پی ٹی آئی کارکنان کے خلاف 26 نومبر احتجاج پر درج مقدمات میں عدالت نے تھانہ مارگلہ کے ایک مقدمے میں چالان کی نقول تقسیم کر دی جبکہ تھانہ مارگلہ کے دوسرے مقدمے میں ایک ملزم کی جانب سے بریت کی درخواست دائر کی گئی۔ عدالت نے دونوں کیسز پر سماعت 30 جون تک ملتوی کر دی۔ اسلام ٹائمز۔ پی ٹی آئی کارکنان کے خلاف 26 نومبر احتجاج پر درج مقدمات میں ملزمان پر آئندہ سماعت پر فرد جرم عائد کی جائے گی۔ انسداد دہشت گردی عدالت اسلام آباد کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے 2 مقدمات کی سماعت کی، پی ٹی آئی کارکنان کی جانب سے سردار محمد مصروف خان، زاہد بشیر ڈار و دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔

عدالت نے تھانہ مارگلہ کے ایک مقدمے میں چالان کی نقول تقسیم کر دی جبکہ تھانہ مارگلہ کے دوسرے مقدمے میں ایک ملزم کی جانب سے بریت کی درخواست دائر کی گئی۔ عدالت نے دونوں کیسز پر سماعت 30 جون تک ملتوی کر دی۔ یاد رہے کہ پی ٹی آئی کارکنان کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات درج ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: پی ٹی آئی کارکنان تھانہ مارگلہ کے عدالت نے

پڑھیں:

پی ٹی آئی 5 اگست احتجاج: علی امین کے خلاف نعرے، کیا قیادت ورکرز کا اعتماد کھو رہی ہے؟

پاکستان تحریک انصاف نے بانی چیئرمین عمران خان کے جیل میں 2 سال مکمل ہونے پر 5 اگست کو خیبر پختونخوا میں احتجاج کیا۔ تاہم عمران خان کے نام پر ہونے والے احتجاج میں وہ جوش و جذبہ نظر نہیں آیا جو پہلے پی ٹی آئی کے مظاہروں اور جلسوں میں ہوا کرتا تھا۔

پشاور میں پی ٹی آئی کی احتجاجی ریلی حیات آباد ٹول پلازہ سے شروع ہوئی۔ جب وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور پہنچے تو کارکنوں کی تعداد کم تھی، تاہم مختلف مقامات پر کارکنان ریلی میں شامل ہوتے گئے۔ اگر دیکھا جائے تو عمران خان کی عدم موجودگی میں علی امین کی قیادت میں کارکنان سڑکوں پر نکلے اور احتجاج کو کامیاب بنایا، لیکن وہ جذبہ نظر نہیں آیا جو عمران خان کی موجودگی میں ہوا کرتا تھا۔ ساتھ ہی احتجاجی ریلی میں پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت اور کارکنوں کے درمیان اعتماد کا فقدان بھی محسوس کیا گیا۔ کارکنان کو اپنی قیادت پر اعتبار نہیں رہا۔

علی امین گنڈاپور اپنے سرکاری پروٹوکول کے ساتھ ریلی کے لیے حیات آباد ٹول پلازہ، رنگ روڈ پہنچے۔ ان کی آمد پر کارکنان سڑک پر جمع ہوئے اور اڈیالہ کے نعرے لگانے لگے۔ علی امین گاڑی سے نہیں اترے بلکہ سیدھا کنٹینر کی طرف بڑھ گئے۔ جب وہ کنٹینر پر بیٹھے تو ریلی کا باقاعدہ آغاز ہوا، لیکن کارکنان کا ایک ہی نعرہ تھا: اڈیالہ جیل چلو عمران خان کو رہا کرو۔

مزید پڑھیں: حکومت اور پی ٹی آئی مذاکرات، عمران خان سے خفیہ رابطے، 9 مئی کے مجرمان کے لیےمعافی

سخت گرمی کے باوجود کارکنان گھروں سے نکلے۔ سابق صوبائی وزیر تیمور جھگڑا اپنے حلقے کے کارکنان کو لے کر ریلی میں شریک ہوئے۔ راستے میں مختلف مقامات پر منتخب نمائندے بھی کارکنان کو ساتھ لے کر ریلی میں شامل ہوتے گئے۔ اس طرح کارکنان 6 سے 7 گھنٹے پیدل چل کر حیات آباد ٹول پلازہ سے جی ٹی روڈ قلعہ بالا حصار پہنچے، جبکہ وزیر اعلیٰ اور دیگر رہنما کنٹینر پر بیٹھے رہے۔

عمران خان کی رہائی کے لیے نکالی گئی احتجاجی ریلی جب جی ٹی روڈ، قلعہ بالا حصار کے سامنے پہنچی تو صورتحال اچانک بدل گئی۔ کارکنان کافی دیر سے وزیر اعلیٰ کا انتظار کر رہے تھے اور ان کا خیال تھا کہ علی امین کنٹینر پر کھڑے ہو کر خطاب کریں گے اور آئندہ کا لائحہ عمل پیش کریں گے۔ لیکن کارکنان کو اس وقت مایوسی ہوئی جب علی امین بالا حصار کے قریب پہنچتے ہی کنٹینر سے اتر کر سرکاری پروٹوکول میں وزیراعلیٰ ہاؤس روانہ ہو گئے۔ اس پر کارکنان نے ان کا راستہ روکنے کی کوشش کی، لیکن سیکیورٹی پر مامور پولیس اہلکاروں نے انہیں پیچھے ہٹا دیا۔ ناراض کارکنان نے علی امین کے خلاف نعرے بازی شروع کر دی۔

شمس خان نامی ایک کارکن نے بتایا کہ وہ کئی گھنٹوں سے کام کاج چھوڑ کر علی امین کو سننے آئے تھے، لیکن وہ تو آخر میں چلے گئے۔ انہوں نے کہا کہ وہ جاننا چاہتے تھے کہ اس احتجاج کا کیا نتیجہ نکلا۔ علی امین کو بتانا چاہیے تھا کہ عمران خان کی رہائی کے لیے وہ کیا کر رہے ہیں اور آئندہ کا کیا پلان ہے۔

مزید پڑھیں: 9 مئی : مقتدر حلقوں نے پی ٹی آئی قیادت کو پیغام دیدیا

ایک اور کارکن، علی احمد نے کہا کہ قائدین نے کارکنان کو مایوسی میں مبتلا کردیا ہے۔ ہر بار ہم نکلتے ہیں اور ہر بار مایوسی سے واپس لوٹتے ہیں، کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ علی امین ہر وقت بھاگتے ہیں۔ ڈی چوک، اسلام آباد مارچ اور اب پشاور میں بھی کارکنان کا سامنا نہیں کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ لگتا ہے قیادت عمران خان کی رہائی میں سنجیدہ نہیں، آپس میں الجھے ہوئے ہیں اور کرسی کی لڑائی میں عمران خان کو بھول گئے ہیں۔

ذیشان نامی کارکن کا ماننا تھا کہ جلسہ کامیاب تھا۔ یہ سچ ہے کہ جتنے لوگ پہلے جلسوں میں نکلتے تھے، اب اتنے لوگ نہیں نکلتے۔ خان کی بات ہی الگ ہے۔ وہ آج ہوتے تو تعداد لاکھوں میں ہوتی۔ ورکرز فوری نتائج چاہتے ہیں جو شاید ممکن نہیں۔ علی امین ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں، ہر جگہ پہنچتے ہیں، لیکن رہائی دلانا ان کے بس کی بات نہیں۔

سینیئر صحافی عارف حیات، جو پی ٹی آئی ریلی میں بھی موجود تھے، نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے کارکن بے لگام ہیں اور وہ عمران خان کے سوا کسی کا لحاظ نہیں کرتے۔ انہوں نے بتایا کہ ریلی کے اختتام پر بھی کارکنوں نے علی امین کو نہیں بخشا۔ یہ قیادت پر اعتماد کا فقدان ہے۔ کارکنوں کو لگتا ہے کہ علی امین سنجیدہ نہیں ہیں، وہ کارکنوں کو نکال کر خود بھاگ جاتے ہیں، اور احتجاج کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔

مزید پڑھیں: روپوشی کے دوران کئی مرتبہ بھیس بدلا، پی ٹی آئی رہنما شیخ امتیاز

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی قیادت کے آپسی اختلافات سے بھی کارکن باخبر ہیں اور اسی وجہ سے اب موجودہ قیادت پر زیادہ اعتبار نہیں رہا۔

خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ 5 اگست کو پی ٹی آئی نے پورے ملک میں احتجاج کیا۔ سختیوں اور گرفتاریوں کے باوجود بھی کارکن اور قائدین سڑکوں پر نکلے۔ انہوں نے کہا کہ احتجاج کرکے یہ پیغام دیا گیا کہ پاکستان خان کے ساتھ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان کے لیے دوبارہ بھی نکلیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اڈیالہ جیل پی ٹی آئی علی امین گنڈاپور عمران خان

متعلقہ مضامین

  • سکھر: بااثر شخص کا طالبہ کو دوستی کا پیغام، اغواء کی کوشش، 9 افراد پر مقدمہ درج
  • پی ٹی آئی 5اگست احتجاج؛ مرد کارکنان کا جسمانی ریمانڈ منظور، خواتین جیل منتقل
  • پولیس کا بس چلے تو گھروں کا سامان بھی اٹھا کر لے جائے، تفتیش کریں لوٹ مار نہیں. سندھ ہائیکورٹ
  • پولیس کا بس چلے تو گھروں کا سامان بھی اٹھا کر لے جائے، تفتیش کریں لوٹ مار نہیں، سندھ ہائیکورٹ
  • بحریہ ٹاؤن کے خلاف ملک بھر میں کون سے مقدمات زیر سماعت ہیں؟
  • فیض آباد احتجاج کیس، علی امین گنڈاپور کا اشتہاری کا سٹیٹس ختم نہ ہو سکا
  • فیض آباد احتجاج کیس، وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کا اشتہاری کا سٹیٹس ختم نہ ہو سکا
  • فیض آباد احتجاج کیس: گواہوں کے بیانات مؤخر، سماعت ملتوی
  • 5اگست احتجاج؛ پی ٹی آئی کے 16 مرد و خواتین کارکنان کیخلاف مقدمہ درج
  • پی ٹی آئی 5 اگست احتجاج: علی امین کے خلاف نعرے، کیا قیادت ورکرز کا اعتماد کھو رہی ہے؟