عدالتی منصوبوں کی نگرانی کے لیے صوبوں میں سینیئر نمائندے تعینات کیے جائیں گے، چیف جسٹس
اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT
چیف جسٹس آف سپریم کورٹ یحییٰ آفریدی نے کہا ہے کہ عدالتی منصوبوں کی نگرانی کے لیے صوبوں میں سینیئر نمائندے تعینات کیے جائیں گے، بار اور بینچ کے درمیان روابط کو مزید مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس آف پاکستان کا لاہور کا دورہ، ون ونڈو فیسلیٹیشن سینٹر کے قیام کا اعلان
جمعرات کے روز چیف جسٹس آف پاکستان اور چیئرمین لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان (ایل جے سی پی) جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ایک اہم اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس کا مقصد بار ایسوسی ایشنز اور لا کمیشن کے درمیان ادارہ جاتی روابط کا جائزہ لینا اور عدالتی نظام میں بہتری کے لیے باہمی تعاون کو فروغ دینا تھا۔
اجلاس میں جسٹس عالیہ نیلم، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ، لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار، لا کمیشن آف پاکستان کے سیکریٹری، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، پاکستان بار کونسل، وزارت قانون و انصاف، اور حکومت پنجاب کے اعلیٰ افسران نے شرکت کی۔
یہ بھی پڑھیں: جسٹس یحییٰ آفریدی کے چیف جسٹس بننے کے بعد ادارے میں کیا کچھ بدلا؟
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے تمام شرکا کو خوش آمدید کہا اور ان کی عدالتی خدمات کو سراہتے ہوئے بار اور بینچ کے درمیان روابط کو مزید مستحکم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے بارز اور لا کمیشن کے درمیان موجود ادارہ جاتی خلا کی نشاندہی کی اور کہا کہ اس کو دور کرنے کے لیے ہر صوبے میں ایک سینیئر نمائندہ ہائیکورٹ میں تعینات کیا جائے گا۔ یہ نمائندے ضلعی بارز سے قریبی رابطے میں رہیں گے، مقامی ترجیحات کی نشاندہی کریں گے، اور عدالتی منصوبوں کی نگرانی کریں گے۔
بارز کو اصلاحات میں شریک کرنے اور حکومتی معاونت کو مؤثر بنانے کی ہدایتچیف جسٹس نے بار نمائندگان پر زور دیا کہ وہ اصلاحاتی عمل میں سرگرم کردار ادا کریں اور اپنی بارز کو ان اقدامات سے باخبر رکھیں۔ انہوں نے وفاقی حکومت کو ہدایت کی کہ بارز کو دی جانے والی معاونت کو مؤثر اور مربوط بنایا جائے تاکہ وسائل کا بہتر استعمال ہو اور کارکردگی میں بہتری آئے۔
صوبائی سطح پر منصوبہ بندی اور عملدرآمد کے لیے واضح رہنمائیچیف جسٹس نے صوبائی محکموں کو تلقین کی کہ وہ کمیشن کے ریزیڈنٹ ایڈیشنل سیکریٹری سے قریبی رابطے میں رہیں تاکہ ضلعی سطح پر منصوبہ بندی اور عمل درآمد بروقت اور مؤثر ہو۔ انہوں نے کم ترقی یافتہ اضلاع میں عدالتی انفراسٹرکچر، سولرائیزیشن اور ڈیجیٹل سہولیات کی کمی پر تشویش کا اظہار کیا اور ان علاقوں میں ہنگامی اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔
وکلا کی پیشہ ورانہ ترقی کے لیے سی ایل ای پروگرامز سے استفادہ کی تاکیدچیف جسٹس نے بار نمائندگان کو ہدایت دی کہ وہ اپنے ممبران کو فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کے کنٹینیونگ لیگل ایجوکیشن (سی ایل ای) پروگرامز سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی ترغیب دیں۔ انہوں نے کہا کہ تربیتی کیلنڈر کو تمام بار ایسوسی ایشنز میں وسیع پیمانے پر پھیلایا جائے تاکہ وکلاء کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں اضافہ ممکن ہو۔
یہ بھی پڑھیں: قانون کی حکمرانی ہی ہمارا مقصد ہے، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی
بار ایسوسی ایشنز کے نمائندوں نے اس اہم پیشرفت کا خیر مقدم کیا اور چیف جسٹس کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے عدالتی نظام کی بہتری کے لیے درپیش چیلنجز کو تسلیم کیا۔
اجلاس میں شریک تمام وفاقی و صوبائی اداروں نے مؤثر اور بروقت انصاف کی فراہمی کے مشترکہ مقصد کے لیے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news بار ایسوسی ایشنز چیف جسٹس سپریم کورٹ عدالتی اصلاحات لاہور رجسٹری یحییٰ آفریدی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بار ایسوسی ایشنز چیف جسٹس سپریم کورٹ عدالتی اصلاحات لاہور رجسٹری یحیی ا فریدی بار ایسوسی ایشنز سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس یحیی کے درمیان چیف جسٹس انہوں نے کے لیے
پڑھیں:
مخصوص نشستیں کیس؛ ’’لگتا ہے پی ٹی آئی میں کوآرڈینیشن کا فقدان تھا‘‘ جسٹس محمد علی مظہر
مخصوص نشستیں کیس؛ ’’لگتا ہے پی ٹی آئی میں کوآرڈینیشن کا فقدان تھا‘‘ جسٹس محمد علی مظہر WhatsAppFacebookTwitter 0 26 June, 2025 سب نیوز
اسلام آباد:سپریم کورٹ میں مخصوص نشستیں کیس کی سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے ہیں کہ لگتا ہے پی ٹی آئی میں کوآرڈینیشن کا فقدان تھا۔
تفصیلات کے مطابق مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیلوں پر سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی آئینی بینچ نے کی، جس میں پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل دیے۔
وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ میں سندھ ہائیکورٹ بار کیس کے فیصلے کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔ یہ فیصلہ مثال ہے کہ عدالت آئین بحالی کے لیے مداخلت کرتی رہی ہے۔ 3 نومبر کی ایمرجنسی کے بعد کئی اقدامات کیے گئے۔ سپریم کورٹ نے اس ایمرجنسی کو غیر آئینی کہا۔ اس ایمرجنسی کے بعد کیے گئے تمام اقدامات بھی کالعدم کیے گئے۔
سلمان اکرم راجا نے مشرف دور کی ایمرجنسی کالعدم قرار دینے کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے قرار دیا کہ ایمرجنسی کے بعد لگائے گئے ججز کی حیثیت نہیں تھی۔ عدالت نے ججز کو ہٹائے جانا بھی غلط قرار دے کر بحال کیا۔ الیکشن ایکٹ سیکشن 66 کے مطابق کسی بھی پارٹی کا امیدوار بننے کے لیے 2 اصول ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آپ کو پارٹی ٹکٹ فائل کرنا چاہیے یا نہیں۔ کیا اس کا کوئی ثبوت ہو گا؟۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا ایسا کوئی ثبوت ججمنٹ میں ڈسکس ہوا ہے؟۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کتنے امیدواروں نے مینشن کیا کہ ان کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے؟، جس پر سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے جو ریکارڈ پیش کیا اس کے مطابق 39 نے مینشن کیا۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ کہتے ہیں 39 آپ کی اس 80 کی لسٹ سے لیا گیا ہے۔ یہ ریکارڈ یا ثبوت عدالت کے سامنے پہلے نہیں تھے۔ وکیل نے کہا کہ میں نے وہ لسٹ اپنی سی ایم اے کے ساتھ فائل کی ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ سیکڑوں ڈاکومنٹس فائل کر سکتے ہیں، آپ کو کوئی روک نہیں سکتا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اگر کوئی شخص پارٹی ٹکٹ فائل کرنے میں ناکام ہو وہ آزاد تصور ہو گا۔
دوران سماعت سلمان اکرم راجا نے 2013، 2018 اور 2024 کے عام انتخابات میں مخصوص نشستوں کے تناسب کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ جس سیاسی جماعت نے جتنی جنرل نشستیں لیں تقریباً اسی تناسب سے مخصوص نشستیں ملیں، لیکن حالیہ عام انتخابات میں صورتحال مختلف ہے۔ خیبر پختونخوا میں 83 فیصد جنرل نشستیں لینے والی پارٹی کو صفر مخصوص نشستیں ملیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کسی سیاست دان کو آزاد الیکشن لڑنے سے کیسے روک سکتی ہے؟۔ فرض کریں عمران خان، نواز شریف، آصف زرداری، بلاول بھٹو یا مولانا فضل الرحمن پارٹی کے بڑے لیڈرز ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی کہے ہم نے آزاد الیکشن لڑنا ہے تو ہم کیسے انہیں روک سکتے ہیں؟۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ پارٹی نشان نہ ملنے سے سیاسی جماعت کی رجسٹریشن ختم نہیں ہوتی۔ پی ٹی آئی امیدواروں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کی لیکن سنی اتحاد کونسل کو پارلیمنٹ میں موجود ہی نہیں تھی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ نے سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کیس فیصلے کا حوالہ دیا، وہاں تو تسلیم شدہ حقائق تھے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ 1985 کے انتخابات میں ایک سیاسی جماعت نے کہا ہم عوام دوست جماعت ہیں۔ کیا آپ نے بھی ایسی کوئی اصطلاح متعارف کرائی، جس پر وکیل نے بتایا کہ جی ہاں! ہم نے کپتان کا سپاہی کی اصطلاح متعارف کرائی تھی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ لگتا ہے پی ٹی آئی کے اندر کوآرڈینیشن کا فقدان تھا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ لگتا ہے جن 39 اراکین اسمبلی نے سیاسی وابستگی پی ٹی آئی ظاہر کی وہ زیادہ عقل مند تھے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ زیادہ عقل مند تھے یا پھر زیادہ دباؤ برداشت کرنے والے تھے۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی ارکان کو آزاد قرار دینے کیخلاف آپ نے مکمل قانونی جنگ لڑی یا راستے میں سب چھوڑ دی؟، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہم نے ادھوری نہیں چھوڑی، آپ الزام لگانا چاہیں تو بے شک لگائیں۔ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ رجسٹرار آفس نے اعتراض لگایا،ہم نے سوچا اب الیکشن کے بعد دیکھیں گے۔ ہمیں الزام نہ دیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اپیل آپ فائل نہ کریں تو الزام کسے دیں پھر؟۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرشنگھائی تعاون تنظیم کی بلوچستان میں دہشت گردی کی مذمت، پہلگام واقعے پربھارت کا موقف مسترد اسرائیل کی غزہ میں دہشت گردی بڑھ گئی، امداد کے متلاشی 80 فلسطینی شہید جس قیادت کو اپنے لوگ گالیاں دے رہے ہوں اس کے پیچھے کون نکلے گا، شیر افضل مروت شنگھائی تعاون تنظیم: پاکستانی مؤقف کی تائید پر بھارت ناراض، اعلامیہ پر دستخط سے انکار ’بلاول سے شادی کیلئے بڑے گھر کی ایک لڑکی کالا جادو سیکھ رہی ہے‘، معروف ماہر علم نجوم کے سنسنی خیز انکشافات پشاور ہائی کورٹ نے نیب کو پی ٹی آئی رہنما اعظم سواتی کو گرفتاری سے روک دیا رومانوی زبان‘‘کی پاکستان میں پہلی بار’’نمل‘‘اسلام آباد میں تدریسCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم