ایران پر امریکی حملوں اور اسرائیل کے خلاف دنیا کے مختلف ممالک میں مظاہرے کیے گئے، ٹوکیو، برلن، نیو یارک اور تل ابیب میں بھی ریلیاں نکالی گئیں، جہاں عوام نے نیتن یاہو کے خلاف شدید احتجاج کیا۔
دنیا بھر کے مختلف شہروں میں ”جنگ نہیں، امن چاہیے“ کے نعرے بلند کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرے کیے گئے  ۔
ٹوکیو میں ایران پر امریکی حملوں کے خلاف ایک بڑی ریلی نکالی گئی جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی اور جنگ کی مذمت کی۔
نیویارک میں بھی جنگ مخالف یہودیوں نے احتجاج کیا اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز اٹھائی۔
اسی طرح برلن میں بھی عوام سڑکوں پر نکلے اور اسرائیل کے خلاف نعرے بازی کی، مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ جنگ کا خاتمہ کیا جائے اور امن قائم کیا جائے۔
تل ابیب میں بھی اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری رہا، جہاں عوام نے اسرائیلی حکومت کے خلاف اپنی آواز بلند کی۔

Post Views: 5.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: میں بھی کے خلاف

پڑھیں:

صیہونی رژیم کے فوجی اور سیاسی اداروں میں اختلافات کی شدت بڑھنے لگی

اسرائیلی اخبار معاریو نے سیاسی اور فوجی سربراہان کے درمیان اختلافات کے باعث بحران کی شدت بڑھ جانے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ فی الحال حماس سے مذاکرات نیتن یاہو کی کچن کیبنٹ تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں اور فوجی سربراہان کو ان سے آگاہ نہیں کیا جاتا۔ اسلام ٹائمز۔ عبری زبان میں شائع ہونے والے صیہونی اخبار "معاریو" نے فاش کیا ہے کہ غزہ جنگ کے 667 دن بعد صیہونی رژیم کے سیاسی اور فوجی سربراہان کے درمیان اندرونی بحران ماضی کے مقابلے میں زیادہ شدت اختیار کر گیا ہے اور اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ یہ صورتحال ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ایسے اشارے بھی موصول ہو رہے ہیں کہ اسرائیلی فوج کے چیف آف جوائنٹ اسٹاف ایال ضمیر کو جنگ جاری رکھنے کی مخالفت کرنے پر وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو جان بوجھ کر دباو کا شکار کر رہا ہے۔ مزید برآں، ایال ضمیر کو  اگلے مرحلے کے لیے فوج کے منصوبے سیکورٹی کابینہ کے سامنے پیش کرنے سے بھی روکا جا رہا ہے۔ اس اخبار کے عسکری رپورٹر اور تجزیہ کار ایوی اشکنازی کے مطابق ضمیر کئی دنوں سے غزہ میں فوج کی آئندہ حکمت عملی اور منصوبے پیش کرنے کے لیے کابینہ اجلاس کے انعقاد کی درخواست کر رہا ہے لیکن نیتن یاہو نے اس درخواست کو مسترد کرتے ہوئے فوج کو جنگ کے دوران غیر یقینی کی کیفیت میں ڈال دیا ہے۔ معاریو کے مطابق یہ صورتحال غزہ جنگ اور اس کے جاری رہنے کے حوالے سے فوج اور سیاسی اداروں کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلاف کی عکاسی کرتی ہے۔
 
ایک طرف ایال ضمیر کی سربراہی میں صیہونی فوج اس وقت غزہ میں جاری آپریشن "گیڈون کی رتھیں" کو مکمل اور تکمیل یافتہ خیال کرتی ہے اور اس نے اعلان کیا ہے کہ گیند اب سیاسی حکام کے کورٹ میں ہے اور انہیں حماس کے ساتھ مذاکرات میں جنگ کے اہداف کو آگے بڑھانا ہوگا۔ اشکنازی نے ایک سینئر سیکورٹی اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا: "ہم نہیں جانتے کہ سیاسی حکام کیا چاہتے ہیں۔ ہم نے صورتحال کی مکمل تصویر پیش کی اور واضح کیا کہ ہم نے اپنا مشن مکمل کر لیا ہے اور اب ان کی باری ہے۔" اس سیکیورٹی اہلکار نے مزید بتایا کہ سیکیورٹی اور عسکری ادارے صرف یہ جانتے ہیں کہ نیتن یاہو اب حماس کے ساتھ قیدیوں کی رہائی کے لیے ایک جامع معاہدے کے لیے تیار ہے لیکن وہ نہیں جانتے کہ مذاکرات میں کیا ہو رہا ہے۔ اس نے مزید کہا: "ماضی میں ہم حماس کے ساتھ مذاکرات کی تفصیلات سے پوری طرح واقف رہتے تھے لیکن اب یہ مسئلہ صرف دو لوگوں یعنی نیتن یاہو اور رون ڈرمر (اسرائیل کے اسٹریٹجک امور کے وزیر) کے درمیان چلایا جاتا ہے اور ہم صرف انفارمیشن چینلز کے ذریعے دوسری طرف ہونے والی پیش رفت سے آگاہ ہوتے ہیں۔"
 
اخبار معاریو کے فوجی رپورٹر نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ فوج کا ماحول، اعلیٰ سیاسی عہدیداروں کی طرف سے جنگ کے انتظام کے طریقے سے گہری مایوسی کی عکاسی کرتا ہے۔ ایک سینئر ذریعے کے مطابق فوج کی قیادت کو کابینہ کے سامنے کوئی منصوبہ پیش کرنے کی اجازت نہیں ہے اور وہ نہیں جانتے کہ نیتن یاہو یا وزیر دفاع یسرائیل کاٹز کیا چاہتے ہیں اور آپریشن کہاں جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ اسی ذریعے نے اخبار کو بتایا: "اس وقت صرف ایک چیز واضح ہے کہ نیتن یاہو پر وزیر خزانہ (بزالل اسموتریچ)، وزیر دفاع (یسرائیل کاٹز)، وزیر شہری امور (اوریت استروک) اور قومی سلامتی کے وزیر (اتمار بن غفیر) کا اثرورسوخ ہے، جو غزہ کی پوری پٹی پر قبضے کا کھلے عام مطالبہ کرتے ہیں اور وہاں پر یہودی بستیوں کی تعمیر چاہتے ہیں۔ باقی وزیروں کا موقف ہمارے لیے واضح نہیں ہے۔" اشکنازی کے مطابق حساس مسائل کو مسلسل نیتن یاہو اور ڈرمر پر مشتمل ایک چھوٹے دائرے تک محدود رکھنا، فوج اور حکومت کے درمیان اعتماد کے بحران کو بڑھا رہا ہے جو جنگ چلانے یا اپنے بیان کردہ اہداف کو حاصل کرنے میں صیہونی رژیم کی صلاحیتوں پر برا اثر ڈال سکتا ہے۔ یہ فوجی رپورٹر سمجھتا ہے کہ واضح وژن کی کمی نے اسرائیل کو قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے تک پہنچنے کے لیے بڑھتے ہوئے ملکی اور غیر ملکی دباؤ اور فوج کی صفوں میں شدید کمی کے درمیان ایک دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • صیہونی سیاستدان کیجانب سے اسرائیلی معیشت کو مفلوج کردینے کی کال
  • غزہ میں معصوم فلسطینیوں کی شہادتوں پر اسرائیلی فوج میں پھوٹ، جنرلز آپس میں لڑ پڑے
  • امریکی صدر ٹرمپ کی غزہ پر مکمل اسرائیلی قبضے کی خاموش حمایت 
  • بلوچستان بھر میں پی ٹی آئی کے احتجاجی مظاہرے، لورالائی اور بارکھان میں پولیس کے ساتھ جھڑپیں
  • خفیہ دستاویزات لیک، نیتن یاہو ہی "اسرائیلی قیدیوں کی رہائی" میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار
  • بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے احتجاج کی کال، حکومت مظاہرے روکنے کو تیار
  • نیتن یاہو کا فوجی آپریشن کو مزید وسعت دینے اور غزہ پٹی پر مکمل قبضے کا منصوبہ
  • نیتن یاہو کا غزہ میں فوجی آپریشن کو وسعت دینے کا ارادہ
  • صیہونی رژیم کے فوجی اور سیاسی اداروں میں اختلافات کی شدت بڑھنے لگی
  • 600 سابق اسرائیلی سکیورٹی عہدیداروں کا ٹرمپ کو خط، غزہ جنگ بندی کیلئے نیتن یاہو پر دباؤ ڈالنے کا مطالبہ