WE News:
2025-09-22@14:46:31 GMT

اب کیا ہوگا تیرا کالیا؟

اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT

کوئی وقت تھا، جب امریکا بہادر دنیا میں فیصلے کیا کرتا تھا، لڑایا کرتا تھا، پھر ثالث کا کردار ادا کرتے ہوئے صلح کروایا کرتا تھا بالکل اسی بندر کی طرح، جس نے دو بلیوں کو کیک پر لڑتے دیکھا تھا۔ ایک کہتی تھی کہ میں کیک تقسیم کروں گی، دوسری کا کہنا تھا کہ تم انصاف اور مساوات کا حق ادا نہیں کرو گے، حق تلفی کرو گی۔ دونوں میں سے کوئی بلی بھی دوسری پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں تھی۔

بندر نے یہ منظر دیکھا تو اس کے دل میں لڈوؤں کے ساتھ ساتھ کیک بھی پھوٹ پڑا۔ اس نے دونوں بلیوں کو سمجھایا کہ لڑنا بری بات ہے۔ میں ہوں نا! ابھی کچھ ہی دیر میں کیک بالکل برابر تقسیم کردیتا ہوں۔

بلیاں لمحہ بھر کو ہچکچائیں لیکن پھر کوئی دوسرا آپشن نہ پا کر، انھوں نے کیک بندر کے حوالے کردیا۔ انصاف اور مساوات کا جھنڈا پکڑے ہوئے بندر نے فوراً ترازو منگوایا۔ کیک کے دو ٹکڑے کیے۔ ایک کو دائیں پلڑے میں رکھا، دوسرے کو بائیں پلڑے میں۔ ایک پلڑے میں کیک کچھ زیادہ تھا، اس نے اس میں سے ایک حصہ کاٹا اور ہڑپ کرگیا۔ پھر دوسرا پلڑا بھاری ہوگیا۔ اس نے وہاں سے بھی ایک حصہ کاٹا اور ہڑپ کر گیا۔ پھر جلد ہی وہ لمحہ بھی آگیا جب کیک کو برابر کرنے کے چکر میں بندر سارا کیک ہی ہڑپ کر گیا۔

یہ سب کچھ دیکھ کر بلیاں روہانسی ہوگئیں، ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے لیکن وہ کچھ کہنے سے معذور تھیں۔ بندر نے اپنی شرارتی آنکھوں سے بلیوں کی طرف دیکھا۔ کہنے لگا کہ میرا کوئی قصور نہیں، میرے پاس کیک کو دونوں حصوں کو برابر کرنے کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ اسے یہ فکر ہرگز نہ تھی کہ آئندہ کوئی اسے کیسے ثالث بنائے گا!

امریکا نے بھی جس انداز میں زندگی گزاری، اپنے مفادات بٹورنے کے لیے دنیا کی مختلف اقوام کو باہم لڑایا، اس طرح اپنا اسلحہ بھی بیچا، ان کی سرزمین پر اپنے اڈے بھی قائم کیے اور پھر ان اقوام کے مابین صلح کروانے کے لیے بھی خود کو ان پر مسلط کرلیا۔

اس سارے کھیل میں یہ نہ سوچا کہ وہ دنیا میں اپنا ساکھ بنا نہیں رہا بلکہ خراب کر رہا ہے۔ ممکن ہے کہ اسے یہ خیال آیا ہو کہ ساکھ خراب ہوگی اور دنیا اس سے نفرت کرے گی۔ تاہم پھر اس نے سوچا کہ عزت آنے جانے والی چیز ہے، ڈالر ہی سب سے قیمتی چیز ہے۔

اب عالم یہ ہے کہ کوئی امریکا کو ثالث ماننے کو تیار ہی نہیں۔

پچھلے دنوں پاکستان اور بھارت کی جنگ ہوئی۔ یہ جنگ ہمیشہ کی طرح بھارت نے اپنی جارحیت سے شروع کی۔ اچانک پاکستان کے مختلف مقامات پر حملہ کیا۔  حملے کی خبر سن کر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ خوب خوش ہوئے، انھیں بھارت پر خوب پیار آیا، انھوں نے آنکھیں بند کرکے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی خوب پپیاں لیں، خوب جپھیاں ڈالیں۔ اور اور شاید ان کے منہ سے یہ بھی نکلا: ’ڈو مور‘۔

دنیا والوں نے ایک بار پھر امریکا کی طرف دیکھا کہ پاک بھارت کشیدگی کم کرانے کے لیے درمیان میں کودے تاہم ڈونلڈ ٹرمپ نے ایسا کوئی بھی کردار ادا کرنے سے انکار کردیا۔ بلکہ انہوں نے اُس وقت جو کچھ فرمایا، اس کا ایک ترجمہ یہ بھی ہوا کہ دونوں ملکوں کو لڑنے دو، میں کچھ نہیں کرسکتا۔

اُس وقت نریندر مودی بھی خوب کُدکڑے بھر رہے تھے۔ تاہم جب پاکستانی زمینی فوج اور پاک فضائیہ نے نماز فجر پڑھ کر بھارت کو جواب دیا، اس کے کئی جہاز مار گرائے، کئی ایئر بیسز تباہ کیے، اس کے دفاعی نظام پر تالے لگا دیے۔ جب نریندر مودی و ڈونلڈ ٹرمپ کو یقین ہوگیا کہ پاکستان نے بھارت کی گردن کو اس انداز میں دبوچ لیا ہے کہ اس کے دیدے باہر کو آگئے ہیں اور سانس لینا بھی ممکن نہیں رہا۔۔۔۔ عین اس لمحے ڈونلڈ ٹرمپ میدان میں ’ثالث‘ بن کر کود پڑے، یوں مودی جی کی گلوخلاصی ہوئی۔

گزشتہ چند دنوں سے ایران اور اسرائیل میں معرکہ آرائی چل رہی ہے، امریکا دل و جان سے اسرائیل کے ساتھ ہے لیکن آغاز میں ایک بار پھر امریکا نے ’ثالث‘ بننے کی کوشش کی۔ لیکن اس کی یہ ادا دیکھ کر نہ صرف ایرانیوں بلکہ باقی دنیا والوں کی بھی ہنسی نکل گئی۔ یوں امریکا بہادر اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔ اب ثالثی کا نام نہیں لے سکتا، کس منہ سے ثالث بنے گا بھلا!

اس وقت خبر یہ ہے کہ چین اور روس نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ جنگ بندی کروائیں گے۔ اگرچہ چند روز پہلے ایک اسرائیلی عہدے دار نے روس کی ثالثی کے امکان کو یہ کہہ کر مسترد کردیا تھا کہ وہ ’جانبدار‘ ہے۔ یہ بیان پڑھ کر ایک بار پھر دنیا والوں کی ہنسی نکل گئی۔

اب جبکہ ایران کے میزائل حملوں کی کامیابی، اس کے مقابل اسرائیلی دفاعی نظام کی صلاحیت کمزور سے کمزور تر ہو رہی ہے، ایک بار پھر جنگ بندی کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ اگرچہ اسرائیل اس معاملے میں ’ثالث‘ اپنا ہی رکھنا چاہ رہا ہے لیکن اب امریکا کی ساکھ ایسی ہو چکی ہے کہ یورپی یونین ہی کو  جنگ بندی کے لیے میدان میں آنا پڑا ہے، دوسری طرف چین بھی سامنے آ گیا ہے۔ اس کا بھی کہنا ہے کہ ایران اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی اس کی اولین ترجیح ہے۔ وہ ایران پر اسرائیلی جارحیت کی واضح طور پر مذمت کرچکا ہے۔ اس نے امریکا سے واضح لفظوں میں کہا ہے کہ تم آگ پر تیل چھڑک رہے ہو۔

چین کے ایسے ہی دیگر بیانات دیکھ لیجیے، چینی عہدیداروں کی بدن بولی اور لہجہ بتا رہا ہے کہ مشرق وسطیٰ سمیت ایشیا کے مسائل و معاملات چین کے بغیر حل نہیں ہوں گے۔

چین کی سرمایہ کاری مشرق وسطیٰ اور افریقہ تک ہوچکی ہے، ایران اس کے ترقیاتی منصوبے ’ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو‘  کا اہم حصہ ہے۔ بیجنگ کیسے ایران کو ہاتھ سے جانے دے گا؟

مغربی ماہرین تالیاں پیٹ رہے تھے کہ اب چند دنوں کا کھیل ہے کہ روسی صدر پیوٹن اپنے آخری ساتھی(خامنہ ای کے ایران) سے محروم ہوجائیں گے۔ لیکن شاید مغربیوں کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے۔

تیسری طرف ترکیہ کے رجب طیب اردوان ہیں جو پاکستان، ایران اور بعض وسطی ایشیائی ریاستوں پر مشتمل ایک بلاک بنا چکے ہیں۔ وہ بھی اس خطے کے معاملات میں پوری طرح دخیل ہیں۔

اس سارے تناظر میں ایک بات طے ہے کہ ایران امریکا یا مغرب کے ہاتھ میں نہیں جا سکتا۔ ہاں! یہ ممکن ہے کہ امریکا اور اسرائیل اس خطے میں پھنس کر رہ جائیں۔

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اگر امریکا ایران، اسرائیل جنگ میں براہ راست شریک ہوا، تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ چین اور روس کو ہوگا، جو واشنگٹن کو ایک اور طویل اور مہنگی جنگ میں الجھا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔

اگر امریکا نے مداخلت کی، تو اس سے چین اور روس بہت خوش ہوں گے۔ وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ ایک طاقتور ملک کے ساتھ کھلی اور طویل جنگ میں الجھ جائے۔ ایران نہ یمن کے حوثی ہیں، نہ افغانستان کے طالبان، اور نہ ہی شام یا عراق۔

چین اور روس ایران کی بالواسطہ مدد کریں گے تاکہ جنگ کو طول دیا جا سکے اور امریکا کو خطے میں کئی برسوں تک تھکا کر رکھا جا سکے۔

اگر امریکا نے مداخلت کی، تو چین اور روس ایران کی اس حد تک حمایت کریں گے کہ وہ جنگ جاری رکھ سکے، تاکہ امریکا کو کمزور کیا جا سکے، لیکن وہ براہ راست مداخلت نہیں کریں گے۔

اس تناظر میں بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ امریکا ’نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن‘ والی صورت حال میں پھنس چکا ہے۔ اور اب امریکا سے پوچھا جاسکتا ہے کہ اب کیا ہوگا تیرا کالیا؟

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عبیداللہ عابد

اردو کالم امریکا ایران اسرائیل جنگ چین روس عبید اللہ عابد.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اردو کالم امریکا ایران اسرائیل جنگ چین عبید اللہ عابد ایک بار پھر چین اور روس ڈونلڈ ٹرمپ امریکا نے کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

گریٹر اسرائیل اور امریکہ کی آنکھ کا کانٹا ایران

اسلام ٹائمز: امریکی تجزیہ کار نے کہا کہ اسرائیل کا پہلا مقصد ایران کو کمزور کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دوسری چیز جو اسرائیلی چاہتے ہیں وہ فلسطینیوں کو عظیم تر اسرائیل سے نکالنا ہے، وہ فلسطینیوں کو غزہ اور مغربی کنارے سے نکالنا چاہتے ہیں۔ یہ ان کا دوسرا ہدف ہے۔ تیسرا ہدف یہ یقینی بنانا ہے کہ ان کے تمام پڑوسی کمزور ہوں۔ وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ لبنان اور شام دوبارہ کبھی متحد ملک نہ بنیں، اس طرح اسرائیل کے لئے پڑوس میں کبھی کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ انہوں نے ایران کے خلاف صیہونی حکومت کے مؤقف کے بارے میں کہا کہ انھوں نے ایران کے ساتھ جو کچھ کیا یا کرنے کی کوشش کی ہے وہ یہ ہے کہ وہ ایران کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ ایران تقسیم اور کمزور ہو، وہ چاہتے ہیں کہ ایران شام جیسا بن جائے۔ میئرشیمر کے مطابق شام، لبنان، ایران، مصر اور اردن جیسے ممالک کو بہت فکر مند ہونا چاہیے کہ اسرائیل انہیں تقسیم کرنے اور کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ خصوصی رپورٹ: 

الجزیرہ کے امریکی میزبان کو انٹرویو دیتے ہوئے جان میرشیمر نے ایران کے خلاف صیہونی حکومت کے اہداف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور اسرائیل بنیادی طور پر دو افراد کی ٹیم کی طرح کام کرتے ہیں۔ امریکی نظریہ ساز کا کہنا ہے کہ "گریٹر اسرائیل" کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانا صیہونی حکومت کا بنیادی ہدف ہے لیکن ایران اس سے روک رہا ہے۔ الجزیرہ کے باٹم لائن پروگرام کے امریکی میزبان اسٹیو کلیمنز کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے قطر اور خطے پر حملہ کرنے میں اسرائیل کے اہداف کے بارے میں تفصیل سے بات کی۔ میرشیمر نے کہا کہ امریکی ورلڈ آرڈر کی موجودہ صورتحال واقعی خوفناک اور واقعی ناقابل یقین ہے، آئیے ایک لمحے کے لیے مشرق وسطیٰ کی طرف رجوع کریں، میری رائے میں، وہاں سب سے اہم مسئلہ جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ غزہ میں نسل کشی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس بات پر توجہ دینا بہت ضروری ہے کہ اسرائیلی، امریکہ اور یورپی یونین کی مدد سے، غزہ میں قتل عام کے مرتکب ہو رہے ہیں، دوحہ پر اسرائیلی حملے کا مقصد حماس کے مذاکرات کاروں کو قتل کرنا تھا، حملے کا مقصد یہ یقینی بنانا تھا کہ غزہ کے تنازع کا کوئی مذاکراتی حل نہیں ہے، تاکہ اسرائیلی غزہ میں اپنی نسل کشی جاری رکھ سکیں۔ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر نے مزید کہا کہ دوسرا بہت اہم موضوع یہ ہے کہ اسرائیلی غالباً اس موسم خزاں میں دوسری بار ایران پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، اور اگر آپ یورپ کی طرف توجہ کریں تو آپ کو نظر آئے گا، کہ روسی یوکرینیوں کو پیچھے دھکیل رہے ہیں، یہ تقریباً یقینی ہے کہ میدان جنگ میں روسی ہی جیت جائیں گے، اور یہ سب سے اہم بات ہے، جو یورپ کے لئے خطرہ اس بحران کو بڑھانا ہے، پولینڈ کی طرف جانے والے ڈرونز اس کی مثال ہیں۔

میزبان نے قطر پر اسرائیلی حملے کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے پوچھا، "قطر کو نتن یاہو نے دھوکہ دیا، اور اب خطے میں قطر کے دفاعی تعلقات پر نظر ثانی کی ضرورت ہے، قطر میں 10,000 امریکی فوجی موجود ہیں، اگر آپ قطر یا دیگر خلیجی ممالک میں سے کوئی ہوتے تو آپ اسے کیسے دیکھتے؟۔ انہوں نے جواب میں کہا کہ اگر میں اسے ان کے نقطہ نظر سے دیکھوں تو میں واقعی پریشان ہو جاؤں گا، اس میں کوئی شک نہیں، بالکل وہی ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں۔ سعودی، اماراتی، قطری جو کچھ ہوا اس سے واقعی پریشان ہیں، وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اسرائیلی جو چاہیں کر سکتے ہیں اور امریکہ ہر قدم پر ان کی حمایت کر رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات کا اسرائیل کے ساتھ ابراہم معاہدہ ہے اور وہ ابراہیم معاہدے کو فوری طور پر ختم کر سکتا ہے۔ اس سے ایک واضح اشارہ ملے گا اور پھر یہ تینوں ممالک اور خطے کے دیگر ممالک اکٹھے ہو سکتے ہیں اور امریکہ پر یہ واضح کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں کہ یہ (قطر پر حملہ) ناقابل قبول ہے (لیکن) ان کو سے کوئی زیادہ فائدہ نہیں ملنے والا۔

اسرائیل کا پہلا مقصد ایران کو کمزور کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دوسری چیز جو اسرائیلی چاہتے ہیں وہ فلسطینیوں کو عظیم تر اسرائیل سے نکالنا ہے، وہ فلسطینیوں کو غزہ اور مغربی کنارے سے نکالنا چاہتے ہیں۔ یہ ان کا دوسرا ہدف ہے۔ تیسرا ہدف یہ یقینی بنانا ہے کہ ان کے تمام پڑوسی کمزور ہوں۔ وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ لبنان اور شام دوبارہ کبھی متحد ملک نہ بنیں، اس طرح اسرائیل کے لئے پڑوس میں کبھی کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ انہوں نے ایران کے خلاف صیہونی حکومت کے مؤقف کے بارے میں کہا کہ انھوں نے ایران کے ساتھ جو کچھ کیا یا کرنے کی کوشش کی ہے وہ یہ ہے کہ وہ ایران کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ ایران تقسیم اور کمزور ہو، وہ چاہتے ہیں کہ ایران شام جیسا بن جائے۔ میئرشیمر کے مطابق شام، لبنان، ایران، مصر اور اردن جیسے ممالک کو بہت فکر مند ہونا چاہیے کہ اسرائیل انہیں تقسیم کرنے اور کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ ان کے سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کے بارے میں علاقائی عزائم ہیں۔ وہ امریکہ میں اس بات کو یقینی بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ اسرائیل اور خلیجی ریاستوں کے درمیان اچھے تعلقات ہوں، اسرائیلی سعودی عرب سے ابراہم معاہدہ چاہتے ہیں، جیسا کہ وہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ رکھتے ہیں۔ وہ خلیجی ریاستوں کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں، میری رائے میں دوحہ پر حملہ اسرائیل پر حملہ نہیں ہے۔ خلیجی ریاستوں کے لیے براہ راست خطرہ ہے لیکن یہ دوسرے ممالک پر براہ راست حملہ ہیں جن کی فہرست میں نے دی ہے، کیونکہ یہ ایک عظیم تر اسرائیل کے قیام میں رکاوٹ ہیں۔

قطر پر حملے کے بارے میں انہوں نے پھر کہا کہ سب سے پہلے، ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ امریکہ اور اسرائیل بنیادی طور پر ایک دو رکنی ٹیم ہیں۔ وہ مل کر کام کرتے ہیں۔ اسرائیل چاہے کچھ بھی کرے، امریکہ اس کی غیر مشروط حمایت کرتا ہے۔ میرے خیال میں یہاں کیا ہوا کہ اسرائیلیوں نے فیصلہ کیا کہ وہ دوحہ میں حماس کے مذاکرات کاروں کو قتل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اسرائیلیوں کا بنیادی مفاد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ایسے کوئی مذاکرات نہ ہوں جو تنازعہ کو حل کرنے جا رہے ہوں یا غزہ کے تنازع کو حل کرنے کے قریب پہنچیں، اس لیے مذاکرات کاروں کو مارنے سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس حملے میں (دوحہ پر) امریکہ ملوث تھا اور انہوں نے مل کر اس آپریشن کی منصوبہ بندی کی تھی، لیکن میرے لیے یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ اسرائیلیوں نے امریکہ کو اس کے بارے میں نہیں بتایا ہوگا، یا اگر وہ ہمیں نہ بتاتے، تو ہم اس کا اندازہ نہ لگا پاتے۔

مشرق وسطیٰ میں ہماری انٹیلی جنس صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے، وہ یقینی طور پر نہیں جانتے ہوں گے کہ ایسا کوئی حملہ ہونے والا ہے؟ یقینا، میرے خیال میں اسرائیلیوں نے ہمیں بتایا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا صدر ٹرمپ یا انتظامیہ میں کسی اور نے جو اس کا ذمہ دار تھا اسرائیلیوں کو بتایا کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے؟ اس کا جواب "نہیں ہے، ہم نے بنیادی طور پر اس حملے کے لیے گرین سگنل دیا تھا اور اب ہم یہ ظاہر کرنے کے لیے ہر طرح کا شور مچا رہے ہیں کہ ہم نے ایسا نہیں کیا، لیکن ہم نے یہ کیا (اسرائیل کو دوحہ پر حملہ کرنے کے لیے گرین سگنل دیا) اور اسرائیلی بخوبی جانتے ہیں کہ وہ دوبارہ ایسا کر سکتے ہیں اور ہم انھیں دوبارہ کرنے دے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میرے ذہن میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسرائیلی فیصلے کر رہے ہیں، اور بنجمن نیتن یاہو اور صدر ٹرمپ کے درمیان طاقت کے توازن میں، نیتن یاہو زیادہ مضبوط کھلاڑی ہیں، یقیناً یہ حیران کن نہیں ہے۔ آپ اسٹیون (والٹ) کو جانتے ہیں، اسٹیو اور میں نے کتاب 'دی اسرائیل لابی' لکھی تھی اور ہم نے اس کے بارے میں بہت تفصیل سے بات کی تھی۔ اسرائیل کے ساتھ غیرمعمولی تعلقات کی تاریخ میں ایک خاص بات ہے، اسرائیلیوں کی چھوٹی انگلی پر صدر ٹرمپ ناچ رہے ہیں (ان کا ٹرمپ پر مکمل کنٹرول ہے) اور یہ واقعی حیرت انگیز ہے کہ صدر ٹرمپ باقی دنیا کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں اور انہیں ہفتے میں دنیا والوں کو کم از کم ایک تھپڑ مارتے ہیں، لیکن وہ کبھی بھی اسرائیلیوں پر ایسا یا ویسا کرنے کے لیے دباؤ نہیں ڈالتے، وہ اسرائیل کی غیر مشروط حمایت کرتے ہیں، جیسا کہ پچھلے امریکی صدور نے کیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • استعمار اور ایٹم بم کی تاریخ
  • اگر دوبارہ ایران اسرائیل جنگ ہوئی تو اسرائیل باقی نہیں رہیگا، ملیحہ محمدی
  • ایران میں سزائے موت کی منتظر شریفہ محمدی کا کیس؟
  • حد سے بڑھے مطالبات کے آگے ہتھیار نہیں ڈالیں گے،  ایرانی صدر کا دو ٹوک اعلان 
  • ٹک ٹاک کا امریکی آپریشن امریکیوں کے کنٹرول میں ہوگا، وائٹ ہاؤس
  • 7 جنگیں رکوا چکا، اسرائیل ایران جنگ بھی رکوائی، ڈونلڈ ٹرمپ
  • اگر بگرام ایئر بیس واپس نہ دی تو بہت برا ہوگا، ٹرمپ کی افغانستان کو بڑی دھمکی
  • گریٹر اسرائیل اور امریکہ کی آنکھ کا کانٹا ایران
  • سلامتی کونسل نے پابندیاں بحال کیں تو جوہری معاہدہ ختم ہوگا، ایران کا انتباہ
  • فرانس کا ایران پر دوبارہ اقوام متحدہ کی پابندیوں کا اعلان