Jasarat News:
2025-08-11@18:27:20 GMT

زیر طبع خود نوشت سے ایک ورق

اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

محمد اظہار الحق
پلٹ کر دیکھتا ہوں تو ڈھاکا یونیورسٹی میں گزارا ہوا عرصہ زندگی کے دلکش ترین ٹکڑوں میں ایک نمایاں ٹکڑا لگتا ہے۔
بے فکری تھی اور آسودگی! ڈھاکا یونیورسٹی کا ماحول مجموعی طور پر میری اْفتادِ طبع کے عین مطابق تھا۔ ذہین اور طباع لوگ! جو بات کو فوراً سمجھ جاتے تھے۔ ادب اور سیاست، بین الاقوامی تاریخ، بین الاقوامی تعلقات، بر صغیر کی تاریخ، غرض اردو اور فارسی شاعری کو چھوڑ کر ان سارے موضوعات پر بات کرنے اور بات سمجھنے والے وہاں موجود تھے۔ میں گورنمنٹ کالج راولپنڈی سے گیا تھا۔ ڈھاکا یونیورسٹی میں پنجاب یونیورسٹی اور گورنمنٹ کالج لاہور کے طلبہ بھی آن ملے تھے۔ علم و دانش کا جو ماحول ڈھاکا یونیورسٹی میں تھا وہ مغربی پاکستان کے اکثر و بیش تر تعلیمی اداروں میں عنقا تھا۔ جب مغربی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ کوٹ پتلون اور ٹائی میں ملبوس ہو کر کلاسوں میں تشریف لاتے تھے۔ ڈھاکا یونیورسٹی کے طلبہ کی اکثریت کرتا پاجامہ اور چپل پہن کر یونیورسٹی آتی تھی۔ یہ لوگ روکھا سوکھا کھاتے تھے۔ والدین سے اتنی ہی رقم منگواتے تھے جو قوتِ لایموت کے لیے ناگزیر تھی۔ بہت سے تو اخبارات میں مضامین لکھ کر اپنا خرچ پورا کرتے تھے۔ پوری پوری رات لائبریری میں بسر کر دیتے تھے۔ دو چیزیں ڈھاکا یونیورسٹی میں بالکل نئی دیکھیں۔ لائبریری کا 24 گھنٹے کھلا رہنا اور امتحانی پرچوں کا وقت تین گھنٹوں کے بجائے چار گھنٹے ہونا!
مشرقی پاکستان کے حوالے سے جو حقیقت سب سے زیادہ درد ناک ہے وہ مغربی پاکستانیوں کی کج فہمی ہے۔ غالباً وہ حالتِ انکار (State of Denial) جس میں پاکستان گلے گلے تک دھنس گیا، سقوطِ ڈھاکا ہی سے شروع ہوئی۔ جس ملک کے دانشوروں کی اکثریت مشرقی پاکستان کھو دینے کے نصف صدی بعد بھی سینہ تان کر سارا الزام بنگالیوں کے سر تھوپ رہی ہو اور یہ سوچے بغیر کہ پاکستان قتل و غارت اور بد امنی کا مر کز بن گیا ہے، بنگلا دیش کی ’’ناکامیاں‘‘ گنوانے پر مصر ہو، وہ ملک اس زمانے میں کس طرح مثبت سوچ رکھ سکتا تھا جب مشرقی پاکستان اس کا حصہ تھا۔
مشرقی اور مغربی پاکستان کی آبادیوں کی سماجی کمپوزیشن کا مطالعہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک غیرحقیقت پسندانہ اتحاد تھا۔ مشرقی پاکستان میں فیوڈلزم کا کوئی وجود نہ تھا۔ خواندگی کا تناسب زیادہ تھا۔ وہاں کے عوامی نمائندے تمام کے تمام اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ اس کے مقابلے میں مغربی پاکستان ایک فیوڈل اور قدیم طرز کا جاگیردارانہ معاشرہ تھا۔ بلوچستان کے سرداری نظام کی، جو آج تک جوں کا توں قائم ہے، شاید ہی مہذب دنیا میں کوئی مثال پائی جاتی ہو۔ اکثر منتخب نمائندے نیم خواندہ تھے۔ تکبر اور رعونت طرۂ امتیاز تھا۔ اس رعونت کی انتہا یہ تھی کہ جب سینیٹری کا غیرملکی سامان ایک بار ہاتھ لگا اور اس پر چھینا جھپٹی شروع ہوئی تو کابینہ کے بنگالی ارکان نے بھی اپنا حصہ مانگا۔ اس پر انہیں جو جواب دیا گیا یہ تھا کہ تم لوگ رفع حاجت کے لیے کھیتوں میں جاتے ہو، تمہیں اس سامان کی کیا ضرورت ہے! مغربی پاکستانی سیاستدان تھے یا بیورو کریٹ یا عسکری حلقے، بنگالی ہم وطنوں کے ساتھ سب کا رویہ کم و بیش یہی تھا۔ ایک صاحب نے ملک کے اس وقت کے معروف ترین اخبار میں ایک واقعہ لکھا تھا کہ مولوی فرید الدین احمد صاحب ایک بار لْنگی میں ملبوس کسی میس میں چلے گئے تو انہیں باقاعدہ گالیاں دے کر وہاں سے نکال دیا گیا۔
اس میں کیا شک ہے کہ مشرقی پاکستان کا کمایا ہوا زرِمبادلہ مغربی پاکستان پر خرچ ہوا۔ نیم سرکاری اخبار پاکستان ٹائمز نے اپنے ایک اداریے میں یہ حقیقت تسلیم کی تھی! (اس اداریے کا تراشہ ایک مدت میرے پاس محفوظ رہا) عساکر میں انہیں نہ صرف یہ کہ اپنی آبادی
کے تناسب سے حصہ نہ دیا گیا بلکہ بالکل ہی برائے نام دیا گیا۔ اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ برصغیر کے تین علاقوں نے انگریزوں کا مقابلہ کیا تھا۔ بنگال، یوپی اور سندھ! چنانچہ ان تینوں علاقوں کو فوج کے لیے ’’اَن فٹ‘‘ قرار دیا گیا۔ جن علاقوں سے فرمانبرداری اور اطاعت ملی ان پر عساکر کے دروازے کھول دیے گئے بلکہ کچھ کو تو ’’مارشل ایریا‘‘ قرار دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے گورنر، اکثر و بیش تر مغربی پاکستان سے مقرر ہوتے رہے۔ مغربی پاکستان پر کسی مشرقی پاکستانی کو گورنر نہ مقرر کیا گیا۔ ایوب خان نے ایک مشرقی پاکستانی عبدالمنعم خان کو مشرقی پاکستان کا گورنر مقرر کیا مگر وہ گورنر سے زیادہ صاحب کا غلام تھا۔ جب مشرقی پاکستانی ریڈیو سے ٹیگور کی شاعری نشر کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی تو لوگوں کی طرف سے ردِعمل آیا اور پابندی ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا۔ عبد المنعم خان نے ڈھاکا یونیورسٹی کے بنگالی زبان کے شعبہ کے صدر ڈاکٹر عبدالحئی سے کہا کہ آخر تم لوگ ٹیگور کے گیت خود کیوں نہیں لکھتے؟ ایوب خان کا طویل دورِ آمریت اس تابوت میں آخری کیل تھا۔ کسی مغربی پاکستانی کے پاس بنگالیوں کے اس سوال کا جواب نہیں تھا کہ اگر جرنیلوں ہی نے ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے تو بنگالیوں کی باری کس طرح اور کب آئے گی؟ مجیب الرحمان کو غدار کہنے والے حضرات یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ ایوبی دور کے صدارتی انتخابات میں فاطمہ جناح کا پولنگ ایجنٹ تھا۔ اور مادرِ ملت یہ الیکشن مشرقی پاکستان میں جیت گئی تھیں اور مغربی پاکستان میں (سوائے کراچی کے) ہار گئی تھیں۔ 1970ء کے انتخابات کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ اہلِ پاکستان ہزار سال بھی اپنے مخصوص عالمِ انکار میں رہیں تو تاریخ نہیں بدلی جا سکتی۔ اسمبلی کے اجلاس کی تاریخ مقرر کرکے اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔ کسی بھی سیاسی یا اخلاقی قانون کی رو سے عوامی لیگ کو مرکز میں حکومت
بنانے کا حق حاصل تھا جس سے اسے محروم کیا گیا۔ ردِعمل فطری تھا۔ کیا مغربی پاکستانی یہ توقع کر رہے تھے کہ مشرقی پاکستانیوں کو ان کے جائز حق سے محروم کیا گیا تو وہ جواب میں پھولوں کی پتیاں نچھاور کریں گے؟؟ بہترین حل وہی چھے نکات تھے جو عوامی لیگ نے پیش کیے تھے۔ یہ ایک کنفیڈریشن ہوتی اور اس کا ایک حصہ چاہتا تو پْرامن طریقے سے الگ ہو جاتا۔
مشرقی پاکستان کی خونریز اور عبرتناک علٰیحدگی ایک بہت بڑا المیہ تھا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ پاکستان اس سے سبق حاصل کرتا۔ جو عوامل اس المیے پر منتج ہوئے ان سے چھٹکارا حاصل کیا جاتا تاکہ مغربی پاکستان کو اس المناک تجربے کی روشنی میں فائدہ پہنچے لیکن ذہنی جمود اور فکری پستی کا یہ عالم ہے کہ اب بھی سولہ دسمبر آتا ہے تو توتے کی طرح رٹے رٹائے الفاظ ابکائی کرکے اخبارات کے صفحوں پر انڈیل دیے جاتے ہیں ’’مجیب الرحمان غدار تھا‘‘۔ ’’بنگالی ہندوئوں کے اثر میں تھے‘‘۔ ’’مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی کا ذمے دار بھارت ہے‘‘۔ ’’دونوں بازوئوں کے درمیان اقتصادی عدم توازن اصل میں دشمن کا پرو پیگنڈا تھا‘‘ وغیرہ۔ بدقسمتی سے پاکستان میں 1971ء کے المیے کا آج تک غیرجذباتی تجزیہ نہیں ہوا۔ جب بھی اس سانحہ کا ذکر ہوا، ہر کسی نے اپنے پسندیدہ رنگ کی عینک لگا کر ہی ذکر کیا۔ اسے تاریخ کی ستم ظریفی کہیے یا قدرت کی کہ مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی کے بعد پاکستان کی حالت بتدریج ابتر ہوتی گئی۔ جن سیلابوں کی وجہ سے بنگالی بوجھ سمجھے جاتے تھے وہ سیلاب 1971ء کے بعد پاکستان میں بھی آنا شروع ہو گئے یہاں تک کہ یہ سالانہ معمول بن گیا۔ ضیا الحق کے طویل دورِ آمریت نے مذہبی طبقات کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا اور انہیں معاشرے پر حاوی کر دیا۔ ملک کی سرحدوں کو پامال کیا گیا۔ نسلی، لسانی اور مسلکی گروہوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی بلکہ سرپرستی کی گئی۔ ملک کو ہتھیاروں سے بھر دیا گیا۔ لاکھوں غیرملکیوں نے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوا لیے۔ مذہب سیاست کے لیے خوب خوب استعمال ہونے لگا۔

 

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: مشرقی پاکستانی مغربی پاکستانی مغربی پاکستان مشرقی پاکستان پاکستان میں پاکستان کی پاکستان کے کیا گیا دیا گیا کے لیے تھا کہ

پڑھیں:

پاکستان کا مصنوعی ذہانت میں ترقی کا عزم، چیلنجز کیا ہیں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 اگست 2025ء) پاکستان کی حکومت نے حال ہی میں مصنوعی ذہانت کی ایک قومی پالیسی کی منظوری دی ہے جس کے تحت آئندہ پانچ برسوں میں دس لاکھ اے آئی کے پرفیشنلز تیار کیے جائیں گے اور قومی سطح پر ایک ہزار اے آئی پراڈکٹس تیار کی جائیں گی۔

پاکستان کا پہلا چیٹ بوٹ ’ذہانت اے آئی‘ کیا ہے؟

مصنوعی ذہانت: کیا پاکستان کا تعلیمی شعبہ مصنوعی ذہانت کے استعمال کا متحمل ہے؟

نامور سائنسدان اور پاکستان کے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سابق چیئر مین ڈاکٹر عطا الرحمن نے اس اقدام کو خوش آئند قرار دیا، لیکن اس پر عمل درآمد کے لیے بنیادی تیاریوں کو لازمی قرار دیا: ''ایک مضبوط ادارہ جاتی نیٹ ورک درکار ہے۔

ہمارے پاس وہ معیاری اور پیشہ ورانہ فیکلٹی نہیں ہے جو اس خواب کو حقیقت میں بدل سکے۔

(جاری ہے)

اس فیکلٹی کو پہلے تیار کرنا ہوگا۔‘‘

سال دو ہزار سے دو ہزار دو تک سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر کے طور پر خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر عطا الرحمان کا مزید کہنا تھا، ''کچھ کوششیں کراچی یونیورسٹی اور ہری پور جیسی جامعات میں جاری ہیں، لیکن اس پالیسی کی کامیابی کے لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو مرکزی کردار ادا کرنا ہوگا، جو ان کوششوں کی قیادت اور ربط قائم کرے اور طلباء و پیشہ ور افراد کے لیے اسکالرشپس فراہم کرے۔

‘‘ اہم چیلنجز کیا ہیں؟

مصنوعی ذہانت کے حوالے سے حکومتی پالیسی پر عملدرآمد کے حوالے سے سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں اسلام آباد کی لمز یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور کئی اعلیٰ تعلیمی منصوبوں پر بطور ڈائریکٹر خدمات انجامد دینے والے ڈاکٹر سہیل نقوی کے مطابق، ''یہ اب تک واضح نہیں ہے کہ حکومت کس قسم کی تربیت فراہم کرنا چاہتی ہے۔

‘‘

انہوں نے کہا کہ اگرچہ ملک میں کچھ اچھی جامعات موجود ہیں جیسے پنجاب یونیورسٹی، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، این ای ڈی، لمز، فاسٹ، کامسیٹس اور نسٹ، لیکن ایک بڑی تعداد میں تعلیمی ادارے ایسے ہیں جو عام مضامین میں بھی معیاری تعلیم فراہم نہیں کر رہے، جدید ٹیکنالوجی جیسے مصنوعی ذہانت کی تعلیم دینا تو بہت دور کی بات ہے۔

‘‘

ڈاکٹر سہیل نقوی کے بقول، ''اس خواب کو حقیقت بنانے کے لیے بہت مضبوط جامعات کا جال بچھانا ضروری ہے۔‘‘

آئی ٹی انڈسٹری کے ماہرین کا بھی ماننا ہے کہ پاکستان میں آئی ٹی کے گریجویٹس کو مصنوعی ذہانت کے میدان میں زیادہ تر صرف بنیادی سطح کی معلومات ہوتی ہیں اور ملازمت کے بعد کمپنیوں کوانہیں مزید تربیت دینا پڑتی ہے تاکہ اُن کی صلاحیتوں کو نکھارا جا سکے۔

شیخ عبدالقادر، جو ایک آئی ٹی کمپنی چلاتے ہیں اور پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن کی مصنوعی ذہانت کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''جامعات سے فارغ التحصیل طلبہ کے پاس بنیادی معلومات ہوتی ہیں، لیکن اُنہیں مہارت بڑھانے کے لیے تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘

حکومت کے مصنوعی ذہانت کے ایک ملین ماہرین پیدا کرنے کے ہدف پر انہوں نے کہا، ''اتنے بڑے پیمانے پر ماہر تیار کرنے کے لیے ایک پروگرام شروع کرنا ہوگا جس میں تربیت دینے والوں کو تربیت دی جائے، کیونکہ ہمیں ایک بڑی تعداد میں ٹرینرز کی ضرورت ہوگی۔

‘‘ ان کی تجویز ہے غیر ممالک سے تربیت حاصل کر کے لوٹنے والے افراد اس میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں: ''جامعات میں بیرونِ ملک سے تعلیم یافتہ اساتذہ موجود ہیں، اور اُنہیں اس مقصد کے لیے شامل کیا جانا چاہیے تاکہ ٹرینرز تیار کیے جا سکیں، اور ملک میں ایک ملین مصنوعی ذہانت کے ماہرین تیار کرنے کا خواب یقینی طور پر حقیقت بن سکتا ہے۔

‘‘ کیا پاکستان مقامی اے آئی پراڈکٹس تیار کر سکتا ہے؟

آئی ٹی ماہرین پاکستان میں قومی ڈیجیٹل ڈیٹا اور مقامی سافٹ ویئر ایکو سسٹم کی شدید کمی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ڈاکٹر سہیل نقوی کے مطابق، ''چیٹ جی پی ٹی جیسے نظام اس لیے کام کرتے ہیں کیونکہ ان کے پاس وسیع ڈیجیٹل ڈیٹا موجود ہوتا ہے، لیکن پاکستان کے پاس نہ ایسا ڈیٹا ہے، نہ ہی کمپنیاں جو اسے استعمال کر سکیں۔

جب تک ہم اپنا ڈیٹا ڈیجیٹل نہیں کرتے، مقامی سطح پر اے آئی مصنوعات ممکن نہیں۔‘‘

انہوں نے چین کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ کامیاب ممالک نے اپنے ثقافتی تقاضوں کے مطابق ڈیٹا سے بھرپور ماحول بنایا ہے: ''چین نے اپنے لیے اے آئی حل تیار کیے ہیں، جبکہ ہم غیر ملکی نظاموں سے ایسے جوابات لیتے ہیں جو ہماری ثقافت سے مطابقت نہیں رکھتے۔

ہماری ثقافت ڈیجیٹل طور پر مٹ رہی ہے کیونکہ ہم نے اسے ڈیٹا کی صورت میں محفوظ ہی نہیں کیا۔‘‘

تاہم پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن کی مصنوعی ذہانت کمیٹی کے سربراہ شیخ عبدالقادر کا کہنا ہے کہ حکومت کے ساتھ ''ڈیپ‘‘ منصوبے کے تحت عوامی ڈیٹا کو ڈیجیٹائز کیا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر سہیل نقوی نے اس حوالے موجودہ تعلیمی اداروں کو درپیش شدید مالی مشکلات کی جانب بھی توجہ دلائی اور سوال اٹھایا کہ حکومت اپنے نئے مصنوعی ذہانت کے وژن کے لیے فنڈز کہاں سے لائے گی؟ ''زیادہ تر جامعات پہلے ہی وسائل کی شدید کمی کا شکار ہیں، اور ہم وظائف کی بات کرتے ہیں جب کہ مستحکم اداروں کو بھی ٹھیک طرح سے سپورٹ نہیں کر پا رہے۔

‘‘

ڈاکٹر نقوی نے خبردار کیا کہ اگر ڈیٹا کے بنیادی ڈھانچے پر توجہ نہ دی گئی تو اے آئی پالیسی محض بیان بازی ثابت ہوگی۔

اگرچہ پاکستان میں ہر سال پچاس سے پچھتر ہزار اے آئی اور آئی ٹی گریجویٹس مارکیٹ میں آتے ہیں، بعض ماہرین مہارت اور طلب میں خلا کی نشاندہی کرتے ہیں۔ تاہم عبدالقادر کے مطابق عالمی سطح پر اے آئی ماہرین کی مانگ ہے اور یہ افراد فری لانسنگ یا بین الاقوامی کمپنیوں کے ذریعے زر مبادلہ کما سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • عالمی عدالت کا بھارت کو مغربی دریاؤں کا پانی بلا روک ٹوک بہنے دینے کا حکم
  • مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی حکومتوں کا موازنہ
  • ترکی میں ہلاکت خیز گرمی جاری، 55 سال کا ریکارڈ ٹوٹ گیا
  • جو طے ہوا تھا!
  • ملک کو غیر آئینی انداز میں چلایا جا رہا ہے: اسد قیصر
  • غزہ پر مکمل قبضے کا منصوبہ نیتن یاہو کو گوشہ گیر کر دے گا، مغربی ذرائع
  • پاکستان کا مصنوعی ذہانت میں ترقی کا عزم، چیلنجز کیا ہیں؟
  • کوئی فرق نہیں!
  • پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات
  • حسن نواز کا یاد گار ڈیبیو میچ، پاکستان کی جیت میں اہم کردار