Daily Ausaf:
2025-11-08@13:58:52 GMT

موجودہ امریکہ سابق صدر جمی کارٹر کی نظر میں

اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
’’گزشتہ بیس برسوں کے دوران عیسائی بنیاد پرستوں نے یسوع مسیح کے اس فرمان کو کھلم کھلا چیلنج اور رد کیا کہ ’’قیصر کا کام قیصر پر چھوڑو اور خداوند کے کام کو خداوند پر‘‘۔ بیشتر امریکی اس بات کو درست سمجھتے ہیں کہ عوام سرکاری پالیسی پر اثر انداز ہوں، تاہم وہ اس امر کو درست نہیں سمجھتے کہ کوئی مذہبی گروہ کسی جمہوری حکومت کے کاموں پر کنٹرول پا لے، یا سرکاری اہل کار مذہبی معاملات میں دخل انداز ہوں، یا کچھ خاص مذہبی اداروں کے حق میں قوانین یا ٹیکس محاصل کو استعمال کریں۔‘‘ (ص ۶۲)
’’میں نے پوپ کی دوسرے عیسائیوں کے علاوہ یہودیوں اور مسلمانوں میں تبلیغ کی کوششوں کو سراہا، اور چرچ کو عالمی اہمیت دلوانے کی ان کی جدوجہد کی تحسین کی۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ آزادانہ تبادلۂ خیال کو پسند کرتے ہیں۔ چنانچہ میں نے عورتوں کو کمتر سمجھنے اور انہیں پادری نہ بنانے کے ان کے فیصلے سے اختلاف کیا۔ میں سمجھتا تھا کہ یہ اولین عیسائی چرچ کے لیے ان کے کردار کی توہین ہے۔‘‘ (ص ۶۳)
’’مجھ سے پوچھا جانے لگا ہے کہ کیا کبھی میرے عیسائی عقائد اور صدر کی حیثیت سے میرے دنیاوی (سیکولر) فرائض کے درمیان تصادم پیدا ہوا تھا؟ کچھ معاملات میں ایسا ہوا تھا تاہم میں نے ہمیشہ اپنے اس حلف کا احترام کیا کہ میں ’’ریاستہائے متحدہ امریکہ کے آئین کا تحفظ اور دفاع کروں گا‘‘۔ مثال کے طور پر میرا ایمان ہے کہ یسوع مسیح اسقاط حمل یا سزائے موت کو کبھی قبول نہ کرتے، تاہم میں نے اپنی بہترین اہلیت کے مطابق سپریم کورٹ کے اس نوع کے فیصلوں کی تعمیل کی۔ اس کے ساتھ ہی میں نے اپنے خیال کے مطابق ان کے منفی اثرات کو کم کرنے کی کوششیں بھی کیں۔‘‘ (ص ۶۵)
’’۲۰۰۰ء میں جنوبی بیپٹسٹ کنونشن کے لیڈروں نے اپنے اصولوں میں سے اس اصول کو نکال دیا کہ ’’ریاست مذہب کی کسی بھی صورت (form) کی مدد کے لیے ٹیکس عائد کرنے کا حق نہیں رکھتی‘‘۔ اس کے بعد انہوں نے پرائیویٹ اسکولوں کے لیے واؤچر بنائے اور پبلک اسکولوں میں عبادت کو لازمی قرار دینے کے لیے آئین میں ترمیم کا مطالبہ کیا اور چرچ اور ریاست کی علیحدگی کو کھلم کھلا چیلنج کرنے لگے۔‘‘ (ص ۶۸)
’’جولائی ۲۰۰۵ء میں سپریم کورٹ کی جسٹس سانڈراڈے اوکونر نے اپنی ریٹائرمنٹ کے اعلان کے فوری بعد کہا تھا ’’میں نے اپنی ساری زندگی میں کانگریس کے ارکان اور عدلیہ کے تعلقات کو اتنا داغدار کبھی نہیں دیکھا جتنا کہ اب ہیں ۔۔۔۔ اور میں یہ دیکھ کر بہت دل گرفتہ ہوں۔ موجودہ فضا ایسی ہے کہ میں وفاقی عدلیہ کے مستقبل کے بارے میں فکرمند ہوں۔‘‘ (ص ۷۰)
’’۲۰۰۶ء کے صدارتی انتخاب کی مہم کے دوران صدارت کے دونوں امیدواروں نے ہم جنس پرستوں کی شادی کی مخالفت کی تھی۔ تاہم قانونی طور پر تسلیم شدہ یونینوں کے ذریعے مرد اور عورت ہم جنس پرست جوڑوں کو مساویانہ شہری حقوق دینے کی منظوری دی تھی۔‘‘ (ص ۷۴)
’’ہم سب خاندانی اقدار اور شادی کی روایت کے استحکام کو انتہائی اہم تصور کرتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ کالج پہنچنے سے پہلے تک میں کسی طلاق یافتہ شخص سے واقف نہیں تھا۔ تاہم اب طلاق خطرناک حد تک عام ہو چکی ہے۔ تمام امریکی بالغوں میں سے ۲۵ فیصد کو کم از کم ایک مرتبہ طلاق ہو چکی ہے۔ طلاق کی تعداد میں کمی بیشی مذہبی وابستگی اور عمر کی مناسبت سے مختلف ہے۔ بڑے عیسائی گروپوں میں سے بیپٹسٹ سب سے اوپر ہیں ۲۹ فیصد، جبکہ کیتھولک اور لوتھرن طلاق یافتگان ۲۱ فیصد ہیں۔ ایشائیوں کے استثناء کے ساتھ صرف ۹ فیصد، پروٹیسٹنٹوں کے سینئر پیسٹر سب سے کم طلاق یافتہ گروپ تھا ۱۵ فیصد۔ بے بی بومرز (baby boomers) ۳۴ فیصد کو پہنچ چکے ہیں۔ ۵۳ سال سے ۷۲ سال کی عمر کے درمیان کی عمر والے افراد ۳۷ فیصد، جبکہ بوڑھے افراد میں صرف ۱۸ فیصد طلاق یافتہ ہیں۔ شادی کے تقدس کو لاحق اس خطرے کی وجوہ بہت سی ہیں لیکن بعض لوگ ہم جنس پرستی کو شادیوں کی ناکامی میں بہت زیادہ اضافے کا ایک اہم سبب تصور کرتے ہیں۔‘‘ (ص ۷۴)
’’نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کینیڈا اور یورپ کے بچے بھی جنسی اعتبار سے امریکی بچوں ہی کی طرح فعال ہیں۔ تاہم مناسب سیکس ایجوکیشن سے محروم امریکی لڑکیاں فرانسیسی لڑکیوں کی نسبت پانچ گنا زیادہ تعداد میں ایک بچے کی ماں ہوتی ہیں، سات گنا زیادہ امریکی لڑکیاں ایک مرتبہ اسقاط حمل کروا چکی ہوتی ہیں۔ اور نیدر لینڈ کی لڑکیوں کے مقابلے میں ۷۷ گنا زیادہ امریکی لڑکیاں سوزاک کا شکار ہو چکی ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ جرمنی کے ٹین ایجروں کے مقابلے میں ۵ گنا زیادہ امریکی ٹین ایجر ’’ایچ آئی وی ایڈز‘‘ کا شکار ہوتے ہیں۔ (ص ۸۰)
’’اگرچہ امریکہ کی خارجہ پالیسی پر بہت سے دوسرے پیچیدہ سیاسی عناصر نے منفی اثر ڈالا ہے، تاہم بنیاد پرستوں نے جذباتی معاملات پر شعلہ بیانی کر کے اور مخالفوں سے مذاکرات سے گریز کر کے امریکی خارجہ پالیسی کی صورت بگاڑ دی ہے۔ ایک اہم مثال یہ ہے کہ چند امریکی سیاسی لیڈروں نے فیڈل کاسترو کو ایک ولن کے طور پر قبول کر رکھا ہے اور انہوں نے کیوبا جیسے چھوٹے سے، عسکری اعتبار سے بانجھ ملک کو ہمارے ملک کی سلامتی اور ثقافت کو درپیش سب سے بڑا خطرہ بنا دیا ہے۔‘‘ (ص ۱۰۳)
’’مذہب اور حکومت کا ایک انتہائی عجیب امتزاج، امریکہ کی مشرق وسطٰی میں پالیسی پر کچھ عیسائی بنیاد پرستوں کا بھرپور اثر ہے۔ امریکہ میں تقریباً ہر شخص بارہ کتابوں پر مشتمل (Left Behind) سیریز سے واقف ہے جس کے مصنف ٹم لاہے اور جیری بی جینکنس ہیں۔ ان کتابوں نے فروخت کے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ انہوں نے یہ کتابیں بائبل کی احتیاط سے منتخب کردہ عبارتوں خصوصاً ’’بک آف ریویلیشن‘‘ سے لی گئی عبارتوں کی اساس پر لکھی ہیں اور ان میں دنیا کے ختم ہونے کی منظر کشی کی گئی ہے۔ جب مسیح واپس آئے گا تو سچے ایمان والوں کو آسمان پر اٹھا لیا جائے گا، جہاں وہ خداوند کے ساتھ نیچے رہ جانے والے بیشتر انسانوں کی اذیتوں کا نظارہ کریں گے۔ یہ واقعہ لمحاتی ہو گا اور اس کا وقت پہلے نہیں بتایا جا سکتا۔ میرے لاکھوں ساتھی بیپٹسٹ اور دوسرے لوگ ایسے ہیں جو اس نظریے پر لفظًا یقین رکھتے ہیں اور خود کو چند منتخب لوگوں میں شامل سمجھتے ہیں، اور ’’دہشت و اذیت کے دور‘‘ میں نجات کے لیے منتخب نہ کیے جانے والے اپنے افراد خانہ، دوستوں اور ہمسایوں کو چھوڑنے اور ان کی مذمت پر تیار ہیں۔
امریکی حکومت کی پالیسیوں میں ایسے نظریات کا سمویا جانا تشویش کا سبب ہے۔ ان ایمان والوں کو یقین ہے کہ اس (Rapture) کی جلد آمد اُن کی شخصی ذمہ داری ہے تاکہ بائبل کی پیشگوئی پوری ہو۔ ان کے ایجنڈے میں مشرق وسطٰی میں اسلام کے خلاف جنگ کرنا اور یہودیوں کا ساری ارض مقدس کو چھین لینا شامل ہے۔ ساتھ ہی سارے عیسائیوں اور غیر یہودیوں کو وہاں سے نکال دیا جائے گا۔ اس کے بعد کافر (اینٹی کرائسٹ ) اس علاقے کو فتح کر لیں گے اور مسیح فتح پائے گا۔ Rapture کے زمانے میں سارے یہودی یا تو عیسائیت قبول کر لیں گے یا انہیں جلا دیا جائے گا۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: گنا زیادہ کے لیے اور ان

پڑھیں:

چین کا امریکی سامان پر عائدکیاگیا اضافی 24 فیصد ٹیرف معطل کرنے کا اعلان

چین نے رواں سال اپریل میں امریکی سامان پر عائد کیاگیا اضافی 24 فیصد ٹیرف ایک سال کے لیے معطل کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ کہا ہے کہ وہ 10 فیصد محصولات برقرار رکھے گا جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ’یومِ آزادی‘کے محصولات کے جواب میں عائد کیے گئے تھے۔

خبر رساں ادارے کے مطابق چین کے ریاستی کونسل کے ٹیرف کمیشن نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ 10 نومبر سے کچھ امریکی زرعی اجناس پر عائد کیے گئے 15 فیصد تک کے محصولات کو ہٹا دے گا، یہ فیصلہ مارچ 2025 میں جاری کردہ اس بیان کے حوالے سے کیا گیا ہے جس میں بتایا گیا تھا کہ دنیا کا سب سے بڑا زرعی خریدار کن امریکی درآمدات پر ٹیکس لگانا شروع کرے گا،تاہم اس کٹوتی کے باوجود امریکی سویابین خریداروں پر اب بھی 13 فیصد ٹیرف لاگو رہے گا جس میں 3 فیصد کا پہلے سے موجود بنیادی محصول بھی شامل ہے۔

تاجروں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے امریکی سویابین اب بھی برازیل کے متبادل کے مقابلے میں خریداروں کے لیے بہت مہنگے ہیں۔2017 میں ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے اور پہلی امریکا۔چین تجارتی جنگ کے آغاز سے قبل سویابین امریکا کی چین کو سب سے بڑی برآمد تھی جبکہ دنیا کے سب سے بڑے زرعی خریدار نے 2016 میں 13 ارب 80 کروڑ ڈالر مالیت کے سویابین خریدے تھے،تاہم چین نے اس سال امریکی فصلوں کی خریداری میں کافی حد تک کمی کی ہے جس کے نتیجے میں امریکی کسانوں کو اربوں ڈالر کے برآمدی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ۔

کسٹمز کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ 2024 میں چین نے اپنی مجموعی سویابین درآمدات کا صرف 20 فیصد امریکا سے خریدا جو 2016 میں 41 فیصد تھا۔گزشتہ ہفتے سرمایہ کاروں نے دونوں ممالک کے درمیان کچھ اطمینان کا اظہار کیا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے چینی ہم منصب شی جن پنگ کی جنوبی کوریا میں ملاقات ہوئی ،اس سے یہ خدشات کم ہو گئے تھے کہ دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتیں تجارتی جنگ کے حل کے لیے جاری مذاکرات کو ختم کر سکتی ہیں، ایک ایسی جنگ جس نے عالمی سپلائی چین کو متاثر کیا ۔

ٹرمپ اور وائٹ ہاؤس نے ملاقات کے بارے میں فوری طور پر اپنی تفصیلات جاری کیں لیکن چینی فریق نے اس بات پر کوئی مفصل بیان جاری نہیں کیا ۔چین کی سرکاری کمپنی سی او ایف سی او نے اجلاس سے ایک دن پہلے امریکا سے 3سویابین کارگو خریدے تھے جسے تجزیہ کاروں نے ایک خیر سگالی کے اشارے کے طور پر دیکھا تھا، یہ بیجنگ کی جانب سے تجارتی کشیدگی میں کسی غیر مستحکم اضافے سے گریز کی خواہش کی علامت تھا۔

کچھ مارکیٹ ماہرین کا کہنا ہے کہ سویابین کی تجارت کے جلد معمول پر آنے کے امکانات کم ہیں۔ایک بین الاقوامی تجارتی کمپنی کے تاجر نے کہا کہ ہمیں توقع نہیں کہ اس تبدیلی کے بعد چین کی جانب سے امریکی مارکیٹ میں کوئی خاص طلب پیدا ہو گی، برازیل کی قیمتیں امریکا سے سستی ہیں اور غیر چینی خریدار بھی برازیلی کارگو خرید رہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • امریکا میں تاریخ کا طویل ترین شٹ ڈاؤن کیوں ہے اور یہ بحران کب تک حل ہوگا!
  • صائمہ قریشی نے طلاق کے تلخ تجربے پر خاموشی توڑ دی
  • امریکی ایٹمی دھمکیوں اور بڑھکوں پر چین کا سخت ردِعمل
  • سابق امریکی اسپیکر نینسی پلوسی سیاست سے کنارہ کش ہوگئیں
  • امریکی عوام کے ٹیکسز مزید اسرائیل کی غزہ کے خلاف جنگ پر خرچ نہیں ہونے چاہیے، ٹریبیون
  • امریکی کانگریس کی سابق اسپیکر نینسی پیلوسی کا سیاست سے ریٹائرمنٹ کا اعلان
  • ایران کیخلاف امریکی و اسرائیلی حملوں کی مذمت سے گروسی کا ایک بار پھر گریز
  • امریکی شٹ ڈاؤن: 40 بڑے ہوائی اڈوں پر پروازوں میں 10 فیصد کمی کا فیصلہ
  • چین کا امریکی سامان پر عائدکیاگیا اضافی 24 فیصد ٹیرف معطل کرنے کا اعلان
  • فاکس نیوز کی سابق میزبان یونان میں امریکی سفیر مقرر