نیب نے ایس پی ایس سی میں مبینہ غیرقانونی بھرتیوں کی تحقیقات شروع کردیں
اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
حیدرآباد میں نیب نے سندھ پبلک سروس کمیشن (ایس پی ایس سی) کے تحت مبینہ غیرقانونی بھرتیوں کے خلاف تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔
اس سلسلے میں نیب نے ایس پی ایس سی کے سابق چیئرمین، اراکین اور افسران کو نوٹس جاری کیے ہیں۔ نیب کی جانب سے موجودہ چیئرمین کو ہدایت دی گئی ہے کہ تمام مطلوبہ ریکارڈ کے ساتھ ملزمان کی حاضری 2 جولائی کو یقینی بنائی جائے۔
تحقیقات کا مقصد یہ جانچنا ہے کہ کمیشن کے ذریعے ہونے والی بھرتیاں شفاف طریقے سے کی گئیں یا ان میں قانون و ضوابط کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ سندھ پبلک سروس کمیشن صوبے کے مختلف سرکاری اداروں کے لیے گریڈ 17 اور اس سے اوپر کی بھرتیوں کا ذمہ دار ادارہ ہے، اور اس پر عوامی اعتماد انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ نیب کی اس کارروائی کو شفاف احتساب کی جانب ایک بڑا قدم قرار دیا جا رہا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
بری ملزم کا نام ایف آئی آر ریکارڈ میں ظاہر کرنا غیرقانونی ہے، عدالت کا اہم فیصلہ
لاہور ہائیکورٹ نے ایک اہم فیصلے میں کہا ہے کہ کسی مقدمے سے بری ہونے کے بعد متعلقہ فرد کے خلاف ایف آئی آر کا ریکارڈ سرکاری دستاویزات میں ظاہر کرنا غیر ضروری اور انسانی وقار کے منافی ہے۔ عدالت نے شہری عبد الرحمان کی درخواست پر تفصیلی تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے قرار دیا کہ بری افراد کو پولیس کریکٹر سرٹیفکیٹ میں کلئیر ظاہر کیا جائے۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس عبہر گل خان نے شہری عبد الرحمان کی جانب سے دائر درخواست پر 6 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا ہے، جس میں عدالت نے واضح کیاکہ بریت کے باوجود سی آر او میں ایف آئی آر کا ریکارڈ رکھنا غیر ضروری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: پولیس تحویل میں میڈیا پر اعترافی بیان ناقابلِ قبول، ملزم بری
فیصلے میں کہا گیا کہ جب کوئی فرد عدالت سے بری ہو جاتا ہے تو قانون کی نظر میں وہ بے قصور تصور کیا جاتا ہے، لہٰذا ایسی ایف آئی آر کا کسی بھی سرکاری ریکارڈ میں ذکر کرنا نہ صرف بلا جواز ہے بلکہ انسانی وقار کے خلاف بھی ہے۔
عدالت نے یہ بھی قرار دیا کہ بری ہونے کے باوجود کسی کا ریکارڈ ظاہر کرنا اُن شہریوں کے ساتھ ناانصافی ہے جنہوں نے قانونی طریقہ کار سے خود کو بے گناہ ثابت کیا ہو۔
عدالت نے حکم دیا کہ فیصلے کی کاپی آئی جی پنجاب اور چیف سیکریٹری کو ارسال کی جائے۔ ساتھ ہی عدالت نے واضح کیاکہ درخواست گزار پولیس کریکٹر سرٹیفکیٹ کا حق رکھتا ہے، اور ہوم سیکریٹری کو ہدایت کی گئی کہ وہ اسے اس کے موجودہ اسٹیٹس کے مطابق سرٹیفکیٹ جاری کریں، جس میں ایسی کسی ایف آئی آر کا ذکر نہ ہو جس سے وہ بری ہو چکا ہو۔
مقدمے کی تفصیلات کے مطابق عبد الرحمان پر 2024 میں تھانہ نواں کوٹ لاہور میں پتنگ بازی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا، جس سے بعد میں جوڈیشل مجسٹریٹ نے انہیں بری کردیا۔ انہوں نے انگلینڈ سفر کے لیے پولیس کریکٹر سرٹیفکیٹ کے حصول کی درخواست دی، لیکن سرٹیفکیٹ میں کریمنل ہسٹری ظاہر کی گئی۔
درخواست گزار نے اس اقدام کے خلاف ہوم سیکریٹری کو درخواست دی، جس پر فیصلہ نہ ہونے کی صورت میں لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا۔ عدالتی حکم پر ہوم سیکریٹری نے فیصلہ سناتے ہوئے لکھا کہ پولیس رولز کے مطابق ایف آئی آر کا ریکارڈ 60 سال تک محفوظ رکھا جاتا ہے اور ڈیلیٹ نہیں ہوتا، تاہم بریت کی صورت میں اسٹیٹس اپڈیٹ کردیا جاتا ہے۔
سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی آرز کو ڈیجیٹل طریقے سے محفوظ کیا جاتا ہے اور ان کے خاتمے کی گنجائش موجود نہیں، کیونکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے اندرونی ریکارڈ کے لیے یہ معلومات محفوظ رکھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بریت کے بعد ملزم پر جرم کا داغ ہمیشہ نہیں رہ سکتا، سپریم کورٹ کا فیصلہ
عدالت نے واضح کیاکہ ریکارڈ محفوظ رکھنے کا عمل قانونی ہے، تاہم اس کا استعمال کسی فرد کے بنیادی حقوق کو مجروح کرنے کا باعث نہیں بننا چاہیے۔ فیصلے میں مزید کہا گیا کہ بری ہونے والے افراد کے خلاف یہ ریکارڈ مستقبل میں استعمال نہیں ہونا چاہیے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews ایف آئی آر بری ملزم پولیس ریکارڈ سرکاری دستاویزات لاہور ہائیکورٹ نام وی نیوز