میں نے زندگی کے کئی منظر دیکھے۔ عراق کی بربادی، افغانستان کی خاک، شام کا خوں رنگ پانی، برما اور ہندوستان میں خون کی ہولی اور لیبیا کی بکھری ہوئی ریاستیں۔ مگر ایک چیز ہر جگہ مشترک دیکھی …! مسلمان کا لاشہ، مسلمان کی آہ اور مسلمان کی تنہائی، اور آج جب ایران نے اسرائیل کے قلب پر خیبر شکن ضرب لگائی تو مجھے لگا شائد اب وہ وقت آ گیا ہے جب امت کی رگوں میں دوڑتے مردہ خون میں حرارت پیدا ہو گی۔ مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔ نہ او آئی سی جاگی، نہ اسلامی فوجی اتحاد حرکت میں آیا اور نہ وہ امت جسے کبھی محمد بن قاسم اور طارق بن زیاد کی اولاد کہا جاتا تھا۔او آئی سی جو 1969 ء میں قبلہ اول کی بے حرمتی کے بعد قائم ہوئی تھی آج 2025 ء میں ایک بے جان لاش سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ ستاون اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم جو ہر سال کئی اجلاس کرتی ہے، لاکھوں ڈالر خرچ کرتی ہے، دنیا کے بہترین ہوٹلوں میں ضیافتیں دیتی ہے مگر جب مسئلہ فلسطین کا آتا ہے تو ایک سطر کا مذمتی بیان جاری کر کے سو جاتی ہے۔کیا یہی تنظیم ہے جو مسلمانوں کی محافظ کہلاتی ہے؟ کیا یہی ادارہ ہے جو کشمیر، بوسنیا، چیچنیا، برما اور فلسطین کے مسلمانوں کے لئے قائم ہوا تھا؟ اگر ہاں، تو پھر غزہ کی بربادی پر اس کا ردعمل اتنا سرد کیوں ہے؟ کیوں ہر اجلاس میں چند قراردادیں، چند فوٹو سیشن اور پھر خاموشی؟ شاید اس لیے کہ ان کے ایجنڈے کے گرد آج بھی واشنگٹن، پیرس اور لندن کے مفادات لپٹے ہیں اور اب آیئے اسلامی فوجی اتحاد کی طرف جسے 2015 میں بڑے طمطراق سے سعودی عرب نے بنایا تھا۔ کہا گیا کہ یہ امتِ مسلمہ کی عسکری ڈھال ہو گا۔ اعلان ہوا کہ جنرل راحیل شریف اس کی قیادت کریں گے جو دہشت گردی کے خلاف اسلامی دنیا کا ہراول دستہ بنیں گے۔ مگر سات برس گزر گئے، دہشت گردی تو اپنی جگہ مگر جب اسرائیل نے فلسطین کے بچوں کے جسم چیرے، ایران پر میزائل داغے اور مسجد اقصیٰ کو ایک فوجی چھائونی میں بدل دیا گیا مگر اس امت مسلمہ کی فوج کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی اور یہ اتحاد خواب خرگوش میں مست رہا۔
اسلامی فوجی اتحاد کا دفتر ریاض میں ہے۔ اسے چلانے والے لوگ لاکھوں ڈالر کی تنخواہیں لیتے ہیں۔ انہیں دنیا کی بہترین سہولیات میسر ہیں۔ مگر جب سوال اٹھتا ہے کہ کیا انہوں نے کبھی فلسطین کے لیے کوئی عسکری قدم اٹھایا؟ تو جواب نہ صرف نہیں ہوتا ہے بلکہ ایک خاموشی ۔ جب ایران نے اسرائیل پر جوابی کارروائی کی تب اسلامی فوجی اتحاد نے نہ حمایت کی نہ کوئی علامتی ردعمل دیا۔کیا ایران کی تنہائی اس لیے ہے کہ وہ امریکہ کے سامنے نہیں جھکتا؟ کیا ایران کا جرم یہ ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف عسکری قوت استعمال کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر او آئی سی اور اسلامی فوجی اتحاد کو اسلامی کہلوانے کا کوئی حق نہیں۔ یہ ادارے محض حکومتی کلب ہیں جہاں مسلمان حکمران اپنی بادشاہتیں بچانے کی مشق کرتے ہیں۔
آج ایران نے اسرائیل کے سینے پر کاری ضرب لگائی ہے۔ اس کے میزائلوں نے اسرائیل کے جدید دفاعی نظام کو بے نقاب کر دیا۔ اس حملے نے اس نفسیاتی طلسم کو توڑ دیا جو اسرائیل کے ناقابلِ شکست ہونے کے گرد بنا گیا تھا۔ مگر اس عظیم عمل میں ایران عملی طور پر تنہا ہے۔سوائے پاکستان اور ترکی کے نہ کوئی اسلامی ملک ساتھ کھڑا ہے نہ کوئی اتحاد، نہ او آئی سی، نہ عرب لیگ۔کیوں اسلامی دنیا ایران کو تنہا چھوڑ کر اسرائیل کی حمایت میں خاموشی اختیار کرتی ہے؟ کیا اسرائیل سے دشمنی ختم ہو چکی؟ کیا قبلہ اول پر قبضہ اب ہمیں تکلیف نہیں دیتا؟ کیا فلسطینی بچوں کی چیخیں ہمارے حکمرانوں کے ایوانوں تک نہیں پہنچتیں؟دراصل یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ ہم نے غلامی کو اختیار کر لیا ہے۔ ہماری عسکری پالیسی ہو یا خارجی ہمارے فیصلے اب واشنگٹن، لندن اور تل ابیب سے طے ہوتے ہیں۔ ہم صرف ان پر عملدرآمد کرتے ہیں۔
ہمارے اسلامی ممالک اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرتے ہیں، خفیہ ملاقاتیں کرتے ہیں، انٹیلی جنس شیئر کرتے ہیں اور پھر دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم فلسطینیوں کے ساتھ ہیں۔ صاف لفظوں میں کہا جائے تو یہ منافقت کی انتہا ہے۔اسلامی فوجی اتحاد ہو یا او آئی سی ان کی خاموشی ایک اعلان ہے کہ وہ تمہارے نہیں صرف اپنے مفادات کے محافظ ہیں۔ وہ امت کے نہیں اپنے تاج و تخت کے وفادار ہیں۔ ان کی ترجیح اسرائیل نہیں اپنا اقتدار ہے اور جب تک یہ سوچ نہیں بدلے گی امتِ مسلمہ اسی طرح بے بس، ٹکڑوں میں بٹی اور پامال رہے گی۔اگر آج ہم نہ جاگے تو ہم بھی ان تنظیموں کے ساتھ ہی تاریخ کے کوڑے دان میں ڈال دئیے جائیں گے۔ اگر آج بھی ہم نے آواز بلند نہ کی تو کل فلسطین کے بعد نشانہ ہم ہوں گے۔ ایران نے اگرچہ یہ جنگ تنہا لڑ رہا ہے مگر اس کا پیغام اجتماعی ہے کہ دشمن کو صرف مذمت سے نہیں مردانگی سے روکا جاتا ہے۔اب وقت آ چکا ہے کہ ہم اپنے حکمرانوں سے سوال کریں۔ اسلامی فوجی اتحاد سے سوال کریں۔ او آئی سی سے جواب مانگیں اور یہ سوال صرف الفاظ کا نہیں بلکہ ایک تحریک کا آغاز ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنی صفوں کو ازسرنو ترتیب دینا ہو گا۔ اپنی قیادتوں کو بدلنا ہو گا۔ اپنی ترجیحات کو تبدیل کرنا ہو گا۔ کیونکہ وقت کم ہے۔ دشمن تیار ہے اور ہم اب بھی سوتے رہے تو انجام تاریخ کی سب سے بڑی ذلت ہو گا۔
خدا کی زمین اور بندوں کا ماتم
کہاں ہے وہ لشکر؟ کہاں ہے وہ پرچم
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اسلامی فوجی اتحاد اسرائیل کے نے اسرائیل فلسطین کے او آئی سی کرتے ہیں ایران نے
پڑھیں:
روس نے امریکا کو خبردار کر دیا
روسی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ امریکی فوجی امداد مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال کو شدید غیر مستحکم کر سکتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ایران اور اسرائیل جنگ کے حوالے سے روس نے امریکا کو خبردار کر دیا۔ روسی وزارت خارجہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ امریکا اسرائیل کو براہِ راست فوجی امداد دینے یا اس کے بارے میں سوچنے سے بھی خبردار رہے۔ روسی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ امریکی فوجی امداد مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال کو شدید غیر مستحکم کرسکتی ہے، ایران اور اسرائیل دونوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ اس سے قبل یہ بات سامنے آئی تھی کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر اسرائیلی حملوں میں امریکا کے شامل ہونے کا عندیہ دے دیا ہے۔