زیر طبع خود نوشت سے ایک ورق
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
محمد اظہار الحق
پلٹ کر دیکھتا ہوں تو ڈھاکا یونیورسٹی میں گزارا ہوا عرصہ زندگی کے دلکش ترین ٹکڑوں میں ایک نمایاں ٹکڑا لگتا ہے۔
بے فکری تھی اور آسودگی! ڈھاکا یونیورسٹی کا ماحول مجموعی طور پر میری اْفتادِ طبع کے عین مطابق تھا۔ ذہین اور طباع لوگ! جو بات کو فوراً سمجھ جاتے تھے۔ ادب اور سیاست، بین الاقوامی تاریخ، بین الاقوامی تعلقات، بر صغیر کی تاریخ، غرض اردو اور فارسی شاعری کو چھوڑ کر ان سارے موضوعات پر بات کرنے اور بات سمجھنے والے وہاں موجود تھے۔ میں گورنمنٹ کالج راولپنڈی سے گیا تھا۔ ڈھاکا یونیورسٹی میں پنجاب یونیورسٹی اور گورنمنٹ کالج لاہور کے طلبہ بھی آن ملے تھے۔ علم و دانش کا جو ماحول ڈھاکا یونیورسٹی میں تھا وہ مغربی پاکستان کے اکثر و بیش تر تعلیمی اداروں میں عنقا تھا۔ جب مغربی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ کوٹ پتلون اور ٹائی میں ملبوس ہو کر کلاسوں میں تشریف لاتے تھے۔ ڈھاکا یونیورسٹی کے طلبہ کی اکثریت کرتا پاجامہ اور چپل پہن کر یونیورسٹی آتی تھی۔ یہ لوگ روکھا سوکھا کھاتے تھے۔ والدین سے اتنی ہی رقم منگواتے تھے جو قوتِ لایموت کے لیے ناگزیر تھی۔ بہت سے تو اخبارات میں مضامین لکھ کر اپنا خرچ پورا کرتے تھے۔ پوری پوری رات لائبریری میں بسر کر دیتے تھے۔ دو چیزیں ڈھاکا یونیورسٹی میں بالکل نئی دیکھیں۔ لائبریری کا 24 گھنٹے کھلا رہنا اور امتحانی پرچوں کا وقت تین گھنٹوں کے بجائے چار گھنٹے ہونا!
مشرقی پاکستان کے حوالے سے جو حقیقت سب سے زیادہ درد ناک ہے وہ مغربی پاکستانیوں کی کج فہمی ہے۔ غالباً وہ حالتِ انکار (State of Denial) جس میں پاکستان گلے گلے تک دھنس گیا، سقوطِ ڈھاکا ہی سے شروع ہوئی۔ جس ملک کے دانشوروں کی اکثریت مشرقی پاکستان کھو دینے کے نصف صدی بعد بھی سینہ تان کر سارا الزام بنگالیوں کے سر تھوپ رہی ہو اور یہ سوچے بغیر کہ پاکستان قتل و غارت اور بد امنی کا مر کز بن گیا ہے، بنگلا دیش کی ’’ناکامیاں‘‘ گنوانے پر مصر ہو، وہ ملک اس زمانے میں کس طرح مثبت سوچ رکھ سکتا تھا جب مشرقی پاکستان اس کا حصہ تھا۔
مشرقی اور مغربی پاکستان کی آبادیوں کی سماجی کمپوزیشن کا مطالعہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک غیرحقیقت پسندانہ اتحاد تھا۔ مشرقی پاکستان میں فیوڈلزم کا کوئی وجود نہ تھا۔ خواندگی کا تناسب زیادہ تھا۔ وہاں کے عوامی نمائندے تمام کے تمام اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ اس کے مقابلے میں مغربی پاکستان ایک فیوڈل اور قدیم طرز کا جاگیردارانہ معاشرہ تھا۔ بلوچستان کے سرداری نظام کی، جو آج تک جوں کا توں قائم ہے، شاید ہی مہذب دنیا میں کوئی مثال پائی جاتی ہو۔ اکثر منتخب نمائندے نیم خواندہ تھے۔ تکبر اور رعونت طرۂ امتیاز تھا۔ اس رعونت کی انتہا یہ تھی کہ جب سینیٹری کا غیرملکی سامان ایک بار ہاتھ لگا اور اس پر چھینا جھپٹی شروع ہوئی تو کابینہ کے بنگالی ارکان نے بھی اپنا حصہ مانگا۔ اس پر انہیں جو جواب دیا گیا یہ تھا کہ تم لوگ رفع حاجت کے لیے کھیتوں میں جاتے ہو، تمہیں اس سامان کی کیا ضرورت ہے! مغربی پاکستانی سیاستدان تھے یا بیورو کریٹ یا عسکری حلقے، بنگالی ہم وطنوں کے ساتھ سب کا رویہ کم و بیش یہی تھا۔ ایک صاحب نے ملک کے اس وقت کے معروف ترین اخبار میں ایک واقعہ لکھا تھا کہ مولوی فرید الدین احمد صاحب ایک بار لْنگی میں ملبوس کسی میس میں چلے گئے تو انہیں باقاعدہ گالیاں دے کر وہاں سے نکال دیا گیا۔
اس میں کیا شک ہے کہ مشرقی پاکستان کا کمایا ہوا زرِمبادلہ مغربی پاکستان پر خرچ ہوا۔ نیم سرکاری اخبار پاکستان ٹائمز نے اپنے ایک اداریے میں یہ حقیقت تسلیم کی تھی! (اس اداریے کا تراشہ ایک مدت میرے پاس محفوظ رہا) عساکر میں انہیں نہ صرف یہ کہ اپنی آبادی
کے تناسب سے حصہ نہ دیا گیا بلکہ بالکل ہی برائے نام دیا گیا۔ اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ برصغیر کے تین علاقوں نے انگریزوں کا مقابلہ کیا تھا۔ بنگال، یوپی اور سندھ! چنانچہ ان تینوں علاقوں کو فوج کے لیے ’’اَن فٹ‘‘ قرار دیا گیا۔ جن علاقوں سے فرمانبرداری اور اطاعت ملی ان پر عساکر کے دروازے کھول دیے گئے بلکہ کچھ کو تو ’’مارشل ایریا‘‘ قرار دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے گورنر، اکثر و بیش تر مغربی پاکستان سے مقرر ہوتے رہے۔ مغربی پاکستان پر کسی مشرقی پاکستانی کو گورنر نہ مقرر کیا گیا۔ ایوب خان نے ایک مشرقی پاکستانی عبدالمنعم خان کو مشرقی پاکستان کا گورنر مقرر کیا مگر وہ گورنر سے زیادہ صاحب کا غلام تھا۔ جب مشرقی پاکستانی ریڈیو سے ٹیگور کی شاعری نشر کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی تو لوگوں کی طرف سے ردِعمل آیا اور پابندی ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا۔ عبد المنعم خان نے ڈھاکا یونیورسٹی کے بنگالی زبان کے شعبہ کے صدر ڈاکٹر عبدالحئی سے کہا کہ آخر تم لوگ ٹیگور کے گیت خود کیوں نہیں لکھتے؟ ایوب خان کا طویل دورِ آمریت اس تابوت میں آخری کیل تھا۔ کسی مغربی پاکستانی کے پاس بنگالیوں کے اس سوال کا جواب نہیں تھا کہ اگر جرنیلوں ہی نے ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے تو بنگالیوں کی باری کس طرح اور کب آئے گی؟ مجیب الرحمان کو غدار کہنے والے حضرات یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ ایوبی دور کے صدارتی انتخابات میں فاطمہ جناح کا پولنگ ایجنٹ تھا۔ اور مادرِ ملت یہ الیکشن مشرقی پاکستان میں جیت گئی تھیں اور مغربی پاکستان میں (سوائے کراچی کے) ہار گئی تھیں۔ 1970ء کے انتخابات کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ اہلِ پاکستان ہزار سال بھی اپنے مخصوص عالمِ انکار میں رہیں تو تاریخ نہیں بدلی جا سکتی۔ اسمبلی کے اجلاس کی تاریخ مقرر کرکے اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔ کسی بھی سیاسی یا اخلاقی قانون کی رو سے عوامی لیگ کو مرکز میں حکومت
بنانے کا حق حاصل تھا جس سے اسے محروم کیا گیا۔ ردِعمل فطری تھا۔ کیا مغربی پاکستانی یہ توقع کر رہے تھے کہ مشرقی پاکستانیوں کو ان کے جائز حق سے محروم کیا گیا تو وہ جواب میں پھولوں کی پتیاں نچھاور کریں گے؟؟ بہترین حل وہی چھے نکات تھے جو عوامی لیگ نے پیش کیے تھے۔ یہ ایک کنفیڈریشن ہوتی اور اس کا ایک حصہ چاہتا تو پْرامن طریقے سے الگ ہو جاتا۔
مشرقی پاکستان کی خونریز اور عبرتناک علٰیحدگی ایک بہت بڑا المیہ تھا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ پاکستان اس سے سبق حاصل کرتا۔ جو عوامل اس المیے پر منتج ہوئے ان سے چھٹکارا حاصل کیا جاتا تاکہ مغربی پاکستان کو اس المناک تجربے کی روشنی میں فائدہ پہنچے لیکن ذہنی جمود اور فکری پستی کا یہ عالم ہے کہ اب بھی سولہ دسمبر آتا ہے تو توتے کی طرح رٹے رٹائے الفاظ ابکائی کرکے اخبارات کے صفحوں پر انڈیل دیے جاتے ہیں ’’مجیب الرحمان غدار تھا‘‘۔ ’’بنگالی ہندوئوں کے اثر میں تھے‘‘۔ ’’مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی کا ذمے دار بھارت ہے‘‘۔ ’’دونوں بازوئوں کے درمیان اقتصادی عدم توازن اصل میں دشمن کا پرو پیگنڈا تھا‘‘ وغیرہ۔ بدقسمتی سے پاکستان میں 1971ء کے المیے کا آج تک غیرجذباتی تجزیہ نہیں ہوا۔ جب بھی اس سانحہ کا ذکر ہوا، ہر کسی نے اپنے پسندیدہ رنگ کی عینک لگا کر ہی ذکر کیا۔ اسے تاریخ کی ستم ظریفی کہیے یا قدرت کی کہ مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی کے بعد پاکستان کی حالت بتدریج ابتر ہوتی گئی۔ جن سیلابوں کی وجہ سے بنگالی بوجھ سمجھے جاتے تھے وہ سیلاب 1971ء کے بعد پاکستان میں بھی آنا شروع ہو گئے یہاں تک کہ یہ سالانہ معمول بن گیا۔ ضیا الحق کے طویل دورِ آمریت نے مذہبی طبقات کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا اور انہیں معاشرے پر حاوی کر دیا۔ ملک کی سرحدوں کو پامال کیا گیا۔ نسلی، لسانی اور مسلکی گروہوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی بلکہ سرپرستی کی گئی۔ ملک کو ہتھیاروں سے بھر دیا گیا۔ لاکھوں غیرملکیوں نے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوا لیے۔ مذہب سیاست کے لیے خوب خوب استعمال ہونے لگا۔
.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: مشرقی پاکستانی مغربی پاکستانی مغربی پاکستان مشرقی پاکستان پاکستان میں پاکستان کی پاکستان کے کیا گیا دیا گیا کے لیے تھا کہ
پڑھیں:
گلوبل آرٹیفیشل انٹیلی جنس گورننس انیشی ایٹو: ڈیجیٹل تہذیب میں قدیم مشرقی حکمت کی روشن خیالی
بیجنگ :’’سنان‘‘، قدیم چین میں ایجاد ہونے والا ایک آلہ ہے جو جدید کمپاس کی ابتدائی شکل سمجھی جاتی ہے۔ اکتوبر 2023 میں ، چینی صدر شی جن پھنگ نےبیلٹ اینڈ روڈ سے متعلق بین الاقوامی تعاون کے تیسرے فورم میں گلوبل آرٹیفیشل انٹیلی جنس گورننس انیشی ایٹو پیش کیا ، جس میں مصنوعی ذہانت کی ترقی،سلامتی اور حکمرانی کے لئے قابل عمل تجاویز پیش کی گئیں ، جس نے جدید دور کے” سنان” کی طرح ڈیجیٹل دور میں عالمی تعاون کی سمت کا تعین کیا ہے۔
شی جن پھنگ نے “ریاست کی بنیاد عوام” کے روایتی چینی فلسفے کو مصنوعی ذہانت کی ترقی کے بنیادی اصول میں تبدیل کردیا ہے ، اور “عوام پر مبنی” حکمرانی کا تصور اور “اچھائی کے لئے مصنوعی ذہانت” کی سمت دکھائی۔ جو کہ ایک ایسا اخلاقی فریم ورک تشکیل دیا گیا ہے جس میں عوامی حقوق و مفادات کو اجتماعی فلاح و بہبود کے ساتھ مربوط بنایا گیا ہے۔شی جن پھنگ نے چین کے روایتی سیاسی آئیڈیل “دنیا مشترکہ بھلائی کے لئے ہے” کو عالمی مصنوعی ذہانت کی حکمرانی کے نمونے میں تبدیل کردیا ہے ، ترقی پذیر ممالک کی آواز کو بڑھانے اور “انٹیلی جنس خلا” کو پر کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ اس تصور نے مغربی مرکزیت کی زنجیروں کو توڑ دیا ہے اور مصنوعی ذہانت کو تقسیم کی رکاوٹ کے بجائے انسانیت کے لیے مشترکہ ترقی کی سیڑھی بنا دیا ہے۔شی جن پھنگ نےمصنوعی ذہانت کے “مکمل لائف سائیکل گورننس” یعنی ڈیزائن کے مرحلے میں “اخلاقیات کو اہمیت دینے”، تحقیق اور ترقی کے مرحلے میں “تکنیکی امتیاز کو ختم کرنے” اور اطلاق کے مرحلے میں “اچھائی کو ترجیح دینے” کا طریقہ کار پیش کیا،جس میں “انسان اور فطرت کے درمیان ہم آہنگی” کے روایتی چینی فلسفے سے استفادہ کیا گیا ۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے خطرے کی درجہ بندی کے نظام کے قیام کی وکالت بھی کی۔ اس طرح، حکمرانی اور ترقی کو باہم ضم کیا گیا ہے اور تکنیکی جدت طرازی اور خطرے پر کنٹرول میں توازن برقرار رکھا گیا ، جس سے جدید سائنسی اور تکنیکی حکمرانی کے لئے قدیم مشرقی حکمت کی گہری روشن خیالی کا مظاہرہ ہوتا ہے۔