ایران امریکا:1953 کی بغاوت سے 2025 کے حملوں تک
اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT
مشرق وسطیٰ میں اگر کوئی ایک ملک امریکا کا مستقل ترین اور نظریاتی حریف رہا ہے، تو وہ ایران ہے۔ یہ تصادم صرف موجودہ جنگی کشیدگی یا سفارتی بیان بازی تک محدود نہیں بلکہ اس کے سائے گزشتہ 7 دہائیوں سے عالمی سیاست پر پڑتے رہے ہیں۔ تیل، نظریات، انقلاب، خفیہ آپریشنز اور جوہری معاہدے، یہ سب ایران امریکا تعلقات کی تاریخ میں شامل ایسے ابواب ہیں جو بار بار دنیا کو جھنجھوڑ چکے ہیں۔ آئیے، ایران اور امریکا کے درمیان کشمکش کی اس تاریخی شاہراہ پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
1953: مصدق کی برطرفی اور شاہ کی واپسیایرانی عوام نے 1951 میں محمد مصدق کو وزیر اعظم منتخب کیا، جنہوں نے برطانوی تسلط سے نکلنے کے لیے آئل کمپنی کو قومیانے کی کوشش کی۔ یہ اقدام برطانیہ اور امریکا کو سخت ناگوار گزرا۔ چنانچہ سی آئی اے اور ایم آئی 6 کی مدد سے 1953 میں مصدق حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور شاہ رضا پہلوی کو دوبارہ اقتدار میں لایا گیا۔ اس امریکی مداخلت نے ایرانی قوم میں مغرب سے بدگمانی کی بنیاد ڈال دی۔
شاہ ایران نے جوہری توانائی کے پرامن استعمال کے لیے امریکا سے معاہدہ کیا۔ امریکا نے ایران کو ری ایکٹر اور یورینیم فراہم کیا۔ یہی بنیاد بعد میں ایران کے متنازع جوہری پروگرام کا نقطہ آغاز بنی۔
شاہ کی آمریت اور مغربی اثر و رسوخ کے خلاف عوامی بغاوت نے ایران کا نقشہ بدل دیا۔ آیت اللہ روح اللہ خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب آیا، شاہ ملک چھوڑ کر فرار ہوئے، اور ایران میں ایک نئی نظریاتی ریاست قائم ہوئی۔ ایران کے مغرب سے تعلقات اس لمحے سے شدید تناؤ کا شکار ہو گئے۔
شاہ کی امریکا میں آمد پر ایرانی طلبا نے تہران میں امریکی سفارت خانے پر قبضہ کرکے 52 امریکیوں کو یرغمال بنا لیا۔ یہ بحران 444 دن تک جاری رہا اور امریکا نے ایران سے سفارتی تعلقات ختم کر دیے۔
ایران میں انقلاب کے اثرات کو کم کرنے کے لیے عراق نے ایران پر حملہ کر دیا۔ امریکا نے صدام حسین کی کھل کر حمایت کی، اسلحہ، انٹیلی جنس اور سیاسی امداد فراہم کی۔ عراق نے جنگ کے دوران کیمیائی ہتھیار بھی استعمال کیے۔
لبنان میں امریکی فوجیوں پر مہلک حملوں کے بعد امریکا نے ایران کو دہشتگردوں کا سرپرست قرار دیا۔ اگرچہ بعد میں صدر ریگن نے پس پردہ ایران سے مذاکرات کیے تاکہ یرغمالیوں کی رہائی ممکن ہو سکے، مگر جب یہ بات منظر عام پر آئی تو ’ایران-کانٹرا اسکینڈل‘ (Iran–Contra Affair) امریکی سیاست کے لیے ایک بھونچال بن گیا۔
خلیج فارس میں کشیدگی کے دوران ایک امریکی جنگی بحری جہاز نے ایران کے مسافر طیارے کو مار گرایا، جس میں 290 افراد جاں بحق ہوئے۔ امریکہ نے اسے غلطی قرار دیا اور کبھی باقاعدہ معافی نہیں مانگی، البتہ لواحقین کو معاوضہ دیا گیا۔
صدر بل کلنٹن کے دور میں ایران پر معاشی پابندیاں سخت کر دی گئیں۔ امریکی کمپنیوں پر ایران سے لین دین پر پابندی عائد ہوئی، اور دیگر ملکوں کو بھی ایرانی توانائی اور اسلحہ کے شعبے میں سرمایہ کاری سے روکنے کی کوشش کی گئی۔
نائن الیون کے بعد صدر جارج بش نے ایران کو عراق اور شمالی کوریا کے ساتھ ’برائی کے محور‘ (Axis of Evil) میں شامل کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت ایران امریکا کے ساتھ طالبان اور القاعدہ کے خلاف خفیہ تعاون کر رہا تھا، جو اس اعلان سے ختم ہوگیا۔
صدر باراک اوباما کی کوششوں سے ایران، امریکا اور عالمی طاقتوں کے درمیان تاریخی معاہدہ JCPOA (Joint Comprehensive Plan of Action) طے پایا، جس میں ایران نے یورینیم افزودگی کی سطح محدود کرنے پر اتفاق کیا اور بدلے میں عالمی پابندیاں نرم کی گئیں۔
صدر ٹرمپ نے (Joint Comprehensive Plan of Action) معاہدے کو تباہ کن قرار دے کر یکطرفہ طور پر ختم کر دیا۔ ایران پر نئی پابندیاں لگیں، اور کشیدگی میں شدت آ گئی۔
امریکا نے بغداد میں ایرانی قدس فورس کے سربراہ جنرل سلیمانی کو ڈرون حملے میں شہید کردیا۔ یہ اقدام فریقین کو ایک بڑے تصادم کے دہانے پر لے آیا۔ ایران نے عراق میں امریکی اڈوں پر جوابی حملے کیے۔
مارچ 2025 میں ٹرمپ نے آیت اللہ خامنہ ای کو خط لکھا اور 60 دن کے اندر نئے معاہدے کی پیشکش کی۔ ایران نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ مذاکرات نہیں، مطالبات کر رہا ہے۔ پھر عمان اور اٹلی میں غیر رسمی بات چیت شروع ہوئی۔
حالات بہتر ہونے ہی والے تھے کہ اسرائیل نے ایران پر اچانک حملہ کر دیا۔ ٹرمپ نے اسرائیل کو باز رہنے کا مشورہ دیا، مگر ناکامی پر امریکا نے خود ایران کی 3 اہم جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا۔
ایران اور امریکا کے تعلقات پیچیدہ، متنازع اور خونریز تاریخ پر مشتمل ہیں۔ ہر دور میں بداعتمادی، مفادات کی جنگ اور عالمی اثر و رسوخ کی کشمکش ان تعلقات کو نئی جہت دیتی رہی ہے۔ 2025 میں بھی حالات کشیدہ ہیں، مگر سوال اب بھی وہی ہے کہ میز پر بندوق رکھ کر مذاکرات کی بیل کبھی منڈھے چڑھ سکے گی؟
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایران امریکا ایران امریکا جوہری معاہدہ ایران امریکا مذاکرات باراک اوبامہ بل کلنٹن تہران ایران امریکا اور امریکا میں امریکی میں ایران امریکا نے نے ایران ایران نے ایران پر ایران کے ایران کو کے لیے
پڑھیں:
ایران پر امریکی حملے کے بعد روس کا ردعمل بھی آگیا
ماسکو:روس کی وزارت خارجہ نے ایران پر اسرائیل کے حملوں کے بعد امریکا کی جانب سے جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کے اقدام کی سختی سے مذمت کرتے ہوئے اس سے سلامتی کونسل کی قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی قرار دیا اور اقوام متحدہ، آئی اے ای اے اور دیگر اداروں سے سخت مؤقف اپنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
روس کی وزارت خارجہ نے ایران پر امریکی حملوں کے بعد جاری بیان میں کہا کہ اسرائیل کے حالیہ حملوں کے بعد ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکا کے حملوں کی سختی سے مذمت کرتے ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ ایک خودمختار ریاست کی سرزمین پر میزائل اور فضائی حملے، پیش کردہ جواز سے قطع نظر بین الاقوامی قانون، اقوام متحدہ کے چارٹر اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔
روس نے کہا کہ اقوام متحدہ نے مسلسل اور واضح طور پر ایسے اقدامات کو ناقابل قبول قرار دیا ہے، خاص طور پر اس حقیقت سے متعلق ہے کہ یہ حملے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک مستقل رکن نے کیے تھے۔
ایران پر حملے پر بیان میں کہا گیا کہ اس کارروائی کے نتائج بشمول ممکنہ تابکاری اثرات کا تعین ہونا باقی ہے، اس حملے سے خطے اور عالمی سطح پر سلامتی کو مزید غیر مستحکم کرنے کا خطرہ ہے اور مشرق وسطیٰ میں ایک بڑے تنازع کے امکانات میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور یہ خطہ پہلے ہی متعدد بحرانوں سے دوچار ہے۔
روس کی وزارت خارجہ نے کہا کہ ایرانی جوہری تنصیبات پر حملوں نے جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) کے ارد گرد بنائے گئے عدم پھیلاؤ کی عالمی حکومت کو کافی دھچکا پہنچایا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ انہوں نے این پی ٹی کی ساکھ اور انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی(آئی اے ای اے) کی نگرانی اور تصدیق کے طریقہ کار کی سالمیت کو نمایاں طور پر نقصان پہنچایا ہے اور توقع ہے آئی اے ای اے کی قیادت فوری، پیشہ ورانہ اور شفاف طریقے سے جواب دے گی۔
روس نے کہا کہ امید ہے آئی اے ای اے مبہم زبان یا سیاسی برابری کے پیچھے چھپانے کی کوششوں سے گریز کرے گی، اس کے لیے ڈائریکٹر جنرل کی جانب سے غیر جانب دارانہ اور معروضی رپورٹ کی ضرورت ہے، جس سے ایجنسی کے آنے والے خصوصی اجلاس میں غور کے لیے پیش کیا جانا چاہیے۔
وزارت خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بھی سخت مؤقف اختیار کرنا چاہیے، امریکا اور اسرائیل کے تصادم اور عدم استحکام کے اقدامات کو اجتماعی طور پر مسترد کیا جانا چاہیے۔
روس نے بیان میں کہا کہ ہم جارحیت کے فوری خاتمے اور حالات کو پرامن سفارتی راستے پر لانے کے لیے کوششیں تیز کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔