Daily Ausaf:
2025-09-24@10:04:37 GMT

موجودہ امریکہ سابق صدر جمی کارٹر کی نظر میں

اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
’’گزشتہ بیس برسوں کے دوران عیسائی بنیاد پرستوں نے یسوع مسیح کے اس فرمان کو کھلم کھلا چیلنج اور رد کیا کہ ’’قیصر کا کام قیصر پر چھوڑو اور خداوند کے کام کو خداوند پر‘‘۔ بیشتر امریکی اس بات کو درست سمجھتے ہیں کہ عوام سرکاری پالیسی پر اثر انداز ہوں، تاہم وہ اس امر کو درست نہیں سمجھتے کہ کوئی مذہبی گروہ کسی جمہوری حکومت کے کاموں پر کنٹرول پا لے، یا سرکاری اہل کار مذہبی معاملات میں دخل انداز ہوں، یا کچھ خاص مذہبی اداروں کے حق میں قوانین یا ٹیکس محاصل کو استعمال کریں۔‘‘ (ص ۶۲)
’’میں نے پوپ کی دوسرے عیسائیوں کے علاوہ یہودیوں اور مسلمانوں میں تبلیغ کی کوششوں کو سراہا، اور چرچ کو عالمی اہمیت دلوانے کی ان کی جدوجہد کی تحسین کی۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ آزادانہ تبادلۂ خیال کو پسند کرتے ہیں۔ چنانچہ میں نے عورتوں کو کمتر سمجھنے اور انہیں پادری نہ بنانے کے ان کے فیصلے سے اختلاف کیا۔ میں سمجھتا تھا کہ یہ اولین عیسائی چرچ کے لیے ان کے کردار کی توہین ہے۔‘‘ (ص ۶۳)
’’مجھ سے پوچھا جانے لگا ہے کہ کیا کبھی میرے عیسائی عقائد اور صدر کی حیثیت سے میرے دنیاوی (سیکولر) فرائض کے درمیان تصادم پیدا ہوا تھا؟ کچھ معاملات میں ایسا ہوا تھا تاہم میں نے ہمیشہ اپنے اس حلف کا احترام کیا کہ میں ’’ریاستہائے متحدہ امریکہ کے آئین کا تحفظ اور دفاع کروں گا‘‘۔ مثال کے طور پر میرا ایمان ہے کہ یسوع مسیح اسقاط حمل یا سزائے موت کو کبھی قبول نہ کرتے، تاہم میں نے اپنی بہترین اہلیت کے مطابق سپریم کورٹ کے اس نوع کے فیصلوں کی تعمیل کی۔ اس کے ساتھ ہی میں نے اپنے خیال کے مطابق ان کے منفی اثرات کو کم کرنے کی کوششیں بھی کیں۔‘‘ (ص ۶۵)
’’۲۰۰۰ء میں جنوبی بیپٹسٹ کنونشن کے لیڈروں نے اپنے اصولوں میں سے اس اصول کو نکال دیا کہ ’’ریاست مذہب کی کسی بھی صورت (form) کی مدد کے لیے ٹیکس عائد کرنے کا حق نہیں رکھتی‘‘۔ اس کے بعد انہوں نے پرائیویٹ اسکولوں کے لیے واؤچر بنائے اور پبلک اسکولوں میں عبادت کو لازمی قرار دینے کے لیے آئین میں ترمیم کا مطالبہ کیا اور چرچ اور ریاست کی علیحدگی کو کھلم کھلا چیلنج کرنے لگے۔‘‘ (ص ۶۸)
’’جولائی ۲۰۰۵ء میں سپریم کورٹ کی جسٹس سانڈراڈے اوکونر نے اپنی ریٹائرمنٹ کے اعلان کے فوری بعد کہا تھا ’’میں نے اپنی ساری زندگی میں کانگریس کے ارکان اور عدلیہ کے تعلقات کو اتنا داغدار کبھی نہیں دیکھا جتنا کہ اب ہیں ۔۔۔۔ اور میں یہ دیکھ کر بہت دل گرفتہ ہوں۔ موجودہ فضا ایسی ہے کہ میں وفاقی عدلیہ کے مستقبل کے بارے میں فکرمند ہوں۔‘‘ (ص ۷۰)
’’۲۰۰۶ء کے صدارتی انتخاب کی مہم کے دوران صدارت کے دونوں امیدواروں نے ہم جنس پرستوں کی شادی کی مخالفت کی تھی۔ تاہم قانونی طور پر تسلیم شدہ یونینوں کے ذریعے مرد اور عورت ہم جنس پرست جوڑوں کو مساویانہ شہری حقوق دینے کی منظوری دی تھی۔‘‘ (ص ۷۴)
’’ہم سب خاندانی اقدار اور شادی کی روایت کے استحکام کو انتہائی اہم تصور کرتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ کالج پہنچنے سے پہلے تک میں کسی طلاق یافتہ شخص سے واقف نہیں تھا۔ تاہم اب طلاق خطرناک حد تک عام ہو چکی ہے۔ تمام امریکی بالغوں میں سے ۲۵ فیصد کو کم از کم ایک مرتبہ طلاق ہو چکی ہے۔ طلاق کی تعداد میں کمی بیشی مذہبی وابستگی اور عمر کی مناسبت سے مختلف ہے۔ بڑے عیسائی گروپوں میں سے بیپٹسٹ سب سے اوپر ہیں ۲۹ فیصد، جبکہ کیتھولک اور لوتھرن طلاق یافتگان ۲۱ فیصد ہیں۔ ایشائیوں کے استثناء کے ساتھ صرف ۹ فیصد، پروٹیسٹنٹوں کے سینئر پیسٹر سب سے کم طلاق یافتہ گروپ تھا ۱۵ فیصد۔ بے بی بومرز (baby boomers) ۳۴ فیصد کو پہنچ چکے ہیں۔ ۵۳ سال سے ۷۲ سال کی عمر کے درمیان کی عمر والے افراد ۳۷ فیصد، جبکہ بوڑھے افراد میں صرف ۱۸ فیصد طلاق یافتہ ہیں۔ شادی کے تقدس کو لاحق اس خطرے کی وجوہ بہت سی ہیں لیکن بعض لوگ ہم جنس پرستی کو شادیوں کی ناکامی میں بہت زیادہ اضافے کا ایک اہم سبب تصور کرتے ہیں۔‘‘ (ص ۷۴)
’’نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کینیڈا اور یورپ کے بچے بھی جنسی اعتبار سے امریکی بچوں ہی کی طرح فعال ہیں۔ تاہم مناسب سیکس ایجوکیشن سے محروم امریکی لڑکیاں فرانسیسی لڑکیوں کی نسبت پانچ گنا زیادہ تعداد میں ایک بچے کی ماں ہوتی ہیں، سات گنا زیادہ امریکی لڑکیاں ایک مرتبہ اسقاط حمل کروا چکی ہوتی ہیں۔ اور نیدر لینڈ کی لڑکیوں کے مقابلے میں ۷۷ گنا زیادہ امریکی لڑکیاں سوزاک کا شکار ہو چکی ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ جرمنی کے ٹین ایجروں کے مقابلے میں ۵ گنا زیادہ امریکی ٹین ایجر ’’ایچ آئی وی ایڈز‘‘ کا شکار ہوتے ہیں۔ (ص ۸۰)
’’اگرچہ امریکہ کی خارجہ پالیسی پر بہت سے دوسرے پیچیدہ سیاسی عناصر نے منفی اثر ڈالا ہے، تاہم بنیاد پرستوں نے جذباتی معاملات پر شعلہ بیانی کر کے اور مخالفوں سے مذاکرات سے گریز کر کے امریکی خارجہ پالیسی کی صورت بگاڑ دی ہے۔ ایک اہم مثال یہ ہے کہ چند امریکی سیاسی لیڈروں نے فیڈل کاسترو کو ایک ولن کے طور پر قبول کر رکھا ہے اور انہوں نے کیوبا جیسے چھوٹے سے، عسکری اعتبار سے بانجھ ملک کو ہمارے ملک کی سلامتی اور ثقافت کو درپیش سب سے بڑا خطرہ بنا دیا ہے۔‘‘ (ص ۱۰۳)
’’مذہب اور حکومت کا ایک انتہائی عجیب امتزاج، امریکہ کی مشرق وسطٰی میں پالیسی پر کچھ عیسائی بنیاد پرستوں کا بھرپور اثر ہے۔ امریکہ میں تقریباً ہر شخص بارہ کتابوں پر مشتمل (Left Behind) سیریز سے واقف ہے جس کے مصنف ٹم لاہے اور جیری بی جینکنس ہیں۔ ان کتابوں نے فروخت کے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ انہوں نے یہ کتابیں بائبل کی احتیاط سے منتخب کردہ عبارتوں خصوصاً ’’بک آف ریویلیشن‘‘ سے لی گئی عبارتوں کی اساس پر لکھی ہیں اور ان میں دنیا کے ختم ہونے کی منظر کشی کی گئی ہے۔ جب مسیح واپس آئے گا تو سچے ایمان والوں کو آسمان پر اٹھا لیا جائے گا، جہاں وہ خداوند کے ساتھ نیچے رہ جانے والے بیشتر انسانوں کی اذیتوں کا نظارہ کریں گے۔ یہ واقعہ لمحاتی ہو گا اور اس کا وقت پہلے نہیں بتایا جا سکتا۔ میرے لاکھوں ساتھی بیپٹسٹ اور دوسرے لوگ ایسے ہیں جو اس نظریے پر لفظًا یقین رکھتے ہیں اور خود کو چند منتخب لوگوں میں شامل سمجھتے ہیں، اور ’’دہشت و اذیت کے دور‘‘ میں نجات کے لیے منتخب نہ کیے جانے والے اپنے افراد خانہ، دوستوں اور ہمسایوں کو چھوڑنے اور ان کی مذمت پر تیار ہیں۔
امریکی حکومت کی پالیسیوں میں ایسے نظریات کا سمویا جانا تشویش کا سبب ہے۔ ان ایمان والوں کو یقین ہے کہ اس (Rapture) کی جلد آمد اُن کی شخصی ذمہ داری ہے تاکہ بائبل کی پیشگوئی پوری ہو۔ ان کے ایجنڈے میں مشرق وسطٰی میں اسلام کے خلاف جنگ کرنا اور یہودیوں کا ساری ارض مقدس کو چھین لینا شامل ہے۔ ساتھ ہی سارے عیسائیوں اور غیر یہودیوں کو وہاں سے نکال دیا جائے گا۔ اس کے بعد کافر (اینٹی کرائسٹ ) اس علاقے کو فتح کر لیں گے اور مسیح فتح پائے گا۔ Rapture کے زمانے میں سارے یہودی یا تو عیسائیت قبول کر لیں گے یا انہیں جلا دیا جائے گا۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: گنا زیادہ کے لیے اور ان

پڑھیں:

پی ٹی آئی سوشل میڈیا ایکٹوسٹ فلک جاوید گرفتار‘ بازیابی کیلئے درخواست دائر

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 24 ستمبر2025ء ) پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والی سوشل میڈیا ایکٹوسٹ فلک جاوید خان کو گرفتار کرلیا گیا جن کی بازیابی کیلئے درخواست دائر کردی گئی۔ تفصیلات کے مطابق سوشل میڈیا ایکٹوسٹ صنم جاوید کی بہن فلک جاوید کی بازیابی کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی گئی ہے، درخواست فلک جاوید کے والد جاوید اقبال کی جانب سے ایڈووکیٹ میاں علی اشفاق نے دائر کی جنہوں نے درخواست میں مؤقف اپنایا ہے کہ فلک جاوید کو عدالت کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا جائے اور ان کے خلاف درج مقدمات کی تفصیلات فراہم کی جائیں، درخواست میں عدالت سے یہ بھی استدعا کی گئی ہے کہ اس کیس کی سماعت آج ہی کی جائے۔

بتایا جارہا ہے کہ فلک جاوید کو رات گئے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے حراست میں لیے جانے کی اطلاعات سامنے آئی تھیں تاہم اس حوالے سے ان پر کس نوعیت کا مقدمہ قائم کیا گیا ہے اس کے بارے میں تاحال کچھ بھی واضح نہیں ہوسکا تاہم مبینہ طورپر ان کی گرفتاری پیکا ایکٹ کے تحت بتائی گئی اور گرفتاری سے قبل فلک جاوید کی طرف سے اپنے شوہر کو اطلاع دی گئی تھی کہ انہیں گرفتار کرنے آئے ہیں۔

(جاری ہے)

معلوم ہوا ہے کہ فلک جاوید خان کو جس وقت گرفتار میں کیا گیا تو وہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پاکستان تحریکِ انصاف کے چند رہنماؤں کے ہمراہ موجود تھیں جہاں سے انہیں 27 ستمبر کو عمران خان کے علان کردہ پاکستان تحریک انصاف کے پشاور میں ہونے والے جلسے کے لیے روانہ ہونا تھا تاہم اسلام آباد پولیس نے اچانک چھاپہ مار کر انہیں مبینہ طورپر اپنی حراست میں لے لیا۔                                                      

متعلقہ مضامین

  • سابق دشمن آمنے سامنے، احمد الشرع کو گرفتار کرکے 5 سال قید میں رکھنے والے امریکی جنرل کا ان سے انٹرویو
  • پی ٹی آئی سوشل میڈیا ایکٹوسٹ فلک جاوید گرفتار‘ بازیابی کیلئے درخواست دائر
  • ٹرمپ کا ویزہ وار۔۔ مودی کی سفارتی شکست
  • حماس کا صدر ٹرمپ کو خط، غزہ جنگ بندی کے لیے بڑی پیشکش کردی، امریکی ٹی وی
  • موجودہ آمدن میں گزارا ہورہا ہے، سروے میں اخراجات پورا ہونے کا کہنے والے افراد کی شرح دگنی ہوگئی
  • موجودہ آمدن میں گزارا ہورہا ہے، 51 فیصد پاکستانیوں کاموقف
  • سروے رپورٹ: موجودہ آمدن میں اخراجات پورے کرنے والوں کی شرح میں نمایاں اضافہ
  • اسٹاک ایکسچینج میں تیزی، 100 انڈیکس بلند ترین سطح پر
  • ٹرمپ کی ویزا پالیسی سے بھارتی آئی ٹی انڈسٹری کو بڑا دھچکا، لاگت بڑھنے کا خدشہ
  • ایران کی چا بہار بندرگاہ پر امریکی پابندیاں بھارت کیلئے ایک اور بڑا دھچکا ہے; سردار مسعود خان