ایران کا ایٹمی پروگرام تباہ کردیا،،تہران نے حملہ کیا تو بھرپور طاقت سے جواب دینگے، امریکا WhatsAppFacebookTwitter 0 22 June, 2025 سب نیوز

واشنگٹن (سب نیوز)امریکی وزیر دفاع نے کہا ہے کہ ہم نے واضح کرتے ہیں دنیا کو امریکا کے صدر ٹرمپ کی بات سننا ہوگی، ہم نے ایران کا ایٹمی پروگرام مکمل تباہ کردیا اور اگر جوابی کارروائی ہوئی تو اس سے زیادہ طاقت سے جواب دیا جائے گا۔واشنگٹن میں امریکی وزیردفاع اورایئرفورس چیف نے مشترکہ میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ ایران کا ایٹمی پروگرام اور جوہری سائٹس کو تباہ کردیا، امریکا بار بارکہتا رہا کہ ایران کوجوہری ہتھیارحاصل کرنے نہیں دیں گے۔انہوں نے کہا کہ ایران نے حملہ کیا تو بھرپور اور گزشتہ رات سے زیادہ سخت جواب دیں گے۔

وزیردفاع نے کہا کہ امریکا نے بات چیت کیلئے60 روز دیئے مگر تہران نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ان کا کہنا تھا کہ آپریشن میں شریک ہراہلکار نے بہترین کام کیا، امریکی آپریشن میں کسی ایرانی فوجی یا شہری کونقصان نہیں پہنچا، صرف ایرانی جوہری تنصیبات پرحملے کیے۔ امریکی وزیردفاع نے کہا کہ بی ٹوبمبار نے تاریخ کا سب سے بڑاحملہ کیا ہے اور اس کو مڈ نائٹ ہیمر کا نام دیا گیا ہے اور یہ خفیہ مشن تھا۔ ہم خود کا دفاع کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ایران کے جوہری عزائم خاک میں مل چکے ہیں، صدرٹرمپ امن چاہتے ہیں اور ایران کو ٹرمپ کی بات مان کر امن کے راستے پر چلنا ہوگا۔ ایران پرامریکی حملے کا مقصد حکومت کی تبدیلی نہیں ہے۔امریکی وزیردفاع نے کہا کہ ایران پرحملے کومڈنائٹ ہیمرکانام دیاگیا۔

امریکی جنرل ڈین کین نے بتایا کہ ایران پرامریکی حملہ انتہائی خفیہ مشن تھا صرف چند لوگ واقف تھے، ایران کے ہونے والے نقصانات کے حوالے سے ابھی تک ہمیں کوئی معلومات نہیں کہ ایران نے نہ ہی آپریشن کے دوران کسی قسم کی مزاحمت کی۔ پینٹاگون حکام نے کہا کہ اصفہان کی جوہری تنصیب کوٹام ہاک میزائلوں سینشانہ بنایا، ایرانی ریڈار امریکی جہازوں کو پکڑنے میں ناکام رہے جبکہ ہم نے ایران کی تینوں ایٹمی سائٹس کو بھرپورنقصان پہنچایا ہے۔امریکی جنرل نے کہا کہ ہم امریکی فوج اورمشرق وسطی میں امریکا کامکمل تحفظ کریں گے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرایران بھی افغانستان کی طرح امریکی غرور خاک میں ملا دے گا، خواجہ سعد رفیق ایران بھی افغانستان کی طرح امریکی غرور خاک میں ملا دے گا، خواجہ سعد رفیق پاور ڈویژن کی محرم الحرام کے دوران بجلی کی بلاتعطل فراہمی کیلئے اقدامات کی ہدایت صوبائی حکومت گنڈاپور کیلئے سونے کا انڈا دینے والی مرغی ہے، فیصل کریم کنڈی چین کی عالمی نگرانی میں موجود ایرانی جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں کی شدید مذمت ٹرمپ کیلئے نوبل انعام کی سفارش کرنا بلنڈر ہے، لیاقت بلوچ امریکہ نے ایران جنگ کے معاملے پر اپنا وعدہ توڑ دیا، حافظ نعیم الرحمان TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: ایران کا ایٹمی پروگرام تباہ کردیا حملہ کیا

پڑھیں:

امریکا، بھارت اور ٹیرف کی جنگ

اسلام ٹائمز: ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اندرونی سطح پر سیاسی ہم آہنگی پیدا کرے۔ اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کے بجائے قومی سیاسی دھارے کا حصہ بنایا جائے، تاکہ قومی پالیسیوں میں وسیع تر سیاسی اتفاقِ رائے پیدا ہو۔ اگر ہم داخلی طور پر کمزور رہے تو بیرونی دنیا میں ہماری آواز نہ صرف غیر مؤثر ہوگی بلکہ عالمی قوتیں ہماری اس کمزوری سے اپنے مفادات کیلئے فائدہ بھی اٹھا سکتی ہیں۔ دنیا ایک نئی سرد جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے، جہاں اقتصادی پابندیاں، سفارتی چالاکیاں اور اسٹریٹجک داؤ پیچ اصل ہتھیار ہیں۔ اس بدلتی دنیا میں پاکستان کو نہ صرف اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہے بلکہ اپنی حیثیت کو بھی برقرار رکھنا ہے۔ شرط صرف ایک ہے، خود مختاری، دانشمندی اور قومی وحدت۔ تحریر: نادر بلوچ

امریکا اور بھارت کے مابین پیدا ہونے والی حالیہ کشیدگی محض دو معیشتوں کی باہمی رسہ کشی نہیں، بلکہ اس کے پس منظر میں ایک وسیع تر عالمی حکمتِ عملی اور طاقت کے توازن کی بازترتیب کارفرما ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بھارت پر یکے بعد دیگرے ٹیرف عائد کرنے، بعض مصنوعات پر پچیس فیصد تک درآمدی ڈیوٹی لگانے اور مزید سخت اقتصادی اقدامات کی دھمکی دینے کا معاملہ معمولی تجارتی چپقلش سے کہیں زیادہ گہرا اور پرمعانی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سیاسی بیانیے کو "MAGA" یعنی Make America Great Again کے نعرے کے گرد استوار کیا۔ اس نعرے کی عملی تعبیر مقامی صنعتوں کی بحالی، درآمدات پر انحصار میں کمی اور روزگار کے مواقع میں اضافہ تھی۔ مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ امریکی مارکیٹ چینی اور بھارتی مصنوعات سے بھری پڑی ہے۔ یہ اشیاء نہ صرف قیمت میں سستی ہیں بلکہ وہ امریکی پیداوار کا گلا گھونٹ رہی ہیں۔ نتیجتاً، ملکی صنعتیں بند ہو رہی ہیں، روزگار کے مواقع سمٹتے جا رہے ہیں اور قومی سرمایہ بیرونِ ملک بہہ رہا ہے۔

اسی تناظر میں ایک چونکا دینے والا مگر غیر مبہم فیصلہ سامنے آیا کہ امریکا نے ایپل کمپنی کو بھارت میں اپنا پیداواری یونٹ بند کرنے کی ہدایت کی۔ یہ اقدام بظاہر ایک کاروباری فیصلہ لگتا ہے، لیکن دراصل یہ امریکی اقتصادی تحفظ پسندی کی پالیسی کا حصہ ہے۔ مقصد صاف ہے: ایسے ممالک میں تیار ہونے والی کم لاگت مصنوعات کو امریکی منڈی میں مہنگا کر دیا جائے، تاکہ امریکی صارفین مقامی مصنوعات کی جانب راغب ہوں اور ملکی صنعت کو سانس لینے کا موقع ملے۔ بھارت کے لیے یہ صورتحال خاصی پریشان کن ہے۔ اس کی امریکا کو برآمدات تیزی سے بڑھ رہی ہیں، جبکہ امریکی مصنوعات بھارتی مارکیٹ میں محدود پیمانے پر داخل ہو پاتی ہیں۔ اس عدم توازن کو ٹرمپ انتظامیہ ایک ناقابلِ قبول خسارے کے طور پر دیکھتی ہے۔ چین کے بعد بھارت بھی اسی فہرست میں شامل ہوچکا ہے، جسے امریکا اپنے اقتصادی مفادات کے لیے خطرہ تصور کر رہا ہے۔ ٹرمپ کی پالیسی واضح ہے: یا تو معاہدے پر ازسرنو بات چیت کی جائے، یا پھر نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہا جائے۔ یہی اس کا رویہ روس کے ساتھ بھی ہے۔

ایسے میں پاکستان کی حیثیت نہایت اہم ہوگئی ہے۔ افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد خطے میں پاکستان کی تزویراتی (اسٹریٹجک) اہمیت ازسرنو نمایاں ہوئی ہے۔ چین کے ساتھ پاکستان کے معاشی تعلقات، خصوصاً سی پیک جیسے منصوبے، پاکستان کو ایک علاقائی مرکزیت فراہم کرتے ہیں۔ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کے لیے نرم رویہ اختیار کرنا اور بھارت کو تجارتی شکنجے میں کسنا، اس امر کا مظہر ہے کہ امریکا جنوبی ایشیاء میں اپنی حکمتِ عملی کو دوبارہ ترتیب دے رہا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ صورتِ حال ایک اہم موقع بھی ہے اور آزمائش بھی۔ امریکا کے ساتھ تعلقات میں بہتری کا فائدہ صرف اسی صورت میں حاصل کیا جا سکتا ہے، جب اسلام آباد اپنی خودمختاری کو مجروح کیے بغیر توازن کی پالیسی اپنائے۔ اگر ہم اندرونی سیاسی عدم استحکام کے باعث یا کسی خارجی دباؤ میں آکر اپنے معدنی وسائل یا قومی مفادات ارزاں نرخوں پر پیش کرنے لگیں، تو یہ وقتی فائدہ درحقیقت طویل المدت نقصان میں بدل جائے گا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اندرونی سطح پر سیاسی ہم آہنگی پیدا کرے۔ اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کے بجائے قومی سیاسی دھارے کا حصہ بنایا جائے، تاکہ قومی پالیسیوں میں وسیع تر سیاسی اتفاقِ رائے پیدا ہو۔ اگر ہم داخلی طور پر کمزور رہے تو بیرونی دنیا میں ہماری آواز نہ صرف غیر مؤثر ہوگی بلکہ عالمی قوتیں ہماری اس کمزوری سے اپنے مفادات کے لیے فائدہ بھی اٹھا سکتی ہیں۔ دنیا ایک نئی سرد جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے، جہاں اقتصادی پابندیاں، سفارتی چالاکیاں اور اسٹریٹجک داؤ پیچ اصل ہتھیار ہیں۔ اس بدلتی دنیا میں پاکستان کو نہ صرف اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہے بلکہ اپنی حیثیت کو بھی برقرار رکھنا ہے۔ شرط صرف ایک ہے، خود مختاری، دانشمندی اور قومی وحدت۔

متعلقہ مضامین

  • ایپل کا امریکا میں 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان
  • امریکا جانے کے خواہش مندوں کیلئے پالیسی سخت کر دی گئی
  • ایران؛ اسرائیل کو شہید جوہری سائنسدان کی ’لوکیشن‘ فراہم کرنے والے کو پھانسی دیدی گئی
  • سیکیورٹی فورسز کی گاڑی پر حملہ، 3 اہلکار شہید
  • ہیروشیما پر امریکی ایٹمی حملے کو 80 سال مکمل
  • روس نے ایٹمی میزائلوں کی تنصیب پر پابندی کے معاہدے کو خیرباد کہہ دیا
  • ایران میں گرمی کی شدید لہر، دفاتر بند کرنے کا حکم
  • امریکی ایٹمی آبدوزوں کی تعیناتی پر روس کی وارننگ: 'جوہری بیانات میں احتیاط کریں‘
  • امریکا، بھارت اور ٹیرف کی جنگ
  • پاکستان، ایران کے جوہری پروگرام کی حمایت کرتا ہے شہباز شریف