ایران اسرائیل تنازعہ: یورپی ممالک کی سفارتی حل کی کوششیں
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 جون 2025ء) گزشتہ جمعے کو اسرائیل کی جانب سے ایران کے خلاف اچانک حملے کے بعد سے کشیدگی میں کمی کے بجائے اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اب یہ بحران دوسرے ہفتے میں داخل ہو چکا ہے۔
کشیدگی میں کمی کے بہت کم آثار نظر آ رہے ہیں، جبکہ وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کی مہم میں شامل ہونے کے آپشن پر غور کر رہا ہے۔
یورپ کی سفارتی حل کی کوششایران اسرائیل تنازعے پر بات چیت کے لیے فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ جمعے کے روز اپنے ایرانی ہم منصب سے سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں ملاقات کرنے والے ہیں۔ اس کا مقصد ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام پر سفارت کاری کی طرف واپسی کا راستہ بنانا ہے۔
ان مذاکرات میں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی، برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی، فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں نول بیروٹ، جرمن وزیر خارجہ یوہان واڈے فیہول اور یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ کاجا کالس شامل ہوں گے۔
(جاری ہے)
’جارحیت کی جنگ میں‘ آئی اے ای اے اسرائیل کی شراکت دار، ایرانی الزام
برطانوی وزیر خارجہ لیمی نے ایران کے ساتھ مذاکرات کے موقع پر امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی اور پھر انہوں نے کہا کہ تہران کے ساتھ سفارتی حل تک پہنچنے کے لیے ابھی بھی وقت ہے۔
لیمی نے واشنگٹن میں برطانیہ کے سفارت خانے کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا، "مشرق وسطیٰ کی صورتحال بدستور خطرناک ہے۔
"ان کا مزید کہنا تھا، "ہم نے اس بات پر تبادلہ خیال کیا کہ ایران کو گہرے ہوتے تنازعے سے بچنے کے لیے کس طرح ایک معاہدہ کرنا چاہیے۔ سفارتی حل کے حصول کے لیے اب ایک ونڈو اگلے دو ہفتوں تک موجود ہے۔"
ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف اسرائیلی حملوں کی مہم جاری ہے جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے خلاف حملوں میں شامل ہونے پر غور کر رہے ہیں، اس تناظر میں یورپی ممالک تنازعے کو کم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ایرانی قیادت کو نشانہ بنانے کے خلاف آیت اللہ سیستانی کی وارننگ
اگلے دو ہفتوں میں ایران کے خلاف کارروائی کا فیصلہامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس بات پر تذبذب کا شکار دکھائی دیتے ہیں کہ آیا زیر زمین جوہری تنصیبات پر بمباری کر کے وہ ایران پر اسرائیل کے حملے میں شامل ہوں یا نہ ہوں۔ ان کے سیاسی حامی بھی اس معاملے پر منقسم ہیں۔
ٹرمپ نے بذات خود اپنی انتخابی مہم کے دوران اس بات کا وعدہ کیا تھا کہ وہ غیر ملکی جنگوں میں ملوث نہیں ہوں گے۔
جمعرات کی شام کو وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کیرولین لیویٹ نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ صدر ٹرمپ آئندہ دو ہفتوں میں ایران پر حملہ کرنے کے بارے میں حتمی فیصلہ کریں گے۔
پوٹن جرمن چانسلر اور یوکرین کے صدر سے ملاقات کے لیے تیار
انہوں نے مزید کہا کہ ٹرمپ کو اب بھی ایک موقع نظر آتا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام پر مذاکرات امریکی اور اسرائیلی مطالبات کو حاصل کر سکتے ہیں۔
ٹرمپ نے ایران سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر اپنی افزودگی کے عمل اور جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے دیگر امکانات کو بند کر دے۔
لیویٹ نے بتایا کہ صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ "اس حقیقت کی بنیاد پر کہ ایران کے ساتھ مستقبل قریب میں مذاکرات کا بہت امکان ہے یا نہیں بھی ہو سکتا ہے، میں اپنا فیصلہ اگلے دو ہفتوں کے اندر کروں گا کہ جنگ میں شامل ہونا ہے یا نہیں۔
"امریکہ اس بات پر غور کرتا رہا ہے کہ آیا وہ فردو کے مقام پر ایران کی محفوظ ترین یورینیم افزودگی کی تنصیب پر حملہ کر کے اسرائیل کے حملے میں شامل ہو یا نہ ہو۔ یہ تنصیب ایک پہاڑ کے نیچے واقع ہے اور اسے امریکی "بنکر بسٹر" بموں سے ہی تباہ کیا جا سکتا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے جمعرات کو کہا کہ انہیں یقین ہے کہ ٹرمپ "وہ کریں گے جو امریکہ کے لیے بہتر ہو گا۔
"نیتن یاہو نے کہا کہ "میں آپ کو یہ بتا سکتا ہوں کہ وہ پہلے ہی بہت مدد کر رہے ہیں۔"
آبنائے ہرمز عالمی تیل کی سپلائی کے لیے اہم کیوں؟
ایران میں موجود افغانوں کو خوف اور بے یقینی کا سامناپناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کا اندازہ ہے کہ تقریباً ساڑھے چار ملین افغان شہری ایران میں مقیم ہیں۔
بعض دوسرے ذرائع کے مطابق یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای تنہا پڑتے جا رہے ہیں؟
تاہم اطلاعات ہیں کہ ایران میں افغان مہاجرین کے لیے حالات ابتر ہو چکے ہیں۔
انہیں صرف انتہائی مہنگی قیمتوں پر خوراک خریدنے کی اجازت ہے اور ان پر تہران چھوڑنے پر پابندی بھی عائد ہے، جبکہ طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان میں ان کے لیے واپس جانا بھی کوئی آپشن نہیں ہے۔
ایران اسرائیل کے درمیان موجودہ خطرناک تنازعے کے سبب ایسے افغانوں کی زندگی مزید بہت مشکل ہو گئی ہے۔
ادارت: جاوید اختر
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے میں شامل ہو سفارتی حل ایران کے کہ ایران دو ہفتوں کے خلاف رہے ہیں بات پر اس بات کہا کہ نے کہا کے لیے
پڑھیں:
ایک ظالم اور غاصب قوم کی خوش فہمی
یہودیوں کی پوری تاریخ ظلم و جبر، عیاری مکاری، خود غرضی اور احسان فراموشی سے بھری ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر بے حد احسانات کیے اور انعام و اکرام کی بارش کی مگر انھوں نے اپنے کرتوتوں سے ثابت کیا کہ یہ کبھی راہ راست پر آنے والے نہیں ہیں۔ خدا کی نعمتوں اور رحمتوں کے نزول کے باوجود بھی نافرمان رہے۔
آج کی دنیا میں بھی یہ بدنام ہیں اور کوئی انھیں عزت نہیں دیتا، یہ جس ملک میں بھی رہے اس کی جڑیں کاٹتے رہے۔ یہی کھیل انھوں نے جرمنی میں بھی کھیلا۔
یہ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے دوران مغربی ممالک کے مخبر بن گئے اور پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست کا سبب بنے۔
انھوں نے جرمنی کے ساتھ بھی غداری کی اور جرمنی کو ہرانے کے لیے مغربی ممالک کی خفیہ طرف داری ہی نہیں کی بلکہ جرمنی کی خفیہ معلومات ان تک پہنچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے لگے تو ہٹلر کو ان کے اس گھناؤنے کردار نے آگ بگولہ کر دیا اور پھر اس نے ان کی نسل کشی کا سلسلہ شروع کر دیا۔
ہٹلر نے انھیں جو سزا دی وہ یقینا بہت سخت تھی مگر ان کا جرم بھی تو ایسا سخت تھا جو اس سانحہ کا باعث بنا۔ اس سانحے کو آج ’’ ہولوکاسٹ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔
دوسری جنگ عظیم میں کامیابی کے بعد مغربی ممالک نے جرمنی سے غداری اور مغربی ممالک سے وفاداری کرنے کے صلے میں انعام کے طور پر اس بے وطن قوم کو مشرق وسطیٰ میں بسا دیا۔
یہ فلسطینیوں کی سرزمین تھی مگر اسے ان کا وطن قرار دے دیا گیا جو آج اسرائیل کہلاتا ہے۔ اس ظالم قوم کو ایک وطن تو حاصل ہوگیا تھا مگر یہ تو پورے مشرق وسطیٰ پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنانے لگے کیونکہ نمک حرامی اور احسان فراموشی ان کی رگ رگ میں سمائی ہوئی ہے۔
گوکہ یہ عربوں کی سرزمین ہے اور مغربی ممالک کو کوئی حق نہیں تھا کہ وہ انھیں یہاں آباد کرتے۔ دراصل پہلی جنگ عظیم میں انھوں نے اسے ترکوں سے چھین لیا تھا لہٰذا انھوں نے اپنی مرضی سے جو کرنا چاہا وہ کیا۔
بہرحال انھوں نے اسرائیل کو قائم کرکے عربوں کے قلب میں خنجر پیوست کر دیا اور انھیں اسرائیل کے ذریعے اپنے کنٹرول میں رکھنے کا بندوبست کر لیا اور ان کی یہ حکمت عملی آج بھی کامیابی سے جاری ہے۔
امریکا نے اسرائیل کو اتنا طاقتور بنا دیا ہے کہ تمام ہی عرب ممالک اس سے مرعوب ہیں۔ اسرائیل آئے دن عربوں کے خلاف کوئی نہ کوئی شرارت کرتا رہتا ہے مگر وہ اسے جواب دیتے ہوئے کتراتے ہیں کہ کہیں امریکا ان سے ناراض نہ ہو جائے۔
ابھی گزشتہ دنوں پورے دو سال تک غزہ اسرائیل خونی حملوں کی زد میں رہا جس میں ہزاروں فلسطینی شہید ہو گئے مگر کسی کو ہمت نہیں ہوئی کہ وہ کوئی مداخلت کرتا۔ اسرائیل 1967 میں اردن، شام اور مصر کے کئی علاقوں پر قبضہ کر چکا تھا اور بعد میں شام کے کئی علاقوں پر قابض ہو چکا ہے۔
مسجد اقصیٰ جیسی مقدس مسجد بھی اس کے قبضے میں ہے۔ وہ ان کا قبضہ چھوڑنے کے لیے سلامتی کونسل کی قراردادوں کو بھی خاطر میں نہیں لا رہا ہے۔ اب وہ غزہ اور مغربی کنارے کے علاقوں کو ہڑپ کرکے فلسطینی ریاست کا راستہ روکنا چاہتا ہے۔
گوکہ فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے امریکا بھی مثبت سگنل دے چکا ہے تمام عرب ممالک بھی اس پر متفق ہیں مگر اسرائیل اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔
گوکہ فلسطینیوں کی نسل کشی اب رک چکی ہے اور اب قیدیوں کی رہائی عمل میں لائی جا رہی ہے ایسے میں اسرائیلی پارلیمنٹ نے مغربی کنارے کے ایک بڑے حصے کو اسرائیل میں شامل کرنے کی قرارداد پاس کر لی ہے۔
اسرائیلی پارلیمنٹ میں سخت گیر یہودیوں کا غلبہ ہے۔ نیتن یاہو اگرچہ ظاہری طور پر ان سخت گیر ممبران کے خلاف ہے مگر اندرونی طور پر وہ ان کے ساتھ ملا ہوا ہے، لگتا ہے اسی کے اشارے پر پہلے سخت گیر عناصر جنگ بندی کو ناکام بناتے رہے اور اب فلسطینی ریاست کا راستہ روکنے کے لیے غیر قانونی یہودی بستیوں کو اسرائیل کا حصہ بنانے کے لیے سرگرداں ہیں۔
ایسے میں ایک سخت گیر یہودی بزلل جو نیتن یاہو حکومت کا وزیر خزانہ ہے نے عربوں کے خلاف ایک سخت بیان دیا ہے۔ بزلل نے عربوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ عرب کے ریگستانوں میں اونٹوں پر سواری کرتے رہیں اور ہم سماجی و معاشی ترقی کی منزلیں طے کرتے رہیں گے۔
یہ واقعی ایک سخت بیان ہے جس سے ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہودی ایک ترقی یافتہ اور مہذب قوم ہیں جب کہ عرب پہلے بھی ریگستانوں میں اونٹوں پر گھومتے پھرتے تھے اور اب بھی ویسا ہی کر رہے ہیں۔
اس بیان پر سعودی عرب ہی نہیں تمام عرب ممالک نے سخت تنقید کی ہے۔ خود اسرائیل میں بھی بزلل کے اس بیان پر سخت تنقید کی گئی ہے۔ نیتن یاہو نے بھی اپنے وزیر کے بیان سے لاتعلقی ظاہر کی ہے چنانچہ بزلل کو سعودی عرب سے معافی مانگنا پڑی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل میں اس وقت بھارت کی طرح عاقبت نااندیش سخت گیر جنونیوں کی حکومت قائم ہے جو مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہیں اور اسی مناسبت سے اس وقت اسرائیل کے بھارت سے گہرے روابط قائم ہیں۔
بدقسمتی سے اس وقت اسرائیل بھارت کی طرح جنونی قاتلوں کے چنگل میں پھنس چکا ہے۔ جنونی یہودی سعودی عرب کیا کسی مسلم ملک کو خاطر میں نہیں لا رہے ہیں وہ خود کو مہذب اور ترقی یافتہ جب کہ مسلمانوں کو غیر مہذب اور پسماندہ خیال کر رہے ہیں مگر انھیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ان کی ساری طاقت اور ترقی امریکا اور مغربی ممالک کی مرہون منت ہے۔
آج وہ جس ملک کے مالک ہیں کیا وہ انھوں نے خود حاصل کیا ہے؟ یہ انھیں مغربی ممالک نے تحفے کے طور پر پیش کیا تھا، ان کی جرمنی سے غداری کے صلے میں۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ آج بھی امریکا کے غلام ہیں وہ کسی وقت بھی ان سے یہ زمین چھین سکتا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اسرائیل کی معیشت اور جدید اسلحہ امریکا کا دیا ہوا ہے، اگر وہ ہاتھ کھینچ لے یا اسرائیل کی حفاظت نہ کرے تو یہ ملک کسی وقت بھی اپنا وجود کھو سکتا ہے، چنانچہ اسرائیلی وزیر مسٹر بزلل کو ہرگز اس خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ اسرائیلی ایک آزاد قوم ہیں اور اسرائیل ایک آزاد خود مختار ملک ہے۔