جنگ بندی کا فیصلہ قومی مفاد میں کیا، دشمن کو ذلت آمیز اور مثالی جواب دیا: ایرانی فوج
اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ایرانی فوج نے کہا کہ جنگ بندی کا فیصلہ قومی مفاد میں کیا، دشمن کو ذلت آمیز اور مثالی جواب دیا
عالمی خبررساں ادارے کے مطابق ایرانی اعلیٰ قومی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا، اجلاس میں کہا گیا کہ ایرانی افواج نے دشمن کو ذلت آمیز اور مثالی جواب دیا، جس نے دشمن کو پشیمانی اور شکست تسلیم کرنے پر مجبور کیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایرانی مسلح افواج دشمن پر کوئی بھروسہ نہیں کرتیں اور ہر وقت کسی بھی خلاف ورزی پر فیصلہ کن ردعمل کے لیے تیار ہیں، انہوں نے کہا کہ ملکی خودمختاری اور دفاع پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔
جنگ بندی کے بعد ایران میں شہریوں کا جشن جاری رہا، مختلف شہروں میں ہزاروں کی تعداد میں عوام سڑکوں پر نکل آئے، ایرانی پرچموں کی بہار آگئی، حکومت اور ایرانی افواج کے حق میں نعرے بازی کی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: دشمن کو
پڑھیں:
مثالی سول سرونٹ اور انسان دوست رہنماء کو خراجِ تحسین
اسلام ٹائمز: جی ایم سکندر مرحوم ان افسران میں شامل تھے، جنہوں نے نہ صرف قومی بلکہ عالمی سطح پر شہرت حاصل کی۔ ان کے اندر انکساری، رحم دلی اور انسانیت نوازی اس حد تک تھی کہ وہ ہر دل میں جگہ بنا لیتے۔ نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پنجاب اور دیگر علاقوں کے لوگ آج بھی ان کے ذکر پر محبت و عقیدت سے سر جھکاتے ہیں۔ وہ نہ صرف ایک قابلِ تقلید بیوروکریٹ بلکہ ایک نظامِ فکر، ایک نظریہ اور ایک مشن تھے۔ تحریر: شبیر احمد شگری
کچھ لوگ دنیا میں آتے ہیں اور اپنے کردار، خدمت، انکساری اور دردِ دل سے ایسی مثال قائم کرتے ہیں کہ ان کے جانے کے بعد ایک خلا پیدا ہو جاتا ہے۔ جی ایم سکندر شگری مرحوم انہی میں سے ایک تھے۔ انسان دوست، مہربان، غریبوں کے مسیحا، جی ایم سکندر شگری کئی دنوں سے علیل تھے۔ ان کی وفات سے نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پورے ملک میں ان کے چاہنے والوں کو دلی صدمہ پہنچا۔ اللہ تعالیٰ انہیں جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے، ان کی ظاہر و باطن میں کی گئی نیکیاں قبول فرمائے اور ان کے درجات بلند کرے، آمین۔ گلگت بلتستان کے ضلع شگر سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے پہلے ڈی ایم جی آفیسر جنہوں نے نہ صرف بیوروکریسی کا وقار بلند کیا بلکہ اس کے مفہوم کو بھی بدل دیا۔ چالیس سالہ شاندار سرکاری خدمات کے دوران، وہ ہر منصب پر "خدمتِ خلق" کے علمبردار بنے رہے۔ وہ دفتر میں نہیں، دلوں میں بیٹھتے تھے۔
ان کی زندگی کی سب سے نمایاں خوبی یہ تھی کہ وہ اس طرح کے سول سرونٹ تھے، جیسا کہ حقیقی معنوں میں ایک سرکاری افسر کو ہونا چاہیئے۔ ان تک رسائی ہر کسی کیلئے ممکن تھی، بالخصوص غریب و مجبور افراد کیلئے۔ موجودہ دور کی بیوروکریسی میں یہ ایک ناقابلِ یقین مثال ہے۔ انہوں نے اپنے سٹاف کو واضح ہدایت دے رکھی تھی کہ کسی بھی ضرورت مند کو روکا نہ جائے، بلکہ اکثر وہ خود دفتر آنے سے پہلے ایسے افراد سے گھر پر ہی ملاقات کرتے، ان کی بات سنتے، مسئلہ سمجھتے اور موقع پر حل بھی کرتے۔ ان کے گھر کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا، لان میں کرسیاں اور میز سجی ہوتیں، جہاں وہ نہ صرف مسائل حل کرتے بلکہ آنے والوں کو چائے بھی پیش کی جاتی۔ گویا انہوں نے اپنے گھر کو ایک چھوٹا سا سیکرٹریٹ بنا رکھا تھا۔ کاش کہ ہمارے دیگر بیوروکریٹس بھی ان اوصاف کو اپنا لیں، تاکہ عام لوگوں کے مسائل حل ہوسکیں۔
جی ایم سکندر مرحوم کو بجا طور پر گلگت بلتستان اور دیگر ہزاروں افراد کا "معاشی باپ" کہا جا سکتا ہے، کیونکہ انہوں نے بے شمار افراد کو مختلف اداروں میں ملازمتیں دلائیں، انہیں روزگار کا وسیلہ فراہم کیا۔ مرحوم نے ابتدائی تعلیم ہائی سکول نمبر 1 سکردو سے حاصل کی، بعدازاں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے پولیٹیکل سائنس کیا۔ بعد ازاں یونیورسٹی آف برمنگھم سے ڈویلپمنٹ ایڈمنسٹریشن میں ڈپلومہ، ایڈوانسڈ نیشنل مینجمنٹ کورس اور ایڈمنسٹریٹو سٹاف کالج لاہور سے بھی خصوصی کورسز کیے۔ پاکستان کے مختلف اضلاع میں اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ جب وہ قصور کے ڈپٹی کمشنر تھے، تو اپنی ذاتی کاوش سے ایک سرکاری اسکول قائم کیا، جو آج 5000 سے زائد طلباء کے ساتھ ایک ڈگری کالج بن چکا ہے۔ 1122 جیسا عظیم فلاحی منصوبہ بھی ان کے دور میں تشکیل پایا۔ اس کے علاوہ دیگر فلاحی منصوبت ان کے دور میں عمل پذیر ہوئے۔
جی ایم سکندر نے تقریباً چالیس سال تک مختلف اہم عہدوں پر خدمت انجام دی اور سیکرٹری ہاؤسنگ اینڈ ورکس کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے۔ وہ اس بلند ترین مقام تک پہنچے، جہاں ایک سول افسر پہنچ سکتا ہے۔ وہ حکومت پنجاب اور خیبر پختونخوا کے سیکرٹری بھی رہے، جہاں انہوں نے سماجی شعبے کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ پنجاب کے پانچ وزرائے اعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری رہے، جو خود ایک منفرد اعزاز ہے۔ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ، اطلاعات، سیاحت، فزیکل پلاننگ، بیت المال، سوشل سکیورٹی، اور کوآپریٹیو جیسے محکموں کی بھی قیادت کی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کا مشن جاری رہا۔ وہ ایچ آر اینڈ ریمونریشن کمیٹی کے ڈائریکٹر اور چیئرمین رہے، حمزہ فاؤنڈیشن کے ٹرسٹی بنے، جہاں بہرے اور گونگے بچوں کی تعلیم کیلئے وقف رہے۔ مارافی فاؤنڈیشن پاکستان کے بھی مستقل رکن رہے، جو صحتِ عامہ اور دیگر سماجی خدمات انجام دیتی ہے۔ مرحوم نیشنل فرٹیلائزر مارکیٹنگ لمیٹڈ کے ڈائریکٹر اور جے ایس بینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بھی رہے۔
جب پنجاب اسمبلی کی نئی عمارت مکمل ہوئی تو سابق سپیکر چوہدری پرویز الٰہی نے انہیں خصوصی دعوت پر اسمبلی بلایا اور کہا: "ہم سکندر صاحب سے سیکھتے تھے۔ وہ ہمیں ہر الجھی ہوئی صورتحال سے نکالنے میں مدد دیتے۔" آج کے پرنسپل سیکرٹری کو بھی ان سے سیکھنا چاہیئے۔ یہ ان کی عزت افزائی کا منہ بولتا ثبوت تھا، جی ایم سکندر مرحوم ان افسران میں شامل تھے، جنہوں نے نہ صرف قومی بلکہ عالمی سطح پر شہرت حاصل کی۔ ان کے اندر انکساری، رحم دلی اور انسانیت نوازی اس حد تک تھی کہ وہ ہر دل میں جگہ بنا لیتے۔ نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پنجاب اور دیگر علاقوں کے لوگ آج بھی ان کے ذکر پر محبت و عقیدت سے سر جھکاتے ہیں۔ وہ نہ صرف ایک قابلِ تقلید بیوروکریٹ بلکہ ایک نظامِ فکر، ایک نظریہ اور ایک مشن تھے۔ انہوں نے سیاست اور شہرت کے بجائے خدمتِ خلق کو اپنی زندگی کا محور بنایا۔ آج وہ ہم میں نہیں مگر ان کی خدمات، عاجزی اور شفقت ہمیں ہمیشہ یاد رہیں گی، مرحوم نے یہ ثابت کر دکھایا کہ: "جو خدمت کو شعار بنائے، وہی اصل افسر ہوتا ہے!" اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند کرے، آمین۔