ایران کا سب سے بڑا میزائل حملہ، آرمی کمانڈ و انٹیلیجنس ہیڈکوارٹر اور اسرائیلی اسٹاک ایکسچینج کی عمارت نشانہ بن گئی
اشاعت کی تاریخ: 19th, June 2025 GMT
ایران نے میزائلوں سے اسرائیل پر اب تک سب سے بڑا حملہ کردیا ہے جس کے نتیجے میں اسرائیلی ذرائع نے بڑے پیمانے پر تباہی کا اعتراف کیا ہے۔
جنوبی اسرائیل کے شہر بئر سبع اور تل ابیب میں ایرانی میزائل حملوں کے نتیجے میں کم از کم 30 افراد زخمی ہو گئے ہیں، جن میں سے 3 افراد کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔
اردن میں موجود الجزیرہ کی نمائندہ نور عودہ کے مطابق، ایرانی میزائل حملوں میں بئر سبع کا ’سوروکا اسپتال‘ بھی متاثر ہوا۔ اسپتال کو پہنچنے والا نقصان براہِ راست حملے سے نہیں ہوا بلکہ دھماکے کی شدت سے پیدا ہونے والی ارتعاشی لہر کے باعث ہوا۔ ایرانی سرکاری میڈیا کا دعویٰ ہے کہ حملے کا اصل ہدف اسپتال کے قریب موجود ایک ’حساس تنصیب‘ تھی۔
مزید براں ایرانی میزائل حملے میں تل ابیب میں واقع اسرائیلی اسٹاک ایکسچینج کی عمارت کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ نور عودہ کے مطابق حملے سے شہر میں موجود اہم اقتصادی مرکز شدید طور پر متاثر ہوا ہے، جس کا فوری ردعمل اسرائیلی معیشت پر بھی پڑ سکتا ہے۔
ایرانی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’ ارنا‘ نے ٹیلیگرام پر جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ جمعرات کی صبح اسرائیل پر ہونے والے میزائل حملے کا اصل ہدف اسرائیلی فوج
کا کمانڈ اور انٹیلیجنس ہیڈکوارٹر تھا، جو ٹیکنالوجی پارک میں واقع ہے۔ ایرانی دعوے کے مطابق یہ فوجی انٹیلیجنس کیمپ جنوبی اسرائیلی شہر بئر سبع میں سوروکا اسپتال کے ساتھ واقع ہے۔
یہ بھی پڑھیے ایران کا ’سجیل‘ میزائل کے ذریعے اسرائیل پر تازہ حملہ، اسرائیلی فوج کی شہریوں کو پناہ گاہوں میں منتقل ہونے کی ہدایت
ارنا کے مطابق حملے میں اسپتال کو براہ راست نشانہ نہیں بنایا گیا بلکہ اسے صرف دھماکے کی ارتعاشی لہر سے معمولی نقصان پہنچا۔ بیان میں بتایا گیا ہے کہ فوجی انفرا اسٹرکچر ایک درست اور براہ راست ہدف تھا۔
ایرانی حکام نے اس حملے کو دفاعی اقدام قرار دیا ہے، جس کا مقصد اسرائیل کے انٹیلیجنس نیٹ ورک کو کمزور کرنا تھا، خاص طور پر ایسے وقت میں جب خطے میں کشیدگی عروج پر ہے۔
واضح رہے کہ اس حملے میں تل ابیب اور دیگر علاقوں میں بھی دھماکوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں، اور اسرائیلی اسٹاک ایکسچینج کی عمارت کو بھی نقصان پہنچنے کی تصدیق ہو چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیے ایران کا ایک اور اسرائیلی ایف 35 جنگی جہاز مار گرانے کا دعویٰ، مجموعی تعداد 5 ہوگئی
تجزیہ کاروں کے مطابق ایران کی جانب سے یہ پیغام واضح ہے کہ وہ صرف سفارتی سطح پر ہی نہیں بلکہ فوجی میدان میں بھی جارحانہ حکمت عملی اختیار کر رہا ہے، اور اسرائیلی حساس مقامات کو براہِ راست نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل ایران جنگ تل ابیب.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل ایران جنگ تل ابیب اور اسرائیلی کے مطابق تل ابیب
پڑھیں:
ایران کے میزائل حملے: اسرائیلی وزیردفاع شہریوں کو نشانہ بنانے کی دھمکی سے پیچھے ہٹ گئے
اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ شدت اختیار کرتی جارہی ہے، اور دونوں ممالک کے ایک دوسرے پر حملے جاری ہیں۔ جس کے نتیجے میں دونوں اطراف جانی نقصان کے ساتھ انفراسٹرکچر بھی تباہ ہورہا ہے۔
اسرائیل کے وزیر دفاع اسرائیل کاٹز ایران کے شہریوں کو نشانہ بنانے کی دھمکی دینے والے بیان سے پیچھے ہٹ گئے۔
یہ بھی پڑھیں چین کی ایران اور اسرائیل سے کشیدگی فوری کم کرنے کی اپیل
اس سے قبل اسرائیل کے وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے وارننگ جاری کی تھی کہ تہران کے رہائشیوں کو اسرائیل پر ایرانی حملوں کی ’قیمت ادا کرنی پڑے گی۔
تاہم اب اسرائیلی وزیرِ دفاع کی جانب سے ایک وضاحت سامنے آئی ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ ان کے ملک کا ’تہران کے رہائشیوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔‘
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ’تہران کے رہائشی آمرانہ طرزِ حکومت کی قیمت ادا کریں گے اور انہیں ان علاقوں سے اپنے گھر چھوڑنے پڑیں گے جہاں اسرائیل کے لیے تہران میں حکومتی اہداف اور سیکیورٹی ڈھانچے کو نشانہ بنانا ضروری ہوگا۔‘ ہم اسرائیل کے شہریوں کا تحفظ جاری رکھیں گے۔
ایران اور اسرائیل کے مابین بڑھتی ہوئی جنگ پیر کے روز ایک نیا اور خطرناک موڑ اختیار کر گئی جب ایرانی میزائلوں نے تل ابیب اور حیفا کو نشانہ بنایا، اور اسرائیل نے فوری طور پر ایران کے اندر جوابی فضائی کارروائیاں شروع کردیں۔ اس شدید کشیدگی کے پیش نظر عالمی رہنماؤں کا آئندہ سربراہی اجلاس اس تنازعے کو اولین ایجنڈے پر لے آیا ہے۔
پیر کی علی الصبح ایران نے اسرائیل پر متعدد بیلسٹک میزائل فائر کیے، جن کا ہدف تل ابیب اور حیفا کے اہم شہری و فوجی مراکز تھے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق حملے میں کم از کم 8 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے، جب کہ امریکی سفارت خانے کی عمارت کو بھی معمولی نقصان پہنچا۔
اسرائیل کی جانب سے کئی میزائلوں کو روکا گیا، مگر کچھ میزائل شہری آبادیوں پر گرے۔
اسرائیلی فوج نے فوری جوابی کارروائی کرتے ہوئے ایران میں بیلسٹک میزائل لانچر، ریڈار سسٹمز اور ایرانی انٹیلیجنس کے 4 اعلیٰ اہلکاروں کو نشانہ بنایا۔
غیرملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیل کی ایران کی لڑائی میں اب تک ایران کے 224 افراد جبکہ 24 اسرائیلی ہلاک ہوچکے ہیں۔ جبکہ دونوں ممالک کے انفراسٹرکچر کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
ایران کے مغربی شہر کرمان شاہ میں فارابی اسپتال میزائل حملے میں مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔ جبکہ اسرائیل کے شمالی بندرگاہی شہر حیفا میں تیل ٹرمینل اور ریلوے اسٹیشن متاثر ہوئے۔
ایران اور اسرائیلی کشیدگی کے باعث کینیڈا میں جاری جی 7 سربراہی اجلاس میں ایران اسرائیل کشیدگی سرفہرست ایجنڈا بن گئی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دونوں فریقین پر زور دیا کہ مسائل کے حل کے لیے سفارتی راستہ اپنایا جائے۔
اس کے علاوہ یورپی یونین، اقوام متحدہ، چین اور روس نے بھی فوری جنگ بندی اور غیر ملکی شہریوں کے تحفظ کی اپیل کی ہے۔
ایران کی جوہری پالیسی میں ممکنہ تبدیلی
ایران کی پارلیمنٹ نے امکان ظاہر کیا ہے کہ وہ جوہری عدم پھیلاؤ کے عالمی معاہدے (NPT) سے دستبرداری پر غور کررہی ہے۔
ایرانی حکام کا کہنا ہےاگر دشمن کے حملے جاری رہے تو ہم اپنے تمام ممکنہ دفاعی آپشنز استعمال کریں گے۔
معاشی اثرات: تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ
ایرانی حملوں اور اسرائیلی جوابی کارروائیوں کے بعد عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں 7 فیصد تک بڑھیں، تاہم بعد ازاں قدرے استحکام آگیا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر جنگ خلیج فارس تک پہنچی تو قیمتیں شدید عدم استحکام کا شکار ہوں گی۔
امریکی سیاست میں ہلچل
امریکی سینیٹ میں ڈیموکریٹک سینیٹر ٹیم کین نے ایک بل پیش کیا ہے جس کے تحت امریکی صدر ایران کے خلاف جنگی کارروائی کے لیے کانگریس کی منظوری کے پابند ہوں گے۔
امریکی ایوان نمائندگان کے کئی ارکان نے صدر ٹرمپ سے مطالبہ کیا کہ وہ ایران پر براہِ راست حملوں سے گریز کریں۔
موجودہ منظرنامہ اور مستقبل کا اندیشہ
ایران اور اسرائیل دونوں نے مزید حملوں کے لیے عسکری نقل و حرکت تیز کر دی ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور G7 اجلاس آئندہ 48 گھنٹوں میں فوری مداخلت پر غور کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں ایرانی میزائل حملے میں تل ابیب میں امریکی سفارتخانے کو معمولی نقصان
یہ جنگ اب محض ایران اور اسرائیل کے درمیان محدود نہیں رہی، بلکہ عالمی امن، توانائی کی سلامتی، اور سفارتی توازن کو براہِ راست خطرے میں ڈال چکی ہے۔ دنیا کی نظریں اب جی سیون، اقوام متحدہ، اور واشنگٹن پر ہیں کہ آیا کوئی سفارتی حل نکلتا ہے یا یہ جنگ ایک خطرناک عالمی بحران میں تبدیل ہو جائے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں