انسانی لہو ٹپکتے ہاتھ اور امن نوبل ایوارڈ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT
امریکا نے ایران کی 3 ایٹمی تنصیبات (اصفہان، نطنز اور فردو) پر بی-2 اسپرٹ بمبار طیارے سے بنکر بسٹر بم (GBU-57) گرا دیئے۔ حملے کو ٹرمپ نے نہایت کامیاب قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب امن کا وقت ہے! اس کا کہنا ہے کہ فردو کے مرکزی جوہری مقام پر مکمل بمباری کی گئی۔ اب یہ نیوکلیئر کمپلیکس ختم ہو چکا ہے۔ تمام امریکی طیارے اب ایرانی فضائی حدود سے باہر ہیں اور محفوظ مقام پر واپس پہنچ چکے ہیں۔ ٹرمپ نے اس کارروائی پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے کہا دنیا میں کوئی دوسری فوج ایسا نہیں کر سکتی، صرف امریکی فوج ہی یہ کارنامہ انجام دے سکتی ہے۔ ٹرمپ نے کہا اب وقت آ گیا ہے کہ امن کی جانب بڑھا جائے اور میں اس معاملے میں آپ کی دلچسپی پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ساتھ ایران سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ فوراً جنگ بندی پر رضامند ہو، بصورت دیگر اسے دوبارہ شدید حملوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ امریکی صدر نے اس لمحے کو امریکہ، اسرائیل اور دنیا کے لئے ’’تاریخی‘‘ قرار دیا۔ امریکہ نے ایران پر حملہ کر کے یہ ثابت کر دیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ’’امن نوبیل ایوارڈ‘‘ کا بالکل درست حقدار ہے،امریکہ اسرائیل اور بھارت جب انسانی بستیوں پہ بم پھینکتے ہیں تو اس سے امن کے باغات لہلہاتے ہیں، امریکہ اسرائیل اور بھارت جب کشمیر،عراق،شام اور غزہ کے ہزاروں معصوم بچوں کا قتل عام کرتے ہیں تو یہ ان کی ’’امن پسندی‘‘ کا ثبوت ہوتا ہے اور امریکہ تو وہ اوتار ہے کہ انسانوں کی لاشوں کے ڈھیر لگانے اور ملکوں کے ملک کھنڈرات میں تبدیل کرنے کے بعد بھی انسانی لہو ٹپکتے ہاتھوں سے امن کا جھنڈا گر نے نہیں دیتا، اس کی انسانی لہو میں تر بتر زبان ہر وقت ’’امن،امن،امن‘‘کا زہر اگلتی رہتی ہے، امریکہ اور اسرائیل کے حملوں میں مارے جانے والے لاکھوں مقتولین کے کروڑوں لواحقین آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر یہ سب کچھ دیکھ کر سوچ رہے ہوتے ہیں انسانی لاشوں اور خون کا دنیا کا سب سے بڑا بیوپاری ڈونلڈ ٹرمپ بھی اگر عالمی امن نوبل ایوارڈ کا حقدار ہے تو پھر اے دنیا کے منصفو! دنیا کے طاقتور لو گو! طاقتور اور امیر ممالک سمجھے جانے والے ممالک!کاش تم سب پہ بھی قیامت ٹوٹ پڑے تا کہ تم امریکی امن پسندی کا حقیقی مزہ لے سکو،امین،ثم آ مین۔
دوسری طرف ایران نے بھی مذکورہ حملوں کی تصدیق کر دی ہے۔ تاہم ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ حملے کا خدشہ تقریباً یقینی تھا، اس لئے ہم نے پہلے سے تینوں ایٹمی تنصیبات خالی کرالی تھیں۔ بی-2 اسپرٹ بمبار:بی-2 اسپرٹ (B-2 Spirit) دنیا کا سب سے جدید، اسٹیلتھ ٹیکنالوجی سے لیس اسٹرٹیجک بمبار طیارہ ہے، جسے امریکی فضائیہ (USAF) کے لئے نارتھروپ گرومن کمپنی نے تیار کیا۔ یہ طیارہ جوہری اور روایتی دونوں طرح کے ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور راڈار سے مکمل طور پر اوجھل رہنے کی اپنی غیر معمولی صلاحیت کی وجہ سے دشمن کے انتہائی محفوظ علاقوں میں حملہ کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اس کا اسٹیلتھ ڈیزائن راڈار، انفراریڈ، صوتی اور بصری سراغ رسانی سے بچنے کے لیے کا خاص ڈھانچہ ہے۔ یہ بلندی اسے دشمن کے ریڈار اور زمین سے فائر کئے جانے والے زیادہ تر فضائی دفاعی نظاموں سے بچنے میں مدد دیتی ہے، خاص طور پر جب یہ اپنی اسٹیلتھ (راڈار سے اوجھل) ٹیکنالوجی کے ساتھ اڑ رہا ہو۔ بی-2 کی یہی بلندی اور اسٹیلتھ صلاحیت اسے انتہائی محفوظ علاقوں پر اچانک اور موثر حملہ کرنے کے قابل بناتی ہے۔ ان گونا گوں خصوصیات کی وجہ سے اس کی قیمت بھی ہوش ربا یعنی صرف 2 ارب ڈالر ہے۔بی-2 بمبار کی پہلی پرواز 1989 ء میں ہوئی اور 1997ء میں یہ باضابطہ طور پر امریکی فضائیہ میں شامل ہوا۔ اس کا بنیادی مقصد سوویت یونین کے دور میں دشمن کی اینٹی ایئر ڈیفنس لائنز کو عبور کرنا تھا۔ اب یہ طیارہ امریکہ کی جوہری تہرک (nuclear triad) کا اہم ستون ہے۔ اس کا افغانستان، کوسوو، عراق، لیبیا اور شام میں ہدفی بمباری کے لئے استعمال ہو چکا ہے۔ اب ایران پر بھی اسے استعمال کیا گیا۔ اپنی راڈار سے بچائو کی صلاحیت کی وجہ سے اسے انتہائی حساس اہداف پر ابتدائی حملے کے لئے ترجیح دی جاتی ہے۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا روایتی (non-nuclear) ’’ بم شکن‘‘ ہتھیار ہے۔ جس کا وزن تقریباً 13,600 کلوگرام (30,000 پائونڈ یا 13 ٹن) ہے۔ لمبائی 6.
امریکا نے یہ بم بنایا ہی گہرائی میں قائم جوہری تنصیبات، بنکرز یا کمانڈ اینڈ کنٹرول مراکز کو تباہ کرنے کے لئے تھا، جہاں عام بم موثر ثابت نہیں ہوتے۔ GBU-57 جدید ترین، انتہائی وزنی اور گہرائی تک پہنچنے والا بم ہے، جو دنیا میں کسی بھی ملک کی بنکر شکن ٹیکنالوجی سے آگے ہے۔ یہ بم دشمن کے زیرِ زمین قلعہ بند اثاثوں کے خلاف سب سے خوفناک غیر جوہری صلاحیت کی نمائندگی کرتا ہے۔یہ بم GBU-28 بم کا جدید اور کئی گنا بڑا ورژن ہے۔ اس کا وزن (GBU-43/B) سے بھی زیادہ ہے، لیکن MOAB زمین پر دھماکے کے لیے ہے، جبکہ GBU-57 زیرِ زمین گہرائی تک جا کر دھماکہ کرتا ہے۔ MOAB کو مدر آف بمز یعنی بموں کی ماں کہا جاتا ہے۔ جسے ٹرمپ ہی نے افغانستان میں گرایا تھا۔یہ بھی یاد رہے کہ اب تک GBU-57کا کسی جنگ میں استعمال نہیں کیا گیا تھا۔ بدقسمتی سے ہمارا پڑوسی ملک ایران تاریخ میں اس کا سب سے پہلا ہدف بن گیا۔ امریکا نے مختلف آزمائشی تجربات کے بعد اسے ’’آخری آپشن‘‘ کے طور پر ایران پر استعمال کرلیا۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کا سب سے حملہ کر کرنے کے کے لئے
پڑھیں:
پیرس میں50 سال سے اخبار بیچنے والے پاکستانی کے لیے اعلیٰ ایوارڈ
پیرس میں50 سال سے اخبار بیچنے والے پاکستانی کے لیے اعلیٰ ایوارڈ WhatsAppFacebookTwitter 0 5 August, 2025 سب نیوز
فرانس کے دارالحکومت پیرس میں نصف صدی سے اخبار بیچنے والے پاکستانی شخص کو فرانس کا اعلیٰ سول ایوارڈ دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق 73 سالہ پاکستانی شہری علی اکبر کا تعلق راولپنڈی سے ہے اور وہ 1973 سے شہر کے فیشن ایبل علاقے لیٹن کوارٹر کی سڑکوں، ریستورانوں اور دوسرے مقامات پر اخبارات فروخت کرتے آ رہے ہیں۔
ٹی وی اور انٹرنیٹ پر آن لائن ایڈیشن آنے کے بعد جب اخبارات کی مانگ میں کمی ہوئی تو انہوں نے فروخت کے لیے مزاح اور بعض دوسرے ایسے اقدامات سے کام لیا جن کی بدولت لوگ ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔
ستمبر میں فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکخواں علی اکبر کو ’دی نیشنل آرڈر آف میرٹ‘ سے نوازیں گے اور یہ ایک ایسا انعام ہے جو حکومت کی جانب سے ملک کے لیے سول یا فوجی میدان میں نمایاں خدمات انجام دینے کے اعتراف کے طور پر دیا جاتا ہے۔
ٹی وی کی آمد کے بعد 70 کی دہائی میں اخبارات کی فروخت کا کام ایک ایسا پیشہ تھا جو دم توڑ رہا تھا کیونکہ اس کی بدولت خبریں لوگوں تک جلدی پہنچ جاتی تھیں جبکہ انٹرنیٹ آنے کے بعد اس میں تیزی پیدا ہوئی۔
تاہم علی اکبر شہر کے وہ آخری ہاکر ہیں جو آج تک اخبار بیچنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس کے لیے انہوں نے نیا انداز اپنایا ہوا ہے جس میں مسلسل لگن کے علاوہ ان کی مخصوص مسکراہٹ، مزاح اور بعض دوسرے اقدامات شامل ہیں جن سے وہ گاہکوں کو متوجہ کرنے میں کامیاب رہتے ہیں اور اخبارات کی فروخت کی روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
علی اکبر کا کہنا ہے کہ ’مجھے اخبارات کے لمس سے محبت ہے، میں ٹیبلٹس اور اس قسم کی دوسری اشیا کو زیادہ پسند نہیں کرتا مگر مجھے پڑھنا اچھا لگتا ہے، وہ کتاب کی شکل میں ہو یا پھر کسی شائع شدہ شکل میں۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہیں لکھے ہوئے مواد کو سکرین پر پڑھنا پسند نہیں ہے۔
انہوں نے اخبارات کی فروخت کے حوالے سے بتایا کہ ’میرے پاس اس کے لیے ایک خاص طریقہ ہے، میں اس دوران مزاحیہ جملے بولتا رہتا ہوں جس پر لوگ ہنستے ہیں اور میری طرف متوجہ ہوتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’میں لوگوں کے دلوں میں اترنے کی کوشش کرتا ہوں، جیبوں میں نہیں۔‘
تاہم دوسری جانب ڈیجیٹل ذرائع کی مقبولیت کے بعد ان کے کام کی رفتار میں کمی آئی ہے جس کا اعتراف وہ خود بھی کرتے ہیں۔
علی اکبر کہتے ہیں کہ ’اب کام کچھ مشکل ہو گیا ہے۔ میں آٹھ گھنٹے میں صرف 20 تک اخبار ہی بیچ پاتا ہوں کیونکہ اب سب کچھ ڈیجیٹل ہو گیا اور کم لوگ ہی اخبار خریدتے ہیں۔‘
ان مشکلا ت کے باوجود بھی علی اکبر عزم رکھتے ہیں کہ جب تک ان کی صحت اجازت دے گی وہ اخبار بیچتے رہیں گے۔
وہ یہ خدمات ایک ایسے علاقے میں انجام دیتے ہیں جہاں بڑی بڑی فیشن بوتیکس اور کھانے کے سامان کی دکانوں نے بڑی حد تک کتابوں کی دکانوں کی جگہ لے لی ہے جنہوں نے 20ویں صدی کے بڑے فلسفی پیدا کرنے میں مدد دی تھی۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ علی اکبر ان چیزوں میں سے ایک ہیں جو لیٹن کوارٹر کی اصل شکل برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
ان کی ایک گاہک میری لورے کیریئرے کا کہنا ہے کہ ’علی اکبر ایک ادارہ ہیں، میں اور میرے کچھ دوست ان سے روزانہ اخبار خریدتے ہیں، ہم ان کے ساتھ کبھی کبھی کافی بھی پیتے ہیں اور لنچ بھی کرتے ہیں۔‘
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرملک گیر احتجاج کی کال، پی ٹی آئی کا ریحانہ ڈار سمیت کئی کارکنوں کی گرفتاری کا دعویٰ ملک گیر احتجاج کی کال، پی ٹی آئی کا ریحانہ ڈار سمیت کئی کارکنوں کی گرفتاری کا دعویٰ پارلیمنٹ ہاؤس پر بھاری نفری تعینات، قیدی وینز اور اینٹی رائٹ دستے پہنچ گئے، اہم گرفتاریاں متوقع پاک چین دوستی افلاک سے بھی وسیع اور بلند ہو چکی ہے ، وفاقی وزیر احسن اقبال وفاقی حکومت نے اپوزیشن کو 26 ویں ترمیم پر مذاکرات کی دعوت دیدی عمران خان کی رہائی کو یقینی بناکر دم لیں گے: بیرسٹر گوہر عدالتیں کرپشن کا حصہ ہیں، کون سا جج کرپٹ ہے، اچھے طریقے سے جانتا ہوں، جسٹس محسن اختر کیانیCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم