Jang News:
2025-06-19@15:28:00 GMT

سپریم کورٹ آئینی بینچ نے ججز ٹرانسفر کیس پر فیصلہ سنادیا

اشاعت کی تاریخ: 19th, June 2025 GMT

سپریم کورٹ آئینی بینچ نے ججز ٹرانسفر کیس پر فیصلہ سنادیا

—فائل فوٹو

سپریم کورٹ آئینی بینچ نے ججز ٹرانسفر کیس پر فیصلہ سنا دیا۔ سپریم کورٹ کے تین ججز نے ججز کی ٹرانسفر کو آئینی قرار دیا۔

آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس محمد علی مظہر نے ججز ٹرانسفر کیس پر فیصلہ سنایا، سپریم کورٹ نے ججز کے ٹرانسفر کے خلاف درخواستیں نمٹا دیں۔

سپریم کورٹ نے تین دو کی اکثریت سے ججز ٹرانسفر کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ سنایا

عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ جسٹس سردار سرفراز ڈوگر قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد کے طور پر کام کرتے رہیں گے۔

کیس کا پس منظر

جسٹس سرفراز ڈوگر، جسٹس محمد آصف، جسٹس خادم حسین سومرو کا اسلام آباد ہائی کورٹ ٹرانسفر ہوا تھا، تین ججز کی ٹرانسفر کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 ججز نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔

ٹرانسفر اور سینیارٹی کے خلاف جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس بابر ستار نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ ٹرانسفر اور سینیارٹی کے خلاف جسٹس طارق جہانگیری نے بھی سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔

سپریم کورٹ سے رجوع کرنے والوں میں جسٹس سردار اعجاز اسحاق اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز بھی شامل ہیں۔

ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی کے خلاف بانی پی ٹی آئی اور کراچی بار نے بھی درخواستیں دائر کی تھیں۔ 

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: سپریم کورٹ پر فیصلہ کے خلاف

پڑھیں:

مخصوص نشستیں کیس؛ سپریم کورٹ آئینی بینچ کے وکیل سلمان اکرم سے اہم سوالات

اسلام آباد:

مخصوص نشستوں کے کیس میں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے جسٹس شاہد بلال حسن نے وکیل سلمان اکرم راجا سے اہم سوالات کیے، جسٹس امین الدین نے سوال اٹھایا کہ باپ پارٹی کو نشستیں مل گئی تھیں تو آپ کہتے ہیں سنی اتحاد کو بھی ملے؟

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 11 رکنی آئینی بینچ نے کیس پر سماعت کی۔ کنول شوزب کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں عدالت کے سامنے کچھ حقائق رکھوں گا، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشنز پر فیصلہ دیا، آٹھ فروری انتخابات میں آئین سے انحراف ہوا۔

جسٹس امین الدین نے کہا کہ ہمارے سامنے ایک فیصلہ ہے جس پر نظرثانی ہے، آپ اپنے دلائل اسی فیصلے تک رکھیں۔

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ مجھے موقع دیا گیا ہے تو پھر پلیز گزارشات کرنے دیں، آئین سے انحراف 22 دسمبر 2023 سے شروع ہوگیا تھا، 22 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن پر فیصلہ دیا جس میں الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو بطور پارٹی ہی ختم کر دیا۔

وکیل نے کہا کہ اس فیصلے کے بعد ہی کچھ لوگوں نے بطور آزاد امیدوار کاغذات جمع کروائے کیونکہ امیدواروں کو خدشہ تھا کاغذات مسترد کر دیے جائیں گے، 13 جنوری کو سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا، جن پی ٹی آئی امیدواروں نے ٹکٹ جمع کروائے تھے وہ بھی واپس کر دیے گئے، میں نے بھی ٹکٹ جمع کروایا انہوں نے واپس کر دیا۔

سلمان اکرم راجا نے دلائل میں کہا کہ میرے پاس ریکارڈ موجود ہے مگر کمیشن نے یہاں کہا میں آزاد تھا، 2018 کے بعد باپ پارٹی کو بنا الیکشن لڑے مخصوص نشستیں دی گئیں، آزاد امیدواروں کے شامل ہونے پر ہی باپ پارٹی کو مخصوص نشستیں ملیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ باپ پارٹی نے الیکشن تو باقی ملک سے لڑا تھا۔ جسٹس امین الدین نے سوال اٹھایا کہ باپ پارٹی کو نشستیں مل گئی تھیں تو آپ کہتے ہیں سنی اتحاد کو بھی ملے؟

وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ نہیں میں تو یہاں فیصلے کا دفاع کر رہا ہوں، میں صرف یہ بتا رہا ہوں ہم کن حالات میں اور کیوں سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوئے، یہاں کہا گیا تھا ہم نے غلطیاں کیں اس لیے سب بتا رہا ہوں، گزشتہ مثال باپ پارٹی کی صورت میں ہمارے سامنے موجود تھی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ چھ لوگ تو پارلیمنٹ میں پی ٹی آئی کے ہی بیٹھے تھے۔ جسٹس امین الدین نے استفسار کیا کہ کیا ان چھ لوگوں نے الیکشن کمیشن سے مخصوص نشستیں مانگیں؟

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ان چھ لوگوں کو بھی پی ٹی آئی کا نہیں مانا، الیکشن کمیشن نے ہمیں پارٹی نہیں مانا تو ہائیکورٹ گیا، لاہور ہائیکورٹ کے بعد دو بار سپریم کورٹ آیا لیکن نہیں سنا گیا، پہلی مرتبہ رجسٹرار آفس نے اعتراض لگایا ہمارے کاغذات دھندلے ہیں، کاغذات کلیئر لگائے تو دوسرا اعتراض پھر لگا، دو فروری کو رجسٹرار نے کہا اب الیکشن بہت قریب ہیں نہیں سن سکتے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے خلاف اپیل دائر کی؟ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ یہ درست ہے ہم نے رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے خلاف چیمبر اپیل دائر نہیں کی۔

وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ 8 فروری اور اس سے متعلقہ واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے اکثریتی فیصلہ کیا گیا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ایسا کوئی مٹیریل عدالت کے سامنے تھا ہی نہیں، کسی شخص نے عدالت میں آکر نہیں کہا مجھ سے سب کچھ گن پوائنٹ پر کروایا گیا۔

وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ 8 ججوں کے اکثریتی فیصلے میں پاکستان کے عوام کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ دیا گیا، تین نومبر کے اقدامات کے خلاف دیے گئے فیصلے کی مثال موجود ہے، عدالت گزشتہ واقعات کی اصلاح کرتی رہی ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کے پاس قابل اصلاح سے متعلق کوئی اختیار سماعت نہیں ہے۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ 8 ججوں کے اکثریتی فیصلے میں اور دو ججوں کے اختلافی نوٹ میں تھوڑا سا فرق ہے، اکثریتی فیصلے میں لائن نیچے سے لگائی گئی اور دو ججوں نے لائن اوپر سے لگائی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ تمام ریکارڈ کا جائزہ لیکر 39 اراکین کی حد تک فیصلہ دیا۔ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ وہ حقائق ہمارے سامنے تھے ہی نہیں۔

وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل دیے کہ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی ان 8 ججز میں شامل تھے جنھوں نے وسیع نظر سے حقائق کو دیکھا، جسٹس جمال خان مندوخیل اور سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کم وسیع نظر سے حقائق کو دیکھ کر فیصلہ دیا۔ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس منیب اختر دستیابی کے باوجود بینچ کا حصہ نہیں ہیں، اگر وہ ہوتے تو اپنے فیصلے کا دفاع کرتے، فارسی کا ایک شعر ہے جس کا اردو ترجمہ ہے کہ دریا میں باندھ کر پھینک دیا گیا اور کہا گیا گیلا نہیں ہونا۔

جسٹس صلاح الدین پہنور نے کہا کہ اسی طرح کا ایک پنجابی میں بھی شعر ہے۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ آپ ارشاد فرمائیں، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ عدالتی کارروائی کو مشاعرے میں تبدیل نہ کریں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کمرہ عدالت سے مکرر مکرر کی آوازیں آنا شروع ہو جائیں۔

جسٹس شاہد بلال کے وکیل سلمان اکرم سے اہم سوالات

سماعت کے اختتام پر جسٹس شاہد بلال حسن نے وکیل سلمان اکرم راجا سے اہم سوالات کیے۔

جسٹس شاہد بلال حسن نے کہا کہ میرا خیال تھا آپ دلائل کے آغاز میں ہی اس پر بات کریں گے لیکن آپ نے بات نہیں کی، آپ مرکزی کیس میں فریق ہی نہیں تھے، آپ عدالتی کارروائی میں بطور انٹروینر شامل ہوئے، آپ کی کیس میں فریق بننے کی درخواست تو کبھی منظور ہی نہیں ہوئی اور انٹروینر کا اسکوپ بالکل واضح ہوتا ہے، آپ نہ فریق ہیں نہ ہی مدعدلیہ۔

جسٹس شاہد بلال حسن نے ریمارکس دیے کہ یہ تو لگتا ہے عدالتی بینچ آپ کو مروت میں سن رہا ہے، بینچ نے بھی اس طرف زیادہ بات نہیں کی، میرا خیال تھا آپ پہلے اس پر بات کریں گے، آپ نے تو آتے ساتھ ہی کیس کے میرٹس پر دلائل دینا شروع کر دیے، کیا ہم ازخود نوٹس کی کارروائی میں آپ کو سن رہے ہیں۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں ان سوالات کے جواب دوں گا۔

جسٹس شاہد بلال حسن نے ریمارکس دیے کہ آپ 8 ججوں کے فیصلے کے بینفیشری ہیں، ایسے کیا جاتا رہا تو آئین و قانون ناکارہ نہیں ہو جائے گا۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف کیس پر حتمی فیصلے تک عدالتی کارروائی روکنے کے لیے نظرثانی دائر کرنی ہے، شارٹ آرڈر نہیں مل رہا۔

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ شارٹ آرڈر موجود ہے اور آپ کا حق ہے، نظرثانی دائر کریں۔

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔ وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ میں کل اپنے دلائل مکمل کر لوں گا۔

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ:’’صدر کو اختیار حاصل ہے‘‘ ججز ٹرانسفر آئین و قانون کے مطابق قرار
  • سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی مدت میں 30 نومبر تک توسیع کردی گئی
  • سپریم کورٹ: آئینی بینچ نے 3 ججز کا اسلام آباد ہائیکورٹ میں تبادلہ آئینی و قانونی قرار دے دیا
  • سپریم کورٹ نے ججز ٹرانسفر کیخلاف درخواست مسترد کردی، تبادلہ آئینی قرار
  • سپریم کورٹ آئینی بینچ: ججز ٹرانسفر کیس کا فیصلہ محفوظ، آج ہی سنایا جائے گا
  • ججز ٹرانسفر کیس: سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا، مختصر فیصلہ آج سنایا جائے گا
  • ججز سینیارٹی،ٹرانسفر کیس میں کئی اہم سوالات اٹھ گئے
  • مخصوص نشستیں کیس؛ سپریم کورٹ آئینی بینچ کے وکیل سلمان اکرم سے اہم سوالات
  • ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی کیس: سپریم کورٹ کا ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو بھی سننے کا فیصلہ