Express News:
2025-09-19@15:48:03 GMT

آب رسانی کے فضائل و برکات

اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT

اسلام نے بہت سے اعمال کو انسان کے لیے سعادت و نجات، بخشش و معافی کا ذریعہ بنایا ہے، چناں چہ انھی میں سے ایک ’’پانی پلانا‘‘ بھی ہے۔ پانی انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ہے، انسان کیاکوئی جان دار پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا، اس لیے اسلام نے پانی پلانے کے عمل کی ترغیب دی ہے اور اس عمل میں بہت زیادہ اجر و ثواب اور ذریعہ نجات کا سامان ہے۔

نبی کریم ﷺ کے فرمان عظیم کا مفہوم ہے: ’’جو کسی مسلمان کو بھوک کی حالت میں کھانا کھلائے اﷲ تعالی اس کو جنت کے پھل اور میوے کھلائے گا۔ اور جو مسلمان کسی مسلمان کو پیاس کی حالت میں پانی ( یا کوئی مشروب) پلائے اﷲ تعالی ا س کو نہایت نفیس (جنّت کی) شراب طہور پلائے گا، جس پر غیبی مہر لگی ہوگی اور جو مسلمان کسی مسلمان کو عریانی کی حالت میں کپڑے پہنائے اﷲ تعالی اس کو جنّت کے سبز جوڑے عطا فرمائے گا۔‘‘ (ابوداؤد شریف)

ایک طویل حدیث میں ہے بیان ہُوا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ قیامت کے دن اﷲ تعالی چند باتوں کے بارے میں بندے سے سوال فرمائے گا جن میں ایک یہ ہوگا کہ اے ابن آدم! میں نے تجھے پینے کے لیے پانی مانگا تھا، تُونے مجھے پلایا نہیں۔ بندہ عرض کرے گا! میں تجھے پانی کیسے پلاتا تو تو رب العالمین ہے، تجھے پینے سے کیا واسطہ ؟ اﷲ تعالی فرمائے گا! میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی پینے کے لیے مانگا تھا تُونے اس کو نہیں پلایا، سن! اگر تُو اس کو پانی پلاتا تو اس کو میرے پاس پالیتا۔

اس حدیث میں پانی پلانے کو کس درجہ اہم ترین عمل بتایا گیا اور یہاں تک اﷲ تعالی نے فرمایا کہ کسی پیاسے بندے کو پانی پلانا یہ اﷲ تعالی کے قُرب خاص حاصل کرنے کا سبب ہوگا۔

 ( بہ حوالہ: مسلم شریف)

پانی پلانا ایک بہت بڑی خدمت اور حصول ثواب کا ذریعہ ہے۔ عام طور پر لوگ اس کو کوئی زیادہ اہمیت نہیں دیتے یا اس خدمت کو کوئی بڑی اور عظیم خدمت نہیں سمجھتے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ پیاسوں کو پانی پلانا بھی بڑا کارِ ثواب ہے۔ اور اس پر بھی اﷲ تعالی نے بہت سے اجر و ثواب کے وعدے فرمائے ہیں اور نبی کریم ﷺ نے پانی پلانے کی اہمیت اور ضرورت کو اپنے مختلف ارشادات میں بیان کیا ہے، پانی پلانے کی ترغیب دی اور انسانوں کو راحت پہنچانے کی تلقین فرمائی ہے۔

حضرت حسنؓ سے روایت ہے کہ سعد بن عبادؓ کی والدہ فوت ہوگئیں تو انھوں نے رسول اﷲ ﷺ سے پوچھا کہ میری والدہ فوت ہوگئیں ہیں، کیا میں ان کی طرف سے کوئی صدقہ کروں۔ آپ ﷺ نے فرمایا! ہاں صدقہ کرو۔ انھوں نے پھر پوچھا کہ کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: پانی پلانا! پس مدینہ میں سعد کی سبیل ہے۔ (نسائی شریف)

سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا! سات چیزوں کا اجر و ثواب بندے کو مرنے کے بعد قبر میں بھی پہنچتا رہتا ہے۔ مفہوم: کسی کو علم سکھائے، نہر کھودے، کنواں کھودے، درخت لگائے، مسجد تعمیر کرائے ، قرآن کریم کا نسخہ اپنے پیچھے چھوڑ کر جائے یا ایسی اولاد چھوڑے جو اس کے مرنے کے بعد اس کے لیے مغفرت کی دعا کرے۔ (الترغیب و الترہیب)

سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: پانی پلانے سے بڑھ کر ثواب والا صدقہ کوئی نہیں ہے۔

 ( الترغیب و الترہیب)

امام قرطبیؒ بعض تابعین عظامؒ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں۔ جس کے گناہ زیادہ ہوں وہ لوگوں کو پانی پلائے۔ اﷲ تعالی نے اس شخص کو معاف کر دیا جس نے ایک کتے کو پانی پلایا تھا تو اﷲ اس شخص کو کیسے معاف نہیں کرے گا جو ایک موحد مومن کو پانی پلائے۔ (تفسیر قرطبی)

مولانا منظور نعمانیؒ اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ بعض اوقات ایک معمولی عمل دل کی خاص کیفیت یا خاص حالات کی وجہ سے اﷲ تعالی کے یہاں بڑی قبولیت حاصل کرلیتا ہے اور اس کا کرنے والا اسی پر بخش دیا جاتا ہے، اس حدیث میں جس واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے اس کی نوعیت بھی یہی ہے۔ (معارف الحدیث)

جس وقت رسول اﷲ ﷺ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے وہاں میٹھے پانی کی بڑی قلت تھی، بیر رومہ کے علاوہ کوئی کنواں نہ تھا جس سے میٹھا پانی حاصل کیا جاتا، اس موقع پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو کوئی بیر رومہ کو خرید کر مسلمانوں کے لیے عام کردے اس کو جنت میں اس سے بہتر ملے گا۔

جب یہ بات حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو پہنچی تو انھوں پینتیس ہزار درہم میں اس کو خرید لیا، پھر نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا: مجھے بھی وہی ملے گا جو آپ ﷺ نے اس شخص کے لیے فرمایا تھا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا! ہاں۔

عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: میں نے اس کو مسلمانوں کے لیے عام کردیا۔

صاف، میٹھا اور ٹھنڈا پانی پلانے سے پیاسے انسان کو بہت راحت ملتی ہے اور یہی پانی تلخی اور پیاس میں بہت عمدہ بھی لگتا ہے۔ اس لیے پانی پلانے میں اس کا بھی اہتمام کرنا چاہیے کہ جس سے پینے والوں کو راحت بھی ملے اور سخت گرمی میں سُکون بھی حاصل ہو۔

نبی کریم ﷺ کو ٹھنڈا پانی پسند تھا، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ کو پینے میں ٹھنڈا اور میٹھا پانی محبوب تھا۔ اسی لیے آپ ﷺ کے لیے اس کا اہتمام بھی کیا جاتا تھا۔ ( ترمذی شریف)

چناں چہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ کے لیے بیوت ِسقیا سے میٹھا پانی لایا جاتا تھا۔

( ابوداؤد شریف)

سیدنا عرباض بن سارہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب بندہ اپنی بیوی کو پانی پلاتا ہے تو اس کو اجر ملتا ہے۔ عرباض بن سارہؓ بیان کرتے ہیں:  پس میں اٹھا اور اپنی بیوی کو پانی پلایا اور اسے رسول اﷲ ﷺ کی یہ حدیث سنائی۔ (مسند احمد)

حضرت سیدنا عبداﷲ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اﷲ ﷺ کے پاس آیا اور کہا: میں اپنے تالاب میں پانی بھرتا ہوں تو جس وقت میں اسے اپنے اونٹوں کے لیے بھر دیتا ہوں تو اتنے میں کسی دوسرے کا اونٹ آجاتا ہے اور میں اسے بھی پانی پلا دیتا ہوں تو کیا مجھے اس کا ثواب ملے گا ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ہر پیاسے جان دار کو پانے پلانے سے ثواب ملتا ہے۔

 ( الترغیب و الترہیب)

ایک روایت کے لفظ ہیں جو کھود کر پانی نکالے گا تو جو بھی جان دار اور پیاسا، انسان یا پرندہ اس سے پیے گا تو اﷲ قیامت کے دن اسے اس کا ثواب دے گا۔ (الترغیب و الترہیب)

انسان کو پانی پلانا تو بہت اجر و ثواب کا باعث ہے ہی، اسی طرح جانوروں کو بھی پانی پلانا اتنا بڑا کارِ ثواب ہے کہ یہ عمل انسان کے لیے نجات و بخشش کا ذریعہ و سبب بن جاتا ہے۔

حضرت عباس رضی اﷲ عنہ نے رسول اﷲ ﷺ سے (حاجیوں کو زم زم) پلانے کے لیے منیٰ کے دن مکہ میں ٹھہرنے کی اجازت چاہی تو آپ ﷺ نے ان کو اجازت دے دی۔(بخاری شریف)

علی بن حسن بن شقیقؒ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے امام عبداﷲ بن مبارکؒ سے اپنے زخم کے متعلق سوال کیا جو سات سال سے اس کے گھٹنے میں تھا جس سے خون رس رہا تھا اس شخص نے کہا: میں نے کافی اطباء سے رجوع کیا لیکن افاقہ نہیں ہُوا۔ امام صاحب نے کہا: کسی ایسی جگہ پر کنواں کھدوا دے جہاں لوگوں کو پانی کی ضرورت ہے، مجھے امید ہے کہ ادھر پانی کا چشمہ پھوٹ نکلے گا ادھر تیرا خون رک جائے گا۔ پس اس شخص نے امام صاحب کے مشورے پر عمل کیا اور اس کا خون رک گیا۔ (سیر ایعلام النبلاء)

پانی پلانا اور اس کا انتظام کرنا صدقہ جاریہ جس کا ثواب مرنے کے بعد انسان کو ملتا رہتا ہے۔ نلکا، ٹینکی، کنواں، ٹیوب ویل وغیرہ کی شکل میں غریبوں اور ناداروں کے لیے پانی کا انتظام کرنا مرحومین کے ایصال ثواب اور ان کے لیے اجر عظیم ہے۔ انسان کی پانی ضروریات کی تکمیل نہایت اجر و ثواب اور بلندی درجات کا باعث ہے۔ ناصرف انسانوں کو پانی پلانا یہ اجر و ثواب رضائے خدا اور دخول جنت کا ذریعہ ہے بل کہ پیاسے جانوروں کے لیے پانی کا انتظام کرنا بھی ثواب اور ذریعہ نجات ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: الترغیب و الترہیب ا پ ﷺ نے فرمایا کو پانی پلانا رضی اﷲ تعالی پانی پلانے رسول اﷲ ﷺ اجر و ثواب لیے پانی کا ذریعہ ثواب اور کے لیے ا جاتا ہے اور اور اس ہیں کہ

پڑھیں:

موقع پرست اور سیلاب کی تباہی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250919-03-4

 

غزالہ عزیز

پاکستان وہ خوش نصیب ملک ہے جو ہر طرح کی معدنیات کے علاوہ ہر طرح کے خطہ زمین کی دولت سے مالا مال ہے۔ دریائوں کے پانچ بڑے سلسلے جو ملک کے پہاڑی سلسلوں سے ہنستے گنگناتے اُترتے ہیں اور پورے ملک سے گزرتے ہوئے سیراب کرتے سمندر کا رُخ کرتے ہیں لیکن مون سون کے موسم میں جب یہ دریا بپھرتے ہیں اور بھارت اپنا سیلابی پانی مزید ان دریائوں میں ڈال دیتا ہے تو خطرناک سیلاب آجاتا ہے۔ یہ سیلابی پانی گھروں اور بستیوں کو بہا کر لے جاتا ہے، کھڑی فصلوں کو تباہ کرتا ہے، مویشیوں کو دیتا ہے۔ اس وقت ملک عزیز میں جو سیلاب آیا اس نے 33 لاکھ سے زیادہ افراد کو متاثر کیا، سیکڑوں بستیاں ڈھے گئیں، باقی میں چھتوں تک پانی کھڑا ہے، سڑکیں پانی میں ڈوبی ہیں، کھیت کھلیان تالاب بن گئے ہیں، لوگ باگ گھروں سے کشتیوں کے ذریعے جان بچا کر نکلے ہیں اور خیموں میں پناہ لی ہے، ان کے مویشی اور گھروں کا سامان تباہ ہوگیا ہے۔ اگرچہ رضا کار لوگوں کی جانیں اور ان کا مال مویشی بچانے کے لیے کشتیوں کے ذریعے پہنچے ہیں لیکن ان کی نگاہیں حسرت سے اپنی برباد فصلوں کو دیکھ رہی ہیں۔

یہ سیلاب کی صورت حال کوئی نئی نہیں پہلے بھی آتے رہے ہیں لیکن انتہائی غفلت کی بات ہے کہ ایک طرف پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں خطرناک حد تک پانی کی قلت ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ 2040ء تک پاکستان خطے کا پانی کی قلت سے دوچار سب سے زیادہ متاثر ملک بن سکتا ہے۔ ابھی حال ہی میں حکومت کے کرتا دھرتا کہہ رہے تھے کہ بھارت پاکستان جانے والے دریائوں کا پانی روک کر آبی جارحیت کررہا ہے۔ لیجیے اب اس نے دریائوں میں پانی چھوڑ دیا اور ہم واویلا کرنے لگے کہ اب وہ پانی چھوڑ کر پاکستان کو سیلاب کی صورت حال سے دوچار کررہا ہے۔بھارت پانی کو اپنی مرضی سے روک اور چھوڑ سکتا ہے تو کیوں؟ اس سوال پر پاکستانی کرتا دھرتا غور کریں۔ ظاہر ہے اس نے اپنے ڈیم بنائے ہیں، اپنی زراعت کے لیے پانی کو استعمال کرنے کے لیے، لیکن ہم نے اپنی اسمبلیوں میں ڈیم نہ بنانے کے لیے قراردادیں منظور کی ہیں، کیوں کہ ہمیں اپنے بینک بیلنس بڑھانے ہیں، غریب عوام جائیں سیلاب میں ڈوبیں، اپنی جمع پونجی کو روئیں ہمیں پروا نہیں ہے۔ دنیا ڈیم بنا کر میٹھے پانی کو استعمال کررہی ہے اور ہم میٹھے پانی کو سمندر برد کرتے ہیں بلکہ دعائیں کرتے ہیں کہ یہ پانی جلد از جلد سمندر تک پہنچے۔ بھارت ڈیم بنانے والے ملکوں میں امریکا، جاپان، برازیل کے ساتھ سب سے آگے کی صف میں ہے۔ عالمی کمیشن بتاتا ہے کہ بڑا ڈیم وہ ہوتا ہے جو 15 میٹر سے زیادہ بلند ہو یعنی چار منزلہ عمارت کے برابر اونچا ہو، ایسے بڑے ڈیم بھارت میں 5100 ہیں۔ جبکہ پاکستان میں مشکل سے 164 ہیں۔

پاکستان میں پانی کی قلت کا یہ حال ہے کہ 44 فی صد سے زیادہ لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں، دیہی علاقوں میں یہ تعداد 90 فی صد تک پہنچ جاتی ہے جس کے باعث بڑے اور بچے بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ صرف اسہال سے پاکستان میں ہر سال 2 لاکھ بچے انتقال کرجاتے ہیں اور ہمارے ہاں حکومت پولیو کے علاوہ دوسری بیماریوں کو اہمیت دینے کے لیے ہی تیار نہیں۔ پانی زندگی ہے آنے والے وقت میں پانی پر ہونے والی جنگوں کا ہی سوچ کر ہمیں اپنے لوگوں کے لیے سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے سوچنا چاہیے۔ موجودہ سیلاب نے صورت حال کو اچانک انتہائی تیزی سے بدلا، پانی چند گھنٹوں میں اس قدر بڑھا کہ لوگوں کو صرف اپنی جانیں بچا کر نکلنے کا موقع ملا، بہت سے ایسے تھے کہ جنہوں نے گھر چھوڑ کر نکلنے سے انکار کردیا وہ اس امید پر وہاں ٹھیرنا چاہتے تھے کہ شاید پانی جلد ہی اُتر جائے گا۔ لیکن پانی بڑھ گیا اور اتنا بڑھا کہ رضا کاروں کے لیے بھی ان تک پہنچنا مشکل ہوگیا۔ وہ بتارہے ہیں کہ پانی کے نیچے کہیں پلیاں بنی ہوئی ہیں جو نظر نہیں آتیں اور کشتیوں کے اُلٹنے کا خطرہ ہے پھر کیونکہ پانی کے نیچے کھڑی فصلیں موجود ہیں جو کشتیوں کے پنکھوں میں پھنس جاتی ہیں  اور کشتیوں کے لیے حرکت کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ دوسری طرف بھارت کی طرف سے ایک کے بعد ایک بڑا پانی کا ریلہ چھوڑا جارہا ہے جس سے پانی کی سطح اور بہائو میں تیزی آرہی ہے، ایسے میں ابھی کچھ لوگ ڈگمگاتے گھروں کی چھتوں پر موجود ہیں، بہت سے مقامات پر پانی کی سطح آٹھ اور دس فٹ بلند بتائی جارہی ہے جہاں کشتیاں ایسے چل رہی ہیں جیسے دریائوں میں چلتی ہیں۔ لوگ بتارہے ہیں کہ پچھلے سیلابوں میں بھی دریا نے جب بہنا شروع کیا تو گھروں کو گرا کر اس جگہ کو نگل گیا جو اصل میں اس کی ہی تھی۔ خواجہ آصف بھی خوب ہیں، وزیر دفاع کے ساتھ وزیر اطلاعات کی ذمے داری اٹھالیتے ہیں، حکومتوں میں رہتے ہوئے بیان ایسے دیتے ہیں جیسے اپوزیشن میں ہی زندگی گزاری ہے۔ وہ اطلاع دے رہے ہیں کہ سیالکوٹ میں نالوں کی زمین لوگوں کو بیچی گئی، دریا کے راستے میں آبادیاں ہیں، گزرگاہوں پر قبضہ ہوچکا ہے، ہم دریا کے راستوں پر گھر اور ہوٹل بنا لیتے ہیں، دریا ردعمل تو دیتے ہیں، لہٰذا سیلاب کی تباہی ہمارے اپنے کرتوتوں سے ہے۔ تو جناب حکومت میں تو آپ رہے ہیں اور ہیں یہ سب ہورہا تھا تو آپ کیا کررہے تھے؟ عوام سے کہہ رہے ہیں کہ موقع پرستوں کو سسٹم میں لائیں گے تو نقصان ہوگا، جناب جو دو پارٹیاں حکومت میں پچھلے ستر سال سے ہیں وہ ن لیگ اور پی پی ہی ہے اور ٹھیک کہا کہ سب کے سب موقع پرست ہیں جن میں آپ بھی شامل ہیں۔ یہ لاکھوں کیوسک پانی جو ملک کے مختلف صوبوں میں تباہی مچاتا سمندر میں گرے گا کیا اس پانی کو سنبھالنے کے لیے کوئی نظام نہیں بنایا جاسکتا؟ یقینا بنایا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے دیانت دار حکمران ہونے چاہئیں، موقع پرست نہیں۔ افسوس ہماری ترجیحات ہی کچھ اور ہیں۔

متعلقہ مضامین

  •   مون سون کا زور ٹوٹ گیا: محکمہ موسمیات
  • آج سے مون سون کا سیزن ختم ہو گیا ہے: ڈی جی پی ڈی ایم اے
  • موقع پرست اور سیلاب کی تباہی
  • بارش اور کرپٹ سسٹم
  • کیا راول ڈیم کا پانی فلٹریشن کے بعد بھی پینے کے لیے غیر محفوظ ہے؟
  • خلیفۃ الارض کی ذمہ داریاں ادا کرنے کےلئے ہمیں خود کو قرآن وسنت سے جوڑنا ہوگا،معرفت کا راستہ علم کےذریعے طے کیا جاسکتا ہے،وفاقی وزیر پروفیسر احسن اقبال
  • دریائے ستلج کے سیلاب میں کمی
  • سیلاب
  • جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !
  • قال اللہ تعالیٰ  و  قال رسول اللہ ﷺ