موجودہ امریکہ سابق صدر جمی کارٹر کی نظر میں
اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
’’گزشتہ بیس برسوں کے دوران عیسائی بنیاد پرستوں نے یسوع مسیح کے اس فرمان کو کھلم کھلا چیلنج اور رد کیا کہ ’’قیصر کا کام قیصر پر چھوڑو اور خداوند کے کام کو خداوند پر‘‘۔ بیشتر امریکی اس بات کو درست سمجھتے ہیں کہ عوام سرکاری پالیسی پر اثر انداز ہوں، تاہم وہ اس امر کو درست نہیں سمجھتے کہ کوئی مذہبی گروہ کسی جمہوری حکومت کے کاموں پر کنٹرول پا لے، یا سرکاری اہل کار مذہبی معاملات میں دخل انداز ہوں، یا کچھ خاص مذہبی اداروں کے حق میں قوانین یا ٹیکس محاصل کو استعمال کریں۔‘‘ (ص ۶۲)
’’میں نے پوپ کی دوسرے عیسائیوں کے علاوہ یہودیوں اور مسلمانوں میں تبلیغ کی کوششوں کو سراہا، اور چرچ کو عالمی اہمیت دلوانے کی ان کی جدوجہد کی تحسین کی۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ آزادانہ تبادلۂ خیال کو پسند کرتے ہیں۔ چنانچہ میں نے عورتوں کو کمتر سمجھنے اور انہیں پادری نہ بنانے کے ان کے فیصلے سے اختلاف کیا۔ میں سمجھتا تھا کہ یہ اولین عیسائی چرچ کے لیے ان کے کردار کی توہین ہے۔‘‘ (ص ۶۳)
’’مجھ سے پوچھا جانے لگا ہے کہ کیا کبھی میرے عیسائی عقائد اور صدر کی حیثیت سے میرے دنیاوی (سیکولر) فرائض کے درمیان تصادم پیدا ہوا تھا؟ کچھ معاملات میں ایسا ہوا تھا تاہم میں نے ہمیشہ اپنے اس حلف کا احترام کیا کہ میں ’’ریاستہائے متحدہ امریکہ کے آئین کا تحفظ اور دفاع کروں گا‘‘۔ مثال کے طور پر میرا ایمان ہے کہ یسوع مسیح اسقاط حمل یا سزائے موت کو کبھی قبول نہ کرتے، تاہم میں نے اپنی بہترین اہلیت کے مطابق سپریم کورٹ کے اس نوع کے فیصلوں کی تعمیل کی۔ اس کے ساتھ ہی میں نے اپنے خیال کے مطابق ان کے منفی اثرات کو کم کرنے کی کوششیں بھی کیں۔‘‘ (ص ۶۵)
’’۲۰۰۰ء میں جنوبی بیپٹسٹ کنونشن کے لیڈروں نے اپنے اصولوں میں سے اس اصول کو نکال دیا کہ ’’ریاست مذہب کی کسی بھی صورت (form) کی مدد کے لیے ٹیکس عائد کرنے کا حق نہیں رکھتی‘‘۔ اس کے بعد انہوں نے پرائیویٹ اسکولوں کے لیے واؤچر بنائے اور پبلک اسکولوں میں عبادت کو لازمی قرار دینے کے لیے آئین میں ترمیم کا مطالبہ کیا اور چرچ اور ریاست کی علیحدگی کو کھلم کھلا چیلنج کرنے لگے۔‘‘ (ص ۶۸)
’’جولائی ۲۰۰۵ء میں سپریم کورٹ کی جسٹس سانڈراڈے اوکونر نے اپنی ریٹائرمنٹ کے اعلان کے فوری بعد کہا تھا ’’میں نے اپنی ساری زندگی میں کانگریس کے ارکان اور عدلیہ کے تعلقات کو اتنا داغدار کبھی نہیں دیکھا جتنا کہ اب ہیں ۔۔۔۔ اور میں یہ دیکھ کر بہت دل گرفتہ ہوں۔ موجودہ فضا ایسی ہے کہ میں وفاقی عدلیہ کے مستقبل کے بارے میں فکرمند ہوں۔‘‘ (ص ۷۰)
’’۲۰۰۶ء کے صدارتی انتخاب کی مہم کے دوران صدارت کے دونوں امیدواروں نے ہم جنس پرستوں کی شادی کی مخالفت کی تھی۔ تاہم قانونی طور پر تسلیم شدہ یونینوں کے ذریعے مرد اور عورت ہم جنس پرست جوڑوں کو مساویانہ شہری حقوق دینے کی منظوری دی تھی۔‘‘ (ص ۷۴)
’’ہم سب خاندانی اقدار اور شادی کی روایت کے استحکام کو انتہائی اہم تصور کرتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ کالج پہنچنے سے پہلے تک میں کسی طلاق یافتہ شخص سے واقف نہیں تھا۔ تاہم اب طلاق خطرناک حد تک عام ہو چکی ہے۔ تمام امریکی بالغوں میں سے ۲۵ فیصد کو کم از کم ایک مرتبہ طلاق ہو چکی ہے۔ طلاق کی تعداد میں کمی بیشی مذہبی وابستگی اور عمر کی مناسبت سے مختلف ہے۔ بڑے عیسائی گروپوں میں سے بیپٹسٹ سب سے اوپر ہیں ۲۹ فیصد، جبکہ کیتھولک اور لوتھرن طلاق یافتگان ۲۱ فیصد ہیں۔ ایشائیوں کے استثناء کے ساتھ صرف ۹ فیصد، پروٹیسٹنٹوں کے سینئر پیسٹر سب سے کم طلاق یافتہ گروپ تھا ۱۵ فیصد۔ بے بی بومرز (baby boomers) ۳۴ فیصد کو پہنچ چکے ہیں۔ ۵۳ سال سے ۷۲ سال کی عمر کے درمیان کی عمر والے افراد ۳۷ فیصد، جبکہ بوڑھے افراد میں صرف ۱۸ فیصد طلاق یافتہ ہیں۔ شادی کے تقدس کو لاحق اس خطرے کی وجوہ بہت سی ہیں لیکن بعض لوگ ہم جنس پرستی کو شادیوں کی ناکامی میں بہت زیادہ اضافے کا ایک اہم سبب تصور کرتے ہیں۔‘‘ (ص ۷۴)
’’نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کینیڈا اور یورپ کے بچے بھی جنسی اعتبار سے امریکی بچوں ہی کی طرح فعال ہیں۔ تاہم مناسب سیکس ایجوکیشن سے محروم امریکی لڑکیاں فرانسیسی لڑکیوں کی نسبت پانچ گنا زیادہ تعداد میں ایک بچے کی ماں ہوتی ہیں، سات گنا زیادہ امریکی لڑکیاں ایک مرتبہ اسقاط حمل کروا چکی ہوتی ہیں۔ اور نیدر لینڈ کی لڑکیوں کے مقابلے میں ۷۷ گنا زیادہ امریکی لڑکیاں سوزاک کا شکار ہو چکی ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ جرمنی کے ٹین ایجروں کے مقابلے میں ۵ گنا زیادہ امریکی ٹین ایجر ’’ایچ آئی وی ایڈز‘‘ کا شکار ہوتے ہیں۔ (ص ۸۰)
’’اگرچہ امریکہ کی خارجہ پالیسی پر بہت سے دوسرے پیچیدہ سیاسی عناصر نے منفی اثر ڈالا ہے، تاہم بنیاد پرستوں نے جذباتی معاملات پر شعلہ بیانی کر کے اور مخالفوں سے مذاکرات سے گریز کر کے امریکی خارجہ پالیسی کی صورت بگاڑ دی ہے۔ ایک اہم مثال یہ ہے کہ چند امریکی سیاسی لیڈروں نے فیڈل کاسترو کو ایک ولن کے طور پر قبول کر رکھا ہے اور انہوں نے کیوبا جیسے چھوٹے سے، عسکری اعتبار سے بانجھ ملک کو ہمارے ملک کی سلامتی اور ثقافت کو درپیش سب سے بڑا خطرہ بنا دیا ہے۔‘‘ (ص ۱۰۳)
’’مذہب اور حکومت کا ایک انتہائی عجیب امتزاج، امریکہ کی مشرق وسطٰی میں پالیسی پر کچھ عیسائی بنیاد پرستوں کا بھرپور اثر ہے۔ امریکہ میں تقریباً ہر شخص بارہ کتابوں پر مشتمل (Left Behind) سیریز سے واقف ہے جس کے مصنف ٹم لاہے اور جیری بی جینکنس ہیں۔ ان کتابوں نے فروخت کے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ انہوں نے یہ کتابیں بائبل کی احتیاط سے منتخب کردہ عبارتوں خصوصاً ’’بک آف ریویلیشن‘‘ سے لی گئی عبارتوں کی اساس پر لکھی ہیں اور ان میں دنیا کے ختم ہونے کی منظر کشی کی گئی ہے۔ جب مسیح واپس آئے گا تو سچے ایمان والوں کو آسمان پر اٹھا لیا جائے گا، جہاں وہ خداوند کے ساتھ نیچے رہ جانے والے بیشتر انسانوں کی اذیتوں کا نظارہ کریں گے۔ یہ واقعہ لمحاتی ہو گا اور اس کا وقت پہلے نہیں بتایا جا سکتا۔ میرے لاکھوں ساتھی بیپٹسٹ اور دوسرے لوگ ایسے ہیں جو اس نظریے پر لفظًا یقین رکھتے ہیں اور خود کو چند منتخب لوگوں میں شامل سمجھتے ہیں، اور ’’دہشت و اذیت کے دور‘‘ میں نجات کے لیے منتخب نہ کیے جانے والے اپنے افراد خانہ، دوستوں اور ہمسایوں کو چھوڑنے اور ان کی مذمت پر تیار ہیں۔
امریکی حکومت کی پالیسیوں میں ایسے نظریات کا سمویا جانا تشویش کا سبب ہے۔ ان ایمان والوں کو یقین ہے کہ اس (Rapture) کی جلد آمد اُن کی شخصی ذمہ داری ہے تاکہ بائبل کی پیشگوئی پوری ہو۔ ان کے ایجنڈے میں مشرق وسطٰی میں اسلام کے خلاف جنگ کرنا اور یہودیوں کا ساری ارض مقدس کو چھین لینا شامل ہے۔ ساتھ ہی سارے عیسائیوں اور غیر یہودیوں کو وہاں سے نکال دیا جائے گا۔ اس کے بعد کافر (اینٹی کرائسٹ ) اس علاقے کو فتح کر لیں گے اور مسیح فتح پائے گا۔ Rapture کے زمانے میں سارے یہودی یا تو عیسائیت قبول کر لیں گے یا انہیں جلا دیا جائے گا۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: گنا زیادہ کے لیے اور ان
پڑھیں:
فیلڈ مارشل عاصم منیر سے ملاقات کاڈر،مودی نے ٹرمپ کی دورہ امریکہ کی دعوت ٹھکرادی
امریکی جریدے بلومبرگ نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دورۂ امریکہ کی دعوت اس خدشے کے باعث مسترد کر دی کہ انہیں وہاں فیلڈ مارشل عاصم منیر سے ملاقات کروائی جا سکتی ہے۔
فون کال کی تفصیلات
رپورٹ کے مطابق 17 جون کو مودی اور ٹرمپ کے درمیان 35 منٹ طویل ٹیلی فونک گفتگو ہوئی، جس میں ٹرمپ نے مودی کو جی 7 سمٹ کے بعد امریکہ آنے کی دعوت دی۔ تاہم مودی نے دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
ممکنہ ملاقات کا خدشہ
بلومبرگ کا کہنا ہے کہ نریندر مودی کو اندیشہ تھا کہ امریکہ میں ان کی ملاقات فیلڈ مارشل عاصم منیر سے کروائی جائے گی، جس پر وہ آمادہ نہیں تھے۔
وائٹ ہاؤس کا ردعمل
رپورٹ کے مطابق اس فون کال کے بعد وائٹ ہاؤس کے رویے میں نمایاں تبدیلی آئی۔ وائٹ ہاؤس نے بعد میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ “بھارت کے ساتھ ہم آہنگی ممکن نہیں” تاہم دونوں ممالک کے درمیان رابطے جاری رہیں گے۔
تجارتی تعلقات میں کشیدگی
بلومبرگ کے مطابق امریکہ کی جانب سے بھارت پر عائد کیے گئے نئے ٹیرف نے دو طرفہ تعلقات کو مزید کشیدہ کر دیا ہے، جو تعلقات کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔ بھارت نے اب تک امریکی ٹیرف کا کوئی باضابطہ جواب نہیں دیا، جبکہ مودی حکومت امریکہ کی جانب جھکاؤ کی پالیسی کا ازسرنو جائزہ لے رہی ہے۔