data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد(آن لائن) وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہاہے کہ حکومت بجٹ میں عوامی فلاح و بہبود کیلئے اقدامات اٹھانے کو ترجیح دے رہی ہے انہوں نے کہاکہ شمسی پینل کے درآمدی پرزوں پر سیلز ٹیکس میں کمی سمیت سینیٹ کی جانب سے دیگر سفارشات پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ہفتہ کو ایوان بالا میں بجٹ پر بحث کو سمیٹتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہاکہ اراکین نے بجٹ کے حوالے سے اظہار خیال کیا ہے اور اراکین سینیٹ کے مشوروں نے ہماری رہنمائی کی ہے انہوں نے کہاکہ سینیٹ خزانہ کمیٹی نے بجٹ تجاویز کا باریک بینی سے جائزہ لیا اور حکومت نے کمیٹی اجلاسوں میں اپنے موقف کی وضاحت کی ہے انہوں نے کہاکہ بجٹ تقریر میں واضح کیا تھا کہ ہم نے مالی نظم و ضبط کو برقرار دیا اور کرنٹ اکائونٹ میں نمایاں کمی کی تاکہ پاکستان کو پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن کیاجائے انہوں نے کہاکہ بجٹ میں عوام کیلئے فلاحی اقدامات کا اعلان کیا گیا انہوں نے کہاکہ وفاقی حکومت کے اخراجات صرف ایک فیصد سے زائد بڑھے ہیں جبکہ اس سے پہلے بہت زیادہ بڑھتے تھے انہوں نے کہاکہ کم اور متوسط آمدنی والے افراد مہنگائی بھی برداشت کرتا ہے اور ٹیکس بھی دیتا ہے انہوں نے کہاکہ حکومت نے چھ لاکھ سے بارہ لاکھ تنخواہ لینے والے کیلئے صرف ایک فیصد ٹیکس عائد کیا ہے انہوں نے کہاکہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کیا ہے تنخواہوں میں 10جبکہ پنشن میں 7فیصد اضافہ کیا ہے انہوں نے کہاکہ درآمد شدہ شمسی پینل پر سیلز ٹیکس ملکی سطح پر بننے والی پینلز کے برابر کیا تھا تاہم حکومت نے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹیکس کو صرف 10فیصد کیا ہے انہوں نے کہاکہ درآمدی سولر پینل پر جی ایس ٹی کے نفاذ سے قبل ہی قیمتوں میں خود ساختہ اضافہ قا بل مذمت ہے حکومت ان کو خبردار کرنا چاہتی ہے کہ ان عناصر کے خلاف سخت ترین کاروائی کی جائے گی اور صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر ان کو سزائیں دیں گے انہوں نے کہاکہ حکومت نے بجٹ میں شامل کردہ ریلیف صرف وقتی نہیں بلکہ حکومتی ذمہ داریوں کا اہم مظہر ہے جس میں بی آئی ایس پی کا بجٹ بڑھا یا گیا ہے تاکہ سب سے کمزور طبقات کو معاشی تحفظ فراہم کیا جاسکے اور اس سے ایک کروڑ خاندانوں کو مالی تحفظ فراہم ہوگا انہوں نے کہاکہ بجٹ میں فراڈ کیسز میں ایف بی آر کے اختیارات سے متعلق مجوزہ قانون میں مذید بہتری کی گئی ہے اس حوالے سے اراکین سینیٹ کی جانب سے دی گئی سفارشات اور رائے کا احترام کرتے ہوئے بعض نکات کو مزید بہتر کیا گیا ہے انہوں نے کہاکہ سینیٹ خزانہ کمیٹی کی سفارشات موصول ہوچکی ہیں اور اس پر بھی عمل کیا جائے گا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ہے انہوں نے کہاکہ حکومت نے کیا ہے

پڑھیں:

مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کیا ہے اور اس کے اثرات کیا ہوں گے؟

سیاسی حلقوں میں ایک مرتبہ پھر سے آئینی ترمیم کی باتیں ہورہی ہیں، چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو کے مطابق مجوزہ آئینی ترمیم میں درج تجاویز کے مطابق آئینی عدالت کا قیام، ایگزیکٹو مجسٹریٹس کی بحالی، ججوں کے تبادلے کا اختیار، این ایف سی ایوارڈ میں صوبائی حصے کے تحفظ کا خاتمہ، آرٹیکل 243 میں ترمیم، تعلیم اور آبادی کی منصوبہ بندی کے معاملات وفاق کو واپس دینا اور چیف الیکشن کمشنر کی تقرری پر ڈیڈلاک ختم کرنا ہے۔

’وی نیوز‘ نے قانونی ماہرین سے گفتگو کی اور یہ جاننے کی کوشش کی حکومت اور پیپلز پارٹی کی جانب سے آئینی ترمیم کے ذریعے کون سے اختیارات حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے؟

مزید پڑھیں: 27ویں آئینی ترمیم اتفاق رائے سے کی جائےگی، کسی کے لیے گھبرانے کی بات نہیں، رانا ثنااللہ

پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سابق سربراہ حسن رضا پاشا نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے عدلیہ سے متعلق مجوزہ حکومتی اقدامات پر اپنے تحفظات اور خدشات کا اظہار کیا اور کہاکہ اطلاعات کے مطابق حکومت ایگزیکٹو مجسٹریٹس کا نظام دوبارہ متعارف کرانے جا رہی ہے جو ماضی میں ختم کیے جا چکے تھے۔

انہوں نے کہاکہ 1973 کے آئین کے تحت عدلیہ اور انتظامیہ کو علیحدہ رکھا گیا تھا تاکہ عدلیہ آزاد اور غیر جانبدار حیثیت میں کام کر سکے، لیکن اب اگر حکومت ان حدود کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتی ہے تو یہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کے منافی تصور ہوگا۔

حسن رضا پاشا نے کہاکہ اگر کسی نئے قانون کے تحت حکومت کو عدالتی ٹرائل یا جوڈیشل امور میں براہِ راست مداخلت کا اختیار دیا گیا تو یہ نہ صرف عدلیہ کی آزادی کے لیے خطرناک ہوگا بلکہ اس سے عدالتی نظام پر عوامی اعتماد کو بھی نقصان پہنچے گا۔

انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ ججز کی تقرری، تبادلوں اور تعیناتیوں کے حوالے سے آئین میں پہلے سے واضح طریقہ کار موجود ہے۔ آئین کے مطابق وزیراعظم، چیف جسٹس آف پاکستان اور متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی باہمی مشاورت سے ہی کسی جج کا تبادلہ یا تقرری ممکن ہے۔

’اگر حکومت اس میں ترمیم کرکے جج کی مرضی یا رضامندی کو ختم کرنا چاہتی ہے تو یہ آئینی اور قانونی لحاظ سے ایک سنگین مسئلہ پیدا کرے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں ججز کے تبادلوں کے چند معاملات، جیسے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک جج کو لاہور ہائیکورٹ میں بھیجنے اور دیگر صوبوں سے ججز کی تعیناتی کے فیصلے پہلے ہی بار اور عدلیہ کے درمیان بحث کا باعث بنے ہیں، ایسے میں کسی بھی ترمیم سے مزید تنازع کھڑا ہو سکتا ہے۔

حسن رضا پاشا نے اس بات پر زور دیا کہ اگرچہ ججز کی ٹرانسفر اور پوسٹنگ دیگر سرکاری محکموں کی طرح ایک معمول کی انتظامی کارروائی ہو سکتی ہے، لیکن عدلیہ کے حساس کردار کے پیش نظر اس میں شفافیت، میرٹ اور جج کی رضامندی لازمی ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہاکہ کسی جج کو محض ناپسندیدگی یا ذاتی اختلاف کی بنیاد پر ہٹانا یا تبدیل کرنا عدالتی آزادی کے منافی ہوگا۔

انہوں نے مطالبہ کیاکہ حکومت کو ایک واضح پالیسی بنانی چاہیے تاکہ ججز کی تعیناتی یا تبادلوں کے عمل میں کسی قسم کی جانبداری یا سیاسی اثر و رسوخ شامل نہ ہو۔

ساتھ ہی انہوں نے اس خدشے کا اظہار بھی کیاکہ اگر ججوں کی رضامندی کا اصول ختم کر دیا گیا تو عدلیہ میں عدم تحفظ اور بے چینی کی فضا پیدا ہو سکتی ہے۔

انہوں نے کہاکہ عدلیہ کو سیاست یا انتقامی عمل سے دور رکھا جائے، کیونکہ یہ ادارہ ریاست کا ستون ہے اور اس کی غیرجانبداری ہی جمہوریت اور انصاف کے نظام کی بنیاد ہے۔

سابق نیب پراسیکیوٹر عمران شفیق نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلاول بھٹو کی بیان کردہ مجوزہ آئینی ترمیم میں آئینی عدالت کا قیام، ایگزیکٹو مجسٹریٹس کی بحالی، ججوں کے تبادلوں کا اختیار اور آرٹیکل 243 میں ترمیم جیسی تجاویز شامل ہیں۔

انہوں نے کہاکہ یہ تجاویز بظاہر اصلاحات کا لبادہ رکھتی ہیں مگر ان کے اثرات عدلیہ کی آزادی اور آئینی توازن پر انتہائی خطرناک ہوں گے۔

انہوں نے کہاکہ ایگزیکٹو مجسٹریٹس کی بحالی اس نظام کی واپسی ہے جس میں انتظامیہ اور عدلیہ کی حدود خلط ملط ہو جاتی تھیں۔ ججوں کے تبادلے کا اختیار کسی غیر عدالتی اتھارٹی کو دینا ناقابلِ قبول ہے۔ ججوں کا ان کی مرضی کے بغیر تبادلہ عدلیہ کی آزادی پر براہِ راست حملہ ہے۔

عمران شفیق نے کہاکہ آئینی عدالت دراصل سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی ایک غیر ضروری توسیع ہے، جو عدلیہ کے اندر تقسیم اور دباؤ پیدا کرے گی۔ ایسی عدالت عدلیہ کے چند ارکان کو خصوصی مراعات دے کر باقی ججوں سے الگ حیثیت دینے کے مترادف ہے، جو ایک طرح کی ادارہ جاتی رشوت اور داخلی تقسیم ہے۔

مزید پڑھیں: 27ویں ترمیم: فیلڈ مارشل کے عہدے کو آئینی بنانے کے لیے آرٹیکل 243 میں ترمیم کرنے کا فیصلہ

انہوں نے کہاکہ آئین میں کسی بھی ترمیم کا مقصد اداروں کو مضبوط بنانا ہونا چاہیے، ان کی حدود کمزور کرنا نہیں، عدلیہ کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہ آئینی ہو سکتا ہے، نہ جمہوری۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews آئینی ترمیم پیپلز پارٹی حسن رضا پاشا حکومت پاکستان مشاورتی عمل وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • آئینی ترمیم مینڈیٹ والوں کا حق ہے جبکہ موجودہ حکومت صرف 16 سیٹوں پر بنی ہے، بیرسٹر گوہر
  • 27ویں ترمیم وفاق کیلئے خطرہ ، موجودہ حکومت 16 سیٹوں پر بنی ہے،آئینی ترمیم مینڈیٹ والوں کا حق ہے ،پی ٹی آئی
  • آئینی ترمیم مینڈیٹ والوں کا حق ہے جبکہ موجودہ حکومت صرف 16 سیٹوں پر بنی ہے، بیرسٹر گوہر
  • ایف بی آر کا مینول ٹیکس ریٹرن فائل کرنے والوں کیلئے خصوصی سہولیات کا اعلان
  • ایف بی آر کا مینول ٹیکس ریٹرن فائل کرنے والوں کیلیے خصوصی سہولیات کا اعلان
  • سولر صارفین کے لیے اہم خبر آگئی
  • مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کیا ہے اور اس کے اثرات کیا ہوں گے؟
  • آئی ایم ایف بھی مان گیا کہ پاکستان میں معاشی استحکام آ گیا ہے، وزیرخزانہ
  • سونے کی قیمتوں میں پھر بڑا اضافہ، فی تولہ کتنے کا ہو گیا؟
  • ملک میں سبزیوں کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ کیا ہے؟