مزید نمایاں ہوئی تھی، جب یو اے ای نے ایک امریکی ثالثی کے تحت اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ تعلقات قائم کرنے والے ابراہم معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ گزشتہ 30 برسوں میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے والا یو اے ای پہلا عرب ملک تھا۔
Post Views: 4