جان ایف کینیڈی کے قتل کی کہانی میں اسرائیل کا نام، مارجری گرین ٹیلر نے نئی بحث چھیڑ دی
اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT
ری پبلکن رہنما اور امریکی کانگریس کی رکن مارجری ٹیلر گرین نے کہا ہے کہ سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی کا قتل ممکنہ طور پر اسرائیل کے جوہری پروگرام کی مخالفت سے جڑا ہوا تھا، ساتھ ہی انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کیا ان کی اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جان کو بھی اسی نوعیت کے خطرات لاحق ہیں۔
سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ایکس پر پوسٹ کیے گئے اپنے ایک بیان میں مارجری ٹیلر گرین نے لکھا کہ کبھی ایک عظیم صدر ہوا کرتا تھا جسے امریکی عوام بہت چاہتے تھے۔ ’۔۔۔وہ اسرائیل کے جوہری پروگرام کا مخالف تھا اور پھر اسے قتل کر دیا گیا۔‘
BREAKING:
US Representative Marjorie Taylor Greene claims that President John F.
— First Source Report (@FirstSourceNew) June 25, 2025
اپنی پوسٹ میں امریکی رکن کانگریس نے مزید سوال کیا کہ کیا انہیں اپنی زندگی کو لاحق خطرہ محسوس کرنا چاہیے اور اسی طرح کیا صدر ٹرمپ کو بھی، جنہوں نے آج صبح اسرائیل کو ایران پر حملے جاری رکھنے پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
یہ بیانات اس وقت سامنے آئے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کو ایران پر بمباری سے خبردار کرتے ہوئے ممکنہ حملوں کو جنگ بندی معاہدے کی ’سنگین خلاف ورزی‘ قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیں:
مارجری ٹیلر گرین نے حالیہ ویک ایںڈ پر ایران کے جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں کی بھی مخالفت کی اور کہا کہ امریکا کو غیر ملکی مفادات کے لیے جنگوں میں نہیں الجھنا چاہیے۔
’امریکی فوجیوں کو نظام کی تبدیلی، غیر ملکی جنگوں، اور فوجی صنعت کے منافع کے لیے جسمانی اور ذہنی طور پر تباہ کیا گیا ہے۔ میں اس سب سے تنگ آ چکی ہوں۔‘
مزید پڑھیں:
جان ایف کینیڈی کو 1963 میں ٹیکساس میں لی ہاروی اوسوالڈ نامی سابق میرین نے قتل کیا تھا، اگرچہ کینیڈی کے قتل کا اسرائیل سے کوئی ٹھوس تعلق سامنے نہیں آیا، لیکن یہ واقعہ اُس وقت پیش آیا جب وہ اسرائیل کے وزیر اعظم ڈیوڈ بن گوریون پر جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو روکنے کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے اور خبردار کر چکے تھے کہ اگر ڈیمونا ری ایکٹر میں شفافیت نہ دکھائی گئی تو امریکا کی اسرائیل کے لیے حمایت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل ایکس پلیٹ فارم جان ایف کینیڈی جنگ بندی ڈونلڈ ٹرمپ سماجی رابطے مارجری ٹیلر گرینذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل ایکس پلیٹ فارم جان ایف کینیڈی ڈونلڈ ٹرمپ مارجری ٹیلر گرین مارجری ٹیلر گرین جان ایف کینیڈی اسرائیل کے کے لیے
پڑھیں:
امریکی عوام کے ٹیکسز مزید اسرائیل کی غزہ کے خلاف جنگ پر خرچ نہیں ہونے چاہیے، ٹریبیون
روزنامے کے مطابق ریاستِ متحدہ 1948 سے اسرائیل کا سب سے قریبی حلیف ہے اور اس کی اقتصادی و عسکری امداد 300 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے، یہ امداد جو منصوبے کے مطابق 2028 تک جاری رہے گی۔ اسلام ٹائمز۔ ایک امریکی روزنامہ نے اداریے میں لکھا ہے کہ جب تک غزہ میں جنگ بند نہیں ہوتی ہر گزرتے دن کے ساتھ سینکڑوں فلسطینی اپنی جانیں کھو دیتے ہیں، اور اس دوران واشنگٹن کی خاموشی خوفناک ہے۔ روزنامہ دی ٹریبیون نے اپنے اداریے میں زور دیا کہ یہ خاموشی امریکہ کی ساکھ کو کمزور کر رہی ہے۔ روزنامے نے یاد دہانی کروائی کہ غزہ پر حملے کے آغاز کو دو سال گزر چکے ہیں اور اس جنگ نے شہریوں پر بھاری جانی و مالی نقصان پہنچایا ہے، محلے اور بستییں مکمل طور پر نقشے سے مٹ چکی ہیں، ہسپتال منہدم ہو گئے ہیں اور انسانی ادارے قحط کے بحران کے درمیان تنہا پڑ گئے ہیں۔
روزنامے کے مطابق ریاستِ متحدہ نے 1948 سے اسرائیل کا سب سے قریبی حلیف ہونا جاری رکھا ہوا ہے اور اس کی اقتصادی و عسکری امداد 300 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے، ایسی امداد جو منصوبے کے مطابق 2028 تک جاری رہے گی۔ رپورٹوں کے مطابق، امریکہ ہر سال اسرائیل کو 3.8 بلین ڈالر عسکری امداد دیتا ہے، یہ رقم امریکہ کی تاریخ میں کسی ایک ملک کو دی جانے والی سب سے بڑی سالانہ امداد سے بھی زیادہ ہے۔ اداریے میں لکھا گیا ہے کہ جانی نقصانات اور جنگ کے تسلسل نے امریکہ اور اس کے پالیسی سازوں پر اخلاقی ذمہ داری ڈال دی ہے۔
واشنگٹن کی تل ابیب کے لیے بلاشرط حمایت نہ صرف انسانی اقدار سے دور ہے بلکہ دنیا میں امریکہ کی شبیہ کو بھی مسخ کر دیتی ہے اور اسے فلسطینیوں کی جانوں کا شریکِ جرم بناتی ہے؛ ایسی کیفیت جو روزنامے کے بقول بدلنی چاہیے۔ اداریہ آخر میں امریکی حکومت سے اپیل کرتا ہے کہ اپنی بین الاقوامی ساکھ بحال کرنے کے لیے اتنی ہی حساسیت انسانی حقوق کے دفاع میں بھی دکھائے جتنی وہ اپنے ہتھیاروں کے بیڑے کی حفاظت میں دکھاتی ہے، امریکی عوام کے ٹیکس مزید اس قتلِ عام پر ضائع نہیں ہونے چاہئیں، یہ وسائل امن، سفارتکاری اور انسانی امداد کی حمایت پر خرچ ہونے چاہئیں، نہ کہ جنگ کے تسلسل پر۔