مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا خیبر پختونخوا کی حکومت نے  بجٹ بنانے کے لیے کراچی سے غیر منتخب شخص کو مشیر خزانہ بنایا ہے، صوبائی بجٹ الفاظ کے گورکھ دھند کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اسلام ٹائمز۔ خیبر پختوںخوا بھر کے بلدیاتی اور سرکاری اداروں کے ملازمین نے صوبائی بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے 23 جون کو خیبر پختونخوا اسمبلی کے سامنے دھرنے کا اعلان کردیا۔ خیبر پختونخوا کے مختلف سرکاری محکموں کے ملازمین نے پشاور پریس کلب کے سامنے احتجاج کیا اور مظاہرین نے بینرز اتھا رکھے تھے جن پر ان کے مطالبات درج تھے۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا خیبر پختونخوا کی حکومت نے  بجٹ بنانے کے لیے کراچی سے غیر منتخب شخص کو مشیر خزانہ بنایا ہے، صوبائی بجٹ الفاظ کے گورکھ دھند کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈی آر اے الاؤنس کو مذاق بنا دیا گیا ہے، پنشن اصلاحات ملازمین کو کسی صورت قبول نہیں ہیں،کم از کم اجرت 40 ہزار روپے مقرر کرنا اور وزرا، مشیروں اور اراکین اسمبلی، چیئرمین سینٹ اور اسپیکرز کے لیے %400 فیصد سے %700 فیصد تک تنخواہوں میں اضافہ کرکے سیاسی اور معاشی تضاد کو مزید بڑھایا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان تضادات کے نتائج حکمرانوں کے لیے اچھے نہیں ہوں گے لہٰذا صوبائی حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے اور ملازمین کی کم از کم تنخواہ 50 ہزار روپے مقرر کرے۔ مظاہرین نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی صوبائی حکومت خزانہ بھرا ہونے کے اعلانات کرتے ہوئے نہیں تھکتی، یہ کیسا بھرا ہوا خزانہ ہے، جس میں ملازمین کی تنخواہیں بڑھانے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر صوبائی حکومت نے ملازمین کے مطالبات تسلیم نہ کیے تو ملازمین کی نمائندہ تنظیم اگیگا کے پلیٹ فارم سے احتجاجی تحریک شروع کی جائے گی جس میں صوبہ بھر کے تمام بلدیاتی ملازمین شریک ہوں گے اور پھر پور کردار ادا کریں گے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: خیبر پختونخوا کا کہنا تھا کرتے ہوئے کے لیے

پڑھیں:

پنشن میں بڑی تبدیلی، وزارت خزانہ نے نئے شراکتی قواعد نافذ کر دیے

حکومت نے کچھ اختیاری تبدیلیوں کے ساتھ اعلان کیا ہے کہ وفاقی ملازمین کو اپنی پنشن کے لیے تنخواہ کا 10 فیصد حصہ جمع کرانا ہوگا، تاکہ وہ عوامی خزانے کی جانب سے 12 فیصد وصول کرنے کے لیے اہل بن سکیں، یہ عمل نئے متعارف کرائے گئے ’کنٹری بیوٹری پنشن فنڈ اسکیم‘ کے تحت ہوگا، یوں کل مشترکہ حصہ 22 فیصد ہوگا، جو نئے شامل ہونے والے ملازمین کے لیے پرانے پنشن نظام کی جگہ لے گا۔

نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارتِ خزانہ (ایم او ایف) نے فیڈرل گورنمنٹ ڈیفائنڈ کنٹری بیوشن (ایف جی ڈی سی) پنشن فنڈ اسکیم رولز 2024 جاری کر دیے ہیں، جو پبلک فنانس مینجمنٹ ایکٹ 2019 کے تحت بنائے گئے ہیں۔

یہ اسکیم والنٹری پنشن سسٹم رولز 2005 اور نان بینکنگ فنانس کمپنیز اینڈ نوٹیفائیڈ اینٹیٹیز ریگولیشنز 2008 کے مطابق ریگولیٹ کی جائے گی، یہ قواعد اگست 2024 کے اُس حکم نامے کی جگہ لیں گے جس میں حکومت کا حصہ 20 فیصد مقرر کیا گیا تھا۔

20 اگست 2024 کو وزارتِ خزانہ نے پہلی بار سول حکومت اور مسلح افواج کے نئے بھرتی ہونے والے ملازمین کے لیے کنٹری بیوٹری پنشن اسکیم متعارف کرانے کا اعلان کیا تھا۔

اُس وقت ملازمین کو اپنی بنیادی تنخواہ کا 10 فیصد جمع کرانا تھا، جب کہ حکومت 20 فیصد حصہ ڈالنے کی پابند تھی، نئی اسکیم کا اطلاق اُن سول ملازمین پر ہوگا جو یکم جولائی 2024 یا اس کے بعد بھرتی ہوئے ہوں گے، جن میں سول ڈیفنس کے ملازمین بھی شامل ہیں، جب کہ مسلح افواج کے اہلکاروں پر یہ یکم جولائی 2025 سے نافذ ہوگا (جس کا نفاذ ابھی زیرِ التوا ہے)۔
حکومت نے 25-2024 کے بجٹ میں اس پنشن فنڈ کے لیے 10 ارب روپے اور 26-2025 کے لیے 4 ارب 30 کروڑ روپے مختص کیے ہیں تاکہ اس نئے نظام کو سہارا دیا جا سکے۔

یہ اسکیم بین الاقوامی مالیاتی اداروں، خاص طور پر ورلڈ بینک کی سفارش پر متعارف کرائی گئی ہے تاکہ بڑھتے ہوئے پنشن کے مالی بوجھ پر قابو پایا جا سکے، جسے حکومت نے ایک سنگین مالی خطرہ قرار دیا ہے، یہ نظام موجودہ ملازمین پر نافذ نہیں ہوگا بلکہ مستقبل میں پنشن کے اخراجات کی رفتار کم کرنے کے لیے نافذ کیا گیا ہے۔

وفاقی حکومت کا پنشن خرچ 25-2024 میں 10 کھرب 5 ارب روپے ہونے کا تخمینہ ہے، جو 24-2023 کے 821 ارب روپے سے تقریباً 29 فیصد زیادہ ہے۔

مسلح افواج کے پنشن واجبات 26-2025 میں 742 ارب روپے تک پہنچنے کا اندازہ ہے، جو 24-2023 کے 563 ارب روپے میں 32 فیصد اضافہ ہے، سول ملازمین کے پنشن اخراجات موجودہ مالی سال کے لیے 243 ارب روپے رکھے گئے ہیں، جو گزشتہ سال کے 228 ارب روپے سے 6.6 فیصد زیادہ ہیں، اس سے اصلاحات کے باعث کچھ بچت ظاہر ہوتی ہے۔

نئے قواعد کے تحت صرف مجاز پنشن فنڈ منیجرز ہی اس فنڈ کو چلائیں گے، حکومت، بطور آجر ملازم کی پنشن کے قابلِ حساب تنخواہ کا 12 فیصد حصہ اکاؤنٹنٹ جنرل کے دفتر کے ذریعے جمع کرائے گی، جو ریکارڈ رکھنے اور فنڈز کی منتقلی کی نگرانی بھی کرے گا۔

اکاؤنٹنٹ جنرل پنشن اکاؤنٹس کی تفصیلات کی تصدیق کرے گا، اور تنخواہ کی ادائیگی سے پہلے ملازم اور آجر دونوں کے حصے ’ایمپلائر پنشن فنڈ‘ میں منتقل کرے گا، ملازمین اپنی تنخواہ سے 10 فیصد حصہ خود جمع کرائیں گے۔

ملازمین ریٹائرمنٹ سے پہلے اپنی پنشن رقم نہیں نکال سکیں گے، ریٹائرمنٹ پر وہ زیادہ سے زیادہ 25 فیصد رقم نکال سکتے ہیں، جب کہ باقی رقم کو والنٹری پنشن سسٹم رولز 2002 کے تحت کم از کم 20 سال یا 80 سال کی عمر تک سرمایہ کاری میں رکھا جائے گا، جو بھی پہلے آئے۔

ملازمین کی سیلری سلپ میں تفصیلی معلومات شامل ہوں گی، جن میں ملازم کا حصہ، آجر کا حصہ، اور کل جمع شدہ رقم کی تفصیل درج ہوگی۔
وزارتِ خزانہ حکومت کے حصے کے لیے سالانہ بجٹ الاٹ کرے گی اور ایسے پنشن فنڈ منیجرز سے معاہدے کرے گی جو الیکٹرانک ٹرانسفر سسٹم کو سپورٹ کرتے ہوں، ان معاہدوں میں وفات یا معذوری کی صورت میں انشورنس کوریج بھی لازمی ہوگی، جو فنڈ منیجرز کے ذریعے فراہم کی جائے گی۔

نظام کے نفاذ اور نگرانی کے لیے وزارتِ خزانہ ایک نان بینکنگ فنانس کمپنی (این بی ایف سی) قائم کرے گی، جو باضابطہ قیام تک عبوری طور پر اپنی ذمہ داریاں انجام دے گی۔

ریٹائرمنٹ، برطرفی، استعفے یا قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی صورت میں ملازم کی پنشن کی رقم کا تعین حکومت کے جاری کردہ قواعد کے مطابق کیا جائے گا۔

یہ نئی پنشن فنڈ اسکیم روایتی مقررہ فائدے (ڈیفائنڈ بینیفٹ) نظام سے ایک بڑے مقررہ شراکتی (ڈیفائنڈ کنٹری بیوشن) ماڈل کی طرف ایک اہم تبدیلی ہے، جس کا مقصد مالیاتی پائیداری کو بہتر بنانا اور مستقبل کے سرکاری ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے بعد تحفظ فراہم کرنا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پنشن میں بڑی تبدیلی، وزارت خزانہ نے نئے شراکتی قواعد نافذ کر دیے
  • صوبائی حکومت سرکاری ملازمین کو الجھا رہی ہے، ریحان راجپوت
  • خیبر پختونخوا کابینہ میں مزید تبدیلیاں کردی گئیں
  • مشیرِ خزانہ کے پی مزمل اسلم کا وزیرِ اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کے بیان پر ردِعمل
  • پنجاب حکومت پختونخوا کی نقل کرتی ہے، صوبائی مشیر کے پی کے کا مریم نواز کے بیانات پر ردعمل
  • ٹنڈوجام:سندھ ایمپلائز الانس کے مرکزی چیئرمین حاجی اشرف خاصخیلی 6 اکتوبر کے بلاول ہاوس پر دھرنے کے سلسلے میں سرکاری ملازمین سے خطاب کر رہے ہیں
  • خیبر پختونخوا کی صوبائی اراکین کابینہ کے قلمدانوں میں ایک بار پھر ردوبدل
  • خیبر پختونخوا کابینہ نے سرکاری اسکول اور کالجز کی نجکاری کی منظوری دے دی
  • 2 وزراء کے استعفوں کے بعد خیبر پختونخوا کابینہ میں بڑی اکھاڑ پچھاڑ
  • خیبر پختونخوا کابینہ میں بڑے پیمانے پر رد و بدل