WE News:
2025-11-07@14:22:59 GMT

ایران امریکا:1953 کی بغاوت سے 2025 کے حملوں تک

اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT

مشرق وسطیٰ میں اگر کوئی ایک ملک امریکا کا مستقل ترین اور نظریاتی حریف رہا ہے، تو وہ ایران ہے۔ یہ تصادم صرف موجودہ جنگی کشیدگی یا سفارتی بیان بازی تک محدود نہیں بلکہ اس کے سائے گزشتہ 7 دہائیوں سے عالمی سیاست پر پڑتے رہے ہیں۔ تیل، نظریات، انقلاب، خفیہ آپریشنز اور جوہری معاہدے، یہ سب ایران امریکا تعلقات کی تاریخ میں شامل ایسے ابواب ہیں جو بار بار دنیا کو جھنجھوڑ چکے ہیں۔ آئیے، ایران اور امریکا کے درمیان کشمکش کی اس تاریخی شاہراہ پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

1953: مصدق کی برطرفی اور شاہ کی واپسی

ایرانی عوام نے 1951 میں محمد مصدق کو وزیر اعظم منتخب کیا، جنہوں نے برطانوی تسلط سے نکلنے کے لیے آئل کمپنی کو قومیانے کی کوشش کی۔ یہ اقدام برطانیہ اور امریکا کو سخت ناگوار گزرا۔ چنانچہ سی آئی اے اور ایم آئی 6 کی مدد سے 1953 میں مصدق حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور شاہ رضا پہلوی کو دوبارہ اقتدار میں لایا گیا۔ اس امریکی مداخلت نے ایرانی قوم میں مغرب سے بدگمانی کی بنیاد ڈال دی۔

19 اگست 1953 کو ایران کے جمہوری طور پر منتخب وزیر اعظم محمد مصدق کو بغاوت کے ذریعے اقتدار سے ہٹا دیا 1957: جوہری تعاون کا پرامن استعمال

شاہ ایران نے جوہری توانائی کے پرامن استعمال کے لیے امریکا سے معاہدہ کیا۔ امریکا نے ایران کو ری ایکٹر اور یورینیم فراہم کیا۔ یہی بنیاد بعد میں ایران کے متنازع جوہری پروگرام کا نقطہ آغاز بنی۔

امریکی صدر آئزن ہاور کی ’Atoms for Peace‘ پروگرام کی تقریب میں یادگار تصویر 1979: آمریت اور مغربیت کے خلاف عوامی انقلاب

شاہ کی آمریت اور مغربی اثر و رسوخ کے خلاف عوامی بغاوت نے ایران کا نقشہ بدل دیا۔ آیت اللہ روح اللہ خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب آیا، شاہ ملک چھوڑ کر فرار ہوئے، اور ایران میں ایک نئی نظریاتی ریاست قائم ہوئی۔ ایران کے مغرب سے تعلقات اس لمحے سے شدید تناؤ کا شکار ہو گئے۔

فروری 1979 میں تہران کے بڑے مظاہرے، جن میں لوگ آیت‌ اللہ خمینی کے پوسٹرز اٹھائے نظر آتے ہیں 1980: سفارتی تعلقات منقطع اور یرغمالی بحران

شاہ کی امریکا میں آمد پر ایرانی طلبا نے تہران میں امریکی سفارت خانے پر قبضہ کرکے 52 امریکیوں کو یرغمال بنا لیا۔ یہ بحران 444 دن تک جاری رہا اور امریکا نے ایران سے سفارتی تعلقات ختم کر دیے۔

تہران میں امریکی سفارتخانے پر قبضے کے بعد مظاہرین سفارتخانے کی دیوار پر اور اس کے باہر جمع ہیں 1980-88: ایران عراق جنگ اور امریکی حمایت

ایران میں انقلاب کے اثرات کو کم کرنے کے لیے عراق نے ایران پر حملہ کر دیا۔ امریکا نے صدام حسین کی کھل کر حمایت کی، اسلحہ، انٹیلی جنس اور سیاسی امداد فراہم کی۔ عراق نے جنگ کے دوران کیمیائی ہتھیار بھی استعمال کیے۔

ایران، عراق جنگ کی تباہی کا ایک تاریخی منظر 1984: ایران کو دہشتگرد ریاست قرار دینا

لبنان میں امریکی فوجیوں پر مہلک حملوں کے بعد امریکا نے ایران کو دہشتگردوں کا سرپرست قرار دیا۔ اگرچہ بعد میں صدر ریگن نے پس پردہ ایران سے مذاکرات کیے تاکہ یرغمالیوں کی رہائی ممکن ہو سکے، مگر جب یہ بات منظر عام پر آئی تو ’ایران-کانٹرا اسکینڈل‘ (Iran–Contra Affair) امریکی سیاست کے لیے ایک بھونچال بن گیا۔

’ایران-کانٹرا اسکینڈل‘ (Iran–Contra Affair) امریکی سیاست کے لیے ایک بھونچال بن گیا۔ 1988: ایران ایئر فلائٹ 655 کا سانحہ

خلیج فارس میں کشیدگی کے دوران ایک امریکی جنگی بحری جہاز نے ایران کے مسافر طیارے کو مار گرایا، جس میں 290 افراد جاں بحق ہوئے۔ امریکہ نے اسے غلطی قرار دیا اور کبھی باقاعدہ معافی نہیں مانگی، البتہ لواحقین کو معاوضہ دیا گیا۔

امریکی جنگی بحری جہاز نے ایران کے مسافر طیارے کو مار گرایا، جس میں 290 افراد جاں بحق ہوئے 1995: سخت پابندیاں

صدر بل کلنٹن کے دور میں ایران پر معاشی پابندیاں سخت کر دی گئیں۔ امریکی کمپنیوں پر ایران سے لین دین پر پابندی عائد ہوئی، اور دیگر ملکوں کو بھی ایرانی توانائی اور اسلحہ کے شعبے میں سرمایہ کاری سے روکنے کی کوشش کی گئی۔

صدر بل کلنٹن کے دور میں ایران پر معاشی پابندیاں سخت کر دی گئیں 2002: برائی کا محور اور افغان پس منظر

نائن الیون کے بعد صدر جارج بش نے ایران کو عراق اور شمالی کوریا کے ساتھ ’برائی کے محور‘ (Axis of Evil) میں شامل کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت ایران امریکا کے ساتھ طالبان اور القاعدہ کے خلاف خفیہ تعاون کر رہا تھا، جو اس اعلان سے ختم ہوگیا۔

2015: ایران امریکا جوہری معاہدہ

صدر باراک اوباما کی کوششوں سے ایران، امریکا اور عالمی طاقتوں کے درمیان تاریخی معاہدہ JCPOA (Joint Comprehensive Plan of Action) طے پایا، جس میں ایران نے یورینیم افزودگی کی سطح محدود کرنے پر اتفاق کیا اور بدلے میں عالمی پابندیاں نرم کی گئیں۔

2018: معاہدے سے دستبرداری

صدر ٹرمپ نے (Joint Comprehensive Plan of Action) معاہدے کو تباہ کن قرار دے کر یکطرفہ طور پر ختم کر دیا۔ ایران پر نئی پابندیاں لگیں، اور کشیدگی میں شدت آ گئی۔

2020: جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت

امریکا نے بغداد میں ایرانی قدس فورس کے سربراہ جنرل سلیمانی کو ڈرون حملے میں شہید کردیا۔ یہ اقدام فریقین کو ایک بڑے تصادم کے دہانے پر لے آیا۔ ایران نے عراق میں امریکی اڈوں پر جوابی حملے کیے۔

2025: مذاکرات، فضائی حملے اور جنگ بندی

مارچ 2025 میں ٹرمپ نے آیت اللہ خامنہ ای کو خط لکھا اور 60 دن کے اندر نئے معاہدے کی پیشکش کی۔ ایران نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ مذاکرات نہیں، مطالبات کر رہا ہے۔ پھر عمان اور اٹلی میں غیر رسمی بات چیت شروع ہوئی۔

حالات بہتر ہونے ہی والے تھے کہ اسرائیل نے ایران پر اچانک حملہ کر دیا۔ ٹرمپ نے اسرائیل کو باز رہنے کا مشورہ دیا، مگر ناکامی پر امریکا نے خود ایران کی 3 اہم جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا۔

ایران اور امریکا کے تعلقات پیچیدہ، متنازع اور خونریز تاریخ پر مشتمل ہیں۔ ہر دور میں بداعتمادی، مفادات کی جنگ اور عالمی اثر و رسوخ کی کشمکش ان تعلقات کو نئی جہت دیتی رہی ہے۔ 2025 میں بھی حالات کشیدہ ہیں، مگر سوال اب بھی وہی ہے کہ میز پر بندوق رکھ کر مذاکرات کی بیل کبھی منڈھے چڑھ سکے گی؟

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مشکور علی

ایران امریکا ایران امریکا جوہری معاہدہ ایران امریکا مذاکرات باراک اوبامہ بل کلنٹن تہران جارج بش خمینی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ایران امریکا ایران امریکا جوہری معاہدہ ایران امریکا مذاکرات باراک اوبامہ بل کلنٹن تہران ایران امریکا اور امریکا میں امریکی میں ایران امریکا نے نے ایران ایران نے ایران پر ایران کے ایران کو کے لیے

پڑھیں:

غزہ کے لیے امریکی امن قرارداد، بین الاقوامی فوج کے اختیارات پر اختلاف کا خدشہ

نیویارک: اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکا کی تیار کردہ غزہ امن قرارداد پر بات چیت کا آغاز ہو گیا ہے۔ یہ قرارداد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کی منظوری کے لیے پیش کی جا رہی ہے، تاہم ماہرین کے مطابق بین الاقوامی فوج (ISF) کے دائرہ کار پر اختلافات پیدا ہونے کا امکان ہے۔

امریکا نے اہم عرب اور مسلم ممالک کے نمائندوں کے ساتھ قرارداد پر تفصیلی مذاکرات کیے۔ ایک روز قبل امریکا نے یہ مسودہ قرارداد سلامتی کونسل کے 15 ارکان کو ارسال کی تھی۔ ذرائع کے مطابق مصر، قطر، سعودی عرب، ترکی اور متحدہ عرب امارات اس کے متن کے حق میں ہیں۔

امریکی نمائندہ مائیکل والٹز نے اقوام متحدہ میں 10 منتخب ارکان — الجزائر، ڈنمارک، یونان، گویانا، پاکستان، پانامہ، جنوبی کوریا، سیرالیون، سلووینیا اور سومالیا — کے اجلاس میں منصوبے کے لیے علاقائی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔

رپورٹس کے مطابق قرارداد کا مقصد صدر ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کو تقویت دینا اور بین الاقوامی فورس (ISF) کو بااختیار بنانا ہے تاکہ وہ غزہ میں سیکیورٹی اور انسانی امداد کی نگرانی کر سکے۔

سفارتی ذرائع کے مطابق امریکی مسودہ میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ غزہ کی صورتحال علاقائی امن کے لیے خطرہ ہے، جب کہ عام طور پر اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب 7 کے تحت ایسے اقدامات صرف عالمی امن کے خطرے کی صورت میں کیے جاتے ہیں۔ اس فرق کی وجہ سے مستقبل میں کچھ ممالک قرارداد کے قانونی دائرہ کار پر اعتراض کر سکتے ہیں۔

امریکی مسودے کے مطابق آئی ایس ایف کو شہریوں کے تحفظ، سرحدی سیکیورٹی، اور غزہ کی غیر مسلح کاری کو یقینی بنانے کا اختیار حاصل ہوگا، تاہم مسلم ممالک کے کچھ نمائندوں نے اس نکتے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق فورس میں تقریباً 20 ہزار فوجی شامل ہوں گے۔ امریکا نے اپنے فوجی نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن وہ انڈونیشیا، یو اے ای، مصر، قطر، ترکی اور آذربائیجان کے ساتھ تعاون پر بات چیت کر رہا ہے۔ پاکستان کا نام بھی ممکنہ فوجی شراکت داروں میں شامل ہے، تاہم اسلام آباد نے اس پر تاحال کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ قرارداد کو جلد از جلد ووٹنگ کے لیے پیش کیا جائے گا، اور امکان ہے کہ روس اور چین اپنی رائے دیں گے، لیکن وہ اس منصوبے کو روکنے کی توقع نہیں رکھتے۔

متعلقہ مضامین

  • ایران کیخلاف پابندیوں کے بارے ٹرمپ کا نیا دعوی
  • غزہ کے لیے امریکی امن قرارداد، بین الاقوامی فوج کے اختیارات پر اختلاف کا خدشہ
  • ایران پر اسرائیلی حملے کی "ذمہ داری" میرے پاس تھی، ڈونلڈ ٹرمپ کی شیخی
  • ایران کیخلاف امریکی و اسرائیلی حملوں کی مذمت سے گروسی کا ایک بار پھر گریز
  • یمم
  • امریکا: تین دہائیوں بعد ایٹمی تجربات کا آغاز، بین البراعظمی بیلسٹک میزائل فائر
  • چین اور ایران کا ایرانی جوہری مسئلے پر تفصیلی تبادلہ خیال
  • اگر امریکا نے جوہری تجربات دوبارہ شروع کیے تو روس بھی جوابی اقدامات کریگا، ولادیمیر پیوٹن
  • دیکھتے ہیں ممدانی نیویارک میں کیسا کام کرتے ہیں، ٹرمپ
  • امریکا: بین البراعظمی ’منٹ مین تھری‘ میزائل کا کامیاب تجربہ