اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز تبادلہ بدنیتی پر مبنی تھا؛ جسٹس نعیم اختر اور جسٹس شکیل کا اختلاف
اشاعت کی تاریخ: 19th, June 2025 GMT
اسلام آباد:
ججز ٹرانسفر کیس سے متعلق سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے پر جسٹس نعیم اختر اور جسٹس شکیل احمد نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ میں ججز کا تبادلہ بدنیتی پر مبنی تھا۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز ٹرانسفر کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ ٹرانسفر کے معاملے پر صدر مملکت نے آئینی خلاف ورزی کی۔
ججز ٹرانسفر کیس میں 2 ججز کے اختلافی نوٹ میں مزید کہا گیا کہ آئین پاکستان تبادلہ ہو کر آئے ججز کو مستقل طور ہائیکورٹ کا جج بنانے کی اجازت نہیں دیتا۔ تبادلہ ہو کر آئے ججز کے لیے کوئی وقت مقرر کرنا ہوتا ہے۔ ججز کا تبادلہ جلد بازی میں کیا گیا اور وجوہات بھی نہیں دیں گئیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز تبادلہ بدنیتی پر مبنی تھا۔
واضح رہے کہ عدالت عظمیٰ نے ججز ٹرانسفر کیس کا محفوظ فیصلہ سنا دیا ہے، اکثریتی فیصلے میں عدالت نے قرار دیا کہ جسٹس سردار سرفراز ڈوگر کا ٹرانسفر آئین و قانون کے مطابق ہے۔
اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ججز کے تبادلے کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار نہیں دے رہے۔ صدر مملکت سنیارٹی کے معاملے کو جتنی جلد ممکن ہو طے کریں۔ جب تک صدر مملکت سنیارٹی طے نہیں کرتے، قائم مقام چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر ہی امور سرانجام دیتے رہیں گے۔
اکثریتی فیصلہ سپریم کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر،جسٹس بلال شاہد بلال حسن اور جسٹس صلاح الدین پہنور نے دیا جب کہ جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شکیل احمد نے اکثریت سے اختلاف کیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسلام آباد اور جسٹس
پڑھیں:
ججز سینیارٹی،ٹرانسفر کیس میں کئی اہم سوالات اٹھ گئے
15ویں نمبر والے جج کو کیوں ٹرانسفر کیا گیا؟ کیا 14 جج قابل نہیں تھے؟ جسٹس نعیم اختر افغان کا سوال
اگر فریقین کے وکلاء کے دلائل مکمل ہوگئے تو آج کیس کافیصلہ سنادیا جائیگا،سربراہ آئینی بینچجسٹس محمد علی مظہر
اسلام آباد ہائی کورٹ میں تین ہائی کورٹس سے ججز کے تبادلہ اورسنیارٹی کے معاملہ پر دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیٔے ہیں کہ سو ٹرانسفرڈ میں مستقل تبادلہ کیوں نہیں ہوسکتا، مدت کے تعین کوکیوں آئین سازوں نے ڈیلیٹ کیا، وقت ڈیلیٹ ہوگیا، آرٹیکل 200کی موجودہ شکل میں کیا تبادلہ ہمیشہ عارضی ہے، کیوں مستقل نہیںپڑھاجاسکتا، عارضی بھی تھا توتبادلہ توہواہے، مسئلہ یہ آرہا ہے کہ سنیارٹی کیری کرے گا کہ نہیں، دوججز کی سنیارٹی کاجھگڑا ہے اگر دوماہ کے لئے بھی آئے گاتوکیا اوپر بیٹھے گا یا نیچے بیٹھے گا۔ کوئی لیگل شق سپورٹ نہیں کررہی کہ تبادلہ ہوکرآنے والا جج سنیارٹی میں نیچے ہو گا، آرٹیکل 200میں صدر مملکت کااختیار ہے، یہ آئینی سوال ہے جس کاجواب پہلی مرتبہ دیا جائے گا، تشریح کے لئے وکلاء آئین اور قانون کی سپورٹ کا حوالہ دیں،سزا دینے کیلئے بھی کسی جج کا ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں تبادلہ ہوسکتا ہے۔اگر فریقین کے وکلاء کے دلائل مکمل ہوگئے تو آج(جمعرات)کو کیس کامختصر فیصلہ سنادیا جائے گا۔ جبکہ جسٹس نعیم اخترافغان نے ریمارکس دیٔے ہیںکہ جب سمری کاپراسیس شروع ہوا تواُس وقت جسٹس محمد سرفرازڈوگر سنیارٹی لسٹ میں 15ویں نمبر پر تھے ، کیا کوئی ایسی بات ریکارڈ پر ہے کہ 14ججز کوچھوڑ کر 15ویں نمبر والے کوکیوں لایا گیا، کیا14اہل نہیں تھے اور15واں اہل تھا۔ ایسا نہ ہوجائے کہ تبادلہ ہوکرآنے کے لئے لکھ دیا جائے کہ جب تک زندہ ہے بیٹھا رہے گا۔ جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں جسٹس نعیم اخترافغان، جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس صلاح الدین پہنوراورجسٹس شکیل احمد پر مشتمل 5رکنی آئینی بینچ تین ہائی کورٹس سے ججز کے اسلام آباد ہائی کورٹ تبادلہ کے معاملہ پردائر 12درخواستوں پرسماعت کی۔