ایران نے کس کس طبقے کو طمانچہ رسید کیا!
اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT
اسلام ٹائمز: حق دفاع سے تو کوئی احمق ہی ایران کو روک سکتا تھا، جبکہ اس حق کو استعمال کرتے ہوئے ایران نے ان فرعونوں کو سیز فائر کا یکطرفہ اعلان کرنے پر مجبور کیا۔ تاحال ایران نے سیز فائر کو تسلیم کرنے کا اعلان نہیں کیا۔ اب آنیوالا وقت بتائے گا کہ یکطرفہ حملہ کرکے اپنے منصوبوں میں نامراد رہنے والوں کیطرف سے سیز فائر، جو کہ درحقیقت اعتراف شکست ہی ہے، اس پر یہ قائم رہتے ہیں یا نہیں اور اگر یہ قائم نہیں رہتے تو انکو اب بہت اچھی طرح معلوم ہے کہ انقلاب اسلامی انہیں مزید طاقت کیساتھ جواب دینے سے ہرگز نہیں کترائے گا۔ جتنی ذلت انکے حصے میں آچکی ہے، یہ مزید ذلت آمیز حملوں کا شکار ہوتے رہیں گے۔ تحریر: شریف ولی کھرمنگی، بیجنگ
نام نہاد مہذب مغربی ممالک بالخصوص امریکی و نیٹو اتحاد کی کمک سے حالیہ صیہونی جارحیت سے قبل رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا تھا کہ ہم انہیں بھرپور طمانچہ رسید کریں گے۔ انہوں نے عملاً تاریخی طمانچہ رسید کیا اور دنیا سے منوایا۔ جارح قوتوں کی تدبیریں اپنی موت آپ نہیں مریں، بلکہ انقلاب اسلامی کی جرات و ہمت نے انہیں گھٹنوں پر آنے اور خود ہی جنگ بندی کا اعلان کرنے پر مجبور کیا۔ یہ وہی فرعونی ریاست ہے، جس نے غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، 70 ہزار بے گناہ انسانوں کو قتل کر دیا، دو سال سے جاری اس جارحیت میں تاحال یہ اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہیں ہوسکے، لیکن وہاں اسے سیز فائر پر قائل نہیں کرسکا۔ نہ کسی عرب ملک کی کوشش سے ایسا ممکن ہوسکا، نہ ہی پاکستان جیسے ممالک کیطرف سے امن کے سفیر کہلانے والے صیہونی ریاست سرپرست کو سیز فائر کیلئے پھرتی دکھانے کی ضرورت پڑی۔ یعنی ثابت ہوا کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔
اس پورے دورانیئے میں پاکستان کے بعض دیسی بدفہم سقراط عوام کو اپنی طرح بیوقوف بنانے کی کوششوں میں مصروف رہے۔ غزہ میں ستر ہزار بے گناہوں کو قتل کرنے والے درندوں کی بدمعاشی اور ناجائز حملوں کے باوجود کچھ لوگ ایران کو کہتے رہے کہ وہ تنازع میں نہ پڑے، پنگے مت لے۔ حالانکہ بچے بھی جانتے ہیں کہ تنازع کس نے شروع کیا، پنگہ کس نے کیوں لیا اور مذاکرات کون کرتا رہا۔ ایران نے ایسی واہیات حرکتوں کا عملی جواب دیا اور وہ بھی بھرپور طریقے سے دیا۔ رہبرِ معظم انقلابِ اسلامی کی مدبرانہ قیادت میں ایران کے اقدامات نہ صرف پاکستان کے بدفہم لکھاریوں کو شٹ اپ کال دینے تک محدود نہیں، ان کی نہ کوئی مقامی حیثیت ہے، نہ ہی ان کی محدود سوچ عالمی مسائل کو سمجھنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ ایران نے ہر اس شخص کو ہمیشہ کیلئے سبق یاد کرایا، جو فرعونِ وقت کی طاقت، ٹیکنالوجی، اتحاد، معیشت، جاسوسی نیٹ ورک اور نام نہاد جدت سے مرعوب تھا۔
جو اپنی بادشاہت کو بچانے کیلئے سب کچھ ان مغربی طاقتوں کے آگے نچھاور کرنا ضروری سمجھتے رہے، یہاں تک کہ اپنی لڑکیوں تک کو۔ ایران نے ثابت کیا کہ انسانیت، قومی غیرت اور اسلامی اقدار سب سے اہم ہیں اور وہ مظلوم کی حمایت اور اپنے ملکی وقار پر کسی صورت سمجھوتہ نہیں کرتا۔ ایک طرف ان بدعقل مسلک پرستوں کو بھی ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا گیا، جو کہتے تھے کہ ایران اور اسرائیل اندر سے ملے ہوئے ہیں اور کبھی ایک دوسرے پر حملہ نہیں کریں گے۔ دوسری طرف ان کو بھی منہ توڑ جواب دیا گیا، جو دعویٰ کرتے تھے کہ ایران پراکسی جنگوں کے ذریعے مسلمانوں کو مرواتا ہے اور خود کوئی نقصان نہیں اٹھاتا۔ وہ محدود سوچ والے بھی شرمندہ ہوئے، جو کہتے تھے کہ ایران مغربی ٹیکنالوجی کے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکتا۔
وہ بے وقوف طبقہ جو ایران کی سائنسی ترقی کو خاطر میں نہیں لاتا تھا، اب منہ نہیں کھولتا۔ اسی طرح ان کا بھی منہ بند کر دیا گیا، جو کہتے تھے کہ ایران میں ملاؤں کی آمریت ہے اور عوام کی اکثریت ان سے نفرت کرتی ہے۔ وہ احمق بھی اپنا سا منہ لیکر رہنے پر مجبور ہیں، جو بکواس کرتے تھے کہ ایران روس اور چین کے سہارے چند میزائل بنا سکتا ہے، لیکن ان کے بغیر وہ امریکہ کے سامنے ہتھیار ڈال دے گا۔ وہ تمام سازشی عناصر جو شہنشاہیت کے خواب دیکھ رہے تھے، نظامِ اسلامی کے خاتمے کی خواہش رکھتے تھے اور رہبرِ معظم کو جان سے مار دینے کی دھمکیاں دیتے تھے، وہی اب ایران کے مسلسل اور منہ توڑ جوابی حملوں کے بعد سیز فائر کے لیے عالمی میڈیا پر خبریں پھیلانے پر مجبور ہیں۔
ایران کے جنرلوں اور سائنسدانوں کو تخریب کاری کے ذریعے شہید کرنے والے انسانیت کے دشمن سمجھتے تھے کہ انہیں کوئی جواب نہیں ملے گا۔ یہ فرعونِ وقت اپنے خیال میں ایران کی نیوکلیئر تنصیبات، دفاعی نظام اور جاسوسی نیٹ ورک کے ذریعے نظامِ مملکت کو تبدیل کرچکے تھے۔ صیہونی ریاست، نیٹو کی مادی و سفارتی امداد اور عرب و ترک معاشی حمایت کے ساتھ، ان اہداف کے حصول کے لیے پرعزم تھی۔ وہ سمجھتے رہے کہ ایران کو شام اور غزہ کی طرح تباہ کرکے ناجائز مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے قابضین کو ہمیشہ کے لیے عیاشی کا سامان فراہم کر دیں گے۔ ان شیطانی چالوں کو فرقہ وارانہ اور لبرل تنگ نظری کی بھی بھرپور اور مسلسل حمایت حاصل رہی۔ ایک طبقہ ایران کو ٹیکنالوجی سے عاری ثابت کرنے میں لگا رہا، جبکہ دوسرا اسے اسلامی ممالک کے خلاف قرار دینے کی کوشش کرتا رہا۔
لیکن ایران نے ایک کے بعد ایک، نیٹو اتحاد کو میزائلوں سے ذلیل کیا، تو دوسری طرف امریکی براہ راست حملوں کو پٹاخے سے زیادہ اہمیت نہ دی۔ اس نے صیہونی شہروں کو آگ اور دھوئیں کی نذر کیا اور صیہونی اڈوں پر حملہ کرکے مشرقِ وسطیٰ میں ان کی طاقت کو ہمیشہ کے لیے بے اثر ثابت کیا۔ یہی نہیں کہ گلف کے ان خائن حکمرانوں کو بھی پیغام ملا کہ تم امریکی حفاظت میں ہمیشہ محفوظ نہیں رہ سکتے، جبکہ خود امریکی اپنے بحری بیڑے اور زمینی فوج اور ساز و سامان سمیت اس خوف سے وہاں سے ہٹانے پر مجبور ہوگئے کہ ایرانی میزائل انہیں حیفا اور تل ابیب کی طرح تہس نہس نہ کر دیں۔ ایران نے صیہونی اور مغربی انسان دشمن حرکات کو ہر طرح سے پست ثابت کیا، جو عام شہریوں کو نشانہ بناتی ہیں۔ ہسپتالوں، سکولوں، شہری آبادیوں غرض ہر چیز کو ملیامیٹ کرکے مظلومت کا رونا دھونا بھی خود رچاتی ہے۔
دوسری جانب اپنے عظیم کمانڈروں، سائنسدانوں اور شہریوں کی شہادتوں کے باوجود، ایران نے اپنے میزائل حملوں کو فوجی، جاسوسی اور معاشی اہداف تک محدود رکھا۔ شہری آبادیوں کو ٹارگٹ کرنے پر قدرت رکھنے کے باوجود انہیں ٹارگٹ نہیں کیا۔ اگر کسی کو اخلاقیات اور انسانی اقدار کا ذرا سا بھی شعور ہے، تو اس سے بڑا اخلاقی طمانچہ کیا ہوسکتا ہے، جو ایران نے ان فرعونوں کو رسید کیا۔؟ ان اقدامات سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ رہبرِ معظم انقلابِ اسلامی بڑے پیمانے پر انسان کشی کا سبب بننے والے نیوکلیئر ہتھیار بنا کر ڈیٹرنس کو ضروری کیوں نہیں سمجھتے، جبکہ اپنے ہائپر سونک میزائلوں سے شہادتوں کا بدلہ ہلاکتوں سے لینا ان کے لیے کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ اب جن دانشوروں کو یہ حقائق ماننے میں مشکلات درپیش ہیں، وہ اگر مسلکی اختلاف کیوجہ سے مجبور ہیں تو خود صیہونی اور امریکی اڈوں پر ایران سے بڑا حملہ کرنے کا آپشن رکھتے ہیں۔
اگر لبرل کہلانے والوں کو یہ مشکل ہے تو انہیں چاہیئے کہ لبرل ازم کی الف با سے واقفیت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ فرعون صفت طاقتوں کی من مانیوں کے آگے تسلیم ہونے کے مشورے لبرل ہونا ثابت کرتا ہے، نہ ہی ان کو منہ توڑ جواب دینے کا ہٹ دھرمی میں تسلیم نہ کرنا۔ جن کو نفسیاتی ایشوز ہیں، ان کو کوئی نتیجہ قائل نہیں کرسکتا اور جن کو مغربی ممالک سے شدید قسم کا عشق لاحق ہے، وہ ان کے گوبر کو بھی حلوہ ثابت کرنے والے ہی رہیں گے، حالانکہ ان کی بینا آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ غنڈہ گردی کی تمام حدیں انہی نام نہاد مغربی مہذب طاقتوں نے توڑ دیں، انسان کشی کی کوئی انتہاء نہیں چھوڑی، عالمی قوانین کو روندنے میں کوئی شرم محسوس نہیں، عالمی عدالت انصاف سے مجرم قرار دینے والے کے ہر جرم کا بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا اور دے رہے ہیں۔
جن پر پوری دنیا میں آزاد سوچ رکھنے والے بلاتفریق مذہب و علاقہ سراپا احتجاج ہیں اور حق دفاع سے تو کوئی احمق ہی ایران کو روک سکتا تھا، جبکہ اس حق کو استعمال کرتے ہوئے ایران نے ان فرعونوں کو سیز فائر کا یکطرفہ اعلان کرنے پر مجبور کیا۔ تاحال ایران نے سیز فائر کو تسلیم کرنے کا اعلان نہیں کیا۔ اب آنے والا وقت بتائیگا کہ یکطرفہ حملہ کرکے اپنے منصوبوں میں نامراد رہنے والوں کی طرف سے سیز فائر، جو کہ درحقیقت اعتراف شکست ہی ہے، اس پر یہ قائم رہتے ہیں یا نہیں اور اگر یہ قائم نہیں رہتے تو ان کو اب بہت اچھی طرح معلوم ہے کہ انقلاب اسلامی انہیں مزید طاقت کیساتھ جواب دینے سے ہرگز نہیں کترائے گا۔ جتنی ذلت ان کے حصے میں آچکی ہے، یہ مزید ذلت آمیز حملوں کا شکار ہوتے رہیں گے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انقلاب اسلامی تھے کہ ایران سیز فائر ایران نے ایران کو یہ قائم ہیں اور ہیں کہ کے لیے کو بھی
پڑھیں:
صیہونی کابینہ کے فیصلے پر اسلامی مزاحمتی گروہوں کا ردعمل
فلسطین مزاحمتی کمیٹیرز نے غاصب صیہونی کابینہ کی جانب سے غزہ پر فوجی قبضہ کرنے کی منظوری دیے جانے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے صیہونی حکمرانوں کی بڑی شکست قرار دیا اور کہا کہ یہ رژیم میدان جنگ میں اپنے مدنظر کوئی ایک ہدف بھی حاصل نہیں کر پائی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ فلسطین میں اسلامی مزاحمتی گروہوں کے مشترکہ پلیٹ فارم فلسطین مزاحمتی کمیٹیز نے غاصب صیہونی رژیم کی نیتن یاہو کابینہ کی جانب سے غزہ پر مکمل فوجی قبضے کی منظوری دیے جانے کے فیصلے کی شدید مذمت کی ہے اور اعلان کیا ہے: "غزہ پر مکمل فوجی قبضے پر مبنی صیہونی رژیم کی سیکورٹی کونسل کے فیصے دراصل دشمن کی بحرانی صورتحال، اس کی سیاسی اور آپریشنل کمزوری اور ناتوانی اور صیہونی رژیم کی بڑی شکست کو عیاں کرتے ہیں اور ظاہر ہوتا ہے کہ یہ رژیم اپنا کوئی بھی ہدف حاصل نہیں کر پائی ہے۔" فلسطین مزاحمتی کمیٹیز کے بیانیے میں مزید کہا گیا ہے: "غزہ پر فوجی قبضے پر مبنی جنگی مجرم بنجمن نیتن یاہو کا فیصلہ نسل کشی، جنگی جرائم کی تکمیل، نابودی اور قتل و غارت کا واضح ایجنڈا ہے۔" فلسطین مزاحمتی کمیٹیز نے خبردار کرتے ہوئے کہا: "ہم غزہ میں داخل ہونے والی ہر فورس اور ہر ملک کو دشمن، غاصب اور صیہونی دشمن کے آلہ کار کے طور پر لیں گے اور اس کی تقدیر بھی شکست اور نابودی کے سوا کچھ نہیں ہو گی۔" فلسطین مزاحمتی کمیٹیز نے غاصب صیہونی رژیم کے خلاف جدوجہد جاری رکھنے کے لیے مسلح رہنے پر زور دیتے ہوئے کہا: "مزاحمت کا اسلحہ فلسطینی سرزمین سے غاصبانہ قبضہ مکمل طور پر ختم ہونے تک باقی رہے گا۔"
فلسطین مزاحمتی کمیٹیز نے اپنے بیانیے کے آخر میں کہا: "ہم امت مسلمہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ عوامی سطح پر احتجاج کی کال دیں اور تمام شہروں میں عوام غزہ میں شدید بمباری اور بھوک کے باعث شہید ہوتے ہوئے فلسطینیوں کی حمایت کے لیے سڑکوں پر نکلیں۔" دوسری طرف تحریک مجاہدین فلسطین نے بھی غزہ پر قبضے سے متعلق صیہونی کابینہ کے فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا: "غزہ پر قبضے سے متعلق صیہونی رژیم کی سیکورٹی کابینہ کے فیصلے نسل کشی پر مبنی جنگ کا تسلسل ہے۔" تحریک مجاہدین فلسطین نے مزید کہا: "غاصب صیہونی رژیم کے جارحانہ فیصلوں نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ صیہونی رژیم مذاکرات ناکام ہونے کا اصل سبب ہے۔" اس بیانیے میں مزید کہا گیا ہے: "غزہ ہر قسم کے غاصبانہ اقدام یا جارح قوت کا مقابلہ کرے گا اور ہر گز بیرونی طاقت کو اپنی تقدیر پر مسلط نہیں ہونے دے گا اور جارح طاقتوں کے لیے غاصبانہ قبضہ بڑھانا آسان نہیں ہو گا۔" تحریک مجاہدین فلسطین نے اسلامی مزاحمت کا اسلحہ باقی رکھنے پر زور دیتے ہوئے کہا: "مزاحمت کا اسلحہ فلسطینی عوام کی ملکیت ہے اور جارح قوتوں سے آزادی تک باقی رہے گا۔" اس بیانیے میں عرب اور اسلامی حکومتوں اور اقوام سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ فلسطینی عوام کے حق میں آواز اٹھائیں۔