Express News:
2025-11-10@14:54:28 GMT

محنت اور کمٹمنٹ

اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT

ایک تازہ مستند عالمی سروے کے مطابق: پاکستان میں75فیصد لوگ کتابیں نہیں پڑھتے ہیں ۔ ایسے معاشرے اور سماج میں اگر کسی ضخیم ، بھاری بھر کم اور مہنگی کتاب کاایک سال سے بھی کم عرصے میں دوسرا ایڈیشن شائع ہو جائے تو اِسے باکمال اور قابلِ فخر معرکہ ہی کہا جانا چاہیے ۔ میرے ہاتھوں میں یہ کتاب یہی کہانی سنا رہی ہے ۔ مجھے چند ہفتے قبل یہ کتاب بذریعہ ڈاک ملی ۔ مصنف و مرتّب ومولّف نے از راہِ مہربانی خود ہی مجھے اپنی کتاب کا یہ انمول تحفہ ارسال فرمایا ہے ۔

اُن کا شکریہ۔ اِس ضخیم کتاب کا نام و عنوان ہے : مسئلہ قادیانیت۔ جمیل اطہر قاضی صاحب اِس کے مرتّب کنندہ ہیں ۔ زیر نظر یہ کتاب ایک ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔ قیمت ڈھائی ہزار روپے ۔ کتا ب کے پبلشر کی طرف سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ اِس کتاب کا پہلا ایڈیشن اکتوبر2024 میں شائع کیا گیا تھا اور جنوری2025 میں اِس کا دوسرا ایڈیشن چھاپا گیا ہے ۔ اِس دعوے کے پس منظر میں اگر راقم اِسے باکمال کتابی و علمی معرکہ کہتا ہے تو کیا یہ بے جا ہے؟

 جناب جمیل اطہر قاضی، ہمارے ملک کے ممتاز اور بزرگ صحافی ہیں ۔ صحافتی سیاست اور منتخب صحافتی باڈیز کے’’قاضی‘‘ بھی رہے ہیں ۔ آج بھی ایک سے زائد اخبارات و جرائد کے مالک و مدیر ہیں ۔ وہ خود کو ’’سرہندی‘‘ بھی کہلاتے ہیں کہ تشکیلِ پاکستان سے چھ سال قبل سرہند ( آج بھارت کا حصہ) میں پیدا ہُوئے ۔

بارہ تیرہ سال کی عمر میں جیل یاترا کرنا پڑی ۔ صحافت بھی کرتے رہے اور عشق و محبت کا یہ فریضہ بھی جی جان سے ادا کرتے رہے ۔ کئی معروف قومی و علاقائی اخبارات کی نامہ نگاری و نمائندگی کرتے کرتے خود کئی اخبارات و جرائد کے مالک بن گئے۔ اِس حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ جمیل اطہر قاضی سرہندی صاحب ہمارے ملک کے نہائت تجربہ کار ، سرد و گرم چشیدہ اور84سالہ بزرگ ترین صحافی ہیں ۔

 اُن کا کہنا ہے کہ ’’33سال کی عمر میں فریضہ حج ادا کرنے کا موقع ملا تو روضہ رسول ﷺپر حاضری کے دوران دعا کے لیے یہ الفاظ زبان سے ادا ہُوئے کہ باری تعالیٰ، مرنے سے پہلے کوئی ایسا کام کرنے کی توفیق عطا فرمانا جو روزِ قیامت حضور نبی کریم ﷺکی شفاعت کا ذریعہ اور وسیلہ بن جائے ۔‘‘پھر کہتے ہیں یہ کتاب میری اِسی دعا کی قبولیت کی طرف اشارہ ہے ۔‘‘ ہماری دعا ہے کہ یہ ’’اشارہ‘‘ کتاب کے مرتّب کنندہ کے لیے کامل قبولیت کا باعث بن جائے ۔زیر نظر کتاب200سے زائد مضامین کا مجموعہ ہے ۔

اِسی سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ کتاب مرتّب کرنے کے لیے کتنے عرصے تک کتنی محنت کرنا پڑی ہوگی ۔ گویا یہ کتاب مرتبت کی ایمانی و مذہبی کمٹمنٹ کا مظہر بھی ہے ۔ موصوف اِس کتاب کے محض مرتّب کنندہ ہی نہیں ہیں ۔ اُنھوں نے خود بھی اِس میں قابلِ ذکر و قابلِ تحسین حصہ ڈالا ہے ۔ زیر نظر کتاب میں اُن کے اپنے لکھے گئے تقریباً ایک درجن وقیع مضامین شامل ہیں ۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ کتاب، مذکورہ موضوع پر، ایک مستند انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت اختیار کر گئی ہے تو یہ کہنا شائد مبالغہ نہ ہوگا ۔

زیر نظر کتاب کے مطالعہ کے دوران راقم کو یہ بات شدت سے کھٹکتی رہی کہ تحریکِ تحفظِ ختمِ نبوت کی طویل اور پُر آزما جدوجہد میں جن بریلوی علمائے کرام نے شاندار اور مرکزی کردار ادا کیا ، اُن کا ذکر نسبتاً کم کم ہے ۔ اِس ضمن میں اگر معروف صحافی اور پبلشر، جناب منیر احمد منیر، کی شائع کردہ کتاب (’’میں‘‘) کے کچھ صفحات بھی شاملِ کتاب کر دیے جاتے تو کافی ہوتا ۔ زیر نظر کتاب میں لاہور کی مسجد وزیر خان ،دارالعلوم نعیمیہ اور دارالعلوم حزب الاحناف کی رنگین تصاویر شائع کر دی گئی ہیں ۔ ایسی تاریخی اور معرکہ خیز کتاب میں کئی ایسے مضامین بھی شامل ہیں کہ جن کے لکھاریوں سے وابستہ یادوں سے دل و دماغ میں کئی حسین داستانیں اُبھر آئی ہیں ۔

مثال کے طور پر محترم مورّخ، محقق اور کئی کتابوں کے مصنف اہلِ حدیث عالم دین ، مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب مرحوم و مغفور ۔ بھٹی صاحب کا لکھا مضمون ’’ مولانا عبدالرحیم اشرف۔‘‘ شامل کتاب ہے۔ یہ مضمون پڑھتے ہُوئے ہمیں بھٹی صاحب شدت سے یاد آتے رہے ۔ کئی برس تک اُن سے ہماری محبت و مودّت کا رشتہ قائم رہا ۔ میری گزارشات پر اسحاق بھٹی صاحب نے ہمارے اُن دونوں جرائد میں شاندار ، ذہن کشا اور تاریخی مضامین تحریر فرمائے جن جرائد میں ہم بطور صحافی ملازمت کررہے تھے ۔

اہلِ حدیث علمائے کرام میں بھٹی صاحب ایسا وسیع القلب اور وسیع الذہن عالمِ دین ہم نے کم کم دیکھا ہے ۔ دل سے دعا نکلتی ہے کہ اللہ کریم اُنہیں کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں بلند مقام سے سرفراز فرمائے ۔ ہمارے دو سینئر صحافی دوستوں ( سعود ساحر مرحوم اور ادیب جاودانی مرحوم) کے مضامین بھی زیر نظر کتاب کی رونق اور وقعت میں اضافے کا سبب بنے ہیں ۔ سعود ساحر کے قلم سے 4صفحات پر مشتمل لکھا گیا ایک مضمون شاملِ کتاب ہے ۔ یہ مضمون بے حد اہم ہے ۔ کتاب کا اگر اشاریہ بھی ترتیب دے دیا جاتا تو بڑا مفید ہوتا ۔ اور اگر مضامین بارے یہ بھی لکھ دیا جاتا کہ پہلے پہل یہ کہاں، کب اور کس جریدے یا اخبار میں شائع ہُوئے تو کتاب کی وقعت مزید بڑھ جاتی۔ مگر اِس محنت طلب کام سے گریز کیا گیا ہے ۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: زیر نظر کتاب بھٹی صاحب یہ کتاب کتاب کا

پڑھیں:

محنت کشوں کے حقوق کا ضامن مزدور قانون

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

متحدہ پاکستان کے دور میں 18 مئی 1968 کو صنعتی ملازمین سے متعلق قانون کو یکجا اور اس میں ترمیم کرکے مغربی پاکستان صنعتی و تجارتی (احکامات قائمہ) آرڈیننس 1968 نافذ کیا گیا تھا۔ اس قانون کو وضع کرتے وقت پچھلے صنعتی و تجارتی ملازمت (احکامات قائمہ) آرڈیننس 1960 (آرڈیننس نمبر III آف 1960) کو منسوخ کر دیا گیا تھا۔ صنعتی و تجارتی ملازمت (احکامات قائمہ) آرڈیننس 1968مسلمہ طور پر کارکنوں کے لیے ایک جامع فلاحی قانون کا درجہ رکھتا ہے۔ اس آرڈیننس کا اطلاق پورے پاکستان پر ہوتا ہے، ماسوائے مرکزی اور صوبائی حکومت کے اداروں کے۔
اس قانون کے ذریعے صنعتی ملازمت سے متعلق قانون میں ترمیم اور اس کو یکجا کیا گیا ہے۔ اس شیڈول میں وہ احکامات قائمہ شامل ہیں جو متعین صنعتوں میں ملازمت کرنے والے کارکنوں کی ملازمتوں کو منظم کرتے ہیں۔ یہ ملازمتی قانون کارکنوں کو ان کے آئینی اور قانونی فوائد فراہم کرنے اور انصاف کو فروغ دینے کے لیے وضع کیا گیا تھا اور اس کے احکامات کو کارکن کی حمایت میں تعبیر کیا جانا چاہیے۔
لیکن 8 اپریل 2010 میں منظور ہونے والی اٹھارہویں آئینی ترمیم کے نتیجہ میں وفاق سے دیگر بے شمار شعبوں سمیت شعبہ محنت (Labor Subject) کو ختم کرکے اسے صوبوں کے حوالے کردیا گیا تھا۔ جس کے بعد مغربی پاکستان صنعتی و تجارتی (احکامات قائمہ) آرڈیننس 1968 کو وفاقی علاقہ اسلام آباد، صوبہ پنجاب،صوبہ سندھ،صوبہ خیبر پختونخوا اور صوبہ بلوچستان میں ترمیمی قانون کے ذریعے نظر ثانی کرکے وضع کیا گیا تھا۔

ہم اپنے اس مضمون میں افادہ عام کے لیے اس کارآمد مزدور قانون، صنعتی و تجارتی ملازمت (احکامات قائمہ) آرڈیننس 1968 کا خلاصہ پیش کر رہے ہیں۔
اس قانون کے مقاصد میں آجروں اور کارکنوں کو مخصوص تحفظ کی فراہمی، کارکنوں کی فلاح و بہبود، کارکنوں کی ملازمتوں کا تحفظ، شرائط ملازمت کا تحفظ، تنازعات کا باہمی افہام و تفہیم کے ساتھ تصفیہ اور آجروں اور کارکنوں کے درمیان بہتر تعلقات کو فروغ دینا ہے۔ اس قانون کا اطلاق کسی بھی ایسے صنعتی، کاروباری، تجارتی یا دیگر اداروں پر ہوتا ہے جہاں بیس یا زائد کارکنان ملازم ہوں،خواہ کارکنان براہِ راست یا کسی اور کے ذریعے ملازم رکھے گئے ہوں یا پچھلے 12 مہینوں کے دوران کسی بھی دن اتنے ملازم رکھے گئے ہوں۔
جبکہ ٹھیکیداری ملازمین کے معاملے میں یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان احکامات قائمہ پر عمل درآمد کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے، اس ادارہ پر یا ٹھیکیدارپر جس کو وہ کارکنوں کی افرادی قوت فراہم کرتا ہے۔؟ عدالتی فیصلوں کے مطابق جو شخص ملازمین پر کنٹرول رکھتا ہے، اسے آجر (Employer) تصور کیا جائے گا اور وہ ان احکامات قائمہ کی دفعات پر عمل درآمد کا پابند ہوگا۔
پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کے مطابق کارکنوں پر کنٹرول ثابت کرنے کے لیے درج ذیل عوامل کو مدِنظر رکھا جاتا ہے:

(1) ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کون کرتا ہے!
(2) ملازمین کو بھرتی یا برطرف کرنے کا اختیار کس کے پاس ہے۔
(3) انتظامی کنٹرول کس کے پاس ہے، وغیرہ
اس ملازمتی قانون کے تحت آجران کولازمی طور پر کارکنوں کی ملازمت کی شرائط و ضوابط مرتب کرنے، کارکنوں کو تحریری تقرر نامہ جاری کرنے، جن میں کارکنوں کے روزگار سے متعلق شرائط و ضوابط،اوقاتِ کار، دوران ملازمت تبدیلی اور ترقی، ملازمت کے خاتمے کے اصول اور روزگار سے متعلق دیگر شرائط وغیرہ کی صراحت کی گئی ہو، کے تحریری احکامات جاری کرنا ہوں گے۔
اس آرڈیننس کا مقصد کارکنوں کی ملازمت کے طریقہ کار کو یکساں اور باضابطہ بنانا، صنعتی، کاروباری،تجارتی اور دیگر شعبوں میں کارکنان کے ساتھ منصفانہ سلوک کو یقینی بنانا ہے۔
صنعتی و تجارتی ملازمت (احکامات قائمہ ) آرڈیننس 1968 کی رو سے کارکنوں کی درجہ بندی، ٹکٹس کا اجراء، کارکنوں کو ملازمت کی شرائط و ضوابط تحریری طورپرفراہم کرنا، اوقاتِ کار اور اجرتوں کی تشہیر، ہفتہ وار رخصت، تعطیلات اور تنخواہ کے دنوں اوراجرت کی شرح کی تشہیر،اجتماعی ترغیبی منصوبہ(Group Incentive Scheme) ، کارکنوں کی طبعی یا حادثاتی موت سے تحفظ کے لیے لازمی گروپ انشورنس، بونس کی ادائیگی، شفٹوں کے اوقات، کام پرحاضری، کارکنوں کی تاخیر سے ڈیوٹی پر آمد، ادارے کی بندش، کام بند کرنا اور کارکنوں کی ملازمت کا خاتمہ، عملہ میں کمی یعنی چھانٹی ((Retrenchment) کا طریقہ کار اور چھانٹی کے شکار کارکنان کی دوبارہ ملازمت اور بدعملیوں پر تنبیہ اور جرمانے کی سزائیں شامل ہیں۔
اس قانون کے مطابق کارکن سے مراد کوئی بھی وہ شخص ہے جو کسی صنعتی، کاروباری، تجارتی یا دیگر اداروں میں ملازمت کے عوض ہنر مند یا غیر ہنر مند، دستی یا دفتری کام انجام دیتا ہو۔ صنعتی و تجارتی ملازمت (اسٹینڈنگ آرڈرز) آرڈیننس 1968 میں کارکنوں کو 6 بنیادی اقسام مستقل، آزمائشی،بدلی،عارضی، زیر تربیت/شاگرد اور ٹھیکیداری میں تقسیم کیا گیا ہے۔
(جاری )

اسرار ایوبی گلزار

متعلقہ مضامین

  • ’پاکستان جیسا پیار کہیں نہیں ملا‘، بابا گورونانک کی تقریبات میں شرکت کے بعد سکھ یاتریوں کی واپسی شروع
  • ڈار صاحب ترمیم کے حوالے سے نمبر پورے ہیں؟نائب وزیراعظم نے جواب دیدیا
  • سکھر: ایک محنت کش موٹر سائیکل کے پارٹس کو رنگ کرتے ہوئے
  • سندھ کے محنت کش جماعت اسلامی کے اجتماع عام میں شرکت کریں گے
  • محنت کشوں کے حقوق کا ضامن مزدور قانون
  • بُک شیلف
  • کتاب دوستی: عالمی رجحانات اور پاکستان کی صورت حال
  • رمیش سنگھ اروڑا کا گوردوارہ پنجہ صاحب کا دورہ، بھارت کو رویہ بدلنے کا پیغام
  • حکیم مشرق اقبال اور علامہ ہروی کی ابتدائی ملاقاتیں
  • لیبر قوانین پر عمل نہیں ہورہا، مزدور آج بھی مشکل میں ہیں ، شکیل احمد