ایران کیخلاف فوجی آپریشن انتہائی کامیاب رہا، بعض چینل بے بنیاد خبریں چلا رہے ہیں، امریکی وزیر دفاع کی بریفنگ WhatsAppFacebookTwitter 0 26 June, 2025 سب نیوز

واشنگٹن (سب نیوز)امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ نے پینٹاگون میں پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ ایران پر ایک کامیاب اور تاریخی فوجی آپریشن کیا گیا جس میں ایرانی جوہری تنصیبات مکمل طور پر تباہ کر دی گئیں۔ انہوں نے بتایا کہ صدر ٹرمپ کی قیادت میں انتہائی پیچیدہ آپریشن مکمل ہوا جس کے نتیجے میں ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی ممکن ہوئی۔ جنرل ڈین کین نے بتایا کہ فردو نیوکلیئر سائٹ پر جدید میزائلوں سے حملہ کیا گیا اور ایران کے جوابی حملے کو محض دو منٹ میں ناکام بنایا گیا۔ امریکی حکام کے مطابق ایران کو بھاری نقصان پہنچا ہے۔
واشنگٹن میں امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ نے امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس جنرل ڈین کین کے ہمراہ پینٹاگون میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ بعض امریکی چینلز من گھڑت خبریں چلا رہے ہیں، ایران پر کامیاب حملے کیے گئے، امریکا نے ایران کے خلاف تاریخی آپریشن کیا۔امریکی وزیر دفاع نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انتہائی پیچیدہ اور مشکل آپریشن مکمل کرایا، فوجی آپریشن کا مقصد خطے میں جاری جنگ کو ختم کرنا تھا، فوجی مہارت کیساتھ آپریشن مکمل کیا گیا۔
پیٹ ہیگسیتھ نے کہا کہ آپریشن کے نتیجے میں ایران اسرائیل جنگ بندی ہوئی، ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی خوش آئند ہے، ایران کی جوہری تنصیبات مکمل طور پر تباہ ہو گئیں۔امریکی وزیر دفاع نے بتایا کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی نے بھی کہا کہ حملوں سے ایران کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ ای اے آئی اے کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل اور امریکی حملوں سے ایران کو بھاری نقصان پہنچا۔ ایرانی وزیر خارجہ نے بھی کہا کہ ایرانی جوہری تنصیبات کو بڑا نقصان پہنچا۔
انھوں نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ سی آئی نے بھی کہا حملوں میں ایرانی جوہری تنصیبات کو بھاری نقصان پہنچا۔ پیٹ ہیگسیتھ نے کہا کہ یہ کامیابی صدر ٹرمپ کی وجہ سے ممکن ہوئی، اس تاریخی کامیابی پر امریکیوں کو جشن منانا چاہیے تھا۔امریکی وزیر دفاع نے واضح کیا کہ ٹرمپ کے خلاف امریکی میڈیا مخالفت برائے مخالفت کی پالیسی پر چل رہا ہے، صدر ٹرمپ جو بھی کرتے ہیں امریکی میڈیا مخالفت ہی کرتا ہے۔ ایرانی ایٹمی پروگرام کی تباہی کسی بھی امریکی صدر کا خواب ہو سکتا تھا۔امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس جنرل ڈین کین نے میڈیا کو بریفنگ میں بتایا کہ ایران نے قطر میں امریکی تنصیبات پرحملہ کیا، قطر میں ایرانی حملے کی اطلاع پہلے ہی مل گئی تھی، حملے کا جواب دینے کیلئے ہمارے پاس 2 منٹ تھے۔
جنرل ڈین کین نے کہا کہ ایرانی حملے کا دفاع امریکا کی صلاحیتوں کو ثابت کرتا ہے، ایران نے بڑا حملہ کیا جسے ناکام بنایا گیا، امریکا نے بڑی تعداد میں میزائل فائر کیے، نہیں بتا سکتا ہم نے حملہ ناکام بنانے کیلئے کتنے میزائل استعمال کیے۔امریکی جنرل نے بتایا کہ فردو نیوکلیئر سائٹ پر حملے کیلئے منصوبہ بندی کے تحت ڈیزائن ہتھیار استعمال کیے، فردو نیوکلیئر سائٹ پر میزائل حملے کیلئے سپر کمپیوٹر سے مددلی گئی، فردو نیوکلیئر سائٹ پر میزائل 1000 فٹ فی سیکنڈ کی رفتار سے زمین کی گہرائی تک گیا۔جنرل ڈین کین نے کہا کہ العدید ایئر بیس پر حملے کے دوران قطر نے امریکا کا ساتھ دیا، فردو نیو کلیئر سائٹ پر تمام 6 میزائل نے اپنے ہدف کو نشانہ بنایا۔ مشن میں کیپٹن سے لے کر کرنل رینک تک کے افسران نے حصہ لیا، 4 اور 3 کی فارمیشن سے ہمارے طیاروں نے مشن میں حصہ لیا، مخالفین جان لیں ہمارے پاس ایسی کئی ٹیمیں ہیں جو مشن مکمل کرنا جانتی ہیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرترمیمی فنانس بل، سالانہ 6لاکھ روپے تک تنخواہ لینے والے افراد ٹیکس سے مستثنیٰ قرار اگلی خبرفیچر فلم’’شی جن پھنگ کی ثقافت میں دلچسپی‘‘ کا مین اسٹریم اطالوی میڈیا پر نشرکر دی گئی ترمیمی فنانس بل، سالانہ 6لاکھ روپے تک تنخواہ لینے والے افراد ٹیکس سے مستثنیٰ قرار لاالہ الاللہ کی صدائوں کیساتھ وطن پر قربانی کا عہد، نیا ملی نغمہ پاکستان جاری وفاقی کابینہ کا اہم اجلاس، وزیراعظم اور فیلڈ مارشل سے متعلق قرارداد منظور بھارت کیخلاف ایک اور تاریخی فتح، مودی سرکار پہلگام واقعے کو پاکستان سے جوڑنے میں ناکام ایران کے سپریم لیڈر کا جنگ میں فتح کا اعلان، ایرانی قوم کو مبارکباد بھارتی وزیر دفاع شنگھائی تعاون تنظیم کے مشترکہ اعلامیے پر بھڑک اٹھے، دستخط سے انکار TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: امریکی وزیر دفاع فوجی آپریشن

پڑھیں:

ایران میں اقبال ؒ شناسی

اسلام ٹائمز: ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ایک بار فرمایا کہ ڈاکٹر علی شریعتی میں علامہ اقبال کی جھلک نظر آتی ہے، انکی فکر اقبال کی مانند ہے اور وہ بھی اقبال کی طرح صاحب فقر اور امت مسلمہ کے درد سے آشنا ہیں۔ ڈاکٹر شریعتی خود کہتے تھے کہ اقبال کی شخصیت میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اسوہ حسنہ کی جھلک ملتی ہے۔ علامہ اقبال کا پی ایچ ڈی مقالہ بھی ایرانی تہذیب و فلسفے پر مبنی تھا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ایک لیکچر کے دوران انہوں نے کہا کہ یونان کی فتح سے روم کو جو نعمتیں ملیں، اسی طرح ایران کی فتح سے مسلمان مالا مال ہوئے۔ بلاشبہ علامہ اقبال کی شخصیت اور کلام پاکستان اور ایران کے درمیان ایک مضبوط ثقافتی اور فکری پل کی حیثیت رکھتا ہے، جو آنیوالے زمانوں میں بھی دونوں ممالک کے دلوں کو جوڑے رکھے گا۔ تحریر: توقیر کھرل

شاعر مشرق، حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ برصغیر کی عظیم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں، جن کی فکر اور شاعری نے نہ صرف اُمت مسلمہ بلکہ پوری دنیا کو متاثر کیا ہے۔ انہوں نے اردو، فارسی اور انگریزی زبانوں میں طبع آزمائی کی اور ہر زبان کو اپنے بلند افکار کی بدولت اعلیٰ مقام عطا کیا۔ شاعری کے لیے انہوں نے خاص طور پر اردو اور فارسی کو منتخب کیا، جو ان کی فکری گہرائی اور روحانی وسعت کی غماز ہے۔ علامہ اقبال ایران میں ''اقبال لاہوری'' کے نام سے معروف ہیں اور ان کی شاعری کا تقریباً ساٹھ فیصد حصہ فارسی میں ہے، جو انہیں ایرانی ادبی اور فکری ورثے کا ناگزیر جزو بناتا ہے۔ اقبال نے کبھی ایران کا دورہ نہیں کیا، مگر ان کی فکر نے 1979ء کے اسلامی انقلاب کو گہرا اثر دیا اور آج بھی ایرانی دانشوروں، طلباء اور عوام میں مقبول ہیں۔

انہوں نے فارسی کو اپنے فلسفیانہ اور روحانی افکار کے اظہار کے لیے منتخب کیا، کیونکہ یہ زبان ان کے خیالات کی گہرائی کو بہتر طور پر بیان کرسکتی تھی۔ ایرانی دانشور اقبال کو مولانا رومی کے بعد فارسی کا سب سے عظیم شاعر قرار دیتے ہیں اور ان کی شاعری میں ایران کو اسلامی اتحاد کا مرکز گردانتے ہیں، جیسا کہ اقبال نے فرمایا: ''اگر تہران مشرق کا جنیوا بن جائے تو دنیا کی حالت بدل جائے گی۔'' ایران میں اقبال کی شاعری کو اسکولوں کے نصاب میں شامل کیا گیا ہے، خاص طور پر ''زبور عجم'' جو انقلاب سے قبل نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کا ذریعہ بنی۔ ایک زمانے میں ایران بھر میں کوئی ''خیابان اقبال'' موجود نہ تھا اور اقبال کی نظم ''جوانان عجم'' کی آواز پر لبیک کہنے والے کم تھے، مگر اقبال خود آگاہ تھے کہ ان کی صدا ایک دن ضرور گونجے گی۔

آج ایران کا کوئی بڑا شہر ایسا نہیں، جہاں اقبال کے نام سے منسوب شاہراہ نہ ہو۔ مشہد میں وزارت تعلیم کے تحت چلنے والا کالج اقبال کے نام پر ہے، جبکہ تہران کی شاہراہ ولی عصر پر ''اقبال لاہوری سٹریٹ'' واقع ہے، جہاں استعمال شدہ کتابوں کی دکانوں میں اقبال کی کتابیں آسانی سے دستیاب ہیں۔ تہران یونیورسٹی اور فردوسی یونیورسٹی مشہد میں اقبال پر تحقیقاتی مقالہ جات لکھے جاتے ہیں، جو دونوں ممالک کے درمیان علمی تعاون کی روشن مثال ہیں۔ پاکستان اور ایران نہ صرف مذہبی اور ثقافتی بنیادوں پر جڑے ہوئے ہیں، بلکہ شاعر مشرق علامہ اقبال سے گہری عقیدت بھی ان کا مشترکہ ورثہ ہے۔ علامہ اقبال دونوں اسلامی جمہوریاؤں کے درمیان تاریخی اور فکری روابط کا ایک اہم باب ہیں۔ آیت اللہ خامنہ ای نے علامہ اقبال پر ایک کتاب بھی تحریر کی ہے اور انہیں ''مرشد'' کا درجہ دیا ہے، وہ اقبال کو ''مشرق کا بلند ستارہ'' قرار دیتے ہیں، جو ایرانی عوام میں ان کی قدر و منزلت کی عکاسی کرتا ہے۔

علامہ اقبال کو ایران اور اس کی ثقافت سے گہرا لگاؤ تھا، انہوں نے اپنی شاعری میں ہر خوبصورت چیز کو ایران سے تشبیہ دی اور کشمیر کو ''ایران صغیر'' کہہ کر اس کی خوبصورتی کو خراج عقیدت پیش کیا۔ تہران میں منعقد ہونے والی پہلی بین الاقوامی اقبال کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں آیت اللہ خامنہ ای نے اقبال کی شخصیت اور شاعری پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ اقبال کا فارسی کلام بھی میرے نزدیک شعری معجزات میں سے ہے۔ ہمارے ادب کی تاریخ میں فارسی میں شعر کہنے والے غیر ایرانی بہت زیادہ ہیں، لیکن کسی کی بھی نشان دہی نہیں کی جاسکتی، جو فارسی میں شعر کہنے میں اقبال کی خصوصیات کا حامل ہو۔ اقبال کی مادری زبان فارسی نہ ہونے کے باوجود انہوں نے اعلیٰ پائے کی فارسی شاعری کی، جو نہ صرف عوامی زبان سے بلند تھی بلکہ ادبی حلقوں کی زبان بھی تھی۔ ایرانی عوام نے اقبال کی شاعری کو بے حد پسند کیا اور اس کی پذیرائی کی۔

ایران میں اقبال شناسی کا سلسلہ دونوں برادر اسلامی ممالک پاکستان اور ایران کے درمیان ثقافتی اور فکری رابطوں کو مزید مستحکم کر رہا ہے۔ اس روایت کی بنیاد جامعہ عثمانیہ کے شعبہ ایرانیات کے استاد سید محمد علی داعی الاسلام نے رکھی، جنہوں نے لیکچرز اور مقالات پر مبنی کتاب ''اقبال و شعر فارسی'' تحریر کی۔ اسی طرح سید محیط طباطبائی نے 1945ء میں اپنے مجلے کا ایک خصوصی اقبال نمبر شائع کیا، جو اقبال کی فکر کو ایرانی حلقوں میں متعارف کرانے کا اہم ذریعہ بنا۔ مرحوم پروفیسر سعید نفیسی نے فارسی میں اقبال شناسی کی بنیادوں کو مزید پختہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی، جبکہ ڈاکٹر پرویز ناتل خانلری نے مجلہ سخن میں ایک گراں قدر مقالہ لکھ کر اس روایت کو وسعت بخشی۔ 1951ء میں ایران کے مجلہ ''دانش'' نے ''اقبال نامہ'' کے عنوان سے ایک کتاب شائع کی، جس میں 1950ء سے 1951ء کے دوران یوم اقبال کے موقع پر پڑھے گئے مقالات اور نظمیں شامل تھیں، جو اقبال کی شاعری اور فلسفے کی ایرانی معاشرے میں گونج کی عکاس تھیں۔

1970ء میں ایران کے مذہبی ادارے ''حسینہ ارشاد'' نے اقبال کی یاد میں ایک یادگار کانفرنس کا اہتمام کیا، جہاں تقاریر، مضامین اور شاعری کے ذریعے اقبال کے افکار کو اجاگر کیا گیا۔ 1973ء میں تہران یونیورسٹی کے سابق چانسلر ڈاکٹر فضل اللہ نے ''محمد اقبال'' کے عنوان سے ایک مختصر مگر مدلل مقالہ تحریر کیا، جو محض پچاس صفحات پر مشتمل ہونے کے باوجود اقبال شناسی کی راہ میں ایک سنگ میل ثابت ہوا۔ 1975ء میں فخرالدین حجازی نے تہران سے ''سرود اقبال'' نامی کتاب شائع کی، جو اقبال کی شاعری کی موسیقی اور لسانی خوبصورتی کو نمایاں کرتی ہے۔ ڈاکٹر علی شریعتی اقبال شناسی کے میدان میں ایک تابناک ستارہ ہیں، جو اقبال کے جلسوں اور کانفرنسوں میں پیش پیش رہتے اور ان کے خیالات کی ترویج میں دیانتداری کا مظاہرہ کرتے۔

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ایک بار فرمایا کہ ڈاکٹر علی شریعتی میں علامہ اقبال کی جھلک نظر آتی ہے، ان کی فکر اقبال کی مانند ہے اور وہ بھی اقبال کی طرح صاحب فقر اور امت مسلمہ کے درد سے آشنا ہیں۔ ڈاکٹر شریعتی خود کہتے تھے کہ اقبال کی شخصیت میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اسوہ حسنہ کی جھلک ملتی ہے۔ علامہ اقبال کا پی ایچ ڈی مقالہ بھی ایرانی تہذیب و فلسفے پر مبنی تھا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ایک لیکچر کے دوران انہوں نے کہا کہ یونان کی فتح سے روم کو جو نعمتیں ملیں، اسی طرح ایران کی فتح سے مسلمان مالا مال ہوئے۔ بلاشبہ علامہ اقبال کی شخصیت اور کلام پاکستان اور ایران کے درمیان ایک مضبوط ثقافتی اور فکری پل کی حیثیت رکھتا ہے، جو آنے والے زمانوں میں بھی دونوں ممالک کے دلوں کو جوڑے رکھے گا۔

اقبال نے اپنی مادری زبان پنجابی کے بجائے اردو اور فارسی کو خیالات کے اظہار کا ذریعہ بنایا، ان کی شاعری کے تقریباً بارہ ہزار اشعار میں سے سات ہزار فارسی میں ہیں، جو ان کے دس شعری مجموعوں میں سے چھ پر مشتمل ہیں۔ یہ انتخاب ان کی ایرانی تہذیب و فلسفہ سے گہری وابستگی کی عکاسی کرتا ہے۔ اقبال کی شاعری اور فلسفے نے ایرانی معاشرے پر گہری چھاپ چھوڑی، جہاں متعدد سڑکیں، لائبریریاں، جامعات اور ادارے ان کے نام پر ہیں، جو ان کے نظریات کی قدر کے غماز ہیں۔ یہ سب پاکستان اور ایران کے درمیان برادرانہ روابط کو مزید مستحکم کرنے کا ذریعہ ہیں، جو قومی اتحاد اور اسلامی بھائی چارے کی روشن مثالیں پیش کرتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • پاک افغان کشیدگی: ایران نے ثالثی و مصالحت کی پیشکش کردی
  • ایران کی پاکستان اور افغانستان کے درمیاں ثالثی کی پیشکش
  • اسحاق ڈار سے ایرانی وزیر خارجہ کا رابطہ، پاک افغان کشیدگی پر تعاون کی پیشکش
  • اسحاق ڈار سے ایرانی وزیر خارجہ کا رابطہ، پاک افغان کشیدگی میں کمی کیلئے تعاون کی پیشکش  
  • ایران میں اقبال ؒ شناسی
  • ایرانی وفد کی ملاقات‘ علامہ اقبال کا دن ملکر منائیں گے: عظمیٰ بخاری
  • میں ایران پر اسرائیلی حملے کا انچارج تھا،ٹرمپ
  • ایران کیخلاف پابندیوں کے بارے ٹرمپ کا نیا دعوی
  • ایران پر اسرائیلی حملے کی "ذمہ داری" میرے پاس تھی، ڈونلڈ ٹرمپ کی شیخی
  • ایران کیخلاف امریکی و اسرائیلی حملوں کی مذمت سے گروسی کا ایک بار پھر گریز