UrduPoint:
2025-11-05@05:24:52 GMT

عطیہ زُہیر نے اپنا کپڑوں کا آن لائن اسٹور کیسے بنایا؟

اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT

عطیہ زُہیر نے اپنا کپڑوں کا آن لائن اسٹور کیسے بنایا؟

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 20 جون2025ء) یہ کسی دکان یا فوٹو شوٹ سے شروع نہیں ہوا۔ یہ کوئی تفصیلی مارکیٹنگ مہم بھی نہیں تھی۔ بس خاندانی ورثہ رکھنے والی ایک نوجوان عورت ، ایک اسمارٹ فون، اور تعمیر نو کا عزم۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں اسکرینز کے استعمال  کا غلبہ بڑھ رہا ہے، عطیہ زہیر نے اپنی دکان کسی ہائی اسٹریٹ پر نہیں، بلکہ ٹک ٹاک پر تلاش کی۔


 
کچے دھاگے"، جو کبھی ملبوسات کے لیے اُن کا خاندانی برانڈ تھا، وقت گزرنےکے ساتھ خاموشی سے ماند پڑ گیا تھا۔ لیکن عطیہ نے اسے ترک کرنے کے لیے تیار نہیں تھیں۔ روایتی طریقوں مثلاً ویب سائٹس یا بوتیکس کے ذریعے دوبارہ متعارف کرانے کے بجائے، انہوں  نے ایک زیادہ فوری اور موثر راستہ اپنایا: مختصر کہانی سنانے کا فن۔

(جاری ہے)


 
عطیہ کہتی ہیں، ”میں نے ہر چیز، اپنی جدوجہد، پردے کے پیچھے کے لمحات، اور روزمرہ کے کام کو دستاویزی شکل دینا شروع کی۔

“یہ فیصلہ کہ وہ ایک چھوٹےسے کاروبار کو چلانے کی غیر منظم، حقیقی جھلکیاں شیئر کریں، انہیں دوسروں سے منفرد بنا گیا۔ یہ صرف کانٹنٹ نہیں تھا، بلکہ رابطہ  تھا۔
 
عطیہ کے لیے، ٹک ٹاک ایک پلیٹ فارم سے بڑھ کر تھا۔ ایک ایسا موقع،اورخاص طور پر، ایک ایسے ملک میں جہاں سماجی روایات خواتین کی عوامی منظرنامے میں موجودگی کو محدود کر سکتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں، ”یہ ایک بہترین موقع ہے، خاص طور پر اُن لڑکیوں کے لیے جو باہر جا کر کام نہیں کر سکتیں۔ میں اُن سے کہتی ہوں کہ اپنا ہنر ضائع نہ کریں، اسے شیئر کریں۔ لوگ توجہ دیں گیں۔“
 
اور واقعی ایساہی ہوا۔ جب وہ اپنی ایک کلیکشن کے لیے کپڑا خرید رہی تھیں، ایک دکاندار نے گفتگو کے دوران رک کر پوچھا، ”آپ کچے دھاگے سے  تعلق رکھتی ہیں نا؟“ وہ یاد کرتی ہیں، ”مجھے یہ سن کرحیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی۔

تب مجھے احساس  بھی ہوا کہ یہ پلیٹ فارم کتنا طاقتور ہے—لوگ واقعی دیکھتے ہیں اور یاد رکھتے ہیں۔“
 
ایسے لمحات نے ان کے عزم کو مزید مضبوط کیا۔ وہ کہتی ہیں، ”میں نے خود سے وعدہ کیا کہ میں ہار نہیں مانوں گی۔ میں محنت جاری رکھوں گی اور اُن باصلاحیت لڑکیوں کے لیے آگاہی کا باعث بنوں گی جنہیں شاید ایسے مواقع میسر نہ ہو۔“
یہ حکمت عملی محض نظر آنے کے بارے میں نہیں تھی، بلکہ اس نظر آنے کو وفاداری میں بدلنے کے بارے میں تھی۔

عطیہ کہتی ہیں، ”لوگ اکثر میرے پاس آ کر کہتے ہیں، ’میں نے آپ کو ٹک ٹاک پر دیکھا ہے۔‘ یہ میرے لیے بہت معنی رکھتا ہے۔“ یہ قدرتی تعاملات عام  ناظرین کو مستقل گاہکوں میں، اور فالورزکو برانڈ کے حامیوں میں بدلنے میں مددگار ثابت ہوئے۔“
 
کیمرے کے پیچھے، سب کچھ ہمیشہ آسان نہیں رہا۔ ایک دوبارہ بحال کیے گئے برانڈ کو سنبھالنا، اور ساتھ ہی مارکیٹر، ڈیزائنر، اور کہانی سنانے والے کے کردارکو نبھانا، محنت طلب کام ہے۔

وہ کہتی ہیں، ”سب کچھ سنبھالنا مشکل ہے، لیکن اپنے خاندان کی حمایت سے، میں اسے ممکن بناتی ہوں۔“
 
”کچے دھاگے“ محض ایک برانڈ نہیں، بلکہ ماضی اور حال کو جوڑنے والا ایک دھاگا ہے۔ عطیہ وضاحت کرتی ہیں، ”یہ میرا خاندانی کاروبار تھا۔ میں نے اسے اپنی بصیرت کے ساتھ دوبارہ زندہ  اورروایات کو نئے انداز سے جوڑا ہے۔“ یہ ذاتی وابستگی ہی ہے جو ان کے آڈئینس کے ساتھ گہری ہم آہنگی پیدا کرتی ہے۔


 
چھوٹے کاروباری مالکان جو ٹک ٹاک کو ممکنہ چینل کے طور پر دیکھ رہے ہیں، ان کے لیے عطیہ کا مشورہ تجربےپر مبنی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ”اپنی حقیقی کہانی دکھانے سے نہ گھبرائیں۔ ٹک ٹاک صرف تفریح کے لیے نہیں، اگر آپ مخلص  اورمحنتی ہیں، تو یہ آپ کے کاروبار کو اگلے درجے تک لے جا سکتا ہے۔“
 
مستقبل کی جانب دیکھتے ہوئے، عطیہ اس رفتار کو برقرار رکھنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں، ”میں اپنے کنٹنٹ کو مزید بڑھانا چاہتی ہوں اور کچے دھاگے کو نئی بلندیوں تک لے جانا چاہتی ہوں۔“
 
ایک جانب ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جسے اکثر محض تفریحی مشغولیت سمجھا جاتا ہے۔ دوسری طرف ایک نوجوان کاروباری شخصیت ہے جس نے اسے ایک ورثے میں نئی جان ڈالنے کے لیے استعمال کیا۔ اور ان دونوں کے درمیان کہانیاں، جدوجہد، اور کامیابیاں بُنی گئی ہیں—جو ایک پوسٹ کے ذریعے پروان چڑھیں۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ٹک ٹاک کے لیے

پڑھیں:

وسطی ایشیا میں بھارتی موجودگی کا خاتمہ، تاجکستان نے بھارت سے اپنا ایئربیس واپس لے لیا

تاجکستان نے آینی ایئر بیس کا مکمل کنٹرول انڈیا سے واپس لے لیا ہے، جس کے ساتھ ہی بھارت کی تاجکستان میں تقریباً 20 سالہ عسکری موجودگی کا اختتام ہوگیا۔

یہ فیصلہ خطے میں روس اور چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے تناظر میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے، بھارتی کانگریس نے اسے ملک کے لیے اسٹریٹجک دھچکا قرار دے دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: بھارتی فوج سیاست اور سیاسی قیادت عسکریت میں مشغول ہے، جنرل ساحر شمشاد مرزا

بھارت کے لیے آینی ایئر بیس کا نقصان صرف ایک لاجسٹک معاملہ نہیں بلکہ اس کی علاقائی اسٹریٹجک رسائی میں نمایاں کمی کی علامت ہے۔ یہ اڈہ افغانستان اور وسطی ایشیائی خطے میں نگرانی کے لیے انتہائی اہم سمجھا جاتا تھا۔

آینی ایئر بیس کی تاریخی اہمیت

دوشنبے کے مغرب میں تقریباً 15 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع آینی ایئر بیس (جسے فارخور-آینی کمپلیکس بھی کہا جاتا ہے) سوویت دور میں تعمیر کیا گیا تھا۔ سرد جنگ کے زمانے میں یہ اڈہ افغانستان میں سوویت کارروائیوں کا مرکزی مرکز تھا۔

سوویت یونین کے خاتمے کے بعد 1991 میں تاجکستان نے یہ اڈہ سنبھالا مگر خانہ جنگی کے باعث وہ اسے فعال نہیں رکھ سکا۔

بھارت نے 2002 میں تاجکستان کے ساتھ معاہدہ کر کے اڈے کی تزئین و آرائش اور مشترکہ آپریشن شروع کیا۔
بھارت نے اس منصوبے پر 7 سے 10 کروڑ امریکی ڈالر تک کی سرمایہ کاری کی، جس کے تحت رن وے کو 3,200 میٹر تک بڑھایا گیا، نئے ہینگرز، کنٹرول ٹاورز، ریڈار اور سیکیورٹی انفراسٹرکچر تعمیر کیا گیا۔

یہ اڈہ بھارتی فضائیہ کے Su-30MKI لڑاکا طیاروں اور Mi-17 ہیلی کاپٹروں کے لیے موزوں بنایا گیا جبکہ تقریباً 200 بھارتی فوجی اور ٹیکنیکل عملہ یہاں تعینات تھا۔

خطے میں بھارت کا اثرورسوخ

آینی بیس وسطی ایشیا میں بھارت کا پہلا اور واحد فوجی اڈہ تھا، جو پاکستان کی شمالی سرحد سے 1000 کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر واقع ہے۔ یہ اڈہ افغانستان کے واخان کوریڈور اور پاکستان کے دفاعی ڈھانچے پر بھارتی نگرانی کے لیے مثالی مقام سمجھا جاتا تھا۔

یہ بھی پڑھیے: پاکستان اور تاجکستان باہمی اسٹریٹجک تعاون کو نئی سطح تک بڑھانے کے لیے پرعزم

یہ اڈہ بھارت کی ‘کنیکٹ سینٹرل ایشیا’ پالیسی کا مرکزی حصہ تھا، جس کا مقصد خطے میں توانائی، تجارت اور سیکیورٹی روابط کو فروغ دینا تھا۔

روس اور چین کا دباؤ

میڈیا رپورٹس کے مطابق، بھارت کی آینی سے واپسی محض معاہدے کے خاتمے کا نتیجہ نہیں بلکہ روس اور چین کے دباؤ کا نتیجہ تھی۔ دونوں ممالک نے تاجکستان پر زور دیا کہ وہ وسطی ایشیائی سیکیورٹی ڈھانچے میں بھارت کی فوجی موجودگی ختم کرے۔

روس، جو تاجکستان میں اپنی 201 ویں فوجی ڈویژن رکھتا ہے، بھارتی موجودگی کو اپنے علاقائی مفادات سے متصادم سمجھتا تھا، جبکہ چین نے بھی تاجکستان میں اپنے سیکیورٹی منصوبوں کو وسعت دینا شروع کر دی ہے۔

یہ بھی پڑھیے: افغان حکومت بھارتی حمایت یافتہ دہشتگردی کی سرپرست ہے، وزیر دفاع خواجہ آصف

آینی ایئر بیس سے بھارت کا انخلا نئی جیوپولیٹیکل حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے، جہاں وسطی ایشیائی ریاستیں روس اور چین کے دباؤ میں اپنی پالیسیوں کو ازسرنو تشکیل دے رہی ہیں۔

بھارت کے لیے یہ اقدام نہ صرف عسکری نقصان ہے بلکہ وسطی ایشیا میں اس کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے خاتمے کی علامت بھی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ایئربیس بھارت تاجکستان فوج وسطی ایشیا

متعلقہ مضامین

  • ڈاکٹرز نے پرائیوٹ کلینک و بڑے اسپتالوں کو کاروبار بنایا ہوا ہے
  • گووندا کا پنڈٹ پوجا پاٹ کے 2 لاکھ لیتا ہے، میں کہتی ہوں خود دعا کرائیں؛ سنیتا آہوجا
  • اپنی چھت اپنا گھر پراجیکٹ کے تحت روزانہ 290 گھر بن رہے ہیں:عظمیٰ بخاری
  • ایئر کرافٹ انجینئرز کا احتجاج، ملک بھر میں قومی ایئر لائن کا فلائٹ آپریشن رک گیا
  • لانڈھی جیل بریک: قیدیوں کے فرار کی وجہ زلزلہ یا کچھ اور، تحقیقات کیا کہتی ہیں؟
  • بی جے پی نے اقتدار میں رہتے ہوئے غریبوں کیلئے ایک بھی گھر نہیں بنایا، ضمیر احمد خان
  • وسطی ایشیا میں بھارتی موجودگی کا خاتمہ، تاجکستان نے بھارت سے اپنا ایئربیس واپس لے لیا
  • حیدرآباد: اینٹوں کے بھٹے کے لیے پرانے کپڑوں کو جلانے کے لیے لے جایاجارہاہے
  • میکسیکو ، شاپنگ اسٹور میں آتشزدگی، 23 افراد ہلاک، بچے بھی شامل
  • میکسیکو: سپر اسٹور میں دھماکے بعد خوفناک آتشزدگی، 22 افراد ہلاک