انسانی حقوق کونسل: پہلگام حملے پر بھارت اور پاکستان میں بحث
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 جون 2025ء) بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں گزشتہ 22 اپریل کو ہونے والا حملہ اور اس کے بعد ہونے والی کارروائیاں اب اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں بھارت اور پاکستان کے درمیان بحث کا موضوع بنتی جار ہی ہیں۔
جنیوا میں بھارتی مشن نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل (یو این ایچ آر سی) میں پاکستان کے خلاف اپنے حملوں کا دفاع کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ اس کا آپریشن سیندور "دہشت گردی" کے خلاف ایک کارروائی تھی۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی سالانہ رپورٹ پر انٹرایکٹو ڈائیلاگ کے دوران بھارت کی جانب سے یہ معاملہ اٹھایا گیا اور پھر جواب کا حق استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے نمائندے منیب احمد نے بھارت کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ نئی دہلی نے بغیر کسی ثبوت کے پہلگام حملے کا الزام پاکستان پر لگایا۔
(جاری ہے)
وزیر اعظم مودی کی صدر ٹرمپ سے فون پر کیا بات ہوئی؟
پاکستانی سفارت کار کا کہنا تھا کہ نئی دہلی نے پہلگام واقعے کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کے مطالبات کو مسترد کر دیا اور تحمل کی بین الاقوامی اپیلوں کو نظر انداز کرتے ہوئے جارحیت کا مظاہرہ کیا۔
پاکستان نے مزید کیا کہا؟دونوں ملکوں کی جانب سے یہ بات چیت اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے جاری اجلاس کا ایک حصہ تھی۔
پاکستان کے کئی صوبے بھارت میں ضم ہوجائیں گے، آر ایس ایس
پاکستان کے نمائندے منیب احمد نے کہا، "اس سے پہلے کہ بھارت خود اپنی تفتیش عوام کے سامنے رکھتا، بھارت نے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے خلاف اپنے ظلم کو تیز کر دیا۔
اس سے بھی بدتر، بھارت نے پاکستان میں شہریوں، رہائش گاہوں اور عبادت گاہوں پر جان بوجھ کر اور بلاجواز فوجی حملے کیے۔"انہوں نے مزید کہا، یہ جموں و کشمیر کے ساتھ ساتھ متعدد دیگر خطوں پر بھارتی قبضے کی عکاسی کرتا ہے۔
پاکستانی مندوب نے اس موقع پر جموں و کشمیر کے تنازعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس مسئلے کا حل ہی جنوبی ایشیا میں دیرپا امن اور خوشحالی کی کلید ہے اور مستقبل میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف بہترین تحفظ بھی ہے۔
ان کا کہنا تھا، "جموں و کشمیر کا علاقہ بھارت کا نام نہاد اٹوٹ حصہ نہیں ہے، نہ کبھی تھا اور نہ کبھی ہو گا۔ یہ ایک بین الاقوامی سطح پر اس وقت تک تسلیم شدہ متنازع علاقہ رہے گا جب تک کہ جموں و کشمیر کے لوگ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں کے مطابق اپنے ناقابل تنسیخ حق خود ارادیت کا استعمال نہیں کر لیتے۔"
عالمی جوہری طاقتوں کی فہرست اور ہتھیاروں کی تعداد
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اپنی مغربی سرحدوں پر دہشت گردی کے خطرے کے لیے بھارت کی حمایت پر بات کرنے کے لیے تیار ہے اور نئی دہلی کے برعکس، "ہمارے پاس اس پر بات چیت کرنے کے ٹھوس ثبوت بھی موجود ہیں۔
"ان کا کہنا تھا، "ہم بھارت پر زور دیتے ہیں کہ پاکستان یا مسلمانوں پر الزام لگانے کے بجائے وہ اپنے ہندوتوا کی بالادستی کی پالیسی کے حصول پر نظرثانی کرے، کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کو برقرار رکھے اور اہم بات یہ ہے کہ اپنے اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن کے ساتھ ایک نارمل ملک کی طرح برتاؤ کرے۔"
بھارت نے کیا کہا تھا؟اس سے قبل اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل (یو این ایچ آر سی) میں بھارت کی نمائندگی کرتے ہوئے سفارت کار چھتیج تیاگی نے الزام لگایا کہ پاکستان "جہادی دہشت گردی کا مرکز" ہے۔
تیاگی کا مزید کہنا تھا، "جب کوئی ریاست بے گناہوں کا قتل عام کرنے والے دہشت گردوں کو پناہ دیتی ہے، تو پھر دفاعی کارروائی صرف ایک حق نہیں، بلکہ یہ ایک سنجیدہ فرض بن جاتا ہے۔"
پاکستانی آرمی چیف سے متعلق کانگریس کے بیان پر بی جے پی برہم
بھارت کا کہنا تھا کہ پاکستان بھارت کے انسداد دہشت گردی آپریشن کو غلط انداز میں پیش کرنے کی کوشش کرنے کے ساتھ ہی وہ انتہا پسند گروپوں کی اپنی حمایت سے بین الاقوامی توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔
بھارتی مندوب کا کہنا تھا کہ پاکستان نے آپریشن سیندور کو جارحانہ کارروائی کے طور پر پیش کرنے کی گمراہ کن کوشش کی ہے۔ تیاگی نے کہا کہ یہ کارروائی "دہشت گردی" کے حملوں کے پیش نظر براہ راست خطرے اور ضرورت کے تحت ایک "صحیح اور متناسب" جواب ہے۔
ٹرمپ کی پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر تنازع پر ثالثی کی باضابطہ پیشکش
بھارت اور پاکستان کی سفارتی کوششیںخیال رہے کہ اپریل میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں ایک حملے میں 26 سیاح ہلاک ہو گئے۔
بھارت نے اس حملے کا الزام پاکستان میں مقیم گروپوں پر لگایا، جس کی اسلام آباد نے سختی سے تردید کرتے ہوئے غیر جانبدارانہ بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔اس واقعے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان چار دنوں تک میزائل اور ڈرون حملے ہوئے اور فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس میں دونوں طرف مزید شہریوں کی ہلاکت ہوئی۔ اور دونوں حریفوں کے درمیان باضابطہ جنگ کا خدشہ پیدا ہو گیا۔
لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دباؤ میں فائر بندی ہوئی جو اب تک جاری ہے۔بھارت 'جھگڑنے والی ایک بے قابو طاقت' ہے، پاکستانی وفد
پاکستان نے بھارت پر جارحیت کا الزام لگایا جبکہ بھارت کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے دفاع میں پاکستان پر حملہ کیا۔ ان واقعات کے بعد دونوں ملکوں نے اپنے اعلی سطحی وفود مختلف مغربی ممالک کو روانہ کیے تاکہ وہ بین الاقوامی برادری کو اپنے اپنے موقف کے مطابق قائل کر سکیں۔
یہ سلسلہ عالمی اداروں میں بھی جاری ہے اور جنیوا میں انسانی حقوق کے کمیشن میں سب سے پہلے پاکستان نے بھارتی جارحیت کا معاملہ اٹھایا، جس کا بھارت نے جواب دیا اور پھر پاکستان نے دوبارہ جواب دیا۔
ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق جموں و کشمیر کے انسانی حقوق کی بین الاقوامی کا کہنا تھا کہ پاکستان پاکستان کے پاکستان نے میں بھارت کے درمیان کرتے ہوئے بھارت کے بھارت نے کے ساتھ کے خلاف کہا کہ
پڑھیں:
امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کوئی حق حاصل نہیں، ایران
امریکہ کی مداخلت پسندانہ و فریبکارانہ پالیسیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے ایرانی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ انتہاء پسند امریکی حکومت کو انسانی حقوق کے بلند و بالا تصورات پر تبصرہ کرنیکا کوئی حق حاصل نہیں جبکہ کوئی بھی سمجھدار و محب وطن ایرانی، ایسی کسی بھی حکومت کے "دوستی و ہمدردی" پر مبنی بے بنیاد دعووں پر کبھی یقین نہیں کرتا کہ جو ایران کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت اور ایرانی عوام کیخلاف گھناؤنے جرائم کی ایک طویل تاریخ رکھتا ہو! اسلام ٹائمز۔ ایرانی وزارت خارجہ نے ملک میں بڑھتی امریکی مداخلت کے خلاف جاری ہونے والے اپنے مذمتی بیان میں انسانی حقوق کی تذلیل کے حوالے سے امریکہ کے طویل سیاہ ریکارڈ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ امریکی حکومت کو انسانی حقوق کے اعلی و ارفع تصورات کے بارے تبصرہ کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ اس حوالے سے جاری ہونے والے اپنے بیان میں تہران نے تاکید کی کہ ایرانی وزارت خارجہ، (16) ستمبر 2022ء کے "ہنگاموں" کی برسی کے بہانے جاری ہونے والے منافقت، فریبکاری اور بے حیائی پر مبنی امریکی بیان کو ایران کے اندرونی معاملات میں امریکہ کی جارحانہ و مجرمانہ مداخلت کی واضح مثال گردانتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ نے کہا کہ کوئی بھی سمجھدار اور محب وطن ایرانی، ایسی کسی بھی حکومت کے "دوستی و ہمدردی" پر مبنی بے بنیاد دعووں پر کسی صورت یقین نہیں کر سکتا کہ جس کی پوری سیاہ تاریخ؛ ایرانی اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت اور ایرانی عوام کے خلاف؛ 19 اگست 1953 کی شرمناک بغاوت سے لے کر 1980 تا 1988 تک جاری رہنے والی صدام حسین کی جانب نسے مسلط کردہ جنگ.. و ایرانی سپوتوں کے خلاف کیمیکل ہتھیاروں کے بے دریغ استعمال اور 1988 میں ایرانی مسافر بردار طیارے کو مار گرانے سے لے کر ایرانی عوام کے خلاف ظالمانہ پابندیاں عائد کرنے اور ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے میں غاصب صیہونی رژیم کے ساتھ ملی بھگت.. نیز گذشتہ جون میں انجام پانے والے مجرمانہ حملوں کے دوران ایرانی سائنسدانوں، اعلی فوجی افسروں، نہتی ایرانی خواتین اور کمسن ایرانی بچوں کے قتل عام تک.. کے گھناؤنے جرائم سے بھری پڑی ہو!!
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ غیور ایرانی قوم، اپنے خلاف امریکہ کے کھلے جرائم اور سرعام مداخلتوں کو کبھی نہ بھولیں گے، ایرانی وزارت خارجہ نے کہا کہ امریکہ؛ نسل کشی کی مرتکب ہونے والی اُس غاصب صیہونی رژیم کا سب سے بڑا حامی ہونے کے ناطے کہ جس نے صرف 2 سال سے بھی کم عرصے میں 65 ہزار سے زائد بے گناہ فلسطینی شہریوں کو قتل عام کا نشانہ بنایا ہے کہ جن میں زیادہ تر خواتین و بچے شامل ہیں، اور ایک ایسی انتہاء پسند حکومت ہونے کے ناطے کہ جس کی نسل پرستی و نسلی امتیاز، حکمرانی و سیاسی ثقافت سے متعلق اس کی پوری تاریخ کا "اصلی جزو" رہے ہیں؛ انسانی حقوق کے اعلی و ارفع تصورات پر ذرہ برابر تبصرہ کرنے کا حق نہیں رکھتا!
تہران نے اپنے بیان میں مزید تاکید کی کہ ایران کے باخبر و با بصیرت عوام؛ انسانی حقوق پر مبنی امریکی سیاستدانوں کے بے بنیاد دعووں کو دنیا بھر کے کونے کونے بالخصوص مغربی ایشیائی خطے میں فریبکاری پر مبنی ان کے مجرمانہ اقدامات کی روشنی میں پرکھیں گے اور ملک عزیز کے خلاف جاری امریکی حکمراں ادارے کے وحشیانہ جرائم و غیر قانونی مداخلتوں کو کبھی فراموش یا معاف نہیں کریں گے!!