دنیا کی جنگیں: پاکستانی کسان کا مقام بمقابلہ بھارتی کسان
اشاعت کی تاریخ: 19th, June 2025 GMT
دنیا کی جنگیں: پاکستانی کسان کا مقام بمقابلہ بھارتی کسان WhatsAppFacebookTwitter 0 19 June, 2025 سب نیوز
تحریر: عاصم قدیر رانا
دنیا بدل رہی ہے۔ اب جنگ صرف ہتھیاروں سے نہیں، خوراک، پانی، توانائی اور معیشت سے لڑی جا رہی ہے۔ جس ملک کے گودام بھرے ہوں، اس کا دشمن بھی سوچ کر حملہ کرتا ہے۔ لیکن افسوس کہ پاکستان میں جس کسان کے ہاتھ میں یہ طاقت تھی، وہ آج خود کمزور، تنہا اور بے بس کھڑا ہے۔
پاکستانی کسان: مسائل، محرومی اور حکومتی بے حسی
پاکستان کا کسان اپنی محنت سے گندم، کپاس، گنا، چاول اور سبزیاں اگاتا ہے، لیکن اس کے ہاتھ میں کچھ نہیں آتا۔ 2024-25 میں پنجاب حکومت نے گندم کا سرکاری ریٹ 3900 روپے فی من مقرر کیا، مگر مارکیٹ میں کسان سے 3500 روپے یا اس سے کم میں خریدی گئی۔ کپاس، جو کبھی “سفید سونا” کہلاتی تھی، آج کسان کے لیے دھوکہ بن چکی ہے۔ نہ پانی میسر، نہ کھاد سستی، نہ بیج قابلِ بھروسا، نہ کوئی ایسا نظام جو کسان کے نقصان کا ازالہ کرے۔
کسان کو نہ زرعی قرض آسانی سے ملتا ہے، نہ اس کی فصل کا کوئی بیمہ ہوتا ہے۔ وہ آڑھتی، مڈل مین، ذخیرہ اندوز، اور کرپٹ پٹواریوں کے درمیان پھنسا ہوتا ہے۔ اسے نہ حکومت پر اعتماد ہے نہ نظام پر۔ وہ روز جیتا ہے، روز مرتا ہے۔
بھارت کا کسان: سہولت، تحفظ، ترقی
اب سرحد کے اُس پار دیکھیں، تو بھارتی پنجاب میں کسان کی زندگی مختلف ہے۔ حکومت فصل سے پہلے اعلان کرتی ہے کہ کس فصل کا Minimum Support Price (MSP) کیا ہوگا۔ یعنی کسان کو یقین ہے کہ اگر مارکیٹ میں ریٹ گر بھی جائیں، تو حکومت اس سے مقررہ نرخ پر فصل خریدے گی۔
مثلاً 2024-25 میں بھارتی حکومت نے گندم کا MSP 2275 روپے فی کوئنٹل (تقریباً 6100 پاکستانی روپے فی من) مقرر کیا۔ اسی طرح کپاس، مکئی، دھان، دالیں، سرسوں – ہر فصل کی قیمت پہلے سے طے شدہ ہے۔
بھارتی کسان کو:
• زرعی قرضے آسان شرائط پر
• بجلی اور ڈیزل پر سبسڈی
• بیج، کھاد اور زرعی مشینری پر رعایت
• فصل بیمہ اسکیم میں تحفظ
• سالانہ نقد امداد (PM-Kisan اسکیم کے تحت)
میسر ہے۔
اس سب کا نتیجہ یہ ہے کہ بھارتی کسان نہ صرف خوشحال ہے بلکہ قومی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
عالمی حالات: خوراک اب قومی سلامتی کا ہتھیار
روس-یوکرین جنگ، اسرائیل-ایران کشیدگی، چین-امریکہ مقابلہ، اور جنوبی ایشیا میں بڑھتا تناؤ، سب یہ ثابت کر رہے ہیں کہ اب اصل طاقت خوراک ہے۔ خوراک کی خودکفالت دفاع سے بھی زیادہ ضروری ہو چکی ہے۔
• اگر دشمن آپ کا تیل بند کرے، تو آپ گزر کر سکتے ہیں
• اگر دشمن آپ کی گندم روک دے، تو عوام سڑکوں پر نکل آتی ہے
بھارت نے یہ حقیقت پہچان لی ہے۔ اسی لیے وہ اپنے کسان کو قومی اثاثہ سمجھ کر سہولت دے رہا ہے۔ اس کے گودام بھرے ہیں، وہ دنیا میں چاول کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے، اور بحران کی صورت میں اپنے عوام کو پال سکتا ہے۔
پاکستان کے لیے لمحۂ فکریہ
پاکستان اب بھی کسان کو سب سے نچلے درجے پر رکھتا ہے۔ زرعی بجٹ کم، پالیسی بے سمت، اور نظام کرپٹ ہے۔ اگر خدانخواستہ خطے میں جنگ چھڑتی ہے، تو پاکستان خوراک کی کمی کا شکار ہو سکتا ہے، کیونکہ ہم نے آج تک اپنے کسان کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ:
• ہر فصل کا MSP طے ہو اور نافذ العمل بنایا جائے
• کسان کو کھاد، بیج، ڈیزل پر سبسڈی دی جائے
• زرعی قرضوں کو آسان اور شفاف بنایا جائے
• فصلوں کا بیمہ کیا جائے
• ذخیرہ اندوزی اور مڈل مین کے نظام کو ختم کیا جائے
• قومی سلامتی پالیسی میں زرعی تحفظ شامل کیا جائے
⸻
کسان کو بچانا ملک کو بچانا ہے۔ خوراک کی جنگ میں زندہ وہی رہے گا جس کے کھیت آباد ہوں، اور کسان مطمئن۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرمیدان جنگ سے سفارت کاری تک: پاکستان کی منفرد فتح میدان جنگ سے سفارت کاری تک: پاکستان کی منفرد فتح چین-وسطی ایشیا تعلقات کا نیا دور تاریخ اور تلخیاں دو تنازعات، ایک ایجنڈا: مسلم خودمختاری پر مشترکہ جارحیت مذہبی جنونی رہبر دنیا کے امن کیلئے سنگین خطرہ بن گئے انصاف خطرے میں،اسرائیل کی غزہ میں نسل کشی اور ایران پر جارحیت عالمی قانونی اقدامات کی متقاضی ہےCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: بھارتی کسان کسان کو
پڑھیں:
پاک فضائیہ نے جدید بھارتی رافیل کیسے گرائے؟ رائٹرز نے خصوصی رپورٹ شائع کردی
لندن ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 02 اگست 2025ء ) عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز نے ایک خصوصی رپورٹ شائع کردی جس میں بتایا گیا ہے کہ پاک فضائیہ نے جدید بھارتی رافیل کیسے گرائے؟ ۔ تفصیلات کے مطابق رائٹرز کی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 7 مئی کو پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی فضائی جھڑپ کو جدید دور کی سب سے بڑی فضائی جنگ تھی جس میں 110 کے قریب طیاروں نے حصہ لیا، اس معرکے کا مرکز پاکستان کی چینی ساختہ جے 10 سی طیارے اور بھارت کے جدید فرانسیسی رافیل تھے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کے جب بھارتی فضائیہ نے پاکستانی حدود میں اہداف پر حملہ کیا تو پاکستانی ایئر چیف مارشل ظاہر احمد بابر سدھو پہلے ہی کئی دنوں سے ممکنہ بھارتی حملے کے پیش نظر آپریشن روم میں ہی سو رہے تھے، جیسے ہی بھارتی طیارے ریڈار پر نمودار ہوئے ایئر چیف نے فوری طور پر جے 10 سی طیاروں کو روانہ کیا اور انہیں رافیل کو خاص طور پر نشانہ بنانے کا حکم دیا۔(جاری ہے)
اس حوالے سے ایک سینیئر پاکستانی افسر نے بتایا کہ ایئر چیف کو رافیل چاہیئے تھے، پاکستانی جے 10 سی طیارے PL15 میزائل سے لیس تھے جو چین کا تیار کردہ ایک جدید ترین لانگ رینج ایئر ٹو ایئر میزائل ہے، بھارت کے پائلٹس کو یقین تھا کہ وہ پاکستانی میزائل کی رینج 150 کلومیٹر سے باہر ہیں مگر اصل میں وہ میزائل تقریباً 200 کلومیٹر دور سے فائر کیا گیا اور ایک رافیل طیارے کو نشانہ بنانے میں کامیاب رہا۔ رائٹرز نے امریکی حکام کے حوالے سے تصدیق کی کہ ایک رافیل واقعی گرایا گیا جس کے بعد فرانسیسی کمپنی ڈاسوٹ کے حصص کی قیمت میں کمی دیکھی گئی، انڈونیشیا جو رافیل خریدنے والا ایک ممکنہ ملک تھا اب چینی جے 10 سی خریدنے پر غور کر رہا ہے، پاکستان نے ایک مربوط ’کِل چین‘ سسٹم استعمال کیا جس میں فضائی، زمینی اور سیٹلائٹ ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کو ایک نیٹ ورک میں جوڑ کر مکمل صورت حال پر کنٹرول حاصل کیا گیا، پاکستانی سسٹم ’ڈیٹا لنک 17‘ نے چینی اور سویڈش ٹیکنالوجی کو یکجا کرکے طیاروں کو بغیر ریڈار آن کیے دشمن کے ریڈار سے بچنے میں مدد دی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے حکام نے تسلیم کیا کہ ان کا موجودہ نیٹ ورک مختلف ممالک سے لیے گئے آلات کی وجہ سے پیچیدہ اور غیر مربوط ہے، تاہم وہ بھی ’کِل چین‘ جیسے نظام پر کام کر رہے ہیں، اس جنگ کے دوران چین نے پاکستان کو ’لائیو فیڈ‘ فراہم کی جس کی بھارت نے مذمت کی، تاہم چین اور پاکستان نے اسے معمول کی دفاعی شراکت داری قرار دیا، جنگ کے نتیجے میں امریکہ کی مداخلت سے 10 مئی کو سیزفائر عمل میں آیا، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اس لڑائی نے یہ ثابت کر دیا کہ جدید جنگ میں فتح صرف ہتھیاروں کی نہیں بلکہ صحیح معلومات اور مربوط نظام کی ہوتی ہے۔