UrduPoint:
2025-06-20@12:28:12 GMT

عطیہ زُہیر نے اپنا کپڑوں کا آن لائن اسٹور کیسے بنایا؟

اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT

عطیہ زُہیر نے اپنا کپڑوں کا آن لائن اسٹور کیسے بنایا؟

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 20 جون2025ء) یہ کسی دکان یا فوٹو شوٹ سے شروع نہیں ہوا۔ یہ کوئی تفصیلی مارکیٹنگ مہم بھی نہیں تھی۔ بس خاندانی ورثہ رکھنے والی ایک نوجوان عورت ، ایک اسمارٹ فون، اور تعمیر نو کا عزم۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں اسکرینز کے استعمال  کا غلبہ بڑھ رہا ہے، عطیہ زہیر نے اپنی دکان کسی ہائی اسٹریٹ پر نہیں، بلکہ ٹک ٹاک پر تلاش کی۔


 
کچے دھاگے"، جو کبھی ملبوسات کے لیے اُن کا خاندانی برانڈ تھا، وقت گزرنےکے ساتھ خاموشی سے ماند پڑ گیا تھا۔ لیکن عطیہ نے اسے ترک کرنے کے لیے تیار نہیں تھیں۔ روایتی طریقوں مثلاً ویب سائٹس یا بوتیکس کے ذریعے دوبارہ متعارف کرانے کے بجائے، انہوں  نے ایک زیادہ فوری اور موثر راستہ اپنایا: مختصر کہانی سنانے کا فن۔

(جاری ہے)


 
عطیہ کہتی ہیں، ”میں نے ہر چیز، اپنی جدوجہد، پردے کے پیچھے کے لمحات، اور روزمرہ کے کام کو دستاویزی شکل دینا شروع کی۔

“یہ فیصلہ کہ وہ ایک چھوٹےسے کاروبار کو چلانے کی غیر منظم، حقیقی جھلکیاں شیئر کریں، انہیں دوسروں سے منفرد بنا گیا۔ یہ صرف کانٹنٹ نہیں تھا، بلکہ رابطہ  تھا۔
 
عطیہ کے لیے، ٹک ٹاک ایک پلیٹ فارم سے بڑھ کر تھا۔ ایک ایسا موقع،اورخاص طور پر، ایک ایسے ملک میں جہاں سماجی روایات خواتین کی عوامی منظرنامے میں موجودگی کو محدود کر سکتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں، ”یہ ایک بہترین موقع ہے، خاص طور پر اُن لڑکیوں کے لیے جو باہر جا کر کام نہیں کر سکتیں۔ میں اُن سے کہتی ہوں کہ اپنا ہنر ضائع نہ کریں، اسے شیئر کریں۔ لوگ توجہ دیں گیں۔“
 
اور واقعی ایساہی ہوا۔ جب وہ اپنی ایک کلیکشن کے لیے کپڑا خرید رہی تھیں، ایک دکاندار نے گفتگو کے دوران رک کر پوچھا، ”آپ کچے دھاگے سے  تعلق رکھتی ہیں نا؟“ وہ یاد کرتی ہیں، ”مجھے یہ سن کرحیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی۔

تب مجھے احساس  بھی ہوا کہ یہ پلیٹ فارم کتنا طاقتور ہے—لوگ واقعی دیکھتے ہیں اور یاد رکھتے ہیں۔“
 
ایسے لمحات نے ان کے عزم کو مزید مضبوط کیا۔ وہ کہتی ہیں، ”میں نے خود سے وعدہ کیا کہ میں ہار نہیں مانوں گی۔ میں محنت جاری رکھوں گی اور اُن باصلاحیت لڑکیوں کے لیے آگاہی کا باعث بنوں گی جنہیں شاید ایسے مواقع میسر نہ ہو۔“
یہ حکمت عملی محض نظر آنے کے بارے میں نہیں تھی، بلکہ اس نظر آنے کو وفاداری میں بدلنے کے بارے میں تھی۔

عطیہ کہتی ہیں، ”لوگ اکثر میرے پاس آ کر کہتے ہیں، ’میں نے آپ کو ٹک ٹاک پر دیکھا ہے۔‘ یہ میرے لیے بہت معنی رکھتا ہے۔“ یہ قدرتی تعاملات عام  ناظرین کو مستقل گاہکوں میں، اور فالورزکو برانڈ کے حامیوں میں بدلنے میں مددگار ثابت ہوئے۔“
 
کیمرے کے پیچھے، سب کچھ ہمیشہ آسان نہیں رہا۔ ایک دوبارہ بحال کیے گئے برانڈ کو سنبھالنا، اور ساتھ ہی مارکیٹر، ڈیزائنر، اور کہانی سنانے والے کے کردارکو نبھانا، محنت طلب کام ہے۔

وہ کہتی ہیں، ”سب کچھ سنبھالنا مشکل ہے، لیکن اپنے خاندان کی حمایت سے، میں اسے ممکن بناتی ہوں۔“
 
”کچے دھاگے“ محض ایک برانڈ نہیں، بلکہ ماضی اور حال کو جوڑنے والا ایک دھاگا ہے۔ عطیہ وضاحت کرتی ہیں، ”یہ میرا خاندانی کاروبار تھا۔ میں نے اسے اپنی بصیرت کے ساتھ دوبارہ زندہ  اورروایات کو نئے انداز سے جوڑا ہے۔“ یہ ذاتی وابستگی ہی ہے جو ان کے آڈئینس کے ساتھ گہری ہم آہنگی پیدا کرتی ہے۔


 
چھوٹے کاروباری مالکان جو ٹک ٹاک کو ممکنہ چینل کے طور پر دیکھ رہے ہیں، ان کے لیے عطیہ کا مشورہ تجربےپر مبنی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ”اپنی حقیقی کہانی دکھانے سے نہ گھبرائیں۔ ٹک ٹاک صرف تفریح کے لیے نہیں، اگر آپ مخلص  اورمحنتی ہیں، تو یہ آپ کے کاروبار کو اگلے درجے تک لے جا سکتا ہے۔“
 
مستقبل کی جانب دیکھتے ہوئے، عطیہ اس رفتار کو برقرار رکھنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں، ”میں اپنے کنٹنٹ کو مزید بڑھانا چاہتی ہوں اور کچے دھاگے کو نئی بلندیوں تک لے جانا چاہتی ہوں۔“
 
ایک جانب ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جسے اکثر محض تفریحی مشغولیت سمجھا جاتا ہے۔ دوسری طرف ایک نوجوان کاروباری شخصیت ہے جس نے اسے ایک ورثے میں نئی جان ڈالنے کے لیے استعمال کیا۔ اور ان دونوں کے درمیان کہانیاں، جدوجہد، اور کامیابیاں بُنی گئی ہیں—جو ایک پوسٹ کے ذریعے پروان چڑھیں۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ٹک ٹاک کے لیے

پڑھیں:

غزہ سے ایران اور ایران سے پاکستان صیہونی سازش کا نیا محاذ

اسلام ٹائمز: اسوقت پاکستان کے تمام طبقات، عوام، افواج اور اداروں کو اختلافات بالائے طاق رکھ کر متحد ہونا ہوگا۔ تمام غیر ضروری مباحث ترک کرکے صرف اور صرف پاکستان کے تحفظ کو اولین ترجیح دینی چاہیئے۔ پاکستان کو اب دفاع کی جنگ اپنی سرزمین سے باہر لڑنے کی پالیسی اپنانی ہوگی۔ یہی وہ حکمتِ عملی ہے، جسکے تحت امریکہ اپنے دفاع کیلئے یوکرین، یورپ اور خلیجی ممالک میں اڈے قائم کرچکا ہے۔ ایران بھی اسی حکمت عملی پر گامزن رہا، یہی حکمت عملی پاکستان کو اپنانا ہوگی، تاکہ دشمن کو اپنے دروازے تک نہ پہنچنے دیا جائے۔ پاکستان کو چاہیئے کہ وہ ایران کو اپنی بیرونی دفاعی فرنٹ لائن بنائے۔ یہ نہ صرف ایران کے دفاع کا تقاضا ہے، بلکہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں اور عسکری استحکام کا دفاع بھی ہے۔ تحریر: علامہ سید جواد نقوی

معرکہ حق و باطل جو غزہ سے ایران تک پھیل چکا ہے، جو اسرائیل کا تن تنہا اقدام نہیں۔ اس کے پیچھے وہ ہاتھ ہے، جو برسوں سے دنیا پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہا ہے، یعنی امریکہ۔ امریکہ ہی ہے، جو اسرائیل کے ہاتھوں خطے میں آگ بھڑکا رہا ہے۔ یہ سب کچھ ایک منصوبہ بند، گہری اور خونی سازش ہے، جو ایک طے شدہ عالمی اسٹریٹجی کا حصہ ہے۔ وہ اسٹریٹجی جو ٹرمپ نے واضح کی اور عربوں نے مال، تیل، غیرت، عزت، حتیٰ کہ اپنی وفاداریاں بھی واشنگٹن کے قدموں میں رکھ دیں اور ٹرمپ کو خطے سے مزاحمت ختم کرنے کا ٹھیکہ دیدیا گیا۔ یہ صرف سیاسی بیانات یا خفیہ دستاویزات کی بات نہیں، بلکہ اسرائیل کی توسیع کا نقشۂ ہے، جسے وہ "گریٹر اسرائیل" کا نام دے کر پوری دنیا کے سامنے لائے ہیں۔ اس نقشے میں شام، عراق، اردن اور حتیٰ کہ سعودی عرب کے بعض علاقے اسرائیل کے جغرافیے میں شامل کیے گئے ہیں۔

تین ہزار سالہ خرافات کی چادر میں لپٹے اس سامراجی خواب کو حقیقت میں بدلنے کی سعی کی جا رہی ہے۔ غزہ کی حالیہ جنگ کے دوران، صیہونیوں نے اس نقشے کو دنیا بھر میں نمایاں کرکے یہ پیغام دیا کہ ان کا ہدف صرف بیت المقدس یا غزہ نہیں، بلکہ پورا مشرقِ وسطیٰ ہے۔ اگر کوئی آخری دیوار اس خواب کے راستے میں حائل ہے تو وہ ایران ہے، جو مزاحمت کا عظیم ترین مورچہ ہے۔ یہاں جو اہم بات ہے، وہ یہ کہ صہیونیون کے بنائے ہوئے نقشے کو مزید سمجھنا ہوگا۔ ان کی سوچ، ان کا خاکہ، ان کی کارروائیاں واضح طور پر بتا رہی ہیں کہ وہ کہاں جا رہے ہیں اور کیوں جا رہے ہیں۔ ایران کی سرزمین تک پہنچنا صہیونیوں کی باقاعدہ، سوچی سمجھی شیطانی منصوبہ بندی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ وہ ایران تک کیوں پہنچے۔؟ سوال یہ ہے کہ اب وہ وہاں سے آگے کہاں جائیں گے۔؟ ایران اس وقت ان کے نشانے پر ہے، کیونکہ وہ ایٹمی طاقت بننے کے دہانے پر کھڑا ہے۔

ایران کے پاس ایٹمی سائنس دان، ایٹمی تنصیبات اور سب سے بڑھ کر ارادہ ہے کہ وہ اپنی طاقت کا مرکز خود بنے، کسی استعماری طاقت کا مرہونِ منت نہ رہے۔ یہی ارادہ امریکہ، اسرائیل اور خطے کے بعض مفاد پرست حکمرانوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ انہیں خوف ہے کہ اگر ایران ایٹمی طاقت بن گیا تو وہ نہ صرف اسرائیل کیلئے خطرہ بن جائے گا بلکہ پورے استکباری نظام کیلئے ایک چیلنج بن جائے گا۔ اسی لیے انہوں نے تاخیری حکمتِ عملی ترک کرتے ہوئے عملی اقدام شروع کر دیئے ہیں۔ بلا کسی جھجک، بلا کسی رکاوٹ کے۔ لیکن! ایران ابھی اس سفر کے آغاز میں ہے۔ پاکستان تو اس سفر کو مدتوں پہلے طے کرچکا ہے۔ پاکستان ایک پختہ، مستحکم اور تجربہ کار ایٹمی طاقت ہے۔ نہ صرف ایٹمی بم رکھتا ہے بلکہ اسے چلانے، سنبھالنے اور دشمن پر اثر انداز ہونے کی مکمل مہارت رکھتا ہے۔ اس کے سائنسدان، اس کی تنصیبات اور اس کی ایٹمی پالیسی ایک منظم اور مضبوط ڈھانچے پر قائم ہیں اور سب سے بڑھ کر، یہ ایٹمی طاقت اسلامی ریاست کی ملکیت ہے۔

کیا بھارت، اسرائیل یا امریکہ ایک اسلامی ایٹمی طاقت کو برداشت کرسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں! یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ان کی ترجیحات میں پاکستان کا غیر مسلح، کمزور اور داخلی خلفشار کا شکار ہونا ضروری ہے اور اب جب وہ ایران میں اپنی نفوذی فوج کے ذریعے کارروائیاں کر رہے ہیں تو ان کا اگلا میدان پاکستان ہی ہوگا۔ اسرائیل نے پہلے سے ہی پاکستان میں اپنی نفوذی قائم کر رکھی ہے اور یہ نفوذی کون ہیں۔؟ وہی جن کی بازگشت سب نے غزہ جنگ کے دوران سنی تھی۔ غزہ کی مظلومیت پر خاموشی اختیار کرنیوالے، اسرائیل کے مظالم پر پردہ ڈالنے والے، وہی پاکستانی وفود، اینکرز، سیاستدان، صحافی اور مذہبی رہنماء جو اسرائیل کے دفاع میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے پائے گئے۔ خود اسرائیلی اخبارات نے انکشاف کیا کہ پاکستان کی ایک مقبول اور طاقتور سیاسی جماعت کا مرکزی لیڈر اسرائیل کیلئے نرم گوشہ رکھتا ہے، بلکہ اُس سے روابط بھی قائم کرچکا ہے۔ یہ روابط خاندانی اور سیاسی نوعیت تک شامل ہیں۔

اسرائیل کے یہ نفوذی پاکستان میں وہی کردار ادا کر رہے ہیں، جو ایران میں ادا کیا گیا۔ ملک کو اندر سے کمزور کرنا، باہر کے دشمن کیلئے راستہ ہموار کرنا اور یہ سب کچھ محض مفروضہ نہیں! بھارت نے جو حالیہ فوجی کارروائی پاکستان کیخلاف کی، وہ اسرائیل کیساتھ براہِ راست مشاورت سے کی گئی۔ اسرائیلی ڈرون، اسرائیلی میزائل، اسرائیلی انٹیلیجنس اور اسرائیلی جنگی مشیر بھارت کی مدد کو موجود رہے۔ جس طرح بھارت نے غزہ جنگ میں اسرائیل کا ساتھ دیا تھا، اسرائیل نے پاکستان کے خلاف بھارت کا ساتھ دے کر احسان کا بدلہ چکا دیا، چونکہ دشمن کیلئے سب سے زیادہ آسانی اُس وقت ہوتی ہے، جب گھر کے دروازے اندر سے کھولے جائیں۔ ایسے نازک اور ناپائیدار حالات میں پاکستان اور اس کی ریاست کو غیر معمولی بصیرت، دور اندیشی اور جرأت مندانہ فیصلوں کی ضرورت ہے۔ پاکستان اپنی بقا، تحفظ اور خود مختاری کیلئے کسی خارجی ریاست، اتحاد یا وعدے پر بھروسہ نہ کرے۔

ہمیں یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیئے کہ عربوں کے امدادی وعدے اور پروگرام، جن سے ہم نے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں، محض فریبِ نظر ہیں اور ان پر انحصار ہماری سب سے بڑی سادہ لوحی اور خطرناک غلط فہمی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہی عرب حکمران فلسطین، لبنان اور ایران کیخلاف دشمنوں کے آلہ کار بنے اور آئندہ بھی پاکستان کے خلاف اسی طرح استعمال ہوں گے۔ ان پر اعتماد خودکشی کے مترادف ہوگا۔ پاکستان کو اپنی بقاء، سالمیت اور دفاع کیلئے صرف ایک جگہ دیکھنی ہے، وہ ہے اپنے اندر۔ اس وقت پاکستان کے تمام طبقات، عوام، افواج اور اداروں کو اختلافات بالائے طاق رکھ کر متحد ہونا ہوگا۔ تمام غیر ضروری مباحث ترک کرکے صرف اور صرف پاکستان کے تحفظ کو اولین ترجیح دینی چاہیئے۔ پاکستان کو اب دفاع کی جنگ اپنی سرزمین سے باہر لڑنے کی پالیسی اپنانی ہوگی۔ یہی وہ حکمتِ عملی ہے، جس کے تحت امریکہ اپنے دفاع کے لیے یوکرین، یورپ اور خلیجی ممالک میں اڈے قائم کرچکا ہے۔

ایران بھی اسی حکمت عملی پر گامزن رہا، یہی حکمت عملی پاکستان کو اپنانا ہوگی، تاکہ دشمن کو اپنے دروازے تک نہ پہنچنے دیا جائے۔ پاکستان کو چاہیئے کہ وہ ایران کو اپنی بیرونی دفاعی فرنٹ لائن بنائے۔ یہ نہ صرف ایران کے دفاع کا تقاضا ہے، بلکہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں اور عسکری استحکام کا دفاع بھی ہے۔ اسرائیل نے ایران پر بیک وقت کئی مقامات پر حملہ کرکے کئی اعلیٰ فوجی کمانڈرز کو ان کے گھروں میں شہید کر دیا۔ اسرائیل کے اس حملے کے بعد، پاکستان ان کے اگلے نشانے پر ہے، کیونکہ ان کے مطابق وہ فلسطین، لبنان، شام اور اب ایران کو عبور کرکے پاکستان تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کیخلاف اسرائیل اکیلا نہیں ہوگا۔ امریکہ، بھارت اور عرب ریاستیں اس کے شانہ بشانہ کھڑی ہوں گی۔ ہمیں اس حقیقت سے غافل نہیں رہنا چاہیئے۔ پاکستان کے اندر پہلے ہی صہیونی ایجنٹ اپنی کارروائیاں کرچکے ہیں، ایٹمی راز افشا کیے، افواجِ پاکستان کو بدنام کیا۔ معیشت کو تباہی کے دہانے تک پہنچایا، بیرونی دنیا کو پیغامات دیئے کہ پاکستان کمزور ہوچکا ہے۔

یہ سب کچھ مودی کو حملے پر اُکسانے کیلئے کیا گیا تھا، لیکن مودی کو شکست ہوئی۔ اگر یہی حماقت اسرائیل نے کی تو ان شاء اللہ اسے بھی وہی خفت نصیب ہوگی۔ اب وقت ہے کہ پاکستان کی افواج، حکمران، عوام، مذہبی طبقہ اور ادارے سنجیدگی سے متحد ہوں، بیان بازی سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کریں۔ دفاعی بجٹ اگرچہ بڑھایا گیا ہے، لیکن یہ موجودہ خطرات کے مقابلے میں ناکافی ہے۔ ہمیں آنیوالے دنوں میں فوری طور پر اپنی دفاعی کمزوریاں دور کرنا ہوں گی، میدان میں عسکری مشقیں کرکے دشمن کو طاقت کا پیغام دینا ہوگا اور عوامی سطح پر دفاعی شعور کو بیدار کرنا ہوگا۔ پاکستان کو چین سے امید ہے، چین چونکہ خود امریکہ کے خطرے سے دوچار ہے، وہ ضرور امریکہ مخالف قوتوں کا ساتھ دے گا۔ لیکن یہ سب عالمی برادری، مسلمان ملکوں سمیت، قابلِ اعتبار نہیں۔ ایران کے بعض لوگوں نے یہی غلطی کی اور ٹرمپ کی دھوکہ دہی کا شکار بنے۔ ہمیں اس سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔

ڈپلومیسی ضرور کریں، لیکن دشمن پر اعتماد ہرگز نہ کریں۔ پاکستان میں نفوذ نہ ہونے دیں اور جو پہلے سے اسرائیلی نفوذ قائم ہوچکا ہے، اس کا صفایا کیا جائے۔ ایران نے جن عناصر کی وجہ سے نقصان اٹھایا، ہمیں ان سے بچنا ہے۔ اپنی ٹیکنالوجی کو محفوظ بنائیں، کمانڈ سسٹمز کو محفوظ بنائیں، ایٹمی اثاثے محفوظ بنائیں۔ یہ ملک کسی اشرافیہ کا نہیں، پاکستانی عوام کا ہے۔ لہٰذا عوام تھکن کا اظہار نہ کریں۔ اگرچہ حکومت اور سیاستدان نالائق ثابت ہوئے ہیں، لیکن اس قوم نے ہر بار ثابت کیا ہے کہ یہ قوم افواج کیساتھ کھڑی ہے۔ مودی کو یہ غلط فہمی ہوگئی تھی کہ عوام افواج سے دور ہوچکے ہیں، لیکن بھارتی جہاز گرنے پر اس فضا کا رخ بدل گیا اور عوام نے اپنی افواج کیساتھ کھڑے ہو کر دشمن کو واضح پیغام دیا اور اب بھی عوام وطن عزیز پاکستان میں تمام دشمنوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کیلئے بیدار ہیں اور اپنی فوج کیساتھ ہے۔ مودی، ٹرمپ اور نیتن یاہو سب شیطانی لشکر ہیں، جو میدان میں ہیں، مگر اللہ کا وعدہ ہے کہ یہ شیطانی منصوبے باطل ہوں گے اور مومنین کا لشکر کامیاب ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ سے ایران اور ایران سے پاکستان صیہونی سازش کا نیا محاذ
  • ایران طے کرے گا کہ جنگ کیسے ختم کی جائے گی، جواد ظریف
  • اب ایران یہ طے کرے گا کہ جنگ کیسے ختم کی جائے گی، جواد ظریف
  • بجٹ آئی ایم ایف کی نہیں عوام، وفاق اور خواتین کی خواہشات کے مطابق بنایا جائے: آصفہ بھٹو کی درخواست
  • بھارتی فلم اسٹار کے گھر چوری کی واردات، چور اپنا نکلا؟
  • پہلگام کے حملہ آور اب تک آزاد کیسے گھوم رہے ہیں؟ فاروق عبداللّٰہ
  • آن لائن ٹیکسی’ ’کریم‘‘ کا پاکستان میں اپنی سروس بند کرنے کا اعلان
  • کیسپرسکی ای سم اسٹور عالمی مسافروں کو دنیا بھر میں آسان انٹرنیٹ فراہمی کا ذریعہ بن گیا
  • آن لائن ٹیکسی سروس کا پاکستان میں اپنی سروس بند کرنے کا اعلان