’مالی بدعنوانی‘ میں ملوث سابق افسر کے کرپشن سے متعلق الزامات بے بنیاد ہیں، این آئی سی وی ڈی
اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT
قومی ادارہ برائے امراضِ قلب (این آئی سی وی ڈی) کی انتظامیہ نے ادارے کے سابق چیف فنانشل آفیسر (سی ایف او) فیصل ستار کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد اور ذاتی مفاد پر مبنی قرار دیتے ہوئے سختی سے مسترد کر دیا ہے۔
این آئی سی وی ڈی کے ترجمان کے مطابق سابق سی ایف او نے آٹھ ماہ قبل اعلیٰ حکام کو ایک خط لکھا تھا، جس میں ادارے کے سربراہ پر الزامات عائد کیے گئے تھے۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ اس وقت ادارے نے خط کا تفصیلی جواب بھی دیا تھا، تاہم اب اُن کا دوبارہ پرانا معاملہ میڈیا میں اچھالنا ذاتی مفادات کی عکاسی کرتا ہے۔
ادارے کا کہنا ہے کہ فیصل ستار خود غیر قانونی مالی ادائیگیوں میں ملوث پائے گئے تھے، جس پر انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی۔
کمیٹی کے سامنے انہوں نے مالی بے ضابطگیوں کا اعتراف کیا، جس کے بعد ادارے نے سخت ایکشن لیتے ہوئے اُنہیں رقم واپس کرنے کا حکم دیا۔
فیصل ستار نے 54 لاکھ روپے کی رقم واپس کی اور بعد ازاں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
ترجمان کے مطابق خط میں ادارے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پروفیسر طاہر صغیر کے خلاف لگائے گئے الزامات جھوٹ پر مبنی، انتقامی جذبے اور ذاتی رنجش کا نتیجہ ہیں۔
این آئی سی وی ڈی ایک شفاف، دیانت دار اور میرٹ پر مبنی نظام پر یقین رکھتا ہے، اور ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی ہر کوشش کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سی وی ڈی
پڑھیں:
مصنوعی ذہانت اور میڈیا کی نئی دنیا
دنیا تیزی سے بدل رہی ہے، اور اس تبدیلی کا سب سے طاقتور محرک ’’مصنوعی ذہانت‘‘ یعنی Artificial Intelligence ہے۔ اب یہ ٹیکنالوجی مستقبل کا کوئی فیکشن نہیں ہے بلکہ حال کی حقیقت بن چکی ہے۔
میڈیا، جو ہمیشہ ٹیکنالوجی کی رفتار سے متاثر ہوتا رہا ہے، اس وقت ایک نئی انقلابی لہر کے دہانے پر کھڑا ہے، یہ ایک ایسی لہر جو خبر کے تصور، اس کے ماخذ اور اس کی سچائی کو نئے معنی دے رہی ہے۔
چند سال پہلے تک خبری ادارے خبر اکٹھی کرنے، تصدیق کرنے اور شایع کرنے کے لیے انسانی مہارت پر انحصار کرتے تھے۔ آج ChatGPT، Google Gemini اور دیگر AI ٹولز نے یہ عمل خودکار (Automated) بنا دیا ہے۔
AI اب نیوز اسکرپٹس لکھتا ہے، وڈیوز ایڈٹ کرتا ہے اور سوشل میڈیا ٹرینڈز کی بنیاد پر خبری موضوعات تجویز کرتا ہے۔ دنیا کے بڑے ادارے جیسے BBC، Reuters اور CNN اپنے نیوز رومز میں Artificial Intelligence کو ایک خاموش مگر مستقل ساتھی بنا چکے ہیں۔
میڈیا کی صنعت میں اس انقلاب کے ساتھ خطرات بھی بڑھ گئے ہیں، Deepfake وڈیوز، جعلی تصاویر اور Chatbots کے ذریعے پھیلائی جانے والی ’’مصنوعی خبریں‘‘ عوامی رائے کو گمراہ کر رہی ہیں۔
پاکستان جیسے ممالک میں جہاں میڈیا لٹریسی کی سطح محدود ہے، یہ خطرہ کئی گنا زیادہ ہے۔ عام قاری اور ناظر کے لیے حقیقت اور جعل سازی میں فرق کرنا دن بدن مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جب صحافت کو محض خبر دینے سے آگے بڑھ کر ’’سچائی کی حفاظت‘‘ کا کردار ادا کرنا ہوگا۔
مصنوعی ذہانت نے صحافت کے پیشہ ورانہ اصولوں کو بھی چیلنج کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب خبر ایک مشین تیار کرے تو ’’ادارتی ذمے داری‘‘ کس پر عائد ہوتی ہے؟ انسانی ضمیر یا الگورتھم؟ یہ اخلاقی بحث اب عالمی سطح پر شروع ہو چکی ہے۔
یونیسکو اور دیگر ادارے AI Ethics کے ضابطے وضع کر رہے ہیں تاکہ ٹیکنالوجی انسانی اقدار کو نقصان نہ پہنچائے۔
پاکستانی میڈیا کو اس دور میں پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔ ہمیں Artificial Intelligence کو دشمن نہیں بلکہ معاون سمجھنا ہوگا۔ اے ای ایک ایسا ٹول جو اگر درست سمت میں استعمال ہو تو خبروں کی درستگی، تحقیق، اور فیکٹ چیکنگ کے عمل کو مضبوط بنا سکتا ہے۔
اگر ہم نے ابھی سے تربیت یافتہ افرادی قوت تیار نہ کی تو چند سالوں میں ہمارے نیوز رومز محض ’’ری پبلشنگ ڈیسک‘‘ بن کر رہ جائیں گے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے، میڈیا تنظیمیں، اور پالیسی ساز ادارے ایک مشترکہ لائحہ عمل بنائیں۔ صحافت کے نصاب میں AI لٹریسی، ڈیٹا جرنلزم، اور میڈیا ایتھکس کو فوری طور پر شامل کیا جائے۔
اسی طرح میڈیا ہاؤسز اپنے عملے کے لیے تربیتی پروگرام شروع کریں تاکہ وہ ٹیکنالوجی کے ساتھ قدم ملا کر چل سکیں۔
مصنوعی ذہانت ایک حقیقت ہے۔ سوال یہ نہیں کہ یہ ٹیکنالوجی میڈیا کو بدل دے گی یا نہیں ، بلکہ یہ ہے کہ ہم اس تبدیلی کو کیسے سمجھتے اور استعمال کرتے ہیں۔ اگر ہم نے دانش مندی سے کام لیا تو یہ ’’مصنوعی ذہانت‘‘ ہماری ’’حقیقی صحافت‘‘ کو نئی زندگی دے سکتی ہے۔