نقشے کی ایک لکیر نے دنیا کا راستہ موڑ دیا
اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT
ایک وقت ہوتا ہے جب طاقتور کی للکار سے زمین کانپنے لگتی ہے اور ایک وقت آتا ہے جب کسی مظلوم کی خاموشی گرج میں بدل جاتی ہے۔ اور جب یہ گرج کسی قوم کے صبر، غیرت، تاریخ اور نظریے سے جنم لیتی ہے تو سپرپاورز کے تاج لرزنے لگتے ہیں اور ایوانوں میں سناٹا چھا جاتا ہے۔ یہی کچھ ان دنوں دنیا نے مشرقِ وسطی میں دیکھا جہاں ایک خاموش ایران بولا اور اتنا زور سے بولا کہ نہ صرف اسرائیل کے کانوں کے پردے پھٹ گئے بلکہ امریکہ جیسی سپرپاور کی گردن بھی جھک گئی۔
یہ جنگ چند دنوں کی تھی مگر اس کے اثرات دہائیوں پر محیط ہوں گے۔ اسرائیل جو خود کو ناقابلِ تسخیر سمجھتا تھا ایرانی میزائلوں کے سامنے ایسے بکھرا جیسے خزاں کے موسم میں سوکھے پتے۔ اس جنگ کی شدت اتنی تھی کہ تل ابیب کے بنکر بھر گئے اور حیفہ کی فضا میں سائرنوں کی چیخیں اذانوں کی طرح گونجتی رہیں۔ مگر اس سب سے بڑھ کر وہ لمحہ تاریخی تھا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو کل تک ایران پر حملے کر رہے تھے خود منظرِ عام پر آ کر ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا اعلان کر رہے تھے۔
یہ اعلان صرف سیز فائر نہیں تھا یہ اعلان تھا کہ طاقت کے توازن نے کروٹ بدل لی ہے۔ اور یہ کروٹ صرف میزائلوں کی وجہ سے نہیں بدلی بلکہ ایران کے اس اقدام سے بدلی جو شاید عسکری لحاظ سے چھوٹا مگر تزویراتی طور پر دنیا کی شہ رگ پر ہاتھ رکھنے کے مترادف تھا ۔آبنائے ہرمز وہ پتلا سا آبی راستہ جسے دنیا صرف نقشے پر ایک لائن سمجھتی ہے درحقیقت عالمی معیشت کی سانس ہے۔ روزانہ سترہ ملین بیرل تیل اسی پتلی لکیر سے گزرتا ہے۔ دنیا کا بیس فیصد تیل، گیس اور مال بردار سامان اسی سے جڑا ہے۔ جب ایران نے اس راستے کو بند کرنے کا اعلان کیا تو مغربی دنیا کی ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر دوڑ گئی۔ تیل کی قیمتیں ایک ہی دن میں آسمان کو چھونے لگیں، عالمی اسٹاک مارکیٹس میں ہلچل مچ گئی اور وہ کمپنیاں جو خود کو ’’انڈیپنڈنٹ‘‘ کہتی تھیں ایران کے رحم و کرم پر آگئیں۔
یہ کوئی نیا حربہ نہیں تھا۔ ایران برسوں سے یہ پیغام دیتا آ رہا تھا کہ اگر ہماری سالمیت، ہماری خودمختاری یا ہمارے شہدا کی قربانیاں پامال کی گئیں تو ہم دنیا کے اس راستے کو بند کر دیں گے جہاں سے سپرپاورز اپنی معیشت چلاتی ہیں اور جب ایران نے یہ کر کے دکھایا تو مغرب کو پتہ چلا کہ وہ قوم جسے وہ معاشی پابندیوں سے دبانے چلے تھے وہ دراصل ان کی معیشت کا بٹن اپنے ہاتھ میں رکھتی ہے۔
اس جنگ میں ایک اور منظر بھی دنیا نے دیکھا اور وہ ہے اسرائیل کی بے بسی۔ وہ اسرائیل جو غزہ پر بم برساتا رہا، بچوں، عورتوں، اور بوڑھوں کے خون سے ہاتھ رنگتا رہا، آج خود زیرِ زمین بنکرز میں چھپ کر جان بچاتا نظر آیا۔ آئرن ڈوم جسے اسرائیل کا فخر سمجھاجاتا تھا، ایرانی میزائلوں کے سامنے ویسا ہی نکما نکلا جیسے بارش میں کاغذی چھتری۔ تل ابیب اور یروشلم کی گلیوں میں خوف، اضطراب اور بے یقینی کی فضا تھی۔ اسرائیل نے پہلا موقع دیکھا جب اس کے شہریوں کو وہ درد سہنا پڑا جو وہ برسوں سے فلسطینیوں پر مسلط کر رہا تھا۔ایران نے اسرائیل پر نہ صرف زمینی میزائل برسائے بلکہ امریکی ائیر بیسز کو بھی نشانہ بنایا اور یہ اعلان کر دیا کہ یہ جنگ اگر بڑھی تو میدان محض تل ابیب کا نہیں رہے گا بلکہ بحیرہ عرب، خلیج فارس اور آبنائے ہرمز سب کے سب لپیٹ میں آجائیں گے۔ ایسے میں امریکہ کے پاس راستہ صرف ایک بچا ۔۔۔ پسپائی۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو ہمیشہ اپنی ڈیل میکنگ پر فخر کرتے رہے ہیں اس بار وہ ڈیل ان کی عزت بچانے کا واحد ذریعہ بنی۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان سیز فائر کا اعلان انہوں نے خود کیا۔ تاریخ کے صفحات پر شاید یہ جملہ چھپ جائے کہ’’ٹرمپ کی کوششوں سے امن قائم ہوا‘‘، مگر سچ تو یہی ہے کہ اگر ایران آبنائے ہرمز بند نہ کرتا، اگر ایرانی میزائل اسرائیلی دل میں چبھتے نہ، اور اگر امریکی اڈوں پر وار نہ ہوتے تو ٹرمپ کبھی بھی پیچھے نہ ہٹتے۔
ایران کے پاسداران انقلاب کے سربراہ میجر جنرل پاکپور نے سیز فائر کے فوراً بعد دو باتیں کیں ۔ ایک ملت ایران اور شہدا کے اہل خانہ کو مبارکباد اور دوسری امریکہ کو وارننگ۔ انہوں نے کہا کہ اگر ٹرمپ یا امریکہ نے دوبارہ ایران پر جارحیت کی تو وہ جواب اب کی بار منہ توڑ سے بڑھ کر ہوگا۔ یہ کوئی سیاسی بیان نہیں تھا،یہ ایک سپاہی کی طرف سے دشمن کو دیا جانے والا وہ سگنل تھا جو جنگوں کے نقشے بدلنے کی تمہید ہوتا ہے۔جنگیں ہمیشہ میزائلوں سے نہیں جیتی جاتیں۔ کبھی کبھی ایک فیصلہ، ایک لائن، ایک بندش، پوری دنیا کے نظام کو جھنجھوڑ دیتی ہے۔ آبنائے ہرمز کی بندش ایسی ہی ایک لائن تھی۔ مغرب کے لیے یہ محض ایک سمندری راستہ نہیں تھا بلکہ وہ شریان تھی جس میں تیل دوڑتا ہے اور جس کے بغیر مغربی مشینری رک جاتی ہے۔
اب دنیا کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ صرف نیٹو، صرف میزائل، صرف ڈالر، صرف ٹیکنالوجی کافی نہیں ہوتے۔ ایک نظریہ، ایک جرات، ایک بصیرت اور سب سے بڑھ کر ایک قومی غیرت درکار ہوتی ہے جو دشمن کے دل میں خوف اور دوستوں کے دل میں فخر پیدا کرتی ہے۔ ایران نے دنیا کو بتا دیا کہ ’’سٹریٹ آف ہرمز‘‘ اب صرف ایک آبی گذرگاہ نہیں بلکہ ایک تزویراتی بم ہے ، جو اگر پھٹا تو دنیا کی معیشت کی چولیں ہل جائیں گی۔
یہ لمحہ صرف ایران کی فتح کا نہیں مسلم امہ کے لیے پیغام کا لمحہ بھی ہے۔ ہم سالوں سے سنتے آرہے ہیں کہ امت مسلمہ کو متحد ہونا چاہیے مگر اتحاد نہ وزرائے خارجہ کی تقریروں سے آتا ہے نہ اسلامی کانفرنسوں کے فوٹو سیشن سے۔ اتحاد آتا ہے جب کوئی قوم عملی طور پر دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتی ہے بس بہت ہو گیا! ایران نے یہ جملہ کہا اور دنیا جھک گئی۔
اب سوال یہ نہیں کہ ایران جیتا یا ہارا سوال یہ ہے کہ باقی مسلم دنیا نے اس سے کیا سیکھا؟ کیا ہم نے اپنی کوئی آبنائے ہرمز بچا رکھی ہے؟ کیا ہم نے کوئی ایسا نکتہ تیار کر رکھا ہے جس پر ہاتھ رکھ کر ہم بھی دنیا کو مجبور کر سکیں؟ یا ہم صرف فیس بک پوسٹس، ٹوئٹر ٹرینڈز اور ٹی وی مباحثوں تک محدود رہیں گے؟ایران نے دکھا دیا کہ جنگیں ہارنے سے قومیں نہیں مرتیں مگر غیرت کا سودا کرنے سے ہمیشہ فنا ہو جاتی ہیں۔ جہاں غیرت بولتی ہے وہاں طاقت کو جھکنا پڑتا ہے۔۔!
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
امن کے خواہاں ہیں، خودمختاری اور جوہری پروگرام پر سمجھوتا نہیں ہوگا، ایرانی صدر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
تہران: ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے عالمی طاقتوں کو دوٹوک پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ تہران خطے میں امن کا خواہاں ضرور ہے، مگر کسی کے دباؤ پر اپنے جوہری یا میزائل پروگرام سے دستبردار نہیں ہوگا۔
بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق انہوں نے واضح کیا کہ ایران کسی ایسے معاہدے کا حصہ نہیں بنے گا جس میں اس کے سائنسی اور دفاعی حق کو سلب کرنے کی کوشش کی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران عالمی قوانین کے تحت مذاکرات کے لیے تیار ہے، لیکن اگر شرائط میں یہ شامل ہو کہ ایران اپنے دفاعی پروگرام کو ترک کرے، تو یہ مطالبہ ہرگز قابلِ قبول نہیں۔
خبر ایجنسی رائٹرز کے مطابق ایرانی صدر نے کہا کہ دنیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ایران پر مسلط کیے گئے یکطرفہ فیصلے اور دھمکیاں امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ انہوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مغربی ممالک اور اسرائیل کھلے عام اسلحہ کا تبادلہ کرتے ہیں، لیکن ایران کے دفاعی میزائل انہیں کھٹکتے ہیں۔ یہ کیسا انصاف ہے کہ وہ اسرائیل کو بمباری کے لیے اسلحہ دیں اور ہم سے کہیں کہ اپنے دفاع کے لیے کچھ نہ رکھو؟
انہوں نے کہا کہ تہران ہمیشہ سے امن اور استحکام کا حامی رہا ہے، مگر یہ امن کسی کمزوری یا دباؤ کے نتیجے میں نہیں آ سکتا۔ ایران اپنے عوام کے تحفظ اور خودمختاری کے لیے ہر ممکن دفاعی قدم اٹھانے کا حق رکھتا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس حالیہ بیان پر بھی انہوں نے ردعمل دیا جس میں کہا گیا تھا کہ ایران امریکی پابندیاں ختم کرانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایرانی صدر نے واضح کیا کہ تہران کسی بھیک یا رعایت کا طلبگار نہیں، بلکہ برابری اور احترام کی بنیاد پر تعلقات چاہتا ہے۔
یاد رہے کہ ایران اور واشنگٹن کے درمیان رواں برس جون میں 12 روزہ ایران اسرائیل جنگ کے بعد جوہری مذاکرات کے پانچ دور ہو چکے ہیں، تاہم اسرائیلی حملوں اور امریکی پالیسیوں کے باعث کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہو سکی۔