ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ مصنوعی ذہانت پر حد سے زیادہ انحصار انسانوں کو ”کم عقل“ بنا رہا ہے۔ مشہور ادارے میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (MIT) کی تازہ تحقیق کے مطابق چیٹ جی پی ٹی جیسے اے آئی چیٹ بوٹس انسانی تنقیدی سوچ، یادداشت اور زبان کی مہارتوں کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔

تحقیق میں کہا گیا ہے کہ جب انسان چیٹ بوٹس پر انحصار کرتے ہیں تو اُن کا دماغ خود سوچنے کا عمل ترک کر دیتا ہے، جس کے نتیجے میں ذہنی سرگرمی کم ہو جاتی ہے۔
ایم آئی ٹی کی ٹیم نے تحقیق میں تین مختلف گروپوں کو مضمون لکھنے کا ٹاسک دیا۔ ایک گروپ نے چیٹ جی پی ٹی کا استعمال کیا، دوسرے گروپ نے سرچ انجنز کا سہارا لیا، جبکہ تیسرے گروپ نے مکمل طور پر اپنے دماغ سے کام لیا۔
بعد ازاں تمام شرکاء سے اُن کے مضامین سے متعلق سوالات کیے گئے اور دماغی سرگرمی کا معائنہ کیا گیا۔ تحقیق کے نتائج چونکا دینے والے تھے: چیٹ جی پی ٹی استعمال کرنے والا گروپ ہر سطح پر—دماغی، لسانی اور کارکردگی— میں پیچھے رہا۔ یہاں تک کہ وہ افراد بھی جو صرف چند منٹ پہلے مضمون لکھ چکے تھے، اپنی تحریر سے اقتباسات یاد رکھنے میں ناکام رہے۔
ماہرین نے کہا کہ ’اے آئی ٹولز کی طرح چیٹ بوٹس کے بھی اپنے فائدے اور نقصانات ہیں، لیکن ان پر زیادہ انحصار تنقیدی سوچ کو ماند کر دیتا ہے۔‘
تحقیق میں تشویش ظاہر کی گئی کہ تعلیمی اداروں اور دفاتر میں مسلسل چیٹ بوٹس کے استعمال سے مستقبل میں طلبہ اور ملازمین کی تخلیقی صلاحیت، تجزیاتی مہارت اور خود فیصلہ سازی کی قوت کمزور ہو سکتی ہے۔
ماہرین نے واضح کیا کہ ’ہمارا مطالعہ اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ اے آئی پر انحصار سیکھنے کی صلاحیتوں کو کمزور کر سکتا ہے۔ یہ طرزِ عمل تحریری کام کو جانبدار اور سطحی بنا دیتا ہے، اور صارف کو ذہنی تنقید کے قابل نہیں چھوڑتا۔‘
یہ تحقیق ایسے وقت پر سامنے آئی ہے جب لندن میں ہونے والے ومبلڈن ٹینس چیمپیئن شپ کے منتظمین نے چیٹ بوٹ ”Match Chat“ متعارف کرانے کا منصوبہ بنایا ہے، تاکہ نوجوان ناظرین اسمارٹ فون سے جڑے رہتے ہوئے میچ کی تفصیلات جان سکیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: چیٹ بوٹس اے آئی

پڑھیں:

پلوٹو پر حیرت انگیز نئی فضا دریافت: نیلی فضائی تہیں سائنسدانوں کیلیے معما بن گئیں

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

نظامِ شمسی کے سب سے دورافتادہ اور پراسرار سیارے پلوٹو سے متعلق ایک نئی سائنسی دریافت نے ماہرین فلکیات کو حیران کر دیا ہے۔

جدید ترین خلائی تحقیقاتی ٹیکنالوجی جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کی مدد سے سائنسدانوں کو پلوٹو پر ایک غیر معمولی فضائی نظام کا سراغ ملا ہے، جو نہ صرف باقی تمام سیاروں سے مختلف ہے بلکہ ماہرین اسے ایک ’’بالکل نئی قسم کا کلائمیٹ‘‘قرار دے رہے ہیں۔

یہ انکشاف دراصل جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کے مڈ-انفراریڈ انسٹرومنٹ سے حاصل کردہ ڈیٹا سے کیا گیا، جس میں پلوٹو کی فضا میں موجود باریک ذرات سے خارج ہونے والی تھرمل ریڈی ایشن یعنی حرارتی تابکاری کا مشاہدہ کیا گیا۔ یہ تابکاری انفراریڈ لہروں کی صورت میں سامنے آئی، جو خاص طور پر رات کے وقت ان فضائی ذرات سے خارج ہوتی ہے، جب سورج کی روشنی ختم ہو جاتی ہے اور یہ ذرات ٹھنڈے ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق پلوٹو کی فضا میں یہ حرارت پیدا کرنے اور خارج کرنے کا عمل اس قدر متوازن اور نایاب ہے کہ اس جیسا نظام نہ زمین پر پایا جاتا ہے، نہ مریخ پر اور نہ ہی زحل کے چاند ٹائٹن پر، جنہیں اب تک فضا کے پیچیدہ نظاموں کے حامل سیارے مانا جاتا تھا۔

اس نئی دریافت سے ظاہر ہوتا ہے کہ پلوٹو کی فضا اور موسمیاتی توازن ایک نئی کلاس میں آتے ہیں، جسے سائنسی اصطلاح میں ’’نیو کلائمیٹ‘‘کہا جا رہا ہے۔

پلوٹو کی فضا میں جو نیلی اور کثیف تہیں دیکھی گئی ہیں وہ سطحِ زمین سے تقریباً 300 کلومیٹر کی بلندی تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ان تہوں کو ’’ہائی ایلٹیٹیوڈ ہیز‘‘(High-Altitude Haze) کا نام دیا گیا ہے۔ یہ تہیں بنیادی طور پر نائٹروجن اور میتھین جیسے مرکبات پر مشتمل ہیں، جو دن کے وقت سورج کی روشنی کو جذب کرتی ہیں اور رات کو یہ توانائی تھرمل ریڈی ایشن کی شکل میں خارج کر دیتی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ پلوٹو کی فضا دن کو گرم اور رات کو خودبخود ٹھنڈی ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ 2017ء  میں فلکیاتی ماہرین نے پیش گوئی کی تھی کہ پلوٹو کی فضا میں موجود یہ باریک ہیز اس کے ماحول کو ٹھنڈا کرنے کا باعث بنتے ہیں،تاہم اُس وقت یہ محض ایک نظریہ تھا۔ اب جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کی مدد سے حاصل ہونے والے ڈیٹا نے اس سائنسی مفروضے کو حقیقت میں بدل دیا ہے اور یہ ثابت ہو گیا ہے کہ یہ ہیز درحقیقت ایک متحرک تھرمل سسٹم کی طرح کام کرتے ہیں۔

پلوٹو کی فضا کا یہ نظام نہ صرف سادہ گیسوں جیسے نائٹروجن یا میتھین پر مشتمل ہے، بلکہ ان گیسوں کے ایسے مرکبات پر مشتمل ہے جو ہائی ایلٹیٹیوڈ پر خاص انداز سے کام کرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فضائی تہیں اتنی باریک اور شفاف ہیں کہ انہیں صرف جدید ترین انفراریڈ آلات سے ہی دیکھا جا سکتا ہے اور ان کی تفصیل عام دوربینوں یا پرانی سیٹلائٹس سے نہیں دیکھی جا سکتی تھی۔

یہ نیا موسمیاتی نظام سائنسدانوں کے لیے ایک نیا سوال بھی کھڑا کرتا ہے کہ اگر پلوٹو پر اتنا منفرد اور متوازن موسمیاتی نظام موجود ہے، تو کیا نظامِ شمسی کے دیگر بعید سیاروں پر بھی اسی قسم کے پوشیدہ موسمیاتی نظامات ہو سکتے ہیں؟ اور اگر ایسا ہے تو کیا ان میں سے کچھ ایسے حالات رکھتے ہیں جو زندگی کی ابتدائی شکلوں کے لیے سازگار ہو سکتے ہیں؟

ماہرین اس دریافت کو کائناتی تحقیق میں ایک سنگِ میل قرار دے رہے ہیں۔ پلوٹو، جسے 2006ء  میں ایک مکمل سیارے کے درجے سے ہٹا کر ’’بونے سیارے‘‘ (Dwarf Planet) کا درجہ دے دیا گیا تھا، اب ایک بار پھر سائنسی دلچسپی کا مرکز بن گیا ہے۔ اس کی فضا، ساخت اور سطح پر تحقیق اب پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو چکی ہے۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کی مدد سے مستقبل قریب میں مزید مشاہدات کیے جائیں گے تاکہ اس حیرت انگیز فضائی نظام کی تفصیلات کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔ سائنسدان امید رکھتے ہیں کہ یہ تحقیق نہ صرف پلوٹو بلکہ نظامِ شمسی کے دیگر بعید اجسام کے بارے میں بھی نئے دروازے کھولے گی، جنہیں اب تک نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔

یہ دریافت فلکیاتی سائنسی دنیا کے لیے ایک نیا چیلنج بھی ہے، کیونکہ اب ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ زمین پر موجود لیبارٹریوں میں بھی ایسے ماڈلز تیار کریں جو پلوٹو کے اس انوکھے موسمیاتی نظام کی نقل کر سکیں اور اس پر تجربات کر کے مزید پہلوؤں کو سامنے لا سکیں۔

متعلقہ مضامین

  • وائزمین انسٹی ٹیوٹ تباہ ہونے سے 540 ملین ڈالر کا نقصان، نایاب نمونے، تحقیقی مواد ضائع، اسرائیلی اخبار کا اہم انکشاف
  • برطانوی وزیراعظم کا ٹرمپ کو دماغ ٹھنڈا رکھنے کا مشورہ
  • عرب سائبر ماہرین پر مشتمل "سائبر سپورٹ فرنٹ" کا صیہونی ریاست کیخلاف اعلان جنگ
  • اے آئی ٹیکنالوجی پین ڈرم سے جلدی کینسر کی شناخت مزید آسان
  • پلوٹو پر حیرت انگیز نئی فضا دریافت: نیلی فضائی تہیں سائنسدانوں کیلیے معما بن گئیں
  • چیٹ جی پی ٹی دماغی کارکردگی پر اثرانداز ہوتا ہے، ایم آئی ٹی کی تحقیق کا انکشاف
  • اے آئی چیٹ بوٹ سے مضمون نویسی آسان لیکن دوررس نقصانات کیا ہیں؟
  • کراچی زمین بوس ہونے کے خطرناک مرحلے میں داخل، ماہرین ارضیات
  • ایران کا اسرائیل کے سائنسی و عسکری دماغ وائزمین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس پر حملہ