معاہدۂ حدیبیہ کے سبق آموز پہلو
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
آیئے اِس (حدیبیہ) معاہدے سے حاصل ہونے والے دروس واسباق پر نظر ڈالتے ہیں:
معاہدہ کالحاظ
آپؐ نے کفارِ قریش سے کیے ہوئے اِس معاہدے کا پورا پورا لحاظ فرمایا اور معاہدے کے مطابق ہر اُس کام کو انجام دیتے رہے، جو معاہدے میں طے ہوا تھا؛ چنانچہ مدینہ پہنچنے کے بعد جب ابوبصیر قید وبند کی صعوبتوں سے چھٹکارا حاصل کرکے مدینے پہنچے اور مشرکینِ مکہ نے اِن کی واپسی کا مطالبہ کیا تو آپ نے اِنھیں اُن کے بھیجے ہوئے آدمیوں کے حوالے کردیا اور اُس عہد کی پاسداری کا مکمل ثبوت دیا، جو آپؐ نے اُن سے حدیبیہ کے مقام پر کیا تھا۔
آج ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ کیا ہم بھی اپنے کیے ہوئے عہد کا ایفا کرتے ہیں؟ کیا ہم وعدہ کرکے اپنی ادنیٰ منفعت کی وجہ سے اُس کی خلاف ورزی نہیں کر بیٹھتے؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ ہم نے معاہدے کو نقصان سے بچنے کا ایک ظاہری سبب بنا رکھا ہے اور پسِ پشت مُعاہِدْ (معاہدہ کرنے والا) کو ضرر پہنچانے کی تدبیریں نہیں کرتے رہتے؟ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے تو غیر سے کیے ہوئے عہد کو نباہ کرکے دکھا دیا اور ہم اُسی کے امتی ہونے کے باوجود اپنوں سے کیے ہوئے پیمان کا پاس نہیں رکھتے۔ کاش! آپ کے اِس عمل سے ہم نصیحت حاصل کرتے!
مقصد پر نظر
آپؐ جب مقامِ عسفان پہنچے تو آپ کو یہ اطلاع دی گئی کہ خالد بن الولید (جو ابھی تک اسلام کی سعادت سے محروم تھے) ہراول دستے کے طور پر دو سو شہہ سواروں کے ہمراہ ’’غمیم‘‘ تک پہنچ چکے ہیں۔ اِس خبرکے سنتے ہی آپ نے اپنا راستہ بدل لیا کہ مقصود لڑائی نہیں؛ بلکہ سعادتِ عمرہ سے سرفراز ہونا تھا۔ اگر آپ چاہتے تو اُن کا مقابلہ کرکے بزور شمشیر اُن سے راستہ خالی کروالیتے؛ لیکن چونکہ آپ کا مقصد قطعاً لڑائی نہیں تھا؛ بلکہ آپ کا مقصد بیت اللہ شریف کی زیارت سے مشرف ہونا تھا؛ اس لیے آپ نے مقصد پر نظر رکھتے ہوئے بذا تِ خود اپنا راستہ بدل لیا۔
آج ہمیں اِس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ کیا ہم بھی اپنے مقصد پر نظر رکھ رہے ہیں؟ کیا ہم بھی اپنے مقصد کے حصول کے لیے جھگڑا وفساد سے گریز کرتے ہیں؟ ہم تو ایسے ہیں کہ بلاوجہ اپنے بھائی کو مقدمات کے گھن چکر میں ڈال کر اُس کی زندگی کے مقصد بھی اُسے محروم کردیتے ہیں۔ ہم حقیقی مقصد کو چھوڑ کر اَنا کی جیت کو مقصد کا درجہ دیتے ہیں۔ کاش! معاہدۂ حدیبیہ کے اس واقعے سے ہم ’’مقصد پر نظر‘‘ رکھنے کا سبق حاصل کرسکیں۔
مصلحت اندیشی
آپؐ نے کفار قریش کے پاس سب سے پہلے یہ پیغام بھیجوایا کہ ’’ہم صرف عمرے کی غرض سے آئے ہیں، لڑائی ہمارے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں۔ جنگ نے قریش کی حالت زار زار کردی ہے؛ اس لیے بہتر ہے کہ ہم ایک مدت تک کے لیے جنگ بندی کا معاہدہ کرلیں اور مجھے عربوں کے ہاتھوں چھوڑدیں‘‘۔ یہ اِس مصلحت کے پیش نظر تھا کہ اگر ایک مدت تک جنگ بندی ہوگئی تو اِس طرف سے دھیان ہٹا کر دعوتِ اسلام کی طرف پوری توجہ مرکوز کی جا سکتی ہے اور ہوا بھی یہی کہ معاہدے کے بعد ہی آپؐ نے دیگر بادشاہوں کے نام دعوتی خطوط لکھے۔
آج ہم اپنا محاسبہ کریں کہ کیا ہمارے اندر یہ مصلحت اندیشی پائی جارہی ہے؟ آج ہم صرف جوش کے ٹٹو پر سوار ہو کر نہ جانے کتنے بنتے کام بگاڑ دیتے ہیں! اور جہاں عزم وجزم کی ضرورت ہوتی ہے، وہاں دُبک کر بیٹھ جاتے ہیں۔ خود ہمارے ملک (ہندوستان) میں ہماری مصلحت نااندیشیوں کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ قضیۂ بابری مسجد کے سلسلے میں ایک بات یہ آئی تھی کہ اُسے آثارِ قدیمہ کے حوالے کردیا جائے؛ لیکن مشورہ دینے والے پر ہی یہ الزام دھر دیا گیا کہ یہ حکومت کا پٹھو ہے۔ حالانکہ آثار ِقدیمہ کے حوالے کردینے کی بات مصلحت سے خالی نہیں تھی۔ جب مسجد کی چولیں ہل گئیں تب یہ بات سمجھ میںآئی۔ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ ہم اپنی کم ہمتی اور بزدلی کو ضرور ’’مصلحت اندیشی‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ ہمیں آپؐ کی اِس مصلحت اندیشی سے کچھ سیکھنا چاہیے۔
صلح میں پہل
کفارِقریش کی طرف سے کسی پیش قدمی سے پہلے ہی آپ نے انہیں صلح ومعاہدے کا پیغام بھجوایا۔ یہ آپؐ کی طرف سے دستِ صلح دراز کرنے میں پہل کرنے کی ایک اعلیٰ مثال ہے… آج ہمیں یہ غور کرنا چاہیے کہ کیا ہم بھی کسی سے صلح کرنے میں پہل کرتے ہیں؟ آج ایسے بہت سارے نمونے ہمارے سامنے موجود ہیں کہ ایک سگے بھائی کی چپقلش اپنے سگے بھائی سے برسوں سے چلی آرہی ہے۔ راہ چلتے ایک دوسرے سے منہ چراتے ہیں۔ نہ خوشی کی بزم میں شریک ہوتے ہیں اور نہ ہی غم کی مجلس میں حاضر؛ بلکہ ایک دوجے کی دشمنی میں جلتے بھنتے رہتے ہیں۔ بہت سارے مواقع پر ایک دوسرے سے بغل گیر بھی ہونا چاہتے ہیں؛ لیکن مونچھ کی اکڑن اور ناک کی اونچائی ایسا کرنے سے مانع بنتی ہے۔ کاش! ہم آپؐ کے اِس اُسوہ پر عمل پیرا ہوسکتے!
اہانتِ رسول پر ردعمل
جب عروہ آپ سے ہم کلام ہوئے اور عربوں کی عادت کے مطابق اثنائے کلام آپ کی داڑھی مبارک پر بھی ہاتھ پھیرنے لگے تو عروہ کی اِس حرکت کو سیدنا مغیرہ بن شعبہ نے جسارت اور اہانت تصورکیا اور اُن کے ہاتھ پر ٹہوکا دیا اور کہا: ’’نبیؐ کی داڑھی مبارک سے اپنے ہاتھ دور رکھو‘‘۔
مغیرہ بن شعبہؓ کے اِس فعل سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ آپ کی شان میں ادنیٰ گستاخی بھی ہمارے لیے قابلِ قبول نہیں۔ آج دشمنانِ اسلام آپ کی شان میں طرح طرح کی گستاخیاں کررہے ہیں؛ لیکن ہم اُن گستاخیوں کا جواب بجز احتجاج کے اور کسی طرح نہیں دے رہے ہیں، ہمیں احتجاج سے آگے بڑھ کر ایسے قوانین وضع کرنے کا مطالبہ بھی کرنا چاہیے، جس میں اِس طرح کی حرکت کرنے والوں کے لیے سخت ترین سزاؤں کی تعیین ہو اور اگر طاقت ہو تو اُس مرتکبِ جرم کو اُسی طرح ٹہوکا دینے سے گریز نہ کریں، جس طرح سیدنا مغیرہ بن شعبہ نے دیا تھا۔
بُرے کی بُرائی سے آگاہی
جب مکرز بن حفص آپ کے قریب پہنچا تو آپؐ نے صحابہ کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’مکرز بن حفص آرہا ہے، یہ بُرا آدمی ہے‘‘… آپ کے اِس عمل سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ ہم برے شخص کی برائی دوسروں کے سامنے واضح کردیں؛ تاکہ وہ اُس کی برائی سے محفوظ رہ سکیں۔ آج ہمارے درمیان بہت سارے ایسے لوگ ہیں، جو بُروں کی برائی سے اپنے بھائی کو اس لیے آگاہ نہیں کرتے کہ یہ اُس کا معاملہ ہے، وہ سمجھے، مجھے اس سے کیا سروکار؟ خصوصاً رشتوں کے معاملے میں اِس طرح کے واقعات بکثرت پیش آتے ہیں۔ آپ کے اس عمل سے ہمیں نصیحت حاصل کرنی چاہیے اور برے کی برائی سے دوسروں کو بھی محفوظ رکھنا چاہیے۔
مستقبل پر نظر
معاہدے کی تمام شقیں بظاہر مسلمانوں کے خلاف تھیں؛ لیکن آپ نے تمام کو منظور فرمایا۔ دراصل آپ کے پیش نظر مستقبل تھا کہ ایک بار معاہدہ ہوجانے کے بعد سکون واطمینان کے ساتھ دعوتِ دین کے فریضہ کی ادائیگی کی طرف توجہ دی جا سکے گی، جس کے نتیجے میں دیگر قبائلِ عرب کے دائرۂ اسلام میں داخل ہونے کا قوی امکان تھا، اور ہوا بھی ایسا ہی۔ مدتِ معاہدہ میں اچھے خاصے لوگ حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے۔
آج ہماری نگاہ کسی بھی کام میں مستقبل کے بجائے حال پر ہوتی ہے۔ ہم کام کم اور نتیجے کی فکر زیادہ اور شِتاب کرتے ہیں؛ حالانکہ عجلت پسندی کے نتیجے میں آراستگی کم اور اُجاڑ زیادہ ہوتا ہے۔ کسی بھی کام کی ابتدا ہمیں یہ سوچ کر نہیں کرنی چاہیے کہ اِس کا ثمرہ پیش از پیش حاصل ہوجائے؛ بلکہ مستقبل کو سامنے رکھنا چاہیے۔ اسی سوچ کے ساتھ کوئی فعل یا فیصلہ کرنا چاہیے کہ صلح حدیبیہ کا ایک پیغام یہ بھی ہے۔
بیوی کے درست مشورے پر عمل
جب معاہدے کی تکمیل ہوگئی تو آپؐ نے صحابہ سے ہدی (قربانی) کے جانوروں کو ذبح کرنے اور اپنے سروں کے حلق کرانے کا حکم دیا۔ گھٹن کی کیفیت میں مبتلا ہونے کی وجہ سے کسی صحابی نے بھی جنبش نہ کی؛ حتیٰ کہ آپ نے تین مرتبہ یہی بات فرمائی۔ جب کسی نے حرکت نہیں کی تو آپؐ سیدہ ام سلمہؓ کے پاس آئے اور لوگوں کے اِس ردعمل کا تزکرہ کیا۔ ام سلمہؓ نے فرمایا: ’’اے اللہ کے نبی! کیا آپ یہی چاہتے ہیں؟ (اگرآپ یہ چاہتے ہیں) تو نکلیے اور کسی سے ایک لفظ کہے بنا اپنے ہدی کے جانور ذبح کردیجیے اور نائی کو بلوا کر حلق کروائیے‘‘۔ آپ نے سیدہ ام سلمہ کے درست مشورے پر عمل کیا۔ آج ہم اپنی بیویوں کے کسی بھی مشورے کو قبول کرنے کی نگاہ سے نہیں دیکھتے؛ حالانکہ اُن کے بہت سارے مشورے راہِ صواب کی رہنمائی کرتے ہیں۔ آپ کے اِس عمل سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ اپنی بیویوں کے مشورے کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھیں، درست معلوم ہونے پر اُس پر عمل کرنے سے صرف یہ سوچ کر نہ کترائیں کہ لوگ کہیں ’’جورو کا غلام‘‘ نہ کہنے لگیں۔
مسلمان کی جان کی قیمت
جب آپؐ کو یہ معلوم ہوا کہ سیدنا عثمانؓ کو قتل کردیا گیا ہے تو آپؐ نے ان کے خون کا بدلہ لینے پر صحابہ سے بیعت لی اور فرمایا: جب تک میں عثمان کے خون کا بدلہ نہ لے لوں، اُس وقت تک یہاں سے حرکت نہیں کروں گا۔ اِس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ایک مسلمان کی جان کی قیمت کیا ہے؟
آج ہم اپنے معاشرے پر نظر دوڑائیں کتنے ایسے لوگ ہیں، جو ایک مسلمان کے خون کو اتنی اہمیت دیتے ہیں؟ جو گھریلو لڑائی کے بدلے اپنے حقیقی بھائی کے قتل کے درپے نہیں ہوجاتے؟ جو ایک مسلمان کے خون ہوجانے کی خبر سن کر بے چین ہوجاتے ہیں؟ آج مختلف ممالک میں خونِ مسلم کو پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے، کیا ہمارا دل اِس پر مچل اُٹھتا ہے؟ کاش! بیعۃ الرضوان سے یہ سبق ہم سیکھ سکتے!!
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کیا ہم بھی کہ کیا ہم کی برائی کرتے ہیں کیے ہوئے چاہیے کہ بہت سارے دیتے ہیں ہے کہ ہم ا پ کے ا ہمیں یہ نہیں کر کی طرف کہ ایک کے خون
پڑھیں:
مسلمان مقبوضہ مشرقی یروشلم پر اپنے حقوق سے دستبردار نہیں ہوں گے،ترک صدر
ترک صدر رجب طیب اردوان نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ مشرقی یروشلم پر بطور مسلمان اپنے حقوق سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
اردوان نے یہ بات دارالحکومت انقرہ میں ترکی کی وزارت خارجہ کی نئی عمارت کے سنگ بنیاد کی تقریب میں کہی۔
اردوان نے غزہ میں فلسطینیوں کے ساتھ ترکی کی یکجہتی کا اعادہ کیا اور عہد کیا ہے کہ مسلمان مقبوضہ مشرقی یروشلم پر اپنے حقوق سے دستبردار نہیں ہوں گے۔
ترک رہنما نے غزہ کے لیے اپنے ملک کی حمایت پر بھی زور دیتے ہوئے کہا کہ “ہمیں غزہ کے مظلوم عوام کے ساتھ کھڑے ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا جو اسرائیل کے وحشیانہ حملوں میں زندہ رہنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم آج اور کل ان لوگوں کے خلاف ڈٹے رہیں گے جو ہمارے خطے کو خون کے سمندر میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں اور جو ہمارے جغرافیہ میں عدم استحکام کو ہوا دیتے ہیں۔
قطر میں ایک ہنگامی عرب اسلامی سربراہی اجلاس کے بعد واپسی پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے، اروان نے فلسطینی ریاست کا مسئلہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دوبارہ اٹھانے کا وعدہ کیا۔
دوحا میں عرب اسلامی کے ہنگامی سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر نے کہا کہ اسرائیل پر معاشی دباؤ ڈالنا ہو گا ماضی نے ثابت کیا دباؤ مؤثر ہوتا ہے۔
صدر اردوان نے گذشتہ ہفتے قطر میں حماس کی مذاکراتی ٹیم پر اسرائیل کے حملے پر اسرائیلی وزیر اعظم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ “نظریاتی طور پر نیتن یاہو ہٹلر کے رشتہ دار کی طرح ہیں”۔
اروان اس سے قبل نیتن یاہو کا ہٹلر سے موازنہ کر چکے ہیں اور اسرائیلی حکومت کو “قتل کا نیٹ ورک” کہہ چکے ہیں۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں “فرنٹ آف انسانیت” فلسطین کے لیے وسیع تر حمایت حاصل کرے گا۔