جمعہ کا دن تھا، اگلے دن بقر عید تھی، اخبار پڑھتے پڑھتے پچھلے صفحے پر ایک چھوٹی سی خبر نے میری توجہ اپنی جانب کھینچ لی، شپ اونرزکالج کے قریب نارتھ ناظم آباد، ایک خاتون کی لاش ملی، جو ایک گرلز کالج کی سابقہ پروفیسر تھیں، ایدھی کے رضاکار اس خاتون پروفیسر کی میت کو ایدھی ہوم لے گئے، موصوفہ کے بیگ سے کوئی ایسی چیز نہ ملی جس سے ان کے لواحقین کو اطلاع دی جاتی، پتا نہیں انھیں یہ کیسے پتا چلا کہ وہ ایک پروفیسر تھیں۔
شاید جس جگہ ان کی لاش ملی ہو وہاں کسی نے انھیں شناخت کیا ہو۔ تھوڑی دیر بعد میری ایک اور دوست کا فون آیا اور انھوں نے بتایا کہ ہماری مشترکہ دوست رفعت کا انتقال ہو گیا ہے اور ایکسپریس میں جو خبر چھپی ہے وہ اسی کے متعلق ہے، کسی محلے والے نے ان کو پہچان کر فیس بک پر ان کے بارے میں خبر لگائی کہ اگر کسی کو ان کے بھائی بہنوں کے متعلق کوئی خبر ہو تو انھیں بتا دیں کہ دوسری صورت میں ایدھی والے لاوارث قرار دے کر دفنا دیں گے۔ میں دھک سے رہ گئی، پھر میری دوست کے بھائی نے رفعت کے بھائی کو فون کیا کہ وہ بھی کے ڈی اے میں ساتھ ملازمت کر چکے ہیں، چھوٹے بھائی نے ایدھی ہوم جا کر لاش وصول کی اور کفن دفن کا انتظام کیا۔
رفعت کا اور میرا ساتھ بہت پرانا تھا، ہم دونوں کالج میں ایک ساتھ پڑھا کرتے تھے، رفعت لمبے قد کی گوری چٹی، دبلی پتلی لڑکی تھی، وہ اکثر کالج سے میرے ساتھ پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی ہمارے گھر آ جایا کرتی تھی، میں بھی اس کے گھر نارتھ ناظم آباد چلی جایا کرتی تھی، ان کے گھر اکثر ان کے ایک رشتے دار آئے ہوئے ہوتے تھے، رفعت نے ایک دفعہ بتایا کہ وہ صاحب جن کا نام احسان تھا، رفعت میں دلچسپی رکھتے ہیں اور انھوں نے رفعت کو شادی کا عندیہ بھی دے دیا تھا، لیکن رفعت نے انھیں یہ کہا کہ وہ ان کی والدہ سے بات کریں۔
لہٰذا ان صاحب نے جو کسی پرائیویٹ کالج میں پڑھاتے تھے ان کی والدہ سے بات کی، تب رفعت کی والدہ نے گول مول سا جواب دیا، اسی اثنا میں میرا اور رفعت کا اپائنمنٹ بھی مختلف کالجوں میں ہوگیا، میرا اپائنمنٹ گورنمنٹ جامعہ ملیہ ڈگری کالج میں ہوا، اور رفعت کا نارتھ ناظم آباد کے ایک معروف گرلزکالج میں۔ احسان صاحب کے والدین تقسیم سے پہلے دلّی میں بلوائیوں کے ہاتھوں قتل ہو چکے تھے، یہ اپنے کسی رشتے دار کے ساتھ بچ بچا کر کراچی آگئے تھے، یہیں تعلیم حاصل کی، یہیں ملازمت کا آغاز کیا، احسان صاحب رفعت کا رشتہ ان کی والدہ کو دے چکے تھے، رفعت کے گھر میں غربت تھی، اس نے جاب شروع کی تو گھر کے حالات کچھ بہتر ہوئے، اسی لیے رفعت کی والدہ نے ایک سال بعد کی تاریخ دے دی۔
اسی اثنا میں یوں ہوا کہ انٹر کے امتحانات کا اسائنمنٹ سرسید گرلز کالج میں ہوتا تھا، وہاں ہم بھی ہوتے اور احسان بھی۔ وہیں ایک صاحبہ موٹی سی گہرے رنگ کی بھی اسائنمنٹ کے لیے آیا کرتی تھیں، ایک مال دار گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں، اور والدین کی اکلوتی اولاد تھیں، اچانک احسان ان کے ارد گرد نظر آنے لگے اور پھر ایک دن احسان نے ان صاحبہ سے شادی کر لی، اب ان کے پاس گاڑی بھی تھی اور بنگلہ بھی۔ احسان نے اس کے بعد رفعت کے گھر آنا چھوڑ دیا۔ رفعت اس واقعے سے ایک دم ٹوٹ گئی، لیکن اس کی والدہ نے کسی غم و غصے کا اظہار نہیں کیا۔
وہ بہت روئی، ہم سب نے اسے سمجھایا کہ اچھا ہوا جو ایسا ہوا۔ وہ شخص زر پرست تھا، لیکن رفعت اندر سے ٹوٹ گئی تھی، وہ اچھا کما رہی تھی، اٹھارہ گریڈ کی افسر تھی، لیکن اس کی والدہ کو اس کی شادی کی بالکل فکر نہ تھی، رفعت خوش شکل و خوش مزاج تھی، کئی رشتے آئے لیکن اس کی والدہ کوئی نہ کوئی کمی نکال کر رشتے سے انکار کر دیتی تھیں، ایک دن رفعت نے روتے ہوئے کہا کہ ’’ اس کے اتنے اچھے اچھے رشتے آتے ہیں لیکن اس کی والدہ کے معیار پر کوئی پورا نہیں اترتا۔‘‘ انھوں نے رفعت سے چھوٹی بیٹی کا رشتہ طے کر دیا جو کہ بی اے کر کے گھر بیٹھی تھی، لیکن رفعت کے معاملے میں وہ بالکل خاموش تھیں، اب رفعت کو احساس ہونے لگا تھا کہ وہ کیونکہ ’’کماؤ پوت‘‘ ہے اس لیے وہ رفعت کی شادی نہیں کر رہیں۔
پھر ہم سب کو انیس گریڈ مل گیا، تو اس کی والدہ نے کہنا شروع کر دیا کہ ’’ اب رفعت شادی کرکے کیا کرے گی، یا تو رنڈوا ملے گا یا دوہاجو۔‘‘ رفعت ماں کی باتیں سنتی اور راتوں کو روتی، کوئی بھی کچھ نہیں کہہ سکتا وہ پورے کنبے کو پال رہی تھی۔ بہن بھائیوں کو بھی اس کا احساس نہیں تھا کہ ماں سے کہتے کہ ایسا نہ کریں۔ شاید ماں کے سامنے بولنے کی کسی کو اجازت نہ تھی۔ پھر سارے بہن بھائیوں کی شادیاں ہو گئیں، ماں بیمار رہنے لگیں، وہی تیمار داری کرتی تھی، رشتہ داروں کو احساس تھا کہ رفعت کے ساتھ خود اس کی ماں نے برا کیا۔ اس کی زندگی اجاڑ دی، پھر ایک دن ماں بھی مر گئیں۔
اب رفعت کی زندگی کا عجب دور شروع ہوا، ریٹائر ہو چکی تھیں۔ اکثر ہماری ایک مشترکہ دوست کے ہاں ملاقات ہو جاتی۔ اسے دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ صرف زندہ ہے، جی نہیں رہی۔ گھر بہت بڑا دو منزلہ تھا پورے گھر میں وہ تن تنہا رہتی تھی، چھوٹی بہن نے کہا کہ وہ اسے اوپر کی منزل میں رکھ لے تو وہ تنہا نہیں رہے گی، چھوٹے بھائی نے بھی کہا کہ وہ اسے ساتھ رکھ لیں، لیکن رفعت نے دونوں کو صاف منع کر دیا۔ شاید رشتوں میں دراڑ آ چکی تھی، وہ سب کے رویے دیکھ چکی تھی، اب اس نے بلیاں پالنا شروع کر دی تھیں۔
ہر طرف بلیاں اور بلیوں کے بچے نظر آتے تھے، ایک دفعہ انٹر بورڈ سے امتحانی کاپیاں جانچنے کے لیے لے کر نکلے تو رفعت ہم دونوں کو زبردستی اپنے گھر لے آئی، لیکن جوں ہی اس نے گیٹ کھولا بلیوں نے خیر مقدم کیا، جب اندر گئے تو بیڈ پر بھی بلیاں بیٹھی ہوئی تھیں، مجھ سے تو رہا نہ گیا، میں نے کہا کہ ’’ رفعت! تم اس گندگی میں کیسے رہ سکتی ہو؟‘‘ ہم نے کھانے کو بھی منع کر دیا اور گھر آگئے۔ لوگوں نے بتایا کہ آس پاس کے لوگ بھی اپنی بلیاں ان کی چار دیواری سے اندر پھینک جاتے تھے، یہ انھیں بھی سوئیکار کر لیتی تھیں، خود بلیوں کے لیے چھیچھڑے پکاتی تھیں، بلیوں کی سیوا ایسی کرتی تھیں جیسے لوگ انسانوں کی کرتے ہیں۔ ان سے ملنے کوئی نہیں آتا تھا، نہ یہ کسی کے گھر جاتی تھیں۔ انتقال والے دن بھی غالباً یہ بلیوں کے لیے کھانے کا سامان لینے نکلی ہوں گی، جو راستے میں موت کا فرشتہ آگیا۔
میں سمجھتی ہوں انسان اگر اکیلا رہ رہا ہو اور اس کی عمر ساٹھ سال سے تجاوز کر گئی ہو تو جب وہ گھر سے نکلے تو بیگ میں اپنا نام پتا اور دو ایمرجنسی نمبر لکھ کر بیگ میں ڈال لے تاکہ ناگہانی حادثے یا موت کی صورت میں لواحقین سے رابطہ کیا جاسکے۔
رفعت نے زندگی سے آنکھیں بند کر لی تھیں، بعض دوستوں نے رفعت سے یہ بھی کہا کہ ’’ اب تو تمہاری والدہ بھی نہیں رہیں، تم خود مختار ہو، کسی سے شادی کر لو‘‘ تو وہ کہتی کہ ’’ کیا اب میں اپنے لیے خود رشتہ تلاش کروں‘‘ تب ہم نے اسے ایک کالج کی پرنسپل کا واقعہ یاد دلایا جو بہتر سے بہتر کی تلاش میں بوڑھی ہوگئیں، جب ریٹائرمنٹ کا وقت آیا تو انھوں نے ایک رشتہ کرانے والی سے رابطہ کیا اور کہا کہ وہ تنہا رہنے سے ڈرتی ہیں۔
رشتے والی نے ان کا رشتہ ایسی جگہ کروایا جن کی بیوی کا انتقال ہو چکا تھا، بچے سب شادی شدہ تھے، ان کی بہوؤں اور بیٹیوں نے رشتہ کروا دیا، آج وہ صاحبہ ایک خوشگوار زندگی بسر کر رہی ہیں۔ لیکن رفعت کو جذباتی صدمے بہت سہنے پڑے۔ پہلا جھٹکا احسان نے اس کا دل توڑ کر لگایا، پھر ماں کا رویہ کہ وہ ملازمت کرتی تھی، اس کا رشتوں پر سے اعتماد اٹھ گیا، اسی لیے شاید اس نے بہن اور بھائیوں کو ساتھ رکھنے سے انکار کردیا اور بلیوں سے دل لگا لیا، خدا رفعت کو جنت الفردوس میں جگہ دے اور اس کی آگے کی راہیں آسان ہوں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: لیکن اس کی والدہ کی والدہ نے لیکن رفعت کہا کہ وہ کالج میں کرتی تھی انھوں نے رفعت کے رفعت کا رفعت کی رفعت کو کے گھر تھا کہ کر دیا کے لیے
پڑھیں:
ایرانی ٹی وی اسٹیشن پر حملہ میں 2 خواتین میڈیا ورکر شہید
گزشتہ روز ایران کے سرکاری ٹی وی کی عمارت پر اسرائیل کے میزائل حملہ میں زخمی ہونے والی 2 خواتین میڈیا ورکر شہید ہوگئیں۔
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’ارنا‘ کے مطابق تہران میں واقع ایرانی نشریاتی ادارے پر اسرائیل کے فضائی حملے میں شہید ہونے والے 2 افراد کی شناخت کر لی گئی ہے۔ دونوں خواتین ہیں۔ ایک نیما رجب پور ہیں جو نیوز ایڈیٹر تھیں۔ وہ ایران کے سرکاری میڈیا میں گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصہ سے خدمات سرانجام دے رہی تھیں۔ دوسری معصومہ عظیمی تھیں۔ وہ بھی نشریاتی ادارے کے اسٹاف کا حصہ تھیں۔ وہ اہم داخلی امور کی نگران تھیں۔
یہ بھی پڑھیے اسرائیل کا ایرانی سرکاری ٹی وی پر براہِ راست نشریات کے دوران میزائل حملہ
یاد رہے کہ گزشتہ روز اسرائیل نے ایرانی سرکاری ٹی وی پر براہ راست نشریات کے دوران میزائل حملہ کیا تھا۔ حملے کے فوراً بعد نشریات بند ہو گئیں، تاہم کچھ دیر بعد دوبارہ بحال کردی گئیں۔
’اسرائیلی وزیر دفاع کی دھمکی کے بعد حملہ‘یہ حملہ اسرائیلی وزیر دفاع کی جانب سے ایران کے سرکاری نشریاتی اداروں کو ’پروپیگنڈا مراکز‘ قرار دے کر دھمکی دینے کے چند گھنٹوں بعد کیا گیا۔
اس سے قبل اسرائیلی وزیر دفاع نے اعلان کیا تھا کہ ایرانی پروپیگنڈا کا مرکز ختم ہونے والا ہے، ہم نشریاتی اداروں کو بند کرنے کی مکمل تیاری کر چکے ہیں۔ اور اسی اعلان کے بعد تہران میں سرکاری ریڈیو و ٹی وی کی مرکزی عمارت پر میزائل حملہ کیا گیا۔
#BREAKING
Video shows the moment the studio of IRIB News Channel hit by an Israeli strike. pic.twitter.com/s6podtyfnu
— Tehran Times (@TehranTimes79) June 16, 2025
رہائشی علاقے بھی متاثر، انخلا شروعحملے کے بعد ایرانی خبررساں ادارے مہر نیوز نے اطلاع دی کہ ٹی وی کی عمارت کے نزدیک رہنے والے شہریوں نے علاقہ خالی کرنا شروع کر دیا ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اسرائیل مزید نشریاتی اور حکومتی دفاتر کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
’اسرائیل کا میڈیا اداروں پر حملہ نئی بات نہیں‘الجزیرہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کا میڈیا اداروں پر حملہ نئی بات نہیں۔ اس سے قبل لبنان میں حزب اللہ کے المنار ٹی وی، غزہ میں الجزیرہ، پریس ٹی وی اور دیگر مقامی دفاتر کو بھی نشانہ بنایا جا چکا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کسی ریاست کا سرکاری میڈیا مرکز بین الاقوامی قانون کے تحت محفوظ سمجھا جاتا ہے، لیکن اسرائیل کی جانب سے میڈیا کو ٹارگٹ کرنا پریشان کن رجحان ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایران اسرائیل جنگ ایران سرکاری ٹی وی