ایران طے کرے گا کہ جنگ کیسے ختم کی جائے گی، جواد ظریف
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
ایران کے سابق وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا ہے کہ ایران طے کرے گا کہ جنگ کیسے ختم کی جائے گی۔
سوشل میڈیا پر پیغام میں جواد ظریف نے کہا کہ حملہ آور کوئی بھی ہو، ایرانی قوم اسے ناک آؤٹ کردے گی۔
انہوں نے کہا کہ نسل کش بزدل کو تو علم ہی نہیں کہ اس نے کس چیز کا آغاز کیا ہے۔
جواد ظریف کا کہنا تھا کہ ایران نے تین صدیوں میں کسی ملک پر حملہ نہیں کیا مگر ایران نے ابھرنے کی ناقابل یقین قوت کا بھی اظہار کیا ہے۔
سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ عمارتیں گرائی جاسکتی ہیں مگر علم کبھی تباہ نہیں کیا جاسکتا، خاص طور پر جب 9 کروڑ محب وطن اور مخلص لوگ موجود ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ایران نے یہ جنگ شروع نہیں کی مگر یقینا فیصلہ ایران ہی کرے گا کہ اسے ختم کیسے کیا جانا ہے۔
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: جواد ظریف نے کہا کہ
پڑھیں:
انسانی دماغ میں فاصلہ ناپنے کا نظام دریافت، یہ قدرتی گھڑی کیسے کام کرتی ہے؟
سائنسدانوں نے پہلی بار دماغ کے اندر موجود وہ نظام دریافت کیا ہے جو ہمیں یہ اندازہ لگانے میں مدد دیتا ہے کہ ہم نے کتنا فاصلہ طے کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اکثر افراد کو درپیش ’دماغی دھند‘ کیا ہے، قابو کیسے پایا جائے؟
اس تحقیق میں چوہوں اور انسانوں دونوں پر تجربات کیے گئے اور نتائج سے پتا چلا کہ دماغ میں ایک مخصوص فاصلہ گھڑی (مائیلج کلاک) کام کرتی ہے جو چلنے کے ہر چند قدموں پر ’ٹک ٹک‘ کرتی ہے۔
یہ تحقیق معروف سائنسی جریدے ’کرنٹ بایالوجی‘ میں شائع ہوئی ہے۔
چوہوں پر پہلا تجربہتحقیق کے دوران سائنسدانوں نے چوہوں کو ایک مستطیل میدان میں دوڑایا اور ان کے دماغ کے اس حصے سے سگنلز ریکارڈ کیے جو یادداشت اور نیویگیشن (راستہ تلاش کرنے) سے متعلق ہوتا ہے۔
یہاں موجود مخصوص خلیے جنہیں گرِڈ سیلز کہا جاتا ہے تقریباً ہر 30 سینٹی میٹر پر متحرک (فائر) ہوتے رہے جس سے پتا چلا کہ یہ دماغ میں فاصلہ ناپنے والے نظام کا حصہ ہیں۔
مزید پڑھیے: ’اور کیسے ہیں؟‘ کے علاوہ بھی کچھ سوال جو آپ کو لوگوں کے قریب لاسکتے ہیں!
تحقیق کے مرکزی محقق پروفیسر جیمز اینج نے بتایا کہ یہ خلیے دماغ کے اس حصے میں ہیں جو ہمیں اپنے اردگرد کا نقشہ ذہنی طور پر بنانے میں مدد دیتا ہے جیسے آپ باورچی خانے سے ڈرائنگ روم تک جا رہے ہوں۔
اس نظریے کی تصدیق کے لیے ایک بڑا، 12 میٹر لمبا اور 6 میٹر چوڑا میدان بنایا گیا جہاں رضاکاروں کو چوہوں کی طرح ایک مخصوص فاصلہ چلنے کے بعد واپس آنے کا کہا گیا۔
جب میدان مستطیل شکل میں تھا تو انسانوں نے بالکل درست اندازے لگائے لیکن جب میدان کی شکل بدلی گئی تو وہ بھی چوہوں کی طرح فاصلہ اندازہ لگانے میں غلطیاں کرنے لگے۔
ماحول کی تبدیلی سے نظام متاثرماحولیاتی تبدیلی جیسے میدان کی شکل بدلنا یا اندھیرا چھا جانا دماغ کی فاصلہ گھڑی کو متاثر کرتا ہے جس سے انسان یا جانور فاصلہ کم یا زیادہ اندازہ لگا سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: الزائمر سے بچاؤ میں مددگار وٹامنز، تحقیق کیا کہتی ہے؟
یہی وجہ ہے کہ دھند یا اندھیرے میں ہم اکثر یہ نہیں جان پاتے کہ کتنا راستہ طے کر چکے ہیں۔
پروفیسر اینج نے مزید بتایا کہ یہ گرڈ سیلز دماغ کے ان ابتدائی حصوں میں پائے جاتے ہیں جو الزائمر کی بیماری میں سب سے پہلے متاثر ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ممکن ہے کہ اسی بنیاد پر ہم مستقبل میں الزائمر کی جلد تشخیص کے لیے موبائل گیمز یا دیگر تجرباتی طریقے تیار کریں جو خاص طور پر فاصلے کا اندازہ لگانے کی صلاحیت کو جانچیں۔
یہ بھی پڑھیے: پھیپھڑے صحت کا راز کھولتے ہیں، ان کی کاردکردگی خود کیسے چیک کی جائے؟
یہ تحقیق اس بات کا ثبوت ہے کہ انسانوں اور جانوروں کے دماغ میں فاصلہ ناپنے کا ایک اندرونی نظام موجود ہے جو ہمیں دنیا میں مؤثر انداز میں نیویگیٹ کرنے میں مدد دیتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
انسانی دماغ میں گھڑی دماغی گھڑی قدرتی گھڑی مائلج کلاک وقت کا اندازہ