آئی سی سی ٹی 20 ورلڈ کپ کیلئے کوالیفائی کرنے والا نیا ملک کون سا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
کینیڈا نے بہاماس کے خلاف شاندار فتح حاصل کرکے آئی سی سی مینز ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2026 کے لیے کوالیفائی کرلیا۔
امریکاز ریجنل کوالیفائر کے میزبان کینیڈا نے بہاماس کو صرف 57 رنز پر ڈھیر کر دیا۔ کلیم ثنا اور شیوم شرما نے 3،3 وکٹیں حاصل کیں، جب کہ دلپریت باجوا نے 14 گیندوں پر ناقابل شکست 36 رنز بنا کر صرف 5.
کینیڈا نے کوالیفائر مرحلے میں پانچ میں سے تمام میچز جیت کر ناقابل شکست رہتے ہوئے ورلڈ کپ میں جگہ بنائی۔ کینیڈا نے برمودا کو 110 رنز سے، کیمین آئی لینڈز کو 59 رنز سے اور پہلے راؤنڈ میں بہاماس کو 10 وکٹوں سے شکست دی تھی۔ دوسرے مرحلے میں کیمین آئی لینڈز کے خلاف پانچ اوورز کے میچ میں بھی 42 رنز سے کامیابی حاصل کی۔
نکولس کرٹن کی قیادت میں کینیڈا کی ٹیم نے گزشتہ سال امریکہ اور ویسٹ انڈیز میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھی شرکت کی تھی۔
کینیڈا ان 11 ٹیموں میں شامل ہو گیا ہے جو پہلے ہی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2026 کے لیے کوالیفائی کر چکی ہیں، جن میں بھارت، سری لنکا، افغانستان، آسٹریلیا، بنگلہ دیش، انگلینڈ، جنوبی افریقہ، امریکہ، ویسٹ انڈیز، آئرلینڈ، نیوزی لینڈ اور پاکستان شامل ہیں۔
باقی سات ٹیموں کا فیصلہ یورپ، افریقہ اور ایشیا-ای پی کے ریجنل کوالیفائرز کے ذریعے کیا جائے گا۔ ٹی 20 ورلڈ کپ 2026 بھارت اور سری لنکا میں کھیلا جائے گا۔
Post Views: 6ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
پیرس کی گلیوں کا مان، پاکستانی علی اکبر کو فرانس کا اعلیٰ ترین سول اعزاز کیوں ملنے والا ہے؟
فرانس کے دارالحکومت پیرس کی گلیوں میں ایک مانوس چہرہ، 72 سالہ علی اکبر کا ہے، جو پاکستان کے شہر راولپنڈی سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ گزشتہ 5 دہائیوں سے اخبارات فروخت کر رہے ہیں، اور اب انہیں فرانس کے آخری اخبار فروش کے طور پر جانا جاتا ہے۔
اپنی تیز فہمی، مسکراہٹ اور عاجزانہ انداز کی بدولت علی اکبر پیرس میں ایک مقبول شخصیت بن چکے ہیں۔ اب ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں فرانس کا اعلیٰ ترین شہری اعزاز ’لیجن آف آنر‘ (Légion d’Honneur) دیا جا رہا ہے۔ یہ اعزاز صدر ایمانویل میکرون اس سال موسم خزاں میں ایلیزے پیلس میں منعقدہ ایک رسمی تقریب میں خود علی اکبر کو عطا کریں گے۔
علی اکبر نے نیویارک ٹائمز کو انٹرویو میں خوش دلی سے کہا:
’شاید اب مجھے فرانسیسی پاسپورٹ بھی مل جائے!‘
علی اکبر کی پیرس آمد کا سفر آسان نہ تھا۔ وہ 1953 میں ایک غریب خاندان میں پیدا ہوئے، 10 بہن بھائیوں میں 2 بچپن میں وفات پا گئے۔ 1970 کی دہائی کے اوائل میں، بہتر مستقبل کی تلاش میں نوعمری میں پاکستان سے روانہ ہوئے۔ وہ افغانستان، ایران، اور یونان سے ہوتے ہوئے فرانس پہنچے۔
یہ بھی پڑھیے نیویارک پولیس کے پاکستانی نژاد امریکی افسر ضیغم عباس کی کیپٹن کے عہدے پر ترقی
پہلے چند سال انہوں نے چھوٹی موٹی ملازمتیں کیں، جہاں انہین امتیازی سلوک کا سامنا کیا، اور کئی مرتبہ پلوں کے نیچے سونا پڑا۔ بعدازاں انہوں نے ایک اخبار کے اسٹال کا کنٹرول سنبھالا اور پھر پیرس میں اپنی ایک پہچان بنا لی۔
علی اکبر نے بتایا:
’میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے کپڑے بدحالی کی بو دیں۔ میں ہمیشہ چاہتا تھا کہ اپنی ماں کو ایک ایسا گھر دوں جس کے ساتھ باغیچہ ہو۔‘
علی اکبر کے لیے اخبار فروخت کرنا محض روزی کا ذریعہ نہیں، بلکہ لوگوں سے جُڑنے، خوشیاں بانٹنے اور روزمرہ زندگی کا حصہ بننے کا ایک طریقہ ہے۔ ان کے بقول:
’جب آپ کے پاس کچھ نہ ہو تو جو بھی ملے، اس پر شکر کریں۔‘
یہ بھی پڑھیے پاکستانی نژاد ملائیشین رائل ایئر فورس کے سربراہ کا آبائی علاقے ہری پور کا دورہ
سینٹ جرمین کے رہائشیوں کے لیے علی اکبر صرف ایک اخبار فروش نہیں، بلکہ ایک مقامی ادارہ بن چکے ہیں۔ صدور سے لے کر فنکاروں تک، ہر کسی سے ان کی ملاقات رہی ہے، مگر وہ آج بھی سادگی، انکساری اور وقار کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔
عائلی زندگی اور نئی شروعاتعلی اکبر نے 1980 میں شادی کی۔ ان کے 5 بیٹے ہیں، جن کی تعلیم فرانس میں ہوئی، جس پر وہ انتہائی شکر گزار ہیں۔ آج بھی وہ روزانہ ‘لی موندے’ (Le Monde) اخبار فروخت کرتے ہیں، اور اوسطاً 70 ڈالر روزانہ کماتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب وہ روزانہ 300 تک اخبارات فروخت کرتے تھے، اب یہ تعداد 40 کے قریب رہ گئی ہے، لیکن وہ اب بھی اپنی دکان بند کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔
حال ہی میں، اپنی پنشن کے ساتھ انہوں نے جاردین دی لوکسمبورگ کے قریب ایک چھوٹا فوڈ ٹرک بھی شروع کیا ہے — ایک نئی شروعات، لیکن وہی خلوص اور محنت کی روح لیے ہوئے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاکستانی نژاد اخبار فروش علی اکبر فرانس